حضرت فاروق اعظمؓ کا حُسنِ انتظام
آپ ؓ کی شان دار اصلاحات آج بھی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
سیدناعمر بن خطابؓ نے اسلام کے لیے بے شمار خدمات سرانجام دیں۔ آپ دوسرے خلیفہ راشد، مراد رسول ﷺ، اور عشرہ مبشرہ میں شامل تھے۔
آپ نے خلافت اسلامیہ کو فتوحات کے ذریعے وسعت دی۔ آپ نے انتہائی قابل قدر اور قابل تقلید نظام حکومت قائم کیا۔ آپ بڑے درواندیش اور زیرک انسان تھے۔ آپ نے بہت سے جدید شعبہ جات کا آغاز کیا اور ان نئے امور کو اپنا کر خلافت اسلامیہ کو وسعت اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ان امور کو ''اولیاتِ عمرؓ '' کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان اولیات میں سے بعض اہم کا ذکر حسب ذیل ہے۔
باقاعدہ فوجی نظام:
عہد نبویﷺ اور عہدصدیقی میں باقاعدہ فوج نہ تھی اور نہ ہی ان کی تنخواہیں مقرر تھیں۔ مالِ غنیمت میں سے مال ان کو تقسیم کیا جاتا تھا۔ عہد صدیقی میں بھی نہ کوئی فوج کا رجسٹر بنا اور نا کوئی محکمہ جنگ قائم ہوا۔ حضرت عمرؓکے دورِخلافت کے آغاز تک بھی یہی حال رہا۔ لیکن 15ھجری میں حضرت عمرؓنے اس شعبے کو اس قدر منظم اور باقاعدہ کردیا کہ دوسری حکومتیں اس کارنامے پر تعجب کرنے لگیں۔ اسی طرح آپ نے بڑے بڑے شہروں اور مناسب مقامات پر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ تنخواہوں میں اضافہ، فوج میں موسموں کے اعتبار سے کپڑوںکی تقسیم، رخصت کے ضوابط اور فوج کے لباس مقرر ہوئے۔ فوج کے ساتھ خزانہ افسر، محاسب، قاضی، مترجم، طبیب اور جراح ہوتا تھا۔ (فتوح البلدان، تاریخ طبری)
محکمہ پولیس:
حضرت عمرؓ نے پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ آئی جی پولیس کو ''صاحب الاحداث'' کہتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوھریرہؓ کو بحرین میں صراحت کے ساتھ پولیس کے اختیارات دئیے، جیسے دوکاندار ترازو میں دھوکہ نہ دیں ، کوئی آدمی سڑک پر مکان نہ بنائے ، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، شراب کی خریدوفروخت نہ ہو، حضرت عمرؓنے حضرت عبداللہ بن عتبہ ؓ کو بازار کی نگرانی کیلئے مقرر کیا۔ (کنزالعمال)
جیل خانہ جات کانظام:
قرآن حکیم میں جیل کا ذکرکیا گیا ہے ،عربوں کے ہاں جیل کاتصور توتھا، مگر کوئی باقاعدہ نظام نہ تھا۔ زنا کی سزا کے احکام نازل ہونے سے قبل قرآن حکیم نے خواتین کو گھر میں نظر بندکرنے کا حکم دیا۔ (النور) حضرت عمرؓ نے اس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے باقاعدہ جیل خانے بنوائے۔ انہوں نے مکہ مکرمہ میں سب سے پہلے صفوان بن اْمیہ کا مکان چار ہزار درہم میں خرید کر جیل خانہ بنوایا۔ بعدازاں جیل خانہ جات اضلاع میں بھی قائم کئے گئے۔ (فتوح البلدان)
بیت المال کا باقاعدہ قیام :
عہد نبویﷺ اور عہد صدیقی میں مالِ غنیمت کے حصول کے بعد اسی وقت اسے تقسیم کردیا جاتا تھا۔ اس لئے بیت المال کی اتنی ضرورت نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیت المال کیلئے جو مکان مخصوص کیا تھا وہ بند رہتا تھا۔ (طبقات ابن سعد ) حضرت عمرؓ کے دور میں بحرین سے خطیر رقم ملنے پر بیت المال کے باقاعدہ نظام کا آغاز ہوا۔ حضرت عبداللہ بن ارقم ؓ کو اس کا نگران مقرر کیا گیا۔ تمام صوبہ جات اور اہم مقامات پر مرکزی بیت المال کے ذیلی دفاتر قائم ہوئے۔ بعدازاں حضرت عمرؓ نے بیت المال کیلئے شاندار اور مضبوط عمارتیں بھی بنوائیں۔ (تاریخ طبری)
