مجسّم تفسیرِ قرآن کائنات کے ہادی و راہ نما ﷺ

اسوۂ حسنہ قرآن حکیم کی ایک جامع اصطلاح ہے جس کا کسی بھی دوسرے دین میں تصور تک نہیں۔

اسوۂ حسنہ قرآن حکیم کی ایک جامع اصطلاح ہے جس کا کسی بھی دوسرے دین میں تصور تک نہیں۔:فوٹو : فائل

اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے جن برگزیدہ بندوں کو شرفِ نبوت سے سرفراز فرماتا ہے انہیں یہ مقدس اور اہم ذمے داری سونپتا ہے کہ وہ انسانوں کی اصلاح کرکے انہیں فلاح دارین کی سعادت سے بہرہ ور کریں۔ اصلاحِ احوال کی سب سے اہم صورت یہ ہے کہ انسان کے پہلو میں دھڑکنے والا دل سنوار دیا جائے۔ جب انسان کا دل سنور جاتا ہے تو وہ امیر ہو یا غریب، بادشاہ ہو یا فقیر، افسر ہو یا ماتحت، قاضی ہو یا وکیل، غرض وہ جو بھی ہو اور جہاں بھی ہو، سر تا پا خیر و برکت اور ہر کسی کے لیے سکون و اطمینان کا باعث ہوتا ہے۔

اصلاح قلب کے لیے اﷲ تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ ایک طرف تو قرآن حکیم جیسا صحیفۂ رشد و ہدایت نازل فرمایا اور دوسری طرف اس کو قولی و عملی طور پر انسانیت کے سامنے پیش کرنے کے لیے داعی برحق، صاحبِ خلقِِ عظیم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو مبعوث فرمایا۔

ارشاد ربانی ہے ''بے شک تمہارے لیے اﷲ کے رسولؐؐ میں بہترین نمونہ ہے''

یعنی اے مومنو! جو عظیم تعلیمات تمہیں قرآن حکیم میں پڑھنے کو ملیں گی وہ ساری کی ساری اس پیکرِِ رحمتؐ میں تمہیں عملی طور پر دیکھنے کو ملیں گی۔ اسی لیے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا '' آپؐ ہُو بہ ہُو قرآن حکیم کی عملی تصویر تھے۔''


اسوۂ حسنہ قرآن حکیم کی ایک جامع اصطلاح ہے جس کا کسی بھی دوسرے دین میں تصور تک نہیں۔ ''اسوہ'' کا معنی ہے نمونہ اور ''حسنہ'' کا معنی ہے حسن و جمال والا۔ یعنی اگر کوئی شخص ساری کائنات کا حسن و جمال ایک پیکر میں ملاحظہ کرنا چاہے تو یہ اسے صرف اور صرف ذات مصطفیٰ ﷺ میں ہی ملے گا۔ حسن کا کوئی بھی روپ ہو یا خوب صورتی کا کوئی بھی معیار، وہ سیرت مصطفیٰ ﷺ میں بہ درجہ اتم اور بہ طریق احسن چھلکتا نظر آتا ہے۔ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے ساری انسانیت کو سرکارِ دو عالمؐ کے در پہ حاضر ہوکے آپؐ کی غلامی اور کل کائنات کو آپؐ کی دہلیز پر سیس نوائی کا حکم دیا۔

حضورؐ کی سیرتِ طیبہ کی یہی رعنائیاں تھیں کہ اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ میں آپؐ کی بارگاہ سے فیض یاب ہونے والوں میں ہمیں عربی بھی ملتے ہیں اور عجمی بھی، کالے بھی ملتے ہیں اور گورے بھی، سرخ بھی ملتے ہیں اور سفید بھی، بادشاہ بھی ملتے ہیں اور وزیر بھی، بہادر بھی ملتے ہیں اور کم زور بھی، دولت مند بھی ملتے ہیں اور مفلس بھی۔

سیرتِ طیبہؐ کا یہ نمونہ جتنا خوب صورت اور دل کش ہے اسی قدر وسیع اور کشادہ بھی ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں، جس کے لیے اس میں ضابطہ نہ ہو۔ انسانیت کا کوئی روگ ایسا نہیں جس کے لیے اس میں تریاق نہ ہو۔ عقائد، عبادات، معاملات، تہذیب و تمدن، اخلاقیات، معاشیات، غرض دنیا کا کوئی بھی میدان ہو اسوۂ حسنہؐ کا ابرِ رحمت اس پر سایہ فگن نظر آتا ہے۔ یہ سیرت طیبہؐ ہی کی تاثیر تھی کہ عرب کے گنوار صحرا نشینوں کے قلوب و اذہان میں ایک بہت بڑی تبدیلی رونما ہوئی اور رہتی دنیا تک کے لیے ایک پائیدار انقلاب وجود میں آگیا۔

آج بھی اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کی دعوت کو پذیرائی حاصل ہو اور پیغام حق دلوں کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دے تو اس کی صورت یہی ہے کہ قرآن کی تعلیمات کے حسین خدوخال کو سیرت مصطفیٰ ﷺ کے شفاف آئینہ میں لوگوں کو دکھایا جائے تاکہ جمال حق کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور اس کی عظمت کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔

جب تک ہم حضورؐ کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو لوگوں کے سامنے اجاگر نہیں کریں گے تب تک نہ ہم اپنے فریضۂ تبلیغ سے عہدہ بر ہوسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی بات لوگوں سے منوا سکتے ہیں۔ نوع انسانی کو دین اسلام کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی اگلوں کو تھی۔ ترقی یافتہ قومیں اپنے تمدن اور ثقافت سے مایوس ہو چکی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اسلام کے چشمۂ شیریں سے اپنی پیاس بجھائیں۔ اس لیے ہر وہ سچا مسلمان جس کے دل میں انسانیت کے لیے تڑپ ہے، جو اپنے بھائیوں کی ضلالت و گم راہی پر پیچ و تاب کھاتا رہتا ہے، جس کو نبی کریمؐ کی نبوت کے کامل و اکمل ہونے کا یقین محکم ہے، تو یہ اس کا خو ش گوار فریضہ ہے کہ اندھیروں میں بھٹکنے والی اس مخلوق کی راہ نمائی کے لیے حضور کے اسوۂ حسنہؐ کو مدلل اور دل کش انداز میں پیش کرے۔
Load Next Story