تین جلسے ایک جلوس

کراچی میں آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی، آج بھی لیاقت آباد 10 نمبر میں قبریں اس کی گواہی دے رہی ہیں

anisbaqar@hotmail.com

اس بار ایک ایسا اتوار ملک میں آیا جب ملک بھر کے تین بڑے شہروں میں یعنی کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں تین اہم جلسے اور کراچی میں ایک جلوس منعقد ہوا۔ جلوس روایتی تھا، جس میں کارکنوں کے غائب کیے جانے کا معاملہ جب کہ لاہور اور اسلام آباد کے جلسے مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج تھے اور کراچی کا جلسہ اہمیت کا حامل تھا، جس میں مصطفیٰ کمال کی پورے ماہ کی کاوشوں کا نچوڑ تھا، لہٰذا پہلے لاہور پھر اسلام آباد اور آخر میں تفصیلی جائزہ پاک سرزمین پارٹی کا لیا جائے گا۔

لاہور میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے نہایت پرزور انداز میں تقریر کی اور انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سخت کلمات اختیار کیے اور فرمایا جب مزدور اور کسان کسی نظام کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں تو وہ نظام زندہ نہیں رہ سکتا۔ انھوں نے پانامہ لیکس بحران میں نواز شریف اور ان کے صاحبزادگان کو مجرم قرار دیا۔ بہرصورت اس سخت گوئی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں نواز شریف حکومت کو سخت صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا، ان کو ایک جانب تو جماعت اسلامی کی منظم تحریک، جلسے اور جلوسوں کا سامنا ہو گا دوسری جانب عمران خان کی سخت گیر مہم جوئی کے امکانات ہیں۔

جماعت اسلامی نے یکم مئی کی تاریخی جدوجہد کے دن سے آغاز کا اعلان چنا۔ گزشتہ برس مولانا سراج الحق نے قلیوں کے ساتھ سرخ لباس زیب تن کیے ہوئے مزدوروں میں یکم مئی کے دن کو منایا تھا جب کہ اس بار انھوں نے پورے طور سے یوم مئی سے ابتدا کا اعلان کیا ہے۔ سراج الحق صاحب نے پارٹی کے خدوخال بدل ڈالے ہیں، وہ وڈیرہ شاہی کے زبردست مخالف بن کے سامنے آ رہے ہیں، بس فرق یہ ہے کہ وہ قلیوں میں تو گھس پڑے ہیں اور مزدور یونینوں میں بھی کام کر رہے ہیں مگر کسان کمیٹیوں میں جماعت اسلامی نے کام نہیں کیا ہے اور نہ ان کے مسائل کو زیر غور رکھا۔ بہرحال جس قدر بھی وہ دکھ رہے ہیں اہمیت کے حامل ہیں، مزدوروں میں جس قدر کام کرنا تھا وہ بھی غور و فکر سے نہیں کر رہے ہیں۔

گزشتہ چند برسوں میں سپراسٹور نامی ادارے سامنے آئے ہیں، ان اسٹوروں کے اوقات کار صبح 9 بجے سے رات گیارہ بجے تک ہیں، اوقات کا نہ کوئی ٹھکانہ ہے اور نہ سالانہ چھٹیوں کا کوئی حساب کتاب ہے، سال بھر میں کل 3 یا 4 چھٹیاں ہیں لیکن کسی رہنما کی نگاہ ادھر نہیں حالانکہ خود خریداری وہیں سے کرتے ہیں۔ عمران خان تو واقعی اہم مخالف سیاسی لیڈر ہیں۔ گو بظاہر خورشید شاہ ہی قانونی طور پر حزب مخالف کے سرکردہ لیڈر ہیں جن کو عمران خان فرینڈلی اپوزیشن کہتے تھے مگر اب وہ رفتہ رفتہ نگاہ ہٹا رہے ہیں اور وہ خود کو پی پی پی کی طرف بہتر انداز میں نگاہ کر رہے ہیں اور حکمت عملی بدل رہے ہیں۔ وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ پی پی کو اگر ملا لیں گے تو بہتر ہو گا، تو (ن) لیگ کو آسانی سے گرا لیں گے اور جب (ن) لیگ گر جائے گی تو پیپلز پارٹی کسی مقام پر کھڑی نہ رہے گی۔

اس لیے یوم تاسیس کے بعد انھوں نے سندھ کا دورہ شروع کر دیا، مگر ہر تقریر میں وہ کہتے رہتے ہیں کہ وہ اگر سیاست میں آئے ہیں تو عوام پر احسان کر رہے ہیں، ورنہ ان کے پاس کھانے پینے کی ہر چیز تھی۔ ایسا ہرگز نہیں۔ عمران خان ایک مالدار کرکٹر ہی تو تھے کوئی لیڈر تو نہ تھے۔ خود کو اسوہ حسنہ کے پیروکار کہتے ہیں، آج تک حضور نے کہیں یہ نہ کہا کہ انھوں نے مسلمانوں کی خدمت کی اور احسان کیا ہے۔


درحقیقت عمران خان سیاست میں اگر نہ آتے تو کیا شوکت خانم کا مالک ہمارے حکمران کو چیلنج کر سکتا تھا؟ ہرگز نہیں۔ درحقیقت عمران خان نے سیاست میں داخل ہو کر اپنا معیار اور مستقبل کو بلند اور نمایاں کیا ہے۔ یقیناً عمران خان خدشات کی گیندوں سے کھیلتے ہیں، سیاسی راہ پر چل کر عمران خان نے اپنی شخصیت کی بلندی میں اضافہ کیا ورنہ دنیا میں کس قدر کرکٹر آئے اور چلے گئے، مگر سیاست کی اور کرکٹ کو ملا کر اپنی حیثیت میں کئی گنا اضافہ کیا اور ہر جلسے میں عمران خان عوام کو اپنے احسان تلے دباتے ہیں، یہ روش ان کو چھوڑنی ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان کا وجود یقیناً ایک حقیقی حزب مخالف کی پہچان ہے جب کہ پی پی پی فرینڈلی اپوزیشن ہی کہلائے گی۔

