صدر مملکت کا خطاب
ملالہ کے حوالے سے ملک کی اکثریت حکومت اورعالمی موقف کی حامی ہے۔ایک انتہائی محدود طبقہ ہی ایسا ہے جس کی سوچ مختلف ہوگی۔
صدر آصف علی زرداری نے منگل کو منڈی بہائوالدین کے علاقے ملکوال میں پیپلز پارٹی کے زیراہتمام عید ملن پارٹی سے خطاب کیا' اس خطاب میں انھوں نے ملک کے سیاسی و قومی معاملات پر کھل کراظہار خیال کیا۔
یہ ایک طرح سے ان کی پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ ہے' انھوں نے کہا ہے کہ وہ عوام اور سیاسی قوتوں کو یقین دلاتے ہیں کہ آیندہ عام انتخابات اپنے وقت پر، صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوںگے، اس حوالے سے حکمت عملی وضع کر لی گئی ہے، ووٹر فہرستیں ایسی بنائی گئی ہیں کہ کوئی دھاندلی نہ ہو سکے، عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں گے، عوام سے بڑی طاقت کسی کی نہیں ہے' ہر طاقت پارلیمنٹ کے سامنے جھکتی جا رہی ہے۔ میں نے خو د پارلیمنٹ کو اپنے اختیارات دیے حالانکہ کوئی پٹواری بھی اپنے اختیارات کسی کو نہیں دیتا،میں اس کا صلہ نہیں مانگتا، اس کا صلہ تاریخ مجھے دے گی۔
انھوں نے دہشت گردی اور ملالہ یوسفزئی کے حوالے سے کہا کہ ملالہ کی حمایت روشن خیالی کی حمایت کے لیے کرتے ہیں۔ کراچی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کراچی کے خراب حالات ریاست کی ناکامی نہیں ہے، کراچی میں حالات خراب کرنا دہشتگردوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے تا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کمزور کیا جا سکے۔ دہشتگرد کراچی میں حالات خراب کر کے ہمیں الجھانا چاہتے ہیں، وہاں ملک دشمن عناصر انتشار پھیلا رہے ہیں۔
صدر کے خطاب میں تین پہلو زیادہ اہم ہیں۔ پارلیمنٹ' دہشت گردی' کراچی کے حالات اور آیندہ عام انتخابات۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ اور جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب ملک میں انتخابی ماحول بن گیا ہے اور سیاسی جماعتیں مختلف شہروں میں جلسے کررہی ہیں۔اگلا مرحلہ نگران سیٹ اپ کا ہے جو ملک میں عام انتخابات کرائے گا جس کے نتیجے میں پر امن انتقال اقتدار کے ذریعے نئی حکومت اقتدار سنبھال لے گی۔ صدر مملکت نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ عام انتخابات وقت پر ہوں اور یہ شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوں گے اور اس سلسلے میں تیاریاں کرلی گئیں ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ابھی تک ملک کی اپوزیشن سیاسی پارٹیاں بھی مطمئن ہیں۔ عام انتخابات کے شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے کی تصدیق تو متفقہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی سے ہو جاتی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم پر سب سیاسی جماعتوں کو اعتماد ہے' اب اگلا مرحلہ غیر جانبدار نگران سیٹ اپ کے قیام کا ہے۔ صدر زرداری کے گزشتہ طرز عمل کو سامنے رکھا جائے تو یہ معاملہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہوتا نظر آرہا ہے۔ یوں اگر نگران سیٹ بھی اپوزیشن کی مشاورت اور تائید سے قائم ہو جاتا ہے تو پھر عام انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے پر کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ ن کا طرز عمل بھی جمہوری دائر ے کے اندر ہی رہا ہے۔ اس جماعت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے جمہوریت کو کوئی خطرہ ہوتا۔دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومت پر تنقید ضرور کی لیکن ملک میں گھیراؤ جلائو سے گریز کیا، سیاسی جماعتوں کے اس طرز عمل کو سراہا جانا چاہیے۔
ملک میں جمہوری حکومت کا خوش اسلوبی سے اپنی آئینی مدت پوری کرنا' اپوزیشن کے جمہوری کردار کا ہی نتیجہ ہے' جہاں تک ملالہ یوسف زئی کے واقعے کا تعلق ہے' اس کے بارے میں بھی حکومت اور ریاست کا موقف بالکل واضح ہے۔ ملالہ پر ہونے والے حملے کی مذمت پاکستان میں ہی نہیں عالمی سطح پر ہوئی ہے' اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تک نے اس کی مذمت کی ہے۔ اس صورتحال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ معاملہ یقیناً سنگین ہے' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں بچیوں اور خواتین پر حملے بھی ہوتے ہیں' ان پر تیزاب بھی پھینکا جاتا ہے اور انھیں قتل بھی کیا جاتا ہے تاہم ملالہ پر حملے کا تعلق عمومی جرائم سے نہیں ہے۔ یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی کارروائی ہے اور اس کے مقاصد سیاسی ہیں۔ اس لیے حکومت اور پاکستانی عوام کی اکثریت نے ملالہ پر حملے کی کھلے عام مذمت کی ہے۔
ملالہ کے حوالے سے ملک کی اکثریت حکومت اور عالمی موقف کی حامی ہے۔ایک انتہائی محدود طبقہ ہی ایسا ہے جس کی سوچ مختلف ہوگی۔ کراچی کی صورتحال کو بھی اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے' اگر کچھ قوتیں اسے مفلوج کرنا چاہتی ہیں تو اس کا نتیجہ پاکستان کی معیشت کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔ یہ ایجنڈا کس کا ہو سکتا ہے؟ روایتی جرائم پیشہ گروہوں، رہزنوںیا چوروں، ڈاکوؤں کا تو ایسا ایجنڈا نہیں ہوتا' پولیس کے لیے روایتی جرائم پیشہ گروہوں پر قابو پانا آسان ہوتا ہے لیکن نظریاتی اور سیاسی ایجنڈے کے حامل گروہوں پر قابو پانا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو مفلوج کرنے کا ایجنڈا پاکستان کے دشمنوں کا ہی ہو سکتا ہے کیونکہ وہی اس ملک کو ختم کرنا چاہتے ہیں' اب اگر کوئی مقامی گروہ' تنظیم یا جماعت پاکستان دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تعاون کر رہی ہے تو اسے سختی سے کچلا جانا چاہیے۔
ایسے عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ صدر زرداری کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کراچی میں حالات خراب کرنا دہشت گردوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے تا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کمزور کیا جائے۔ دہشت گرد پاکستان کی ریاست سے برسر پیکار ہیں' وہ کئی محاذوں پر لڑ رہے ہیں' وہ فرقہ واریت بھی پھیلا رہے ہیں' وہ لسانی اور نسلی تعصبات کو بھی ہوا دیتے ہیں اور ملک کے سیکیورٹی اداروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں' غور سے دیکھا جائے تو ان سب کا نشانہ ریاست پاکستان ہے۔ پاکستان کی سیاسی حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف جو حکمت عملی اپنائی ہے' اس نے انھیں معاشرے سے الگ کر دیا ہے' یہی دہشت گردوں کے لیے پریشانی کا سبب ہے۔ پاکستان میں جمہوری ادارے جتنے مضبوط ہوتے جائیں گے' ملک دشمن اور فسطائی قوتیں اتنی ہی کمزور ہوتی جائیں گی۔
صدر آصف علی زرداری نے صدر کے وہ اختیارات پارلیمنٹ کو لوٹا دیے ہیں جو دراصل آمرانہ طرز حکومت کی نشاندہی کرتے تھے'صدر کے اس اقدام سے پارلیمنٹ کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے' گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی پارلیمنٹ کو سلام پیش کیا' یوں دیکھا جائے تو آنے والے دنوں میں وطن عزیز دنیا میں ایک ایسی جمہوریہ کے روپ میں سامنے آئے گا جہاں آئین' پارلیمنٹ اور آئینی اداروں کی بالادستی ہو گی اور کوئی آمر کسی گنجائش کا سہارا لے کر اقتدار میں نہیں آ سکے گا۔
