کاغذی ڈالر کا شکنجہ اور قیدی ممالک تیسرا حصہ

متذکرہ کتاب کے صفحہ 36 پر درج ہے کہ جرمنی نے 1929ء تک 2900.0 ملین ڈالر کا قرضہ لے لیا تھا۔

k_goraya@yahoo.com

لاہور:
متذکرہ کتاب کے صفحہ 36 پر درج ہے کہ جرمنی نے 1929ء تک 2900.0 ملین ڈالر کا قرضہ لے لیا تھا۔ نیوزی لینڈ کے ہر شہری پر 1928ء میں -27.6 ڈالر کا سود ادائیگی کا بوجھ تھا۔ غیر ملکی قرضوں سود کا بوجھ ان ملکوں کی معیشت کی نفی کر رہا تھا۔ آسٹریا کا ہر شہری 1928ء میں -27.5 ڈالر کا سود کینیڈا کا ہر شہری -22.3 ڈالر، یونین آف ساؤتھ افریقہ کا ہر شہری -9.8 ڈالر غیر ملکی سود ادا کر رہا تھا۔

ناروے کا شہری -6.7 ڈالر، ڈنمارک کا شہری -3.8 ڈالر، امریکا کا ہر شہری 1928ء میں +5.7 ڈالر سود وصول کر رہا تھا اور برطانیہ کا ہر شہری برطانیہ کی طرف سے قرضے دیے گئے پر +29.0 سود کھا رہا تھا۔ متذکرہ کتاب کے صفحہ 96 پر 1928ء میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، فرانس، جرمنی، جاپان، اسپین، برطانیہ کے پاس ٹوٹل گولڈ ریزرو 8846.0 ملین ڈالر تھا اور اکیلے امریکا کے پاس 10472.0 ملین ڈالر گولڈ تھا۔

1913ء میں امریکا دوسرے تمام ملکوں سے گولڈ ملین ڈالر ریزرو میں 144 فیصد کم گولڈ ریزرو رکھتا تھا۔ امریکا نے یورپی ملکوں کو مالیاتی اعتماد میں لے کر بعد میں کاغذی ڈالر یورپی دنیا کی معیشت میں داخل کر دیے اور کاغذی ڈالروں کے بدلے ان ممالک سے سونا اکٹھا کر کے 1928ء میں گولڈ ریزرو 18.38 فیصد زیادہ جمع کر لیا تھا۔ متذکرہ کتاب کے صفحہ 205 پر 1927ء میں امریکا نے 15161.0 ملین کاغذی ڈالر قرضے 1928ء میں 1320.0 ملین کاغذی ڈالر، 1929ء میں 759.0 ملین کاغذی ڈالر 1930ء میں 1009.0 ملین کاغذی ڈالر بیرونی ملکوں کو دیے۔

متذکرہ کتاب کے صفحے 228 پر سونے کی امپورٹ اور ایکسپورٹ 1929ء اور 1930ء کے اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔ امریکا میں 1929ء میں 176.0 ملین ڈالر گولڈ امپورٹ کیا گیا۔ 1930ء میں 280.0 ملین ڈالر کا گولڈ امپورٹ کیا گیا۔ برطانیہ سے دو سال میں 163.0ء ملین ڈالر گولڈ نکل گیا۔ فرانس نے دو سال میں 797.0 ملین ڈالر کا سونا امپورٹ کیا۔ ارجنٹائن سے 193.0 ملین ڈالر گولڈ نکل گیا۔ برازیل سے 170.0 ملین ڈالر گولڈ نکل گیا۔ آسٹریلیا سے 173.0 ملین ڈالر گولڈ نکل گیا۔ جاپان سے 149.0 ملین ڈالر گولڈ نکل گیا تھا۔

کتاب کے صفحہ 302 پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 1931ء میں ارجنٹائن کی کرنسی پاسو Peso میں ڈالر کے مقابلے میں 33 فیصد کمی ہو چکی تھی۔ برازیل کی کرنسی Cruzeiro میں 39 فیصد کمی ہو چکی تھی۔ یوروگوائے کی کرنسی پاسو Peso میں 48 فیصد کمی ہو چکی تھی، وینزویلا کی کرنسی Bolivar بولیوار کی قیمت میں 12 فیصد کمی ہو چکی تھی۔ آسٹریلیا کی کرنسی اے۔ڈالر میں 23 فیصد کمی ہو چکی تھی۔