نئے شہروں کو آباد کرنا:
حضرت عمرؓ کے اولیات میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے نئے شہر بسائے۔ ان شہروں میں بصرہ، کوفہ، فسطاط، موصل، جیزہ وغیرہ شامل ہیں۔ (معجم البلدان ؛ تاریخ الخلفاء) سیدنا عمرفاروق ؓ کی بصیرت کا یہ منہ بولتاثبوت ہے۔ آج کے دور میں اس پر عمل کرتے ہوئے نئے شہر آباد کئے جائیں تاکہ بہت سے لوگوں کو سہولیات پہنچائی جائیں اور بڑے شہروں کو آبادی کی کثرت کے سبب مسائل سے بچایا جائے۔
نہروں کا اجراء :
لوگوں کو پینے کیلئے پانی فراہم کرنے اور زراعت کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے حضرت عمرؓنے نہروں کے اجراء کے کام کا آغاز کیا۔ حضرت عمرؓ نے نہر ابوموسیٰ، نہر معقل اور نہر سعد وغیرہ کا اجراء کیا۔ (فتوح البلدان)
مردم شماری:
مردم شماری کی ریت بھی حضرت عمرفاروقؓ نے ڈالی ہے،آپؓ نے زکوٰۃ اور جزیہ کی تشخیص کیلئے سب سے پہلے مردم شماری کروائی ۔خصوصی شعبہ جات کے حوالے سے بھی فہرستیں تیار کروائی گئیں ۔ جیسے قرآن پڑھنے والوںکی فہرست،حدیث ، فقہ اور دیگر علوم پر کام کرنے والوں کی فہرست شاعروں اور ادیبوں کی فہرست ۔ (تاریخ طبری)
عشور یعنی دس فیصد ٹیکس کا اجراء:
مسلمان غیر ملکوں میں تجارت کیلئے جاتے تو ان سے وہاں کے دستور کے مطابق مالِ تجارت پر دس فیصد ٹیکس لیا جاتا تھا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو حضرت عمر فاروقؓ نے باقاعدہ حکم جاری فرمایا کہ ان ملکوں کے تاجر جب ہمارے ملک میں آئیں تو ان سے بھی اس قدر ٹیکس وصول کیا جائے۔ بعدازاں ذمیوں اور مسلمانوں پر بھی یہ لاگو کیاگیا ، البتہ اس کی شرح میں تفاوت تھا کہ حربیوں سے دس فیصد، ذمیوں سے پانچ فیصد اور مسلمانوں سے اڑھائی فیصد وصول کیا جاتا تھا۔ دو سو درہم سے کم قیمت کے مال پر کچھ وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ (الفاروق)
صوبے اور اضلاع بنانا:
حضرت عمرفاروقؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مفتوحہ علاقوں کو ضرورت کے مطابق مختلف صوبوں اور اضلاع میں تقسیم کیا۔ ان میں انتظامات کیلئے مختلف آفیسرز مقرر کئے گئے۔ اس کا مقصد لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں سہولت کے ساتھ انتظامات میں آسانی تھا۔ (تاریخ طبری)
سن ہجری کا آغاز:
21ھ میں حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے ایک تحریر پیش ہوئی جس پر شعبان کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ گذشتہ شعبان ہے یا موجودہ۔ اس مسئلہ پر مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اس پر غور کیا گیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رائے پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہجرت نبوی سے سال کا آغاز کیا جائے اور لکھنے پڑھنے میں سن ہجری کو ہی رائج کیا جائے۔ (الفاروق)
آئمہ اور معلمین کی تنخواہوں کا تقرر:
حضرت عمرفاروقؓ نے سب سے پہلے آئمہ کی تنخواہوں کا تقرر کیا(مؤطا امام محمد) اس طرح معلمین قرآن کی تنخواہیں بھی مقرر کی گئیں ۔(سیرت ابن جوزی)
اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے صرف مذہبی خدمات سرانجام دیں اور ان کی تمام ضروریات خلافت اسلامیہ برداشت کرے۔
لازمی تعلیم کا حکم:
حضرت عمرفاروقؓ نے لازمی تعلیم کا حکم دیا۔ انہوں نے ہر جگہ تاکیدی حکم نامے بھجوائے کہ قرآن حکیم کو صحیح اعراب کے ساتھ پڑھایا جائے۔ (مسند دارمی) بدوؤں کیلئے قرآن حکیم کی تعلیم کا انتظام کیا اور اس کا حصول ان کیلئے لازمی قرار دیا۔ قبائل میں جاکر امتحان لینے او رقرآن کا کوئی حصہ بھی یاد نہ ہونے پر سزا کا نظام رائج کیا۔ (الاصابہ) تمام اضلاع میں بچوں کو شہسواری اور کتابت کی تعلیم کے احکام بھجوائے۔ (الفاروق )
باجماعت نمازِ تراویح کا اہتمام:
حضرت عمر فاروقؓ نے 14 ھ میں نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ مسجد نبویﷺ میں قائم کی اور تمام اضلاع کے افسروں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا (موطاء امام مالک؛ الفاروق) اس کا مقصد یہ تھا کہ قرآن حکیم کو مکمل طور پر پڑھا اور سنا جائے جو کہ قرآن کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔
مساجد میں روشنی کا انتظام:
حضرت عمرفاروقؓ سے قبل مساجد میں ر وشنی کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہ تھا۔حضرت عمر ؓ نے مساجد میں باقاعدہ روشنی کا اہتمام کروایا تاکہ رات کے وقت مسجد میں آنے والے نمازیوں کوکسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حضرت علیؓ ؓرمضان میں ایک مسجد کے پاس سے گزرے تو وہاں قندیل روشن دیکھی۔ آپؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حضرت عمرؓ کی قبر کو روشن کرے کہ انہوں نے ہماری مسجدوں کو روشن کردیا۔ (ابن عساکر)
حضرت عمر فاروق ؓ کی یہ چند ایک اولیات ہیں جن کا ذکر یہاں کیا گیا۔اس کے علاوہ بھی کتبِ تاریخ میں کئی اولیات کاذکر موجود ہے۔ یہ تمام اوّلیات آپ کی فہم و فراست کی واضح دلیل ہیں اور آج کے حکمرانوں کیلئے ان میں سبق پوشیدہ ہے کہ وہ ان دواندیشی پر مبنی اوّلیات پر عمل کریں اور اس کے ساتھ حضرت عمرؓ کی اقتداء کرتے ہوئے انتظام حکومت اورترویج دین کے سلسلے میں ایسی مثالی اور نئی روایات کا آغاز کریں جو کہ آئندہ نسلوں کیلئے قابل رشک اور قابل تقلید ہوں۔
آپ نے خلافت اسلامیہ کو فتوحات کے ذریعے وسعت دی۔ آپ نے انتہائی قابل قدر اور قابل تقلید نظام حکومت قائم کیا۔ آپ بڑے درواندیش اور زیرک انسان تھے۔ آپ نے بہت سے جدید شعبہ جات کا آغاز کیا اور ان نئے امور کو اپنا کر خلافت اسلامیہ کو وسعت اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا۔ ان امور کو ''اولیاتِ عمرؓ '' کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ان اولیات میں سے بعض اہم کا ذکر حسب ذیل ہے۔
باقاعدہ فوجی نظام:
عہد نبویﷺ اور عہدصدیقی میں باقاعدہ فوج نہ تھی اور نہ ہی ان کی تنخواہیں مقرر تھیں۔ مالِ غنیمت میں سے مال ان کو تقسیم کیا جاتا تھا۔ عہد صدیقی میں بھی نہ کوئی فوج کا رجسٹر بنا اور نا کوئی محکمہ جنگ قائم ہوا۔ حضرت عمرؓکے دورِخلافت کے آغاز تک بھی یہی حال رہا۔ لیکن 15ھجری میں حضرت عمرؓنے اس شعبے کو اس قدر منظم اور باقاعدہ کردیا کہ دوسری حکومتیں اس کارنامے پر تعجب کرنے لگیں۔ اسی طرح آپ نے بڑے بڑے شہروں اور مناسب مقامات پر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔ تنخواہوں میں اضافہ، فوج میں موسموں کے اعتبار سے کپڑوںکی تقسیم، رخصت کے ضوابط اور فوج کے لباس مقرر ہوئے۔ فوج کے ساتھ خزانہ افسر، محاسب، قاضی، مترجم، طبیب اور جراح ہوتا تھا۔ (فتوح البلدان، تاریخ طبری)
محکمہ پولیس:
حضرت عمرؓ نے پولیس کا محکمہ قائم کیا۔ آئی جی پولیس کو ''صاحب الاحداث'' کہتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوھریرہؓ کو بحرین میں صراحت کے ساتھ پولیس کے اختیارات دئیے، جیسے دوکاندار ترازو میں دھوکہ نہ دیں ، کوئی آدمی سڑک پر مکان نہ بنائے ، جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، شراب کی خریدوفروخت نہ ہو، حضرت عمرؓنے حضرت عبداللہ بن عتبہ ؓ کو بازار کی نگرانی کیلئے مقرر کیا۔ (کنزالعمال)
جیل خانہ جات کانظام:
قرآن حکیم میں جیل کا ذکرکیا گیا ہے ،عربوں کے ہاں جیل کاتصور توتھا، مگر کوئی باقاعدہ نظام نہ تھا۔ زنا کی سزا کے احکام نازل ہونے سے قبل قرآن حکیم نے خواتین کو گھر میں نظر بندکرنے کا حکم دیا۔ (النور) حضرت عمرؓ نے اس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے باقاعدہ جیل خانے بنوائے۔ انہوں نے مکہ مکرمہ میں سب سے پہلے صفوان بن اْمیہ کا مکان چار ہزار درہم میں خرید کر جیل خانہ بنوایا۔ بعدازاں جیل خانہ جات اضلاع میں بھی قائم کئے گئے۔ (فتوح البلدان)
بیت المال کا باقاعدہ قیام :
عہد نبویﷺ اور عہد صدیقی میں مالِ غنیمت کے حصول کے بعد اسی وقت اسے تقسیم کردیا جاتا تھا۔ اس لئے بیت المال کی اتنی ضرورت نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے بیت المال کیلئے جو مکان مخصوص کیا تھا وہ بند رہتا تھا۔ (طبقات ابن سعد ) حضرت عمرؓ کے دور میں بحرین سے خطیر رقم ملنے پر بیت المال کے باقاعدہ نظام کا آغاز ہوا۔ حضرت عبداللہ بن ارقم ؓ کو اس کا نگران مقرر کیا گیا۔ تمام صوبہ جات اور اہم مقامات پر مرکزی بیت المال کے ذیلی دفاتر قائم ہوئے۔ بعدازاں حضرت عمرؓ نے بیت المال کیلئے شاندار اور مضبوط عمارتیں بھی بنوائیں۔ (تاریخ طبری)
نئے شہروں کو آباد کرنا:
حضرت عمرؓ کے اولیات میں سے یہ بھی ہے کہ انہوں نے نئے شہر بسائے۔ ان شہروں میں بصرہ، کوفہ، فسطاط، موصل، جیزہ وغیرہ شامل ہیں۔ (معجم البلدان ؛ تاریخ الخلفاء) سیدنا عمرفاروق ؓ کی بصیرت کا یہ منہ بولتاثبوت ہے۔ آج کے دور میں اس پر عمل کرتے ہوئے نئے شہر آباد کئے جائیں تاکہ بہت سے لوگوں کو سہولیات پہنچائی جائیں اور بڑے شہروں کو آبادی کی کثرت کے سبب مسائل سے بچایا جائے۔
نہروں کا اجراء :
لوگوں کو پینے کیلئے پانی فراہم کرنے اور زراعت کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے حضرت عمرؓنے نہروں کے اجراء کے کام کا آغاز کیا۔ حضرت عمرؓ نے نہر ابوموسیٰ، نہر معقل اور نہر سعد وغیرہ کا اجراء کیا۔ (فتوح البلدان)
مردم شماری:
مردم شماری کی ریت بھی حضرت عمرفاروقؓ نے ڈالی ہے،آپؓ نے زکوٰۃ اور جزیہ کی تشخیص کیلئے سب سے پہلے مردم شماری کروائی ۔خصوصی شعبہ جات کے حوالے سے بھی فہرستیں تیار کروائی گئیں ۔ جیسے قرآن پڑھنے والوںکی فہرست،حدیث ، فقہ اور دیگر علوم پر کام کرنے والوں کی فہرست شاعروں اور ادیبوں کی فہرست ۔ (تاریخ طبری)
عشور یعنی دس فیصد ٹیکس کا اجراء:
مسلمان غیر ملکوں میں تجارت کیلئے جاتے تو ان سے وہاں کے دستور کے مطابق مالِ تجارت پر دس فیصد ٹیکس لیا جاتا تھا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو حضرت عمر فاروقؓ نے باقاعدہ حکم جاری فرمایا کہ ان ملکوں کے تاجر جب ہمارے ملک میں آئیں تو ان سے بھی اس قدر ٹیکس وصول کیا جائے۔ بعدازاں ذمیوں اور مسلمانوں پر بھی یہ لاگو کیاگیا ، البتہ اس کی شرح میں تفاوت تھا کہ حربیوں سے دس فیصد، ذمیوں سے پانچ فیصد اور مسلمانوں سے اڑھائی فیصد وصول کیا جاتا تھا۔ دو سو درہم سے کم قیمت کے مال پر کچھ وصول نہیں کیا جاتا تھا۔ (الفاروق)
