شرم و حیا اسلام کا ممتاز اخلاقی وصف

ایمان اورحیا میں ایسا تعلق ہے کہ اگرکسی آدمی یاکسی قوم میں سے ان میں سےایک وصف اٹھا لیاجائے گاتودوسرا بھی نہیں رہے گا

ایمان اورحیا میں ایسا تعلق ہے کہ اگرکسی آدمی یاکسی قوم میں سے ان میں سےایک وصف اٹھا لیاجائے گاتودوسرا بھی نہیں رہے گا:فوٹو : فائل

حیا انسان کا ایک فطری وصف ہے جو بچپن سے ہی اس میں موجود ہوتا ہے۔ اگر بچے کی مناسب تربیت کی جائے تو یہ قائم رہتا ہے، بل کہ پروان چڑھتا رہتا ہے۔ اگر اچھی تربیت نہ ہو اور بُری صحبت مل جائے تو رفتہ رفتہ یہ نکلتا جاتا ہے۔ اس لیے اسلام نے اس کی نگہہ داشت کا حکم دیا ہے۔ نگاہیں نیچی رکھنا، حفاظتِ ستر، بے حیائی کی باتوں کو بولنے اور دیکھنے سے رکنا، اسی لیے ضروری قرار دیا گیا ہے کہ حیا کی یہ عظیم خوبی برقرار رہے۔

یہ ایک ایسا وصف ہے جس کو انسان کی سیرت سازی میں بہت زیادہ دخل ہے۔ اس سے بہت سی اخلاقی خوبیوں کی پرورش ہوتی ہے اور بہت سے گناہوں سے بچاؤ اسی کی برکت سے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو ایمان کی شاخ اور جز قرار دیا گیا ہے، یعنی جس طرح ایمان کا تقاضا ہے کہ فواحش و منکرات سے اجتناب کیا جائے ایسے ہی حیا بھی انسان کو ان چیزوں سے روکتی اور نیک اعمال پر آمادہ کرتی ہے۔ حیا کی وجہ سے انسان ایمان کے تمام تقاضوں پر کاربند رہتا ہے۔

چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''ایمان کی ستّر سے کچھ اوپر شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان ہی کی ایک شاخ ہے۔'' (صحیح مسلم)

ایک دوسری روایت میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ''حیا ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے ۔ بے حیائی ظلم ہے اور ظلم جہنم میں لے جاتا ہے۔''

(جامع ترمذی)


ایمان اورحیا میں ایسا گہرا تعلق ہے کہ اگر کسی آدمی یا کسی قوم میں سے ان میں سے ایک وصف اٹھا لیا جائے گا تو دوسرا بھی نہیں رہے گا، یعنی یا تو دونوں ہوں گے یا دونوں میں سے ایک