اب بات رہی پاک سرزمین پارٹی کی تو تمام باتیں مصطفیٰ کمال کی غلط نہ تھیں، مانا کہ کچھ باتیں ان میں نمایاں نہ تھیں۔ اس وقت ایک اہم پہلو جو زیر غور ہے کہ قیام پاکستان کے فوری بعد مہاجر خود اپنے آپ سے بھارت سے آئے ہوئے لوگ خود کو نہ کہتے تھے بلکہ کوئی پوچھتا تھا کہ آپ کون ہیں تو لوگ خود کو ہندوستانی کہتے تھے اور سندھ کے کم پڑھے لکھے لوگ ان کو پناہ گیر کہتے تھے۔

یہ بات قیام پاکستان کے ابتدائی دور کی تھی، بعد میں لوگ وضع قطع دیکھ کر یا بات چیت سے سمجھ لیتے تھے کہ مدمقابل کون ہے۔ مگر مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد اردو اسپیکنگ کے خلاف دوبارہ آمد سے جام شورو میں 'بہارین نہ کھپن' کا شوروغل مچایا گیا اور ممتاز بھٹو نے سندھ کا وزیراعلیٰ بننے کے بعد جو کیا، اس نے مہاجر فیکٹر کو تقویت پہنچائی۔ اس زمانے میں اردو کا ایک روزنامہ ہوتا تھا جس میں رئیس امرہوی کا ایک مصرعہ ہیڈ لائن تھا کہ ''اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے''۔

کراچی میں آگ و خون کی ہولی کھیلی گئی، آج بھی لیاقت آباد 10 نمبر میں قبریں اس کی گواہی دے رہی ہیں، حالانکہ کراچی میں سندھی مہاجر تصادم کبھی نہ تھا، مگر بعد میں حکومتی دانشمندی سے سندھی مہاجر تصادم ختم ہو گیا، جو بڑھتے بڑھتے ایک مخالف سیاسی شکل اختیار کر گیا، جس کا دہرایا جانا مناسب نہیں کہ ایم کیو ایم کیونکر معرض وجود میں آئی اور ملک کی تیسری بڑی جماعت بن گئی۔ مگر اتنی بڑی جماعت کو سنبھالنا آسان نہ ہوا۔ ایک عجیب اتفاق تھا کہ یہ جماعت مختلف قوتوں سے متصادم رہی، سب سے پہلے پٹھان مہاجر اور اس سے پہلے حقیقی اور مجازی لانڈھی کورنگی کی معرکہ آرائی رہی، مختلف معرکہ آرائیوں سے ایم کیو ایم گزری، جس کی وجہ سے تصادم کے مختلف آزادانہ گروہوں کا وجود پیدا ہو گیا۔

لیاری میں گینگ وار کا شروع ہونا ایک قسم کی طوائف الملوکی شروع ہوئی، لوگ گھروں سے محروم پھر جوابی در جوابی کارروائی، جس نے کراچی کو ایک پرآشوب رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا۔ اس سے نسلی تصادم شروع ہوا اور شہر کے تمام لوگ اپنی زندگی سے پریشان ہو گئے۔ پورا شہر قتل و غارت گری کا منظر پیش کرنے لگا۔ شہر کی ہول سیل مارکیٹ، میریٹ روڈ، جونا مارکیٹ، میٹھادر آنے جانے اور رہنے کا علاقہ محفوظ نہ رہا۔ فلیٹ خالی ہوتے گئے، نقل مکانی ہوتی گئی۔ جو جس حیثیت کا تھا وہ وہاں دوڑا۔ لوگ کلفٹن، ڈیفنس میں آنا شروع ہوئے جو نسبتاً کم حیثیت تھے وہ دہلی کالونی۔ کینٹ کے علاقے میں 10x10 کے 2 کمرے 60 اور 80 گز کے فلیٹ 12 ہزار روپے میں اٹھنے لگے۔

1947ء اور 1948ء کے رہائش پذیر لوگ دربدر ہوئے، پورا شہر ایک جہنم ایک آفت نگر بن گیا کیونکہ کراچی امپورٹ اور ایکسپورٹ کا سمندر ہے، اس کو ڈینٹ (Dent) لگ گیا۔ ویسے ہی سیاسی طور پر یہاں مختلف بدنظمیاں، پھر ہر روز کی مشکلات نے ملک کو کنگال کر دیا۔ کراچی کی پیداواری صلاحیت کو گھن لگا دیا گیا۔ آخر کار فوج کو لسانی تصادم کو روکنا تھا۔ بھتہ خوری، قتل، ڈاکہ، لوٹ مار، اغوا نے صورتحال کو بدل ڈالا اور فوجی مداخلت سے خاصا امن قائم ہوا۔ اب لوگ لیاری کو واپس گئے جو خوف میں مکان کم نرخوں میں فروخت کر گئے وہ غریب دربدر ہوئے مگر پھر بھی غریبوں کی زندگی میں ایک سکون تو آیا، اور ملک میں سیاسی سکون لوٹ آیا۔ ایسا سکون ایک ایسا اتوار جس سے ایک روز میں چار سیاسی کارروائیاں نمایاں کیں۔
Load Next Story