صوبے اور اضلاع بنانا:
حضرت عمرفاروقؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مفتوحہ علاقوں کو ضرورت کے مطابق مختلف صوبوں اور اضلاع میں تقسیم کیا۔ ان میں انتظامات کیلئے مختلف آفیسرز مقرر کئے گئے۔ اس کا مقصد لوگوں کے مسائل کو حل کرنے میں سہولت کے ساتھ انتظامات میں آسانی تھا۔ (تاریخ طبری)
سن ہجری کا آغاز:
21ھ میں حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے ایک تحریر پیش ہوئی جس پر شعبان کا لفظ لکھا ہوا تھا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ یہ کیسے معلوم ہوگا کہ یہ گذشتہ شعبان ہے یا موجودہ۔ اس مسئلہ پر مجلس شوریٰ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں اس پر غور کیا گیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی رائے پر سب کا اتفاق ہوا کہ ہجرت نبوی سے سال کا آغاز کیا جائے اور لکھنے پڑھنے میں سن ہجری کو ہی رائج کیا جائے۔ (الفاروق)
آئمہ اور معلمین کی تنخواہوں کا تقرر:
حضرت عمرفاروقؓ نے سب سے پہلے آئمہ کی تنخواہوں کا تقرر کیا(مؤطا امام محمد) اس طرح معلمین قرآن کی تنخواہیں بھی مقرر کی گئیں ۔(سیرت ابن جوزی)
اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگ اپنی تمام مصروفیات ترک کرکے صرف مذہبی خدمات سرانجام دیں اور ان کی تمام ضروریات خلافت اسلامیہ برداشت کرے۔
لازمی تعلیم کا حکم:
حضرت عمرفاروقؓ نے لازمی تعلیم کا حکم دیا۔ انہوں نے ہر جگہ تاکیدی حکم نامے بھجوائے کہ قرآن حکیم کو صحیح اعراب کے ساتھ پڑھایا جائے۔ (مسند دارمی) بدوؤں کیلئے قرآن حکیم کی تعلیم کا انتظام کیا اور اس کا حصول ان کیلئے لازمی قرار دیا۔ قبائل میں جاکر امتحان لینے او رقرآن کا کوئی حصہ بھی یاد نہ ہونے پر سزا کا نظام رائج کیا۔ (الاصابہ) تمام اضلاع میں بچوں کو شہسواری اور کتابت کی تعلیم کے احکام بھجوائے۔ (الفاروق )
باجماعت نمازِ تراویح کا اہتمام:
حضرت عمر فاروقؓ نے 14 ھ میں نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ مسجد نبویﷺ میں قائم کی اور تمام اضلاع کے افسروں کو اس پر عمل کرنے کا حکم دیا (موطاء امام مالک؛ الفاروق) اس کا مقصد یہ تھا کہ قرآن حکیم کو مکمل طور پر پڑھا اور سنا جائے جو کہ قرآن کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔
مساجد میں روشنی کا انتظام:
حضرت عمرفاروقؓ سے قبل مساجد میں ر وشنی کا کوئی خاطرخواہ انتظام نہ تھا۔حضرت عمر ؓ نے مساجد میں باقاعدہ روشنی کا اہتمام کروایا تاکہ رات کے وقت مسجد میں آنے والے نمازیوں کوکسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حضرت علیؓ ؓرمضان میں ایک مسجد کے پاس سے گزرے تو وہاں قندیل روشن دیکھی۔ آپؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حضرت عمرؓ کی قبر کو روشن کرے کہ انہوں نے ہماری مسجدوں کو روشن کردیا۔ (ابن عساکر)
حضرت عمر فاروق ؓ کی یہ چند ایک اولیات ہیں جن کا ذکر یہاں کیا گیا۔اس کے علاوہ بھی کتبِ تاریخ میں کئی اولیات کاذکر موجود ہے۔ یہ تمام اوّلیات آپ کی فہم و فراست کی واضح دلیل ہیں اور آج کے حکمرانوں کیلئے ان میں سبق پوشیدہ ہے کہ وہ ان دواندیشی پر مبنی اوّلیات پر عمل کریں اور اس کے ساتھ حضرت عمرؓ کی اقتداء کرتے ہوئے انتظام حکومت اورترویج دین کے سلسلے میں ایسی مثالی اور نئی روایات کا آغاز کریں جو کہ آئندہ نسلوں کیلئے قابل رشک اور قابل تقلید ہوں۔