غریب خاکروب کی موت
باپ کوڑا اکٹھا کرتا ہے، بیٹا جھاڑو لگاتا ہے اور بیٹی گھروں میں جا کر کچرا لاتی ہے۔
ISLAMABAD:
پیر کی صبح آمینہ جب گھر کا کوڑا لینے آئی تو سب سے پہلے بتایا کہ 'ابا مرگیا'۔ دس سال کی افغان بچی جس کی عمر پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کی ہے، وہ اپنے والد اور بھائی کے ساتھ کوڑا جمع کرنے کے کام میں لگی رہتی ہے۔ صبح سویرے ہی باپ اور بھائی کے ساتھ گھروں سے کوڑا جمع کرنے میں لگ جاتی ہے۔ اس کے باپ نے ایک گدھا گاڑی لے رکھی ہے، جس پر کوڑا جمع کرتا ہے۔
باپ کوڑا اکٹھا کرتا ہے، بیٹا جھاڑو لگاتا ہے اور بیٹی گھروں میں جا کر کچرا لاتی ہے۔ باپ لال جان لگ بھگ پچاس سال کا ہوگا، بیٹا بیس سال کا اور بیٹی دس سال کی۔ یہ خاندان افغانی ہے۔ افغانستان میں ملاؤں کی آپس کی جھڑپوں اور ڈالر جہاد کے بعد تقریباً پچاس لاکھ افغان مہاجرین بنے، جن میں تیس لاکھ پاکستان میں اور بیس لاکھ ایران میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ آمینہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے، جو اپنے خاندان کے ساتھ قندوز سے ہزاروں میل طے کرکے کراچی پہنچی۔
کراچی میں پہلے پٹھان پنجابی خاکروب کا کام نہیں کرتے تھے، مگر بے روزگاری میں تیز تر اضافے کے باعث کراچی میں سرائیکی اور پشتون خاکروبوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آمینہ جب یہ بتا رہی تھی کہ 'ابا مرگیا' تو اس کے چہرے پہ غم تھا نہ کرب و بکا کی جھلک اور نہ حیرانی، آہ و پکار تھی اور نہ آنکھوں میں آنسو۔ بس اتنا بولی کہ 'ابامرگیا'۔
جب پوچھا کہ کب مرا، تو کہنے لگی جمعے کو۔ ہم نے کہا کہ اسی لیے جمعہ کو تم نہیں آئیں۔ جواب میں بولی جی انکل۔ کیسے کہاں اور کس طرح مرا، کچھ ٹھیک سے بتا نہیں پا رہی تھی، اس لیے کہ وہ اردو ٹھیک سے بول نہیں پاتی۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں جو کچھ بتایا اس سے ہم یہ سمجھ گئے کہ آمینہ کا باپ ٹرین سے ٹکرا گیا اور جان سے جاتا رہا۔ کوئی خبر ٹی وی پر نشر ہوئی اور نہ اخبار میں چھپی، یہاں تک کہ ٹی وی پرکوئی پٹی بھی نہیں چلی۔ اس لیے کہ وہ خاکروب تھا، معزز شہری تو تھا نہیں۔
جالب نے ایسے ہی لوگوں کے لیے درست کہا تھا کہ 'اوجھڑی میں لوگ مرے تو مرگئے، جتنے ڈاکو مرے، چنگیز مرے، ہلاکو مرے شہید ہوئے'۔ کوئی مرتا ہے تو تدفین کے علاوہ سوئم، چہلم وغیرہ ہوتے ہیں، لوگوں کو بلا کر کھانا کھلایا جاتا ہے، بین ہوتا ہے، تعزیت کی جاتی ہے، بیان آتا ہے اور کئی دن تک گھر میں کھانا نہیں پکتا، پڑوسیوں کے گھر سے کھانا آتا ہے۔ مگر آمینہ کا ابا تو خاکروب تھا۔ گھر تھا، دوار تھا اور نہ کوئی ملکیت۔ بس کسی جھگی میں کرایے پر اپنے خاندان کے ساتھ پڑا رہتا تھا۔ زندگی ایک زندہ لاش کی طرح گزر رہی تھی۔
صرف دو ایک دن کے وقفے کے بعد بیٹا علاؤالدین اور بیٹی آمینہ پھر جھاڑو اور ٹوکری لے کر کوڑا بٹورنے نکل پڑے۔ باپ کے مرنے کا غم تو ہوگا لیکن پیٹ کی بھوک بھی تو ہے؟ مرتے سب ہیں لیکن بیان نہ تشریح، نہ تعزیتی اجتماع اور نہ ہی سوئم کا کھانا۔ ان بے چاروں کو دو وقت کی روٹی مل جائے تو بڑی بات ہے۔
کہاں کا کھانا اور کہاں کی تعزیت۔ آمینہ کبھی بھی کوئی کھانے کی چیز مانگ کر نہیں کھاتی تھی، بلکہ جب ہم زبردستی کچھ کھانے کی چیز دیتے تھے تو وہ کہتی تھی کہ شاپر میں دے دو اور وہ اکثر جاتے وقت لے جانا بھول جاتی تھی، مگر جس روز باپ کے مرنے کی خبر بتا رہی تھی تو اس دن ساتھ ساتھ یہ بھی بول پڑی کہ کوئی چیز دو، کھانے کو دو۔ ٹیبل پر کیلے پڑے تھے، ہم نے پیش کیے تو فوراً اس نے لے کر کھانا شروع کردیا۔ اس دس سالہ بچی کو یہ پتہ ہی نہیں کہ غم یا دکھ کیا ہوتا ہے۔ خوشی اور مسرت کیا ہوتی ہے۔
وہ تو صرف صبح سے شام تک کوڑا بٹورنے میں لگی رہتی ہے۔ جب اس کا بھائی علاؤالدین بعد میں ملا تو تفصیلات بتائی کہ ہم الفلاح سوسائٹی شاہ فیصل کالونی میں کوڑا جمع رہے تھے۔ علاؤالدین نے بتایا کہ میرے باپ نے کہا کہ میں ابھی آتا ہوں۔ وہ ائیرپورٹ اسٹیشن کے قریب ریلوے کی لائن پر بیٹھ کر منہ ادھر کرکے پیشاب کررہا تھا، گاڑی نے زور سے ہارن بجایا، کچھ لوگوں نے آواز دی، لیکن وہ سن نہ پایا یا یوں کہہ لیں یہ سمجھا ہوگا کہ بس ابھی فارغ ہوجاؤں گا۔ اتنے میں ٹرین آکر اس کے سر سے ٹکرا گئی اور آناً فاناً میں کھوپڑی کا ایک حصہ کہیں اور دوسرا کہیں اور جاگرا اور پھر ترنت موت واقع ہوگئی۔ ایئرپورٹ کا اسٹیشن آج کل ناکارہ ہے، کوئی گاڑی رکتی ہے، نہ ٹکٹ بکتا ہے اور نہ کاؤنٹر ہے۔ بس کوڑے کا ڈھیر جمع ہے۔ اب تو وہاں خانہ بدوشوں نے اپنی مستقل رہائش گاہیں بنالی ہیں۔
لال جان اتنا سیدھا سادہ انسان تھا کہ وہ کسی سے لڑنا جھگڑنا تو دورکی بات ہے، کسی کو زور سے جواب بھی نہیں دیتا تھا۔ اگر کوئی مکین کسی بات پر غصہ ہوجاتا یا ڈانٹ دیتا پھر بھی ہنستے ہوئے 'جی حضور' کہتے ہوئے گزر جاتا، بلکہ اکثر جواب کم ہی دیتا تھا، بس سن کر گزر جاتا تھا۔ کیا انسان تھا، محبت کا سمندر یا یوں کہہ لیں کہ وقت کے تھپیڑوں نے قندوز سے بلوچستان اور بلوچستان سے کراچی ہجرت کرتے ہوئے اس کی زندگی کی تمام آسائشوں، غم وغصہ اور ردعمل کو دفنا دیا تھا۔ اب اس کی زندگی کو خوش و خرم رکھنا یا خوشحالی کا خواب دیکھنا نہیں بلکہ بچوں کو پالنا اور زندگی جو اس کے لیے وبال جان بن چکی تھی، اسے گزارنا تھا۔ مگر زندگی کے اس کرب اور بوجھ سے ٹرین نے ٹکر مار کر ان تکالیف سے بھی نجات دلا دی۔ اسی لیے تو اس کی بیٹی نے باپ کے مرنے کے بعد سکون سے کہا کہ 'ابا مرگیا'۔
مرنے کو تو بہت سے لوگ مرتے رہتے ہیں مگر بعض اموات انتہائی دردناک ہوتی ہیں۔ نامور لوگوں کے لیے لکھا تو جاتا ہے لیکن ایک خاکروب کے لیے کون لکھتا ہے۔ اس کی اوقات ہی کیا کہ اس کے لیے لکھا جائے۔ ساحر لدھیانوی نے اپنی نظم ''مادام'' میں درست کہا تھا کہ
آپ کہتی ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتی ہوں گی
میرے احباب میں تہذیب نہ سیکھی ہوگی
بھوک حس لطافت کو مٹا دیتی ہے، اس دنیا میں صرف بھوک سے روزانہ پچھہتر ہزار انسان مرجاتے ہیں، صرف 2015 میں چھ لاکھ انسان حادثاث میں ہلاک ہوئے، لاکھوں بیماریوں میں مرجاتے ہیں اور لاکھوں قتل کردیے جاتے ہیں۔
زمانہ قدیم میں جب امداد باہمی کا معاشرہ تھا اس وقت بھوک، حادثے، بیماریوں اور ٹارگٹ کلنگ میں شاذونادر ہی لوگ مرتے تھے۔ ہر چندکہ اس زمانے میں نہ بڑے بڑے اسپتال تھے، ہوائی جہاز تھے، ریل گاڑیاں تھیں، نہ بم تھے یہاں تک کہ جوتے، صابن اور کپڑے بھی نہیں تھے۔ اس وقت کے لوگوں کو معصوم وحشی انسان کہا جاسکتا ہے۔ مگر اس وقت حسد، کینہ، قتل، میرا اور تیرا کا تصور تک نہیں تھا۔
مل کر پیداوار کرتے یا شکار کرتے یا مچھلی پکڑتے تھے اور مل بانٹ کر کھا لیتے تھے۔ سکھ اور دکھ میں سب شریک ہوتے تھے۔ درخت کی زہریلی چھالوں کو پانی میں ڈال کر مچھلیاں پکڑتے تھے اور وہ بھی سال میں صرف دو یا تین بار، اس لیے کہ مچھلیاں ختم نہ ہوجائیں۔ ایسا نہیں تھا کہ تین امیر آدمی اڑتالیس غریب ملکوں کو خرید لیں یا باسٹھ امیر آدمی آدھی دنیا کی دولت کے مالک ہوں۔
(نوٹ: گزشتہ مضمون 'عالمی سرمایہ داری کا تسلسل' میں غلطی سے دنیا میں سب سے ان پڑھ لوگ موریطانیہ کے ہیں، اس کی جگہ برطانیہ کا نام چھپ گیا۔)
پیر کی صبح آمینہ جب گھر کا کوڑا لینے آئی تو سب سے پہلے بتایا کہ 'ابا مرگیا'۔ دس سال کی افغان بچی جس کی عمر پڑھنے لکھنے اور کھیلنے کی ہے، وہ اپنے والد اور بھائی کے ساتھ کوڑا جمع کرنے کے کام میں لگی رہتی ہے۔ صبح سویرے ہی باپ اور بھائی کے ساتھ گھروں سے کوڑا جمع کرنے میں لگ جاتی ہے۔ اس کے باپ نے ایک گدھا گاڑی لے رکھی ہے، جس پر کوڑا جمع کرتا ہے۔
باپ کوڑا اکٹھا کرتا ہے، بیٹا جھاڑو لگاتا ہے اور بیٹی گھروں میں جا کر کچرا لاتی ہے۔ باپ لال جان لگ بھگ پچاس سال کا ہوگا، بیٹا بیس سال کا اور بیٹی دس سال کی۔ یہ خاندان افغانی ہے۔ افغانستان میں ملاؤں کی آپس کی جھڑپوں اور ڈالر جہاد کے بعد تقریباً پچاس لاکھ افغان مہاجرین بنے، جن میں تیس لاکھ پاکستان میں اور بیس لاکھ ایران میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ آمینہ بھی ان ہی میں سے ایک ہے، جو اپنے خاندان کے ساتھ قندوز سے ہزاروں میل طے کرکے کراچی پہنچی۔
کراچی میں پہلے پٹھان پنجابی خاکروب کا کام نہیں کرتے تھے، مگر بے روزگاری میں تیز تر اضافے کے باعث کراچی میں سرائیکی اور پشتون خاکروبوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آمینہ جب یہ بتا رہی تھی کہ 'ابا مرگیا' تو اس کے چہرے پہ غم تھا نہ کرب و بکا کی جھلک اور نہ حیرانی، آہ و پکار تھی اور نہ آنکھوں میں آنسو۔ بس اتنا بولی کہ 'ابامرگیا'۔
جب پوچھا کہ کب مرا، تو کہنے لگی جمعے کو۔ ہم نے کہا کہ اسی لیے جمعہ کو تم نہیں آئیں۔ جواب میں بولی جی انکل۔ کیسے کہاں اور کس طرح مرا، کچھ ٹھیک سے بتا نہیں پا رہی تھی، اس لیے کہ وہ اردو ٹھیک سے بول نہیں پاتی۔ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں جو کچھ بتایا اس سے ہم یہ سمجھ گئے کہ آمینہ کا باپ ٹرین سے ٹکرا گیا اور جان سے جاتا رہا۔ کوئی خبر ٹی وی پر نشر ہوئی اور نہ اخبار میں چھپی، یہاں تک کہ ٹی وی پرکوئی پٹی بھی نہیں چلی۔ اس لیے کہ وہ خاکروب تھا، معزز شہری تو تھا نہیں۔
جالب نے ایسے ہی لوگوں کے لیے درست کہا تھا کہ 'اوجھڑی میں لوگ مرے تو مرگئے، جتنے ڈاکو مرے، چنگیز مرے، ہلاکو مرے شہید ہوئے'۔ کوئی مرتا ہے تو تدفین کے علاوہ سوئم، چہلم وغیرہ ہوتے ہیں، لوگوں کو بلا کر کھانا کھلایا جاتا ہے، بین ہوتا ہے، تعزیت کی جاتی ہے، بیان آتا ہے اور کئی دن تک گھر میں کھانا نہیں پکتا، پڑوسیوں کے گھر سے کھانا آتا ہے۔ مگر آمینہ کا ابا تو خاکروب تھا۔ گھر تھا، دوار تھا اور نہ کوئی ملکیت۔ بس کسی جھگی میں کرایے پر اپنے خاندان کے ساتھ پڑا رہتا تھا۔ زندگی ایک زندہ لاش کی طرح گزر رہی تھی۔
صرف دو ایک دن کے وقفے کے بعد بیٹا علاؤالدین اور بیٹی آمینہ پھر جھاڑو اور ٹوکری لے کر کوڑا بٹورنے نکل پڑے۔ باپ کے مرنے کا غم تو ہوگا لیکن پیٹ کی بھوک بھی تو ہے؟ مرتے سب ہیں لیکن بیان نہ تشریح، نہ تعزیتی اجتماع اور نہ ہی سوئم کا کھانا۔ ان بے چاروں کو دو وقت کی روٹی مل جائے تو بڑی بات ہے۔
کہاں کا کھانا اور کہاں کی تعزیت۔ آمینہ کبھی بھی کوئی کھانے کی چیز مانگ کر نہیں کھاتی تھی، بلکہ جب ہم زبردستی کچھ کھانے کی چیز دیتے تھے تو وہ کہتی تھی کہ شاپر میں دے دو اور وہ اکثر جاتے وقت لے جانا بھول جاتی تھی، مگر جس روز باپ کے مرنے کی خبر بتا رہی تھی تو اس دن ساتھ ساتھ یہ بھی بول پڑی کہ کوئی چیز دو، کھانے کو دو۔ ٹیبل پر کیلے پڑے تھے، ہم نے پیش کیے تو فوراً اس نے لے کر کھانا شروع کردیا۔ اس دس سالہ بچی کو یہ پتہ ہی نہیں کہ غم یا دکھ کیا ہوتا ہے۔ خوشی اور مسرت کیا ہوتی ہے۔
وہ تو صرف صبح سے شام تک کوڑا بٹورنے میں لگی رہتی ہے۔ جب اس کا بھائی علاؤالدین بعد میں ملا تو تفصیلات بتائی کہ ہم الفلاح سوسائٹی شاہ فیصل کالونی میں کوڑا جمع رہے تھے۔ علاؤالدین نے بتایا کہ میرے باپ نے کہا کہ میں ابھی آتا ہوں۔ وہ ائیرپورٹ اسٹیشن کے قریب ریلوے کی لائن پر بیٹھ کر منہ ادھر کرکے پیشاب کررہا تھا، گاڑی نے زور سے ہارن بجایا، کچھ لوگوں نے آواز دی، لیکن وہ سن نہ پایا یا یوں کہہ لیں یہ سمجھا ہوگا کہ بس ابھی فارغ ہوجاؤں گا۔ اتنے میں ٹرین آکر اس کے سر سے ٹکرا گئی اور آناً فاناً میں کھوپڑی کا ایک حصہ کہیں اور دوسرا کہیں اور جاگرا اور پھر ترنت موت واقع ہوگئی۔ ایئرپورٹ کا اسٹیشن آج کل ناکارہ ہے، کوئی گاڑی رکتی ہے، نہ ٹکٹ بکتا ہے اور نہ کاؤنٹر ہے۔ بس کوڑے کا ڈھیر جمع ہے۔ اب تو وہاں خانہ بدوشوں نے اپنی مستقل رہائش گاہیں بنالی ہیں۔
لال جان اتنا سیدھا سادہ انسان تھا کہ وہ کسی سے لڑنا جھگڑنا تو دورکی بات ہے، کسی کو زور سے جواب بھی نہیں دیتا تھا۔ اگر کوئی مکین کسی بات پر غصہ ہوجاتا یا ڈانٹ دیتا پھر بھی ہنستے ہوئے 'جی حضور' کہتے ہوئے گزر جاتا، بلکہ اکثر جواب کم ہی دیتا تھا، بس سن کر گزر جاتا تھا۔ کیا انسان تھا، محبت کا سمندر یا یوں کہہ لیں کہ وقت کے تھپیڑوں نے قندوز سے بلوچستان اور بلوچستان سے کراچی ہجرت کرتے ہوئے اس کی زندگی کی تمام آسائشوں، غم وغصہ اور ردعمل کو دفنا دیا تھا۔ اب اس کی زندگی کو خوش و خرم رکھنا یا خوشحالی کا خواب دیکھنا نہیں بلکہ بچوں کو پالنا اور زندگی جو اس کے لیے وبال جان بن چکی تھی، اسے گزارنا تھا۔ مگر زندگی کے اس کرب اور بوجھ سے ٹرین نے ٹکر مار کر ان تکالیف سے بھی نجات دلا دی۔ اسی لیے تو اس کی بیٹی نے باپ کے مرنے کے بعد سکون سے کہا کہ 'ابا مرگیا'۔
مرنے کو تو بہت سے لوگ مرتے رہتے ہیں مگر بعض اموات انتہائی دردناک ہوتی ہیں۔ نامور لوگوں کے لیے لکھا تو جاتا ہے لیکن ایک خاکروب کے لیے کون لکھتا ہے۔ اس کی اوقات ہی کیا کہ اس کے لیے لکھا جائے۔ ساحر لدھیانوی نے اپنی نظم ''مادام'' میں درست کہا تھا کہ
آپ کہتی ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتی ہوں گی
میرے احباب میں تہذیب نہ سیکھی ہوگی
بھوک حس لطافت کو مٹا دیتی ہے، اس دنیا میں صرف بھوک سے روزانہ پچھہتر ہزار انسان مرجاتے ہیں، صرف 2015 میں چھ لاکھ انسان حادثاث میں ہلاک ہوئے، لاکھوں بیماریوں میں مرجاتے ہیں اور لاکھوں قتل کردیے جاتے ہیں۔
زمانہ قدیم میں جب امداد باہمی کا معاشرہ تھا اس وقت بھوک، حادثے، بیماریوں اور ٹارگٹ کلنگ میں شاذونادر ہی لوگ مرتے تھے۔ ہر چندکہ اس زمانے میں نہ بڑے بڑے اسپتال تھے، ہوائی جہاز تھے، ریل گاڑیاں تھیں، نہ بم تھے یہاں تک کہ جوتے، صابن اور کپڑے بھی نہیں تھے۔ اس وقت کے لوگوں کو معصوم وحشی انسان کہا جاسکتا ہے۔ مگر اس وقت حسد، کینہ، قتل، میرا اور تیرا کا تصور تک نہیں تھا۔
مل کر پیداوار کرتے یا شکار کرتے یا مچھلی پکڑتے تھے اور مل بانٹ کر کھا لیتے تھے۔ سکھ اور دکھ میں سب شریک ہوتے تھے۔ درخت کی زہریلی چھالوں کو پانی میں ڈال کر مچھلیاں پکڑتے تھے اور وہ بھی سال میں صرف دو یا تین بار، اس لیے کہ مچھلیاں ختم نہ ہوجائیں۔ ایسا نہیں تھا کہ تین امیر آدمی اڑتالیس غریب ملکوں کو خرید لیں یا باسٹھ امیر آدمی آدھی دنیا کی دولت کے مالک ہوں۔
(نوٹ: گزشتہ مضمون 'عالمی سرمایہ داری کا تسلسل' میں غلطی سے دنیا میں سب سے ان پڑھ لوگ موریطانیہ کے ہیں، اس کی جگہ برطانیہ کا نام چھپ گیا۔)