نیوزی لینڈ کی کرنسی نیوزی لینڈ پونڈ کی قیمت میں کمی 9 فیصد ہو چکی تھی۔ اسی کتاب کے صفحہ 302 پر 6 ملکوں کے پاس 1931ء گولڈ ریزرو ملین ڈالر حوالے سے جرمنی کی کرنسی آر مارک تھی۔ جرمنی سے اتحادیوں نے دباؤ میں رکھا ہوا تھا۔ 1094.0 ملین ڈالر کا گولڈ باہر منتقل ہو گیا۔ اسی سال میں برطانیہ سے کرنسی کے عوض 11.2 ملین ڈالر گولڈ امپورٹ ہوا۔ فرانس نے ڈالروں کے بدلے 2291.0 ملین ڈالر گولڈ امپورٹ کیا۔ امریکا نے 329.0 ملین ڈالر امپورٹ کیا۔ سوئٹزرلینڈ نے 120.0 ملین ڈالر گولڈ امپورٹ کیا۔ نیدرلینڈز نے 140.0 ملین ڈالر گولڈ امپورٹ کیا۔

کتاب کے صفحہ 317 پر دیے گئے ٹیبل کے مطابق امریکا نے 1924ء سے 1930ء تک بیرونی ملکوں کو کاغذی ڈالر 7334.0 ملین ڈالر سپلائی کیے تھے۔ برطانیہ نے دوسرے ملکوں کو 3923 ملین ڈالر سپلائی کیے۔ دوسری کتاب International Currency Experience by League of Nations 1944 جنیوا کانفرنس 1922ء میں یورپی ملکوں نے گولڈ اسٹینڈرڈ کو قبول کیا تھا۔ اسی کتاب کے صفحے 35 کے مطابق 24 ملکوں کے پاس 1924ء میں ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو کے 845.0 ملین ڈالر تھے اور گولڈ ریزرو 2231.0 ملین ڈالر تھا۔ 1930ء میں ان ملکوںکے پاس 2300.0 ملین ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو تھا اور گولڈ ریزرو 4316.0 ملین ڈالر گولڈ تھا۔


(20.67 ڈالر کا ایک اونس سونا)۔ جب امریکا نے یورپی ملکوں میں ''کرنسی ایکسچینج بحران'' کا فائدہ اٹھا کر اس خلا کو کاغذی ڈالروں سے پُر کر دیا تھا۔ امریکا نے کاغذی ڈالروں کے بدلے سونا حاصل کیا۔ سرپلس اشیا دے کر سونا حاصل کیا۔ کاغذی ڈالروں کی سرمایہ کاری کر کے ان ملکوں سے نفع بخش صنعت حاصل کرنا شروع کی۔ اس کے نتیجے میں یورپی ملکوں کا 50 فیصد سے زیادہ سرمایہ امریکا کی طرف منتقل ہوتا گیا۔ یورپی ملکوں میں امیروں اور غریب عوام کے درمیان خلیج یا فاصلہ اور خلا وسیع ہوتا گیا۔ عوام کی قوت خرید قلت زر کا شکار ہوتی گئی۔ امیروں کی قوت خرید میں اضافہ اور افراط زر ہوتا گیا۔ اس کے نتیجے میں ہول سیل اشیا کی قیمتیں گرتی گئیں۔

اشیا تھیں لیکن ان اشیا کو خریدنے کے لیے عوامی قوت خرید میں سکت نہیں تھی۔ دوسرا امریکی ڈالر کے مقابلے میں مقامی کرنسیوں کی قیمتوں میں کمی کے نتیجے میں پیداواری لاگتیں بڑھتی گئیں۔ صنعتی کلچر کی نفی کے عمل سے مزید بے روزگاری میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس طرح عالمی معاشی بحران کا سبب ''کاغذی ڈالر'' تھا جو یورپی معیشتوں کو نگل رہا تھا۔ اس کے نتیجے میں لوگوں نے کاغذی ڈالروں کو اپنے اپنے ملکوں میں واپس کرنا شروع کر دیا۔ متذکرہ کتاب کے صفحہ 35 پر اعداد و شمار سے یہ سچ ثابت ہو جاتا ہے۔

1931ء میں فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو میں کمی ہو کر 1216.0 ملین ڈالر رہ گئے۔ گولڈ ریزرو بڑھ کر 5273.0 ملین ڈالر ہو گئے تھے۔ اس طرح عالمی معاشی بحران 1932ء میں ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو میں مزید کمی ہو کر 505.0 ملین ڈالر رہ گئے اور گولڈ ریزرو میں 5879.0 ملین ڈالر کا اضافہ ہو گیا تھا۔ 1930ء کے مقابلے میں دو سال میں 1931-32ء ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو میں 355 فیصد کمی ہو گئی تھی اور گولڈ ریزرو میں 1924ء سے 1932ء تک 158 فیصد اضافہ ہو گیا تھا۔

کاغذی ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو میں کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی کاغذی ڈالر اعتماد کھو چکا تھا، کیونکہ ''کاغذی ڈالر'' نے تمام یورپی ملکوں کی معیشتوں کی نفی شروع کر دی تھی۔ کتاب International Economy by John Park Young 1963 کے صفحہ 543-44 پر لکھا ہے کہ امریکا نے پہلی عالمی جنگ کے دوران اور بعد میں جن یورپی ملکوں کو قرضے دیے تھے۔ ان قرضوں پر 2 ارب 80 کروڑ ڈالر کا سود جون 1931ء کو وصول کیا تھا۔ کتاب International Currency Experience by League of Nations 1944 کے صفحہ 40 پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر 1931ء کو عالمی معاشی بحران کے نتیجے میں برطانیہ اور امریکا سے دوسرے ملکوں نے اپنے کھاتوں سے ڈالر اور پونڈ کے بدلے سونا نکالنا شروع کر دیا تھا۔

1931-32ء میں امریکا سے ڈالروں کے عوض 180.0 ملین ڈالر گولڈ نکال لیا تھا۔ برطانیہ سے کرنسی کے بدلے 125.0 ملین ڈالر گولڈ نکال لیا گیا۔ فرانس، بیلجیم، اٹلی، نیدرلینڈز، سوئیڈن اور سوئٹزرلینڈ ان ملکوں کے گولڈ ریزرو میں 1929.0 ملین گولڈ ڈالر کا اضافہ ہو گیا تھا۔ ان سب کے پاس ٹوٹل گولڈ ریزرو میں 4872.0 ملین گولڈ ڈالر کا اضافہ ہو گیا۔

ان چھ ملکوں کے پاس ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو کے 1928ء میں 1878.0 ملین ڈالر تھا۔ 1932ء میں ان کے پاس فارن ایکسچینج کاغذی ڈالر ریزرو 348.0 ملین ڈالر رہ گیا تھا۔ ان چھ ملکوں کے فارن ایکسچینج کاغذی ڈالر ریزرو میں 440 فیصد کمی ہو گئی اور گولڈ ریزرو میں 14.43 فیصد اضافہ ہو گیا تھا اور 18 مقروض ملکوں کے پاس 1928ء میں فارن ایکسچینج ڈالر ریزرو 642.0 ملین کاغذی ڈالر تھے۔ 1932ء میں 157.0 ملین کاغذی ڈالر رہ گئے تھے۔ کاغذی ڈالر فارن ایکسچینج ریزرو میں 309 فیصد ہو گئی تھی اور گولڈ ریزرو 1928ء میں 18 ملکوں کے پاس 1503.0 ملین ڈالر تھا اور 1932ء میں 1007.0 ملین ڈالر رہ گیا تھا۔ اس طرح گولڈ ریزرو میں 49 فیصد کمی ہو گئی تھی۔ مقروض 18 ملکوں نے تجارتی اشیا کے بدلے سونا ادا کرنا شروع کر دیا تھا اور مجموعی طور پر امریکی ڈالر دباؤ میں آ گیا تھا۔

(جاری ہے)
Load Next Story