حکومت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ
پانامہ لیکس ایشو پر نوازشریف حکومت بحران کا شکار تو ہے؛ لیکن اس بحران کے پیچھے جو حقیقی بحران حکومت دیکھ رہی ہے.
پانامہ لیکس ایشو پر نوازشریف حکومت بحران کا شکار تو ہے؛ لیکن اس بحران کے پیچھے جو حقیقی بحران حکومت دیکھ رہی ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ گہرا بھی ہے اور سنگین بھی ہے۔ وہ بحران یہ ہے کہ 2014 ء میں دھرنا تحریک کے دوران امریکا اور مغرب جس طرح حکومت کے ساتھ کھڑے تھے، پانامہ لیکس ایشو پر اس طرح کھڑے نظر نہیں آتے ہیں، بلکہ امریکی اور مغربی میڈیا میں کوئی ایسی 'فرینڈلی رپورٹ' بھی نہیں آ رہی، جو حکومت کے لیے تقویت کا باعث بن سکے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان john kirbyکی جانب سے جاری ہونے والا بیان بھی بڑا معنی خیز ہے۔
جب ان سے کسی نے دریافت کہ کیا پانامہ لیکس پر وزیراعظم پاکستان کو مستعفی ہو جانا چاہیے؟ تو انھوں نے یہ کہہ کے بال پاکستانی عوام کی کورٹ میں پھینک دی کہ 'یہ فیصلہ پاکستان کے عوام ہی کریں تو بہتر ہے، تاہم امریکا کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ کرپشن سے عالمی سطح پر دہشت گردی کو بھی فروغ ملتا ہے، لہٰذا امریکا ہر دو کو سنجیدگی سے دیکھتا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کرپشن اور دہشت گردی کے جس گٹھ جوڑ پر تشویش ظاہر کی، حیرت انگیز طور پر وہ جنرل راحیل شریف کے اس خطاب میں بھی محسوس کی جا سکتی ہے، جو چند روز پہلے انھوں نے کیا ہے، اور جس کے بعد کرپشن میں ملوث کئی حاضر سروس فوجی افسر فارغٖ کر دیے گئے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کا یہ ردعمل اس ردعمل سے مختلف ہے، جو اس نے دھرنا تحریک کے دوران میں ظاہر کیا تھا۔ تب اس کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان میں 'جمہوریت' کا تسلسل دیکھنا چاہتا ہے، اور کسی ''غیر آئینی تبدیلی'' کی حمایت نہیں کرے گا۔ یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس بیان میں 'جمہوریت' سے امریکا کی مراد کیا تھی اور 'غیر آئینی تبدیلی' کی حمایت نہ کرنے کا کہہ کر وہ کس کو پیغام دے رہا تھا۔
پھر اس دھرنا تحریک کے دوران، جن لوگوں کا اسلام آباد کے سفارتی حلقوں سے کچھ بھی رابطہ تھا، ان کو معلوم تھا کہ امریکا اور مغرب نوازشریف حکومت کے خلاف دھرنا تحریک کو 'جمہوریت' کے خلاف 'سازش' سمجھتے ہیں، اور یہ تسلیم کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں تھے کہ پردہ زنگاری کے پیچھے کوئی اور نہیں ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے خلاف پانامہ لیکس کو پاکستان میں کسی حکومت مخالف پارٹی سے منسوب کرنا ممکن نہیں ہے۔ امریکا کے نزدیک پانامہ لیکس کی جو قانونی اور اخلاقی اہمیت ہے، یہ اندازہ کرنے کے لیے اس کا یہی ایک اقدام کافی ہے کہ اگرچہ سردست پانامہ لیکس میں امریکا کے کسی نامی گرامی سیاست دان کا نام نہیں، اس کے باوجود امریکا کے محکمہ انصاف نے اس امر کی تحقیقات شروع کر دی ہیں کہ کون سی امریکی شخصیات اور کمپنیاں آف شور دھندے میں ملوث ہیں۔ لیکن، یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ پانامہ لیکس ایشو پر نوازشریف حکومت اگر امریکا کی سردمہری کا شکار ہے، تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی حلقوں میں یہ تاثر اب پوری طرح قائم ہو چکا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نوازشریف حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنے تازہ بیان میں کرپشن اور دہشت گردی کے جس گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ اشارہ جنرل راحیل شریف کے اس خطاب میں بھی موجود ہے، جو چند روز پہلے منظر عام پر آیا تھا، اور جس کے بعد کئی حاضر سروس فوجی افسر فارغٖ کر دیے گئے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں امریکی حکومت اور رائے عامہ نوازشریف حکومت کو کس طرح دیکھتی ہے، پچھلے چند مہینوں کے دوران اس کے کئی شواہد سامنے آ چکے ہیں۔