یہ ایک طرح سے ان کی پارٹی کی انتخابی مہم کا حصہ ہے' انھوں نے کہا ہے کہ وہ عوام اور سیاسی قوتوں کو یقین دلاتے ہیں کہ آیندہ عام انتخابات اپنے وقت پر، صاف، شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوںگے، اس حوالے سے حکمت عملی وضع کر لی گئی ہے، ووٹر فہرستیں ایسی بنائی گئی ہیں کہ کوئی دھاندلی نہ ہو سکے، عوامی مینڈیٹ کا احترام کریں گے، عوام سے بڑی طاقت کسی کی نہیں ہے' ہر طاقت پارلیمنٹ کے سامنے جھکتی جا رہی ہے۔ میں نے خو د پارلیمنٹ کو اپنے اختیارات دیے حالانکہ کوئی پٹواری بھی اپنے اختیارات کسی کو نہیں دیتا،میں اس کا صلہ نہیں مانگتا، اس کا صلہ تاریخ مجھے دے گی۔
انھوں نے دہشت گردی اور ملالہ یوسفزئی کے حوالے سے کہا کہ ملالہ کی حمایت روشن خیالی کی حمایت کے لیے کرتے ہیں۔ کراچی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کراچی کے خراب حالات ریاست کی ناکامی نہیں ہے، کراچی میں حالات خراب کرنا دہشتگردوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے تا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کمزور کیا جا سکے۔ دہشتگرد کراچی میں حالات خراب کر کے ہمیں الجھانا چاہتے ہیں، وہاں ملک دشمن عناصر انتشار پھیلا رہے ہیں۔
صدر کے خطاب میں تین پہلو زیادہ اہم ہیں۔ پارلیمنٹ' دہشت گردی' کراچی کے حالات اور آیندہ عام انتخابات۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ اور جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے والی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب ملک میں انتخابی ماحول بن گیا ہے اور سیاسی جماعتیں مختلف شہروں میں جلسے کررہی ہیں۔اگلا مرحلہ نگران سیٹ اپ کا ہے جو ملک میں عام انتخابات کرائے گا جس کے نتیجے میں پر امن انتقال اقتدار کے ذریعے نئی حکومت اقتدار سنبھال لے گی۔ صدر مملکت نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ عام انتخابات وقت پر ہوں اور یہ شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوں گے اور اس سلسلے میں تیاریاں کرلی گئیں ہیں۔ یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ ابھی تک ملک کی اپوزیشن سیاسی پارٹیاں بھی مطمئن ہیں۔ عام انتخابات کے شفاف اور غیر جانبدارانہ ہونے کی تصدیق تو متفقہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی سے ہو جاتی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم پر سب سیاسی جماعتوں کو اعتماد ہے' اب اگلا مرحلہ غیر جانبدار نگران سیٹ اپ کے قیام کا ہے۔ صدر زرداری کے گزشتہ طرز عمل کو سامنے رکھا جائے تو یہ معاملہ بھی خوش اسلوبی سے طے ہوتا نظر آرہا ہے۔ یوں اگر نگران سیٹ بھی اپوزیشن کی مشاورت اور تائید سے قائم ہو جاتا ہے تو پھر عام انتخابات کے منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونے پر کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہے گا۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت مسلم لیگ ن کا طرز عمل بھی جمہوری دائر ے کے اندر ہی رہا ہے۔ اس جماعت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے جمہوریت کو کوئی خطرہ ہوتا۔دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی حکومت پر تنقید ضرور کی لیکن ملک میں گھیراؤ جلائو سے گریز کیا، سیاسی جماعتوں کے اس طرز عمل کو سراہا جانا چاہیے۔
