واہگہ سے امرتسر تک کا ہفت خوان

دنیا میں ایسی کوئی جگہ زیر زمین بھی نہیں بچی ہے جس کی تصویریں ٹی وی اسکرینوں اور انٹر نیٹ وغیرہ پر عام دستیاب نہ ہو۔

barq@email.com

امرتسر کانفرنس کی بات ہم نے درمیان سے شروع کی تھی جس میں سفر نامے سے زیادہ واقعات نے کام دکھایا تھا یہ تو ہم نے آپ کو بتایا ہی نہیں کہ ہم واہگہ پار کیسے ہوئے اور پھر ''آر'' ہونے میں کیا کیا ہفت خوان سر کرنا پڑے۔

پہلی حیرت تو ہمیں یہ ہوئی ہے کہ پار ہونے کے بعد کوئی ہماری پذیرائی کے لیے موجود نہیں تھا پچھلی مرتبہ تو جیسے ہی ہم پار ہوئے دو نوجوان سکھ سردار انتہائی پرجوش انداز میں پذیرائی کے لیے موجود تھے، امن سنگھ اور اقبال سنگھ، انھوں نے ہمیں سامان کو ہاتھ نہیں لگانے دیا ایک بڑی سی بس میں سامان رکھا اور کلدیپ نامی ڈرائیور کو اس کا مہار تھما دیا بس کے اس سفر کا قصہ ہم آپ کو سنا چکے ہیں کہ کلدیپ نے کیسے یہ ثابت کیا کہ اسٹیرنگ اور ہارن کے تال میل سے راستہ کیسے بنایا جا سکتا ہے اور بس کے ٹائروں کو بچانے کے لیے اسے کس اسپیڈ پر چلایا جانا چاہیے کیوں کہ ہم نے یہ کہیں بھی محسوس نہیں کیا کہ بس کے ٹائروں نے کہیں سڑک کو بھی چھوا ہو۔

لیکن اس مرتبہ کسٹم کی نئی طویل و عریض عمارت سے نکلے تو چاروں طرف ہو کا عالم تھا صرف ٹیکسی ڈرائیور سردار ہی ہم پر لپکے ادھر ادھر بہت ڈھونڈا لیکن کسی استقبال والے کا چہرہ یا پگڑی دکھائی نہیں دی، تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ کوئی بھی نہیں آیا ہے اور اب تو یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا اس لیے ہمیں خود ہی ٹیکسی کر کے امرتسر پہنچنا پڑے گا، پارکنگ میں بے شمار نئی نویلی اور چمکتی دمکتی گاڑیاں کھڑی تھیں خیال تھا کہ انھی میں سے کسی گاڑی پر ہم بھی جائیں گے ہماری کوآرڈینیٹر عائشہ زی خان تو ٹیکسی والوں سے مول تول کر رہی تھیں ہم نے اس نئے تعمیر ہونے والے کسٹم اور امیگریشن ہاؤس کا جائزہ لیا باقی تو سب کچھ معمول کے مطابق تھا اونچی خوب صورت بلڈنگ یہاں وہاں گھاس کے تختے اور پھولوں کے گملے وغیرہ ۔۔۔

لیکن ایک بورڈ نے ہمیں اپنی طرف کھنیچ لیا لکھا تھا یہاں تصویر کھینچنا سخت منع ہے اسی بورڈ کا پاکستانی بھائی ہم نے اس سے پہلے اپنے علاقے میں بھی دیکھا تھا اچانک ذہن میں ایک جھماکا ہوا اور دل کی گہرائیوں سے ایک قہقہ ابل پڑا۔۔۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، دنیا میں ایسی کوئی جگہ زیر زمین بھی نہیں بچی ہے جس کی تصویریں ٹی وی اسکرینوں اور انٹر نیٹ وغیرہ پر عام دستیاب نہ ہو، ایسی چیز دنیا میں کوئی بچی ہی نہیں ہے جس تک کیمرے کی آنکھ نہ پہنچی ہو لیکن پاکستان و بھارت والوں کی خیر ہو کہ ابھی تک ورثہ میں ملنے والے انگریزوں کے بورڈ سینے سے لگائے ہوئے ہیں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کا کوئی فائدہ ہے بھی یا نہیں ؎


اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انھیں کچھ نہ کہو

لیکن ابھی اگلے وقتوں کی ایک اور چیز ہماری قسمت تھی وہ ٹیکسی وین جس میں ہم نے جانا تھا، پتہ چلا کہ ساری یہاں وہاں کھڑی ہوئی گاڑیاں پرائیویٹ ہیں ہم کل چھ افراد تھے چنانچہ سرداروں کے فرمان کے مطابق دو ٹیکسیاں کرنا تھیں ایک ٹیکسی میں چار سے زیادہ سواریوں کی اجازت نہیں تھی، جس ٹیکسی وین میں ہم بیٹھے اس کے اور اس کے ڈرائیور کے بارے میں ہم آخر تک نہیں جان پائے کہ کون کس سے زیادہ بڑی عمر کا ہے دونوں کا مزاج بھی ایک جیسا تھا سردار جی اگر ہر بات پر غراتے تھے تو ٹیکسی ہر حرکت پر چیختی چلاتی تھی ... ایک بات البتہ یہ تھی کہ پوری گاڑی کے ساتھ ساتھ اس کا ہارن بھی کبھی کبھی بج دیتا تھا، سردار نے ہمیں اچھی طرح وین میں پیک کیا کیوں کہ اس کے دروازے اور کھڑکیاں سردار جی ہی کا کہا مانتی تھی کسی غیر کو ہاتھ بھی لگانے نہیں دیتی تھیں۔

اپنی جگہ پر کسی بیل کی طرح پیر مار مار کر گاڑی روانہ ہوئی پچھلی مرتبہ کلدیپ کی بس ہوا سے ہم کلام تھی تو اس مرتبہ سردار جی کی وین راہ چلتی چیونٹیوں کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر ''ست سری اکال'' کا تبادلہ کر رہی تھی، ایک دو جگہ تو شاید کچھ رشتہ دار یا شناسا چیونٹیوں کے ساتھ اس نے بغل گیر ہو کر بھی علیک سلیک کی اور بال بچوں کی خیریت دریافت کی، اپنی گاڑی سے چند سال چھوٹے یا بڑے اور اس سے کہیں زیادہ ضعیف سردار جی کی بات تو ہماری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی اور ان کو بات کرنے کی زیادہ فرصت بھی نہیں تھی کیوں کہ اپنی گاڑی سے کشتی لڑنے کے علاوہ وہ گزرتی گاڑیوں خصوصاً موٹر سائیکل والوں سے زیادہ مصروف تھے موٹر سائیکل والوں کو اس نے ایک مجموعی نام ''مج'' دے رکھا تھا سوار اور بائیک دونوں کو مج کا ٹائٹل دے کر وہ ایک ہی گالی سے دونوں کی تواضع کر دیتا تھا حالانکہ ہم نے بھی پنجابی اور پشتو گالیوں پر اچھی خاصی ریسرچ کر رکھی ہے۔

لیکن سردار جی کے پاس جو گالیوں کی ڈکشنری تھی وہ شاید اپنے زمانے کی ''فرہنگ آصفیہ'' تھی صرف لہجے ہی سے پتہ چلتا تھا کہ ''مج'' کو گالی دی گئی ہے، مفہوم ہمارے پلے ہی نہ پڑتا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے سردار جی کو اپنی آل اولاد کی طرف سے کوئی سہائتا نہیں ملی ہے کیوں کہ اس کی عمر گاڑی چلانے کی تو کیا گاڑی میں بیٹھنے کی بھی نہیں تھی لیکن یا تو اس کی اولاد نافرمان نکلی تھی یا بے اولاد تھا اور یا شاید بلکہ اغلب یہ کہ موصوف نے آخری عمر میں کسی نئی کڑی سے بیاہ کیا تھا جس کے نتیجے میں اسے عمر قید کی سزا مل گئی تھی، آخر خدا خدا کر کے امرتسر پہنچ ہی گئے اب ہمیں یہاں اپنے میزبانوں کو ڈھونڈنا تھا یہ بھی اپنی جگہ ایک نادر تاریخی واقعہ تھا کہ سرحد پار سے مہمان آئے تھے اور وہ اپنے میزبانوں کو جگہ جگہ ڈھونڈ رہے تھے۔

ہماری سسٹر الملت عائشہ زی خان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ تقریب خالصہ کالج میں ہے اور مہمان ہوٹل السٹونیا میں ٹھہرے ہوئے ہیں لیکن السٹونیا نے ہمیں دور دفعان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے یہاں مہمان تو ہیں لیکن وہ دوسرے ممالک سے آئے ہوئے وی آئی پی مہمان ہیں جن میں پاکستانیوں کی کوئی گنجائش نہیں تھی یہاں سے پتہ چلا کہ ایک اور ہوٹل میں شاید ہمارا بندوبست ہو اس کا نام تو ہمیں یاد نہیں آیا لیکن یہ بھی ایک معززانہ سا ہوٹل تھا اس لیے اس میں بھی کھڑکھڑاتی وینوں سے آئے ہوئے گرد آلود پاکستانیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی البتہ اتنی مدد انھوں نے کی کہ ایک اور ہوٹل کا پتہ بتا دیا اس تیسرے ہوٹل میں واقعی ہمارا بندوبست تھا لیکن صرف ایک رات کے لیے ... دوسرے دن یہاں سے خانہ بدوش کر کے چوتھے ہوٹل میں لے جا کر ڈال دیا گیا، بھوپال کے مقابلے میں اس مرتبہ ہم نے واضح طور پر دیکھا کہ پاکستانیوں کا شمار نہ تین میں تھا نہ تیرہ میں حالانکہ اجیت کور اس کی تنظیم اور صوفی کانفرنس سب کچھ وہی تھا اور یہ پتہ ہم نے لگا لیا جو تفصیل سے بیان کرنے کی ہے۔
Load Next Story