اوگرا نے پبلک ٹرانسپورٹ کو گیس فراہم کرنے پر پابندی لگادی سی این جی ایسوسی ایشن کا دعویٰ
پبلک ٹرانسپورٹ کوگیس نہ دینے کانوٹس، 26 اسٹیشنز کو جرمانے کیے گئے، غیاث پراچہ
آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگر)ا نے سی این جی اسٹیشنز کیلیے پبلک ٹرانسپورٹ کو سی این جی فراہم کرنے پر پابندی عائد کردی ہے اور پبلک ٹرانسپورٹ کو گیس فراہم کرنے پر 26 سی این جی اسٹیشنز پر جرمانے عائد کردیے ہیں۔
آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کی سپریم کونسل کے مرکزی چیئرمین غیاث پراچہ نے جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اوگرا کی طرف سے تمام سی این جی اسٹیشنز کو شوکاز نوٹس موصول ہوئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سی این جی اسٹیشنز پبلک ٹرانسپورٹ کو سی این جی فراہم نہ کریں جبکہ 13نومبر کو 26سی این جی اسٹیشنز کو جرمانوں کے لیٹر موصول ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اوگرا اور وزارت پٹرولیم اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کیلیے سی این جی سیکٹر کو بدنام کررہی ہے اور سی این جی سیکٹر و عوام کو آپس میں لڑایا جارہا ہے۔
ایک سوال پر غیاث پراچہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد گیس لوڈ مینجمنٹ پلان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور اگر وزارت پٹرولیم گیس لوڈمینجمنٹ پلان متعارف کرائے گی تو یہ خلاف قانون ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی چاروں ہائی کورٹس نے گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کو غیر قانونی قرار دیدیا ہے اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس اگر تواتر کے ساتھ چلا تو آئندہ دو ماہ میں ملک سے گیس کا بحران ختم ہو جائیگا اور اگر سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس میں تمام پہلووں کا احاطہ کیا گیا تو بہت سے پوشیدہ حقائق منظر عام پر آئیں گے۔
غیاث پراچہ نے کہا کہ سی این جی سیکٹر اور عوام کو آپس میں لڑایا جارہا ہے اور سی این جی سیکٹر کو تباہ کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم کا جمعرات کو اسمبلی میں سی این جی سیکٹر کے خلاف بیان اور بڑی گاڑیوں کو گیس کی فراہمی سمیت دیگر معاملات کے بارے میں سی این جی سیکٹر کے خلاف اپنایاجانے والا منفی رویہ اسی سازش کا حصہ ہے جو سی این جی سیکٹر کے خلاف کی جارہی ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر سی این جی سمیت تمام شعبوں کیلیے گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کی شرح یکساں کردی جائے تو اس سے سی این جی قیمتوں میں مزید 13 روپے فی کلوگرام کمی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سی این جی پر عائد ٹیکس کم کرے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو آئندہ ماہ 600 سے 700 سی این جی اسٹیشنز بند ہو جائیں گے کیونکہ زیادہ دیر نقصان برداشت کرنا سی این جی اسٹیشنز مالکان کیلیے مشکل ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عاصم سی این جی کے خلاف پارٹی بننے کی بجائے تمام شعبوں کیلیے یکساں پالیسی اپنائیں اور صرف کسی ایک سیکٹر کے خلاف بیان بازی نہ کریں۔ انہوں نے اوگرا حکام کو متنبہ کیا کہ وہ وزارت پٹرولیم سے ہدایات لینا چھوڑ دیں اور ریگولیٹر کے طور پر آزادانہ کام کریں، اگر اوگرا درست کام کرنا شروع کردے تو 90 فیصد مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر عوام نے سی این جی سیکٹر کے خلاف کی جانے والی سازش کو نہ سمجھا اور اس سازش کو ناکام نہ بنایا تو عوام سستے اور ماحول دوست فیول سے محروم ہوجائیں گے۔ انہوں نے درخواست کی کہ میڈیا اس سازش کو ناکام بنانے کیلیے حقائق عوام تک پہنچائے، انڈسٹریز نے حکومت کے ساتھ معاہدہ کررکھا ہے جس کے تحت یکم دسمبر سے 28 فروری تک قانونی طور پر صنعتوں کو گیس کی فراہمی نہیں کی جاسکتی مگر اس میں بھی قانون کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سی این جی سیکٹر ملک کی مجموعی گیس کا صرف 6.8فیصد حصہ استعمال کرتا ہے لیکن سی این جی پر گیس انفراا سٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس 500فیصد عائد ہے اور اس سیس پر بھی ٹیکس عائد ہے مگر دوسری طرف وہ شعبے جو مجموعی گیس کا 28 فیصد تک استعمال کرتے ہیں اور گیس ضائع بھی زیادہ کرتے ہیں ان پر صرف 50 فیصد گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس عائد ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ اوگرا کی طرف سی این جی کو فراہم کیے جانے والے لائسنس کی شق نمبر 35 کے مطابق سی این جی سیکٹر گیس کی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں اور گیس کی قلت کی صورت میں اگر گیس بند کرنا پڑی تو سب سے پہلے سیمنٹ سیکٹر کی دوسرے نمبر پر تھرمل اور تیسرے نمبر پر فرٹیلائزر و چوتھے نمبر پر صنعت کی گیس بند کی جاسکتی ہے مگر یہاں الٹ ہورہا ہے، سب دبائو سی این جی پر ڈالا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی این جی سیکٹر صرف 290 ایم ایم سی ایف ڈی گیس استعمال کرتا ہے تو مجموعی گیس کا صرف 6.8 فیصد حصہ ہے جبکہ ٹیکس سب سے زیادہ شرح سے عائد ہے۔
آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کی سپریم کونسل کے مرکزی چیئرمین غیاث پراچہ نے جمعرات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اوگرا کی طرف سے تمام سی این جی اسٹیشنز کو شوکاز نوٹس موصول ہوئے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ سی این جی اسٹیشنز پبلک ٹرانسپورٹ کو سی این جی فراہم نہ کریں جبکہ 13نومبر کو 26سی این جی اسٹیشنز کو جرمانوں کے لیٹر موصول ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اوگرا اور وزارت پٹرولیم اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کیلیے سی این جی سیکٹر کو بدنام کررہی ہے اور سی این جی سیکٹر و عوام کو آپس میں لڑایا جارہا ہے۔
ایک سوال پر غیاث پراچہ نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد گیس لوڈ مینجمنٹ پلان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور اگر وزارت پٹرولیم گیس لوڈمینجمنٹ پلان متعارف کرائے گی تو یہ خلاف قانون ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی چاروں ہائی کورٹس نے گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کو غیر قانونی قرار دیدیا ہے اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس اگر تواتر کے ساتھ چلا تو آئندہ دو ماہ میں ملک سے گیس کا بحران ختم ہو جائیگا اور اگر سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس میں تمام پہلووں کا احاطہ کیا گیا تو بہت سے پوشیدہ حقائق منظر عام پر آئیں گے۔
غیاث پراچہ نے کہا کہ سی این جی سیکٹر اور عوام کو آپس میں لڑایا جارہا ہے اور سی این جی سیکٹر کو تباہ کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ مشیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم کا جمعرات کو اسمبلی میں سی این جی سیکٹر کے خلاف بیان اور بڑی گاڑیوں کو گیس کی فراہمی سمیت دیگر معاملات کے بارے میں سی این جی سیکٹر کے خلاف اپنایاجانے والا منفی رویہ اسی سازش کا حصہ ہے جو سی این جی سیکٹر کے خلاف کی جارہی ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر سی این جی سمیت تمام شعبوں کیلیے گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کی شرح یکساں کردی جائے تو اس سے سی این جی قیمتوں میں مزید 13 روپے فی کلوگرام کمی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت سی این جی پر عائد ٹیکس کم کرے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو آئندہ ماہ 600 سے 700 سی این جی اسٹیشنز بند ہو جائیں گے کیونکہ زیادہ دیر نقصان برداشت کرنا سی این جی اسٹیشنز مالکان کیلیے مشکل ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عاصم سی این جی کے خلاف پارٹی بننے کی بجائے تمام شعبوں کیلیے یکساں پالیسی اپنائیں اور صرف کسی ایک سیکٹر کے خلاف بیان بازی نہ کریں۔ انہوں نے اوگرا حکام کو متنبہ کیا کہ وہ وزارت پٹرولیم سے ہدایات لینا چھوڑ دیں اور ریگولیٹر کے طور پر آزادانہ کام کریں، اگر اوگرا درست کام کرنا شروع کردے تو 90 فیصد مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر عوام نے سی این جی سیکٹر کے خلاف کی جانے والی سازش کو نہ سمجھا اور اس سازش کو ناکام نہ بنایا تو عوام سستے اور ماحول دوست فیول سے محروم ہوجائیں گے۔ انہوں نے درخواست کی کہ میڈیا اس سازش کو ناکام بنانے کیلیے حقائق عوام تک پہنچائے، انڈسٹریز نے حکومت کے ساتھ معاہدہ کررکھا ہے جس کے تحت یکم دسمبر سے 28 فروری تک قانونی طور پر صنعتوں کو گیس کی فراہمی نہیں کی جاسکتی مگر اس میں بھی قانون کی خلاف ورزی کی جاتی ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے کہ سی این جی سیکٹر ملک کی مجموعی گیس کا صرف 6.8فیصد حصہ استعمال کرتا ہے لیکن سی این جی پر گیس انفراا سٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس 500فیصد عائد ہے اور اس سیس پر بھی ٹیکس عائد ہے مگر دوسری طرف وہ شعبے جو مجموعی گیس کا 28 فیصد تک استعمال کرتے ہیں اور گیس ضائع بھی زیادہ کرتے ہیں ان پر صرف 50 فیصد گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس عائد ہے۔
ایک سوال پر انہوں نے بتایا کہ اوگرا کی طرف سی این جی کو فراہم کیے جانے والے لائسنس کی شق نمبر 35 کے مطابق سی این جی سیکٹر گیس کی لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں اور گیس کی قلت کی صورت میں اگر گیس بند کرنا پڑی تو سب سے پہلے سیمنٹ سیکٹر کی دوسرے نمبر پر تھرمل اور تیسرے نمبر پر فرٹیلائزر و چوتھے نمبر پر صنعت کی گیس بند کی جاسکتی ہے مگر یہاں الٹ ہورہا ہے، سب دبائو سی این جی پر ڈالا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی این جی سیکٹر صرف 290 ایم ایم سی ایف ڈی گیس استعمال کرتا ہے تو مجموعی گیس کا صرف 6.8 فیصد حصہ ہے جبکہ ٹیکس سب سے زیادہ شرح سے عائد ہے۔