ملک میں جمہوری حکومت کا خوش اسلوبی سے اپنی آئینی مدت پوری کرنا' اپوزیشن کے جمہوری کردار کا ہی نتیجہ ہے' جہاں تک ملالہ یوسف زئی کے واقعے کا تعلق ہے' اس کے بارے میں بھی حکومت اور ریاست کا موقف بالکل واضح ہے۔ ملالہ پر ہونے والے حملے کی مذمت پاکستان میں ہی نہیں عالمی سطح پر ہوئی ہے' اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل تک نے اس کی مذمت کی ہے۔ اس صورتحال سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ معاملہ یقیناً سنگین ہے' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان میں بچیوں اور خواتین پر حملے بھی ہوتے ہیں' ان پر تیزاب بھی پھینکا جاتا ہے اور انھیں قتل بھی کیا جاتا ہے تاہم ملالہ پر حملے کا تعلق عمومی جرائم سے نہیں ہے۔ یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ کی کارروائی ہے اور اس کے مقاصد سیاسی ہیں۔ اس لیے حکومت اور پاکستانی عوام کی اکثریت نے ملالہ پر حملے کی کھلے عام مذمت کی ہے۔
ملالہ کے حوالے سے ملک کی اکثریت حکومت اور عالمی موقف کی حامی ہے۔ایک انتہائی محدود طبقہ ہی ایسا ہے جس کی سوچ مختلف ہوگی۔ کراچی کی صورتحال کو بھی اس تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے' اگر کچھ قوتیں اسے مفلوج کرنا چاہتی ہیں تو اس کا نتیجہ پاکستان کی معیشت کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔ یہ ایجنڈا کس کا ہو سکتا ہے؟ روایتی جرائم پیشہ گروہوں، رہزنوںیا چوروں، ڈاکوؤں کا تو ایسا ایجنڈا نہیں ہوتا' پولیس کے لیے روایتی جرائم پیشہ گروہوں پر قابو پانا آسان ہوتا ہے لیکن نظریاتی اور سیاسی ایجنڈے کے حامل گروہوں پر قابو پانا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو مفلوج کرنے کا ایجنڈا پاکستان کے دشمنوں کا ہی ہو سکتا ہے کیونکہ وہی اس ملک کو ختم کرنا چاہتے ہیں' اب اگر کوئی مقامی گروہ' تنظیم یا جماعت پاکستان دشمنوں کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے تعاون کر رہی ہے تو اسے سختی سے کچلا جانا چاہیے۔
ایسے عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ صدر زرداری کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کراچی میں حالات خراب کرنا دہشت گردوں کی حکمت عملی کا حصہ ہے تا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کمزور کیا جائے۔ دہشت گرد پاکستان کی ریاست سے برسر پیکار ہیں' وہ کئی محاذوں پر لڑ رہے ہیں' وہ فرقہ واریت بھی پھیلا رہے ہیں' وہ لسانی اور نسلی تعصبات کو بھی ہوا دیتے ہیں اور ملک کے سیکیورٹی اداروں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں' غور سے دیکھا جائے تو ان سب کا نشانہ ریاست پاکستان ہے۔ پاکستان کی سیاسی حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف جو حکمت عملی اپنائی ہے' اس نے انھیں معاشرے سے الگ کر دیا ہے' یہی دہشت گردوں کے لیے پریشانی کا سبب ہے۔ پاکستان میں جمہوری ادارے جتنے مضبوط ہوتے جائیں گے' ملک دشمن اور فسطائی قوتیں اتنی ہی کمزور ہوتی جائیں گی۔
صدر آصف علی زرداری نے صدر کے وہ اختیارات پارلیمنٹ کو لوٹا دیے ہیں جو دراصل آمرانہ طرز حکومت کی نشاندہی کرتے تھے'صدر کے اس اقدام سے پارلیمنٹ کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے' گزشتہ دنوں چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی پارلیمنٹ کو سلام پیش کیا' یوں دیکھا جائے تو آنے والے دنوں میں وطن عزیز دنیا میں ایک ایسی جمہوریہ کے روپ میں سامنے آئے گا جہاں آئین' پارلیمنٹ اور آئینی اداروں کی بالادستی ہو گی اور کوئی آمر کسی گنجائش کا سہارا لے کر اقتدار میں نہیں آ سکے گا۔