پاکستان کپ اور من مانیاں
کھلاڑیوں کی من مانیوں کو دیکھ کر بورڈ ایسے والدین کی صورت نظر آرہا ہےجسکے کہنے میں کوئی بھی اولاد نہیں۔
KARACHI:
سیاست کبھی خدمت اور عبادت کا نام تھا۔ آج یہ ذاتی مفادات اور ملکی وسائل کی بہتی گنگا میں نہانے کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ جب روز مرہ کی سبھی سرگرمیاں سیاست کی آندھی میں بے لباس ہو رہی ہیں، تب بھلا کھیل کا میدان اس آلودہ فضا سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستانی کھلاڑیوں کی صرف گزرے چند ہفتوں کی ''آنیاں جانیاں'' کو ہی ملاحظہ کر لیا جائے تو دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں۔
2 ماہ پہلے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا پہلا سیزن دبئی میں کھیلا گیا تھا۔ اسلام آباد یونائیٹڈ فاتح ٹیم کی صورت میں سامنے آئی۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ پی ایس ایل کا سب سے بڑا فائدہ رہا تو اس لیگ کا سب سے بڑا کمال پاکستانی نوجوانوں میں نیا حوصلہ اور امید کا پیدا کرنا تھا، جسے بیرونی عناصر کی جنگ میں پاکستان نے تقریباً کھو دیا تھا۔ اک آس بیدار ہوئی تھی کہ پاکستان میں کھیل کے میدان ایک بار دوبارہ سے سجیں گے اور چہروں پر ماند پڑتی مسکراہٹ ایک بار پھر دلوں کو گرمائے گی۔ ابھی خوبصورت مستقبل کا حسین سپنا پورا دیکھا ہی نہیں تھا کہ ایشیاء کپ میں پاکستان بُری طرح ہار گیا، معاملہ یہ رک جاتا تب بھی ٹھیک تھا لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں تو حالت اور بھی پتلی ہوگئی، اس کے بعد تو گویا چراغوں میں روشنی نا رہی کی سی کیفیت سے پاکستان کرکٹ بورڈ دکھائی دیتا ہے۔
بس اسی غم کو مٹانے اور ملک میں میدانوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے کرکٹ بورڈ نے ''پاکستان کپ'' کے نام کے انعقاد کا فیصلہ کیا، لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اپنی ہزیمت کو چھپانے کے لیے کیا گیا، لیکن جلدی میں اس ایونٹ کے انعقاد کی صورت میں بے ضابطگیوں کو دیکھنے کے بعد یہ کہاوٹ بالکل ٹھیک ثابت ہورہے کہ 'جلدی کے کام شیطان کے کام ہوتے ہیں۔
پاکستان کپ میں کھلاڑیوں کی من مانیوں کو دیکھ کر مجھے تو ہمارا بورڈ ایسے والدین کی صورت میں نظر آرہا ہے جس کی سب اولاد نافرمان ہے، بس جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ تو گزشتہ ایک ہفتے میں کیا کچھ ہوا، آئیے اُس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یونس خان بگڑے ہوئے بچے ہیں، ان کو جب جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ کرتے ہیں، نہ کسی سے مشورہ کرتے ہیں اور نہ کسی کا حکم مانتے ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اسلام آباد کے خلاف ایمپائر کے غلط فیصلوں کے خلاف غصہ ہونا تو بنتا تھا، لیکن موصوف تو ایمپائر سے بگڑ ہی گئے، اور جب اُن کی اس نازیبا حرکت پر ایمپائر نے 50 فیصد جرمانہ کیا تو جناب ہتھے سے ہی اکھڑ گئے اور پاکستان کپ چھوڑ کر فوری طور کراچی واپس آگئے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوری طور پر بورڈ کی طرف سے اُن سے پوچھا جاتا کہ ایسا کیا ہوا کہ آپ نے قوانین کی اس قدر خلاف ورزی کی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ جب کارروائی کی بازگشت سننے کو ملی تو یونس خان نے بورڈ کے سربراہ شہریار خان کو فون کرکے اپنے کئے پر معافی مانگ لی اور ہمارے پیارے معصوم سے چئیرمین نے بھی یونس خان کو معاف کرتے ہوئے فوری طور پر پشاور کی ٹیم کو جوائن کرنے کا حکم دے دیا۔ لیکن پھر بورڈ کو اچانک خیال آیا کہ اگر اس بار کسی کھلاڑی کو معاف کردیا تو پھر ہر بار ایسا ہوتا رہے گا، اور اب سننے میں آرہا ہے کہ یونس خان کو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ ہم بھی دیکھتے ہیں اور آپ بھی دیکھیے کہ کس طرح کی کارروائی ہوتی ہے۔
یہ بورڈ کے خاص لاڈلے ہیں۔ ہر ٹور کے بعد ان کی شکایت جاتی ہے لیکن بورڈ بس ڈانٹنے پر اکتفا کرتا ہے اور ہر بار ٹور میں شامل کرلیتا ہے۔ حالانکہ ان کے بارے میں سابق کوچ وقار یونس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ احمد شہزاد کو دو سے تین سال تک ٹیم سے دور رکھا جائے اور جب ان کا رویہ ٹھیک ہوجائے تو پھر کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جائے، لیکن بورڈ اپنے لاڈلے کے ساتھ بھلا کیا ایسا کرسکتا ہے؟ اسی بگاڑ کی تازہ مثال گزشتہ دنوں بلوچستان کے خلاف میچ میں دیکھنے کو ملی جب موصوف آؤٹ ہونے کے بعد اس قدر طیش میں آگئے کہ ڈریسنگ روم میں پہنچتے ہی بلے کو اس قدر زور سے مارا کہ وہاں کا شیشہ ہی ٹوٹ گیا۔ اصولی طور پر تو اس حرکت پر سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے تھی، لیکن بورڈ نے حکم صادر کیا کہ جو شیشہ ٹوٹا ہے وہ احمد شہزاد ہی لگوائیں گے۔ واہ، قربان جائیں ایسے انصاف پر۔
ویسے جو جو باتیں اوپر احمد شہزاد کے بارے میں کہیں گئی ہیں وہ حرف بہ حرف عمر اکمل پر بھی پوری اترتی ہیں۔ یہ جناب بھی بورڈ کے اس قدر لاڈلے ہیں کہ ہر کچھ دن بعد ملک و قوم کا نام ڈبونے کا فریضہ انتہائی تندہی کے ساتھ انجام دیتے ہیں، مگر کمال یہ کہ ہر بار بورڈ کی رحم دلی کے سبب دوبارہ ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کبھی ٹریفک پولیس سے جھگڑتے ہیں تو کبھی حیدرآباد کی نجی محفل میں پکڑے جاتے ہیں۔ پھر گزشتہ روز تو کمال ہی ہوگیا کہ جناب ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ فیصل آباد میں ڈرامہ 'کڑیاں بلے بلے' دیکھنے گئے۔ ویسے تو ڈرامہ دیکھنے میں بھلا کون اعتراض کرسکتا ہے لیکن معاملہ اُس وقت خراب ہوا جب ایک ڈانس عمر اکمل کو بہت پسند آگیا اور انہوں نے دوبارہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کردیا۔ لیکن انتظامیہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو چھوٹے اکمل اور ساتھی کھلاڑیوں کو غصہ آگیا اور معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا، جس کے بعد بڑی مشکل سے کھلاڑیوں کو وہاں سے بھگایا کہ کہیں ایک اور اسکینڈل نہ بن جائے۔
اس بار بھی بورڈ کی جانب سے یہی خبر ملی تھی کہ عمر اکمل کے خلاف سخت نوٹس لیا جائے گا، لیکن ابتدائی رپورٹ کے تحت اس بار بھی عمر اکمل کو بے گناہ قرار دے دیا گیا ہے۔ ویسے اس حرکت پر شرمندہ ہونے کے بجائے عمر اکمل کہتے ہیں کہ یہ ان کا نجی اور فیملی کا معاملہ ہے، اور میڈیا اس سے دور ہی رہے تو اچھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ وہ اینٹرٹینمنٹ لینے گئے تھے اور اینٹرٹینمنٹ لیکر واپس آگئے۔
