کے الیکٹرک کو مالی معاملات کے آڈٹ تک ہر قسم کی ادائیگی روک دی گئی
جب تک کے الیکٹرک آڈیٹر جنرل کے ذریعے آڈٹ نہ کروائے بجلی کی فروخت کا معاہدہ بھی نہ کیا جائے،پبلک اکاؤنٹس کمیٹی
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے وزارت پانی و بجلی کو کے الیکٹرک کے مالیاتی معاملات کے آڈٹ تک بجلی کی فروخت کا معاہدہ اور ہر قسم کی ادائیگی سے روک دیا ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کے دوران کے الیکٹرک کے ذمہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ کے واجب الادا 65 ارب روپے کے معاملہ پر وضاحت کے لئے چیئرمین نیپرا پیش ہوئے، اس موقع پر آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ 5 سال کے دوران وفاق کی جانب سے کے الیکٹرک کو 250 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ جس پر خورشید شاہ نے کہا کہ پی اے سی اجلاس کے الیکٹرک کو حکومت سے سبسڈی ملتی ہے، اس کے باوجود کے الیکٹرک کے ذمہ ایس ایس جی سی کے 65 ارب روپے کے واجبات تشویش ناک ہیں۔
سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگا نے کمیٹی کو بتایا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری کے وقت چیک اینڈ بیلنس کانظام وضع ہی نہیں کیا گیا، کے الیکٹرک امیر علاقوں میں بلا تعطل بجلی فراہم کرتا ہے اور غریب علاقوں کے مکینوں سے زیادتی کی جاتی ہے۔ کے الیکٹرک کو کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ سے 42 ارب روپے جبکہ سندھ حکومت سے مجموعی طور پر 50 ارب روپے لینے ہیں، کراچی الیکٹرک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت واجبات ادا کردے تو ہم بھی سوئی سدرن گیس کمپنی کو ادائیگی کر دیں گے۔
ارکان کی جانب سے کے الیکٹرک کو گیس کی فراہمی بند کرنے سے متعلق سوال کیئے جانے پر یونس ڈھاگا نے کہا کہ حکومت کے لیے کے الیکٹرک کو گیس فراہمی بند کرنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں، یہ فیصلہ سیاسی ہے۔ کمیٹی نے آڈیٹر جنرل کے ذریعے کے الیکٹرک کا آڈٹ ہونے تک سیکرٹری پانی و بجلی کو بجلی کی فروخت کا نیا معاہدہ کرنے سے روک دیا۔ کمیٹی نے سیکریٹری پانی و بجلی کو ہدایت دی کہ آڈٹ تک کے الیکٹرک کو ہر قسم کی ادائیگی بھی روک دی جائے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ اجلاس کے دوران کے الیکٹرک کے ذمہ سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ کے واجب الادا 65 ارب روپے کے معاملہ پر وضاحت کے لئے چیئرمین نیپرا پیش ہوئے، اس موقع پر آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ 5 سال کے دوران وفاق کی جانب سے کے الیکٹرک کو 250 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ جس پر خورشید شاہ نے کہا کہ پی اے سی اجلاس کے الیکٹرک کو حکومت سے سبسڈی ملتی ہے، اس کے باوجود کے الیکٹرک کے ذمہ ایس ایس جی سی کے 65 ارب روپے کے واجبات تشویش ناک ہیں۔
سیکرٹری پانی و بجلی یونس ڈھاگا نے کمیٹی کو بتایا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری کے وقت چیک اینڈ بیلنس کانظام وضع ہی نہیں کیا گیا، کے الیکٹرک امیر علاقوں میں بلا تعطل بجلی فراہم کرتا ہے اور غریب علاقوں کے مکینوں سے زیادتی کی جاتی ہے۔ کے الیکٹرک کو کراچی واٹر اینڈ سیورج بورڈ سے 42 ارب روپے جبکہ سندھ حکومت سے مجموعی طور پر 50 ارب روپے لینے ہیں، کراچی الیکٹرک انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت واجبات ادا کردے تو ہم بھی سوئی سدرن گیس کمپنی کو ادائیگی کر دیں گے۔
ارکان کی جانب سے کے الیکٹرک کو گیس کی فراہمی بند کرنے سے متعلق سوال کیئے جانے پر یونس ڈھاگا نے کہا کہ حکومت کے لیے کے الیکٹرک کو گیس فراہمی بند کرنے کا فیصلہ کرنا آسان نہیں، یہ فیصلہ سیاسی ہے۔ کمیٹی نے آڈیٹر جنرل کے ذریعے کے الیکٹرک کا آڈٹ ہونے تک سیکرٹری پانی و بجلی کو بجلی کی فروخت کا نیا معاہدہ کرنے سے روک دیا۔ کمیٹی نے سیکریٹری پانی و بجلی کو ہدایت دی کہ آڈٹ تک کے الیکٹرک کو ہر قسم کی ادائیگی بھی روک دی جائے۔