سائیں سرکار پریشان کریں تو کیا کریں

اس تنازعہ کے بعد جو لوگ فلم میں دلچسپی نہیں بھی رکھتے تھے وہ بھی مشاہدہ کرنے اب سینما گھروں کا رخ کریں گے۔

فلم پر پابندی لگنے سے متعلق فیصلے کے خلاف ویسے لوگوں کی تنقید غلط نہیں تھی کیونکہ فلم مالک سینسر بورڈ کی اجازت سے ہی ریلیز ہوئی ہے۔ فوٹو: فیس بک

گزشتہ روز اچانک ایک خبر نے اچانک سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر ہلچل مچادی، اور اِس ہلچل کی بنیادی وجہ وہ خبر تھی جس میں سندھ حکومت نے یہ حکم نامہ جاری کردیا تھا کہ پاکستانی فلم 'مالک' کی نمائش کو فوری طور پر روک دیا جائے۔ یہ حکم نامہ سندھ بورڈ آف فلم سنسر کی جانب سے ایک مراسلے کی صورت جاری ہوا۔



بس اس حکم نامے کے جاری ہونے کی دیر تھی کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر چند گھنٹوں میں شدید ردعمل دیکھنے کو ملا۔ کوئی فیصلے کی حمایت میں تلوار لیکر میدان میں کود پڑا تو کسی کا کہنا تھا کہ یہ اظہار رائے کی آزادی پر کاری ضرب ہے۔ حیرت انگیز طور پر جن افراد نے یہ فلم نہیں بھی دیکھی تھی انہوں نے پہلے ایسے لوگوں سے رابطہ شروع کیا جنہوں نے فلم دیکھی اور پھر فلم کے حوالے سے کچھ ابتدائی معلومات لیکر تنقید میں مصروف ہوگئے. لیکن یہ بات بہت واضح طور پر محسوس ہوئی کہ اکثریت نے اپنی توپ کا رخ سندھ حکومت کی جانب کردیا، جن کے حکم پر فلم پر پر پابندی عائد کی گئی تھی۔



اِس حقیقت سے شاید کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ فلم اور اس کا موضوع معاشرے پر بڑی تیزی سے اپنا اثر چھوڑتا ہے اور فلم مالک کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ فلم گزشتہ 3 ہفتوں سے سینما گھروں کی زینت بن ہوئی ہے، عوام نے فلم دیکھی، قصیدے بھی پڑھے، تنقید بھی کی۔ لیکن جس طرح یہاں کی حکومت سست ہے بالکل یہاں کا سینسر بورڈ بھی سست ہے کہ اُس کو 3 ہفتے بعد خیال آیا کہ فلم میں وزیراعلی کو منفی روپ میں دکھایا گیا ہے، اور جب یہ خیال آیا تو پھر سینسر بورڈ کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ فلم کی نمائش پر اس وقت تک پابندی لگی رہے گی جب تک فلم سے سائیں سرکار یعنی شاہ صاحب کے نام کو سینسر نا کردیا جائے.

اس فیصلے کے خلاف ویسے لوگوں کی تنقید غلط نہیں تھی کیونکہ فلم مالک سینسر بورڈ کی اجازت سے ہی ریلیز ہوئی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ ریلیز کرنے سے پہلے سینسر بورڈ نے تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہوگا، اگر اس کے باوجود یہ خامیاں نظر سے اوجھل ہوگئی ہے تو غلطی فلم بنانے والوں کی نہیں بلکہ فلم کی منظوری دینے والوں کی ہے۔



پھر یہ مان لیتے ہیں کہ سینسر بورڈ سے غلطی ہوگئی، لیکن سائیں سرکار کو پورے 3 ہفتے بعد یہ خیال آیا کہ اس فلم میں حکومت اور وزیراعلی کے خلاف ایسا مواد ہے جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مطلب ایک بار پھر یہ ثابت ہوا کہ سائیں سرکار کو دیر سے ہوش آتا ہے۔ چلیں اب تو جو فیصلہ کرنا تھا وہ کرلیا اور ضروری تھا کہ اپنے فیصلے پر سندھ حکومت قائم و دائم رہتی، لیکن عوامی دباو کے سامنے حکومت چند گھنٹے بھی نہ ٹک سکی کہ کچھ ہی گھنٹوں بعد سندھ بورڈ آف فلم سینسر کی جانب سے ایک اور مراسلہ جاری کیا گیا اور اپنے ہی دیئے گئے احکامات کو فوری طور پر واپس لینے کا اعلان کیا گیا۔




اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ معاملہ اس نہج تک پہنچا ہی کیوں؟

عاشر عظیم کی فلم مالک کو ملک بھر میں خوب پزیرائی ملی۔ عاشر عظیم بہرحال کسی تعارف کے محتاج نہیں کہ ڈرامہ سیریل 'دھواں' اُن کے کمالات بتانے کے لیے کافی ہے۔ فلم مالک میں موجود بہت سے مناظر کو لیکر بحث کا چھڑ جانا تو لازمی جز تھا لیکن سندھ بورڈ آف فلم سینسر کی کارکردگی پر سوالیہ نشان یہ اٹھتتا ہے کہ فلم کی ریلیز کے 3 ہفتوں تک کیا وہ سو رہا تھا؟ یا جانتے بوجھتے اس نے فلم کی یہ خامی نظر انداز کی اور 'دیکھا جائے گا' کی سوچ رکھتے ہوئے عوام کے ردعمل کا انتظار کیا؟



یقیناً دال میں کچھ کالا ہے۔ رواں سال اداکارہ ریشم کی فلم 'سوارنگیُ بھی اسی کشمکش کا شکار رہی تھی. فلم سینسر بورڈ نے سوارنگی میں منشیات کے استعمال اور غیر مناسب پکچرائزیشن کا اعتراض اٹھایا تھا. بعد ازاں فلم کو کلین چٹ تو ملی لیکن فلم کو چند اسکرینز ہی مل پائیں۔ جس کی وجہ سے فلم کا بزنس کرنا تو درکنار، شائقین کو معلوم ہی نا ہوا کہ فلم کب لگی اور کب اتر گئی۔

رہی بات فلم مالک کی تو اچانک اس کی تشہیر کو روک دیے جانے کا مراسلہ اور پھر اس کی واپسی نے شائقین کو تشویش میں ڈال دیا ہے۔ ذاتی خیال میں تو اِس کا اصل فائدہ فلم کو ہی ہوگا کیونکہ جو لوگ فلم میں دلچسپی نہیں بھی رکھتے تھے وہ بھی اب سینما گھروں کا رخ کریں گے، اور خود سے مشاہدہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ فلم ٹھیک تھی یا غلط۔

[poll id="1086"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھblog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story