پاکستان گزشتہ عشرہ سے جن مسائل کا سامنا کرتا آرہا ہے، ان کا نفسیاتی پہلو بہت ہی خطرناک ہے، ان منفی اثرات کو کم کرنے اور نئے عزم کو بیدار کرنے کے لئے لازم ہے کہ کھیل کے میدانوں کی رونقیں دوبارہ بحال کی جائیں۔ کرکٹ اس ضمن میں ہمیشہ اول کردار ادا کرتی آئی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا نئے انداز اختیار کرنا یقینی مثبت تبدیلی کی علامات ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی تربیت کرنے اور ان میں اسپورٹس مین شپ پیدا کرنے کی ضرورت اب پہلے سے زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔ کھلاڑیوں کے لئے مینٹرز کا انتظام بھی ہونا چاہیئے تاکہ کوچ کی تربیت کے ساتھ ساتھ روح کی صفائی کا انتظام بھی ہوتا رہے۔ کسی نے بہت ہی اچھی بات کہی کہ جتنے بھی کھلاڑی یہاں قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہیں، غیر ملکی لیگ کھیلتے ہوئے ایسا کچھ بھی نہیں کرتے کہ انہیں معلوم ہے کہ اگر کوئی ایسا کام وہاں کیا تو اُس کی ان کی سخت سزا ملے گی۔ اس لیے بورڈ بھی اگر چاہتا ہے کہ کھلاڑی من مانی کرنے کے بجائے قوانین کی پابندی کرے تو دل سے رحم دلی کے عنصر کو نکال کر سخت سے سخت سزا دینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔
آخر میں بس عرض ہے کہ تمام کھلاڑی پاکستان کی پہچان ہیں، اور پہچان کی حفاظت کی اخلاقی ذمہ داری بھی ان کھلاڑیوں پر ہی آتی ہے۔ پاکستان کا نام روشن کرنا ہے تو آپس میں جڑنا ہوگا اور آگے بڑھنا ہوگا، ورنہ پھر یہ شاندار دن ماضی کی حسین یادیں بن کر رہ جائیں گی۔
[poll id="1085"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
سیاست کبھی خدمت اور عبادت کا نام تھا۔ آج یہ ذاتی مفادات اور ملکی وسائل کی بہتی گنگا میں نہانے کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ جب روز مرہ کی سبھی سرگرمیاں سیاست کی آندھی میں بے لباس ہو رہی ہیں، تب بھلا کھیل کا میدان اس آلودہ فضا سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟ پاکستان کرکٹ بورڈ اور پاکستانی کھلاڑیوں کی صرف گزرے چند ہفتوں کی ''آنیاں جانیاں'' کو ہی ملاحظہ کر لیا جائے تو دن میں تارے نظر آنے لگتے ہیں۔
2 ماہ پہلے پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا پہلا سیزن دبئی میں کھیلا گیا تھا۔ اسلام آباد یونائیٹڈ فاتح ٹیم کی صورت میں سامنے آئی۔ اگر یہ پوچھا جائے کہ پی ایس ایل کا سب سے بڑا فائدہ رہا تو اس لیگ کا سب سے بڑا کمال پاکستانی نوجوانوں میں نیا حوصلہ اور امید کا پیدا کرنا تھا، جسے بیرونی عناصر کی جنگ میں پاکستان نے تقریباً کھو دیا تھا۔ اک آس بیدار ہوئی تھی کہ پاکستان میں کھیل کے میدان ایک بار دوبارہ سے سجیں گے اور چہروں پر ماند پڑتی مسکراہٹ ایک بار پھر دلوں کو گرمائے گی۔ ابھی خوبصورت مستقبل کا حسین سپنا پورا دیکھا ہی نہیں تھا کہ ایشیاء کپ میں پاکستان بُری طرح ہار گیا، معاملہ یہ رک جاتا تب بھی ٹھیک تھا لیکن ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں تو حالت اور بھی پتلی ہوگئی، اس کے بعد تو گویا چراغوں میں روشنی نا رہی کی سی کیفیت سے پاکستان کرکٹ بورڈ دکھائی دیتا ہے۔
بس اسی غم کو مٹانے اور ملک میں میدانوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے کرکٹ بورڈ نے ''پاکستان کپ'' کے نام کے انعقاد کا فیصلہ کیا، لیکن سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ اپنی ہزیمت کو چھپانے کے لیے کیا گیا، لیکن جلدی میں اس ایونٹ کے انعقاد کی صورت میں بے ضابطگیوں کو دیکھنے کے بعد یہ کہاوٹ بالکل ٹھیک ثابت ہورہے کہ 'جلدی کے کام شیطان کے کام ہوتے ہیں۔
پاکستان کپ میں کھلاڑیوں کی من مانیوں کو دیکھ کر مجھے تو ہمارا بورڈ ایسے والدین کی صورت میں نظر آرہا ہے جس کی سب اولاد نافرمان ہے، بس جس کا جو جی چاہتا ہے وہ کرتا ہے۔ تو گزشتہ ایک ہفتے میں کیا کچھ ہوا، آئیے اُس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
یونس خان
کہا جاتا ہے کہ یونس خان بگڑے ہوئے بچے ہیں، ان کو جب جو کچھ کرنا ہوتا ہے وہ کرتے ہیں، نہ کسی سے مشورہ کرتے ہیں اور نہ کسی کا حکم مانتے ہیں۔ اس بار بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اسلام آباد کے خلاف ایمپائر کے غلط فیصلوں کے خلاف غصہ ہونا تو بنتا تھا، لیکن موصوف تو ایمپائر سے بگڑ ہی گئے، اور جب اُن کی اس نازیبا حرکت پر ایمپائر نے 50 فیصد جرمانہ کیا تو جناب ہتھے سے ہی اکھڑ گئے اور پاکستان کپ چھوڑ کر فوری طور کراچی واپس آگئے۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوری طور پر بورڈ کی طرف سے اُن سے پوچھا جاتا کہ ایسا کیا ہوا کہ آپ نے قوانین کی اس قدر خلاف ورزی کی، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ جب کارروائی کی بازگشت سننے کو ملی تو یونس خان نے بورڈ کے سربراہ شہریار خان کو فون کرکے اپنے کئے پر معافی مانگ لی اور ہمارے پیارے معصوم سے چئیرمین نے بھی یونس خان کو معاف کرتے ہوئے فوری طور پر پشاور کی ٹیم کو جوائن کرنے کا حکم دے دیا۔ لیکن پھر بورڈ کو اچانک خیال آیا کہ اگر اس بار کسی کھلاڑی کو معاف کردیا تو پھر ہر بار ایسا ہوتا رہے گا، اور اب سننے میں آرہا ہے کہ یونس خان کو شو کاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ ہم بھی دیکھتے ہیں اور آپ بھی دیکھیے کہ کس طرح کی کارروائی ہوتی ہے۔
احمد شہزاد
یہ بورڈ کے خاص لاڈلے ہیں۔ ہر ٹور کے بعد ان کی شکایت جاتی ہے لیکن بورڈ بس ڈانٹنے پر اکتفا کرتا ہے اور ہر بار ٹور میں شامل کرلیتا ہے۔ حالانکہ ان کے بارے میں سابق کوچ وقار یونس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ احمد شہزاد کو دو سے تین سال تک ٹیم سے دور رکھا جائے اور جب ان کا رویہ ٹھیک ہوجائے تو پھر کارکردگی کی بنیاد پر ٹیم میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جائے، لیکن بورڈ اپنے لاڈلے کے ساتھ بھلا کیا ایسا کرسکتا ہے؟ اسی بگاڑ کی تازہ مثال گزشتہ دنوں بلوچستان کے خلاف میچ میں دیکھنے کو ملی جب موصوف آؤٹ ہونے کے بعد اس قدر طیش میں آگئے کہ ڈریسنگ روم میں پہنچتے ہی بلے کو اس قدر زور سے مارا کہ وہاں کا شیشہ ہی ٹوٹ گیا۔ اصولی طور پر تو اس حرکت پر سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے تھی، لیکن بورڈ نے حکم صادر کیا کہ جو شیشہ ٹوٹا ہے وہ احمد شہزاد ہی لگوائیں گے۔ واہ، قربان جائیں ایسے انصاف پر۔
عمر اکمل اینڈ کمپنی
ویسے جو جو باتیں اوپر احمد شہزاد کے بارے میں کہیں گئی ہیں وہ حرف بہ حرف عمر اکمل پر بھی پوری اترتی ہیں۔ یہ جناب بھی بورڈ کے اس قدر لاڈلے ہیں کہ ہر کچھ دن بعد ملک و قوم کا نام ڈبونے کا فریضہ انتہائی تندہی کے ساتھ انجام دیتے ہیں، مگر کمال یہ کہ ہر بار بورڈ کی رحم دلی کے سبب دوبارہ ٹیم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کبھی ٹریفک پولیس سے جھگڑتے ہیں تو کبھی حیدرآباد کی نجی محفل میں پکڑے جاتے ہیں۔ پھر گزشتہ روز تو کمال ہی ہوگیا کہ جناب ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ فیصل آباد میں ڈرامہ 'کڑیاں بلے بلے' دیکھنے گئے۔ ویسے تو ڈرامہ دیکھنے میں بھلا کون اعتراض کرسکتا ہے لیکن معاملہ اُس وقت خراب ہوا جب ایک ڈانس عمر اکمل کو بہت پسند آگیا اور انہوں نے دوبارہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کردیا۔ لیکن انتظامیہ نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو چھوٹے اکمل اور ساتھی کھلاڑیوں کو غصہ آگیا اور معاملہ ہاتھا پائی تک پہنچ گیا، جس کے بعد بڑی مشکل سے کھلاڑیوں کو وہاں سے بھگایا کہ کہیں ایک اور اسکینڈل نہ بن جائے۔
اس بار بھی بورڈ کی جانب سے یہی خبر ملی تھی کہ عمر اکمل کے خلاف سخت نوٹس لیا جائے گا، لیکن ابتدائی رپورٹ کے تحت اس بار بھی عمر اکمل کو بے گناہ قرار دے دیا گیا ہے۔ ویسے اس حرکت پر شرمندہ ہونے کے بجائے عمر اکمل کہتے ہیں کہ یہ ان کا نجی اور فیملی کا معاملہ ہے، اور میڈیا اس سے دور ہی رہے تو اچھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ وہ اینٹرٹینمنٹ لینے گئے تھے اور اینٹرٹینمنٹ لیکر واپس آگئے۔
پاکستان گزشتہ عشرہ سے جن مسائل کا سامنا کرتا آرہا ہے، ان کا نفسیاتی پہلو بہت ہی خطرناک ہے، ان منفی اثرات کو کم کرنے اور نئے عزم کو بیدار کرنے کے لئے لازم ہے کہ کھیل کے میدانوں کی رونقیں دوبارہ بحال کی جائیں۔ کرکٹ اس ضمن میں ہمیشہ اول کردار ادا کرتی آئی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کا نئے انداز اختیار کرنا یقینی مثبت تبدیلی کی علامات ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی تربیت کرنے اور ان میں اسپورٹس مین شپ پیدا کرنے کی ضرورت اب پہلے سے زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔ کھلاڑیوں کے لئے مینٹرز کا انتظام بھی ہونا چاہیئے تاکہ کوچ کی تربیت کے ساتھ ساتھ روح کی صفائی کا انتظام بھی ہوتا رہے۔ کسی نے بہت ہی اچھی بات کہی کہ جتنے بھی کھلاڑی یہاں قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہیں، غیر ملکی لیگ کھیلتے ہوئے ایسا کچھ بھی نہیں کرتے کہ انہیں معلوم ہے کہ اگر کوئی ایسا کام وہاں کیا تو اُس کی ان کی سخت سزا ملے گی۔ اس لیے بورڈ بھی اگر چاہتا ہے کہ کھلاڑی من مانی کرنے کے بجائے قوانین کی پابندی کرے تو دل سے رحم دلی کے عنصر کو نکال کر سخت سے سخت سزا دینے کی عادت ڈالنی ہوگی۔
آخر میں بس عرض ہے کہ تمام کھلاڑی پاکستان کی پہچان ہیں، اور پہچان کی حفاظت کی اخلاقی ذمہ داری بھی ان کھلاڑیوں پر ہی آتی ہے۔ پاکستان کا نام روشن کرنا ہے تو آپس میں جڑنا ہوگا اور آگے بڑھنا ہوگا، ورنہ پھر یہ شاندار دن ماضی کی حسین یادیں بن کر رہ جائیں گی۔
[poll id="1085"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