اکتوبر 2015ء کے آخر میں نوازشریف امریکا کے دورہ پر گئے۔ ان کے ہمراہ ان کی پوری ٹیم تھی، وزیرخزانہ اسحاق ڈار، وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان، وزیردفاع خواجہ آصف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز۔ لیکن عین اس روز جب وزیراعظم وہائٹ ہاوس میں امریکی صدر سے مل رہے تھے، امریکا کے انتہائی معتبر جریدے 'وال اسٹریٹ جرنل' میں جو رپورٹ شایع ہوئی، اس کے مندرجات حکومت کے لیے کسی وارننگ سے کم نہیں تھے۔ رپورٹ کے مطابق، 'نوازشریف اوباما ملاقات اپنی جگہ، لیکن پاکستان سے متعلق امریکی انتظامیہ کو جن امور میں واقعی دل چسپی ہے، ان پر حقیقی بات چیت اگلے ماہ وسط نومبر میں ہو گی، جب پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف امریکی دورے پر آئیں گے۔' نوازشریف حکومت نے مگر اس ملفوف پیغام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، جو سمجھ سے باہر ہے۔
نومبر کے وسط میں جنرل راحیل شریف امریکی دورے پر گئے۔ لیکن اس سے پہلے کورکمانڈرز کانفرنس طلب کی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر آئی ایس پی آر کی طرف سے جو پریس ریلیز جاری کیا گیا، اس میں بغیر کسی ابہام کے حکومت کو پیغام دیا گیا کہ 'دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے ضمن میں فوج اور قوم نے اپنی ذمے داری پوری کی ہے، مگر حکومت اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہی ہے، اور حکومت کی جانب سے 'گڈ گورننس' پر توجہ نہ دینے کی صورت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج اور قوم کی قربانیاں رائیگاں جا سکتی ہیں۔' یاد رہے کہ ہر دوسرے یا تیسرے ہفتے میں دنیا کے کسی نہ کسی ملک کا فوجی سربراہ واشنگٹن کا مہمان ہوتا ہے۔
عام طور پر یہ فوجی سربراہ اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ کم، بہت ہی کم ہوتے ہیں، جن کی سیکریٹری آف ڈیفنس سے بھی ملاقات کرا دی جاتی ہے۔ ایسا شاذ ہی ہوا ہے کہ غیر ملکی فوجی سربراہ کی امریکا کے انتہائی اہم اور چوٹی کے سیاسی، دفاعی اور فوجی عہدے داروں سے ملاقات کرائی جائے، بلکہ سینیٹ کی ڈیفنس اور نیشنل سیکیورٹی کی کمیٹیوں سے خطاب کا موقع بھی دیا جائے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس دورے کے دوران ہر سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جنرل راحیل شریف کی کمانڈ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ نائب صدر اور سیکریٹری خارجہ نے باقاعدہ ان کا شکریہ ادا کیا، اور یقین دہانی کرائی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس طرح کی مدد بھی ان کو درکار ہو گی، مہیا کی جائے گی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں کامیابی اس خطے میں امریکا کی دلچسپی کا مرکز و محور ہے۔ اس کے سوا فی الحال اس کو کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کی ownership جس جرات کے ساتھ قبول کی ہے، امریکا کو اس کا اعتراف ہے۔ امریکی ذرایع ابلاغ کی رپورٹوں کا سرسری سا جائزہ بھی یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ امریکی انتظامیہ کے نزدیک دہشت گردی کے خلاف پاکستان میں جو جنگ لڑی جا رہی ہے، وہ فوج لڑ رہی ہے۔
امریکی انتظامیہ کے اس تاثر کے جو سیاسی مضمرات تھے، اسکو نظر انداز کرنا حکومت کے لیے یقیناً مشکل تھا۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس نے سنجیدگی کا ثبوت نہ دیا۔ ملک کے باشعور حلقوں کی جانب سے باربار کہا جا رہا تھا کہ دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن کی ضرورت ہے۔ حکومت مگر لیت و لعل کرتی رہی۔ لاہور گلشن اقبال پارک میں80 شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، تب کہیں جا کے پنجاب میں آپریشن شروع ہو سکا۔ اس پس منظر میں حکومت کے بارے میں امریکا کی موجودہ سرد مہری سمجھ میں آتی ہے، جو اس کے لیے حقیقی بحران ہے اور جس میں سرخرو ہونا ظاہراً مشکل نظر آتا ہے۔ شاعر نے کہا تھا،
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ بنے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے
جب ان سے کسی نے دریافت کہ کیا پانامہ لیکس پر وزیراعظم پاکستان کو مستعفی ہو جانا چاہیے؟ تو انھوں نے یہ کہہ کے بال پاکستانی عوام کی کورٹ میں پھینک دی کہ 'یہ فیصلہ پاکستان کے عوام ہی کریں تو بہتر ہے، تاہم امریکا کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ کرپشن سے عالمی سطح پر دہشت گردی کو بھی فروغ ملتا ہے، لہٰذا امریکا ہر دو کو سنجیدگی سے دیکھتا ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کرپشن اور دہشت گردی کے جس گٹھ جوڑ پر تشویش ظاہر کی، حیرت انگیز طور پر وہ جنرل راحیل شریف کے اس خطاب میں بھی محسوس کی جا سکتی ہے، جو چند روز پہلے انھوں نے کیا ہے، اور جس کے بعد کرپشن میں ملوث کئی حاضر سروس فوجی افسر فارغٖ کر دیے گئے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کا یہ ردعمل اس ردعمل سے مختلف ہے، جو اس نے دھرنا تحریک کے دوران میں ظاہر کیا تھا۔ تب اس کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان میں 'جمہوریت' کا تسلسل دیکھنا چاہتا ہے، اور کسی ''غیر آئینی تبدیلی'' کی حمایت نہیں کرے گا۔ یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس بیان میں 'جمہوریت' سے امریکا کی مراد کیا تھی اور 'غیر آئینی تبدیلی' کی حمایت نہ کرنے کا کہہ کر وہ کس کو پیغام دے رہا تھا۔
پھر اس دھرنا تحریک کے دوران، جن لوگوں کا اسلام آباد کے سفارتی حلقوں سے کچھ بھی رابطہ تھا، ان کو معلوم تھا کہ امریکا اور مغرب نوازشریف حکومت کے خلاف دھرنا تحریک کو 'جمہوریت' کے خلاف 'سازش' سمجھتے ہیں، اور یہ تسلیم کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں تھے کہ پردہ زنگاری کے پیچھے کوئی اور نہیں ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے خلاف پانامہ لیکس کو پاکستان میں کسی حکومت مخالف پارٹی سے منسوب کرنا ممکن نہیں ہے۔ امریکا کے نزدیک پانامہ لیکس کی جو قانونی اور اخلاقی اہمیت ہے، یہ اندازہ کرنے کے لیے اس کا یہی ایک اقدام کافی ہے کہ اگرچہ سردست پانامہ لیکس میں امریکا کے کسی نامی گرامی سیاست دان کا نام نہیں، اس کے باوجود امریکا کے محکمہ انصاف نے اس امر کی تحقیقات شروع کر دی ہیں کہ کون سی امریکی شخصیات اور کمپنیاں آف شور دھندے میں ملوث ہیں۔ لیکن، یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ پانامہ لیکس ایشو پر نوازشریف حکومت اگر امریکا کی سردمہری کا شکار ہے، تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی حلقوں میں یہ تاثر اب پوری طرح قائم ہو چکا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں نوازشریف حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنے تازہ بیان میں کرپشن اور دہشت گردی کے جس گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ اشارہ جنرل راحیل شریف کے اس خطاب میں بھی موجود ہے، جو چند روز پہلے منظر عام پر آیا تھا، اور جس کے بعد کئی حاضر سروس فوجی افسر فارغٖ کر دیے گئے تھے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں امریکی حکومت اور رائے عامہ نوازشریف حکومت کو کس طرح دیکھتی ہے، پچھلے چند مہینوں کے دوران اس کے کئی شواہد سامنے آ چکے ہیں۔
اکتوبر 2015ء کے آخر میں نوازشریف امریکا کے دورہ پر گئے۔ ان کے ہمراہ ان کی پوری ٹیم تھی، وزیرخزانہ اسحاق ڈار، وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان، وزیردفاع خواجہ آصف اور مشیر خارجہ سرتاج عزیز۔ لیکن عین اس روز جب وزیراعظم وہائٹ ہاوس میں امریکی صدر سے مل رہے تھے، امریکا کے انتہائی معتبر جریدے 'وال اسٹریٹ جرنل' میں جو رپورٹ شایع ہوئی، اس کے مندرجات حکومت کے لیے کسی وارننگ سے کم نہیں تھے۔ رپورٹ کے مطابق، 'نوازشریف اوباما ملاقات اپنی جگہ، لیکن پاکستان سے متعلق امریکی انتظامیہ کو جن امور میں واقعی دل چسپی ہے، ان پر حقیقی بات چیت اگلے ماہ وسط نومبر میں ہو گی، جب پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف امریکی دورے پر آئیں گے۔' نوازشریف حکومت نے مگر اس ملفوف پیغام کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، جو سمجھ سے باہر ہے۔
نومبر کے وسط میں جنرل راحیل شریف امریکی دورے پر گئے۔ لیکن اس سے پہلے کورکمانڈرز کانفرنس طلب کی۔ اس کانفرنس کے اختتام پر آئی ایس پی آر کی طرف سے جو پریس ریلیز جاری کیا گیا، اس میں بغیر کسی ابہام کے حکومت کو پیغام دیا گیا کہ 'دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کے ضمن میں فوج اور قوم نے اپنی ذمے داری پوری کی ہے، مگر حکومت اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہی ہے، اور حکومت کی جانب سے 'گڈ گورننس' پر توجہ نہ دینے کی صورت میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج اور قوم کی قربانیاں رائیگاں جا سکتی ہیں۔' یاد رہے کہ ہر دوسرے یا تیسرے ہفتے میں دنیا کے کسی نہ کسی ملک کا فوجی سربراہ واشنگٹن کا مہمان ہوتا ہے۔
عام طور پر یہ فوجی سربراہ اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کر کے واپس چلے جاتے ہیں۔ کم، بہت ہی کم ہوتے ہیں، جن کی سیکریٹری آف ڈیفنس سے بھی ملاقات کرا دی جاتی ہے۔ ایسا شاذ ہی ہوا ہے کہ غیر ملکی فوجی سربراہ کی امریکا کے انتہائی اہم اور چوٹی کے سیاسی، دفاعی اور فوجی عہدے داروں سے ملاقات کرائی جائے، بلکہ سینیٹ کی ڈیفنس اور نیشنل سیکیورٹی کی کمیٹیوں سے خطاب کا موقع بھی دیا جائے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس دورے کے دوران ہر سطح پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جنرل راحیل شریف کی کمانڈ کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ نائب صدر اور سیکریٹری خارجہ نے باقاعدہ ان کا شکریہ ادا کیا، اور یقین دہانی کرائی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جس طرح کی مدد بھی ان کو درکار ہو گی، مہیا کی جائے گی۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ اور اس میں کامیابی اس خطے میں امریکا کی دلچسپی کا مرکز و محور ہے۔ اس کے سوا فی الحال اس کو کچھ سجھائی نہیں دیتا ہے۔ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کی ownership جس جرات کے ساتھ قبول کی ہے، امریکا کو اس کا اعتراف ہے۔ امریکی ذرایع ابلاغ کی رپورٹوں کا سرسری سا جائزہ بھی یہ جاننے کے لیے کافی ہے کہ امریکی انتظامیہ کے نزدیک دہشت گردی کے خلاف پاکستان میں جو جنگ لڑی جا رہی ہے، وہ فوج لڑ رہی ہے۔
امریکی انتظامیہ کے اس تاثر کے جو سیاسی مضمرات تھے، اسکو نظر انداز کرنا حکومت کے لیے یقیناً مشکل تھا۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس نے سنجیدگی کا ثبوت نہ دیا۔ ملک کے باشعور حلقوں کی جانب سے باربار کہا جا رہا تھا کہ دوسرے صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشن کی ضرورت ہے۔ حکومت مگر لیت و لعل کرتی رہی۔ لاہور گلشن اقبال پارک میں80 شہری دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے، تب کہیں جا کے پنجاب میں آپریشن شروع ہو سکا۔ اس پس منظر میں حکومت کے بارے میں امریکا کی موجودہ سرد مہری سمجھ میں آتی ہے، جو اس کے لیے حقیقی بحران ہے اور جس میں سرخرو ہونا ظاہراً مشکل نظر آتا ہے۔ شاعر نے کہا تھا،
بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اٹھائے نہ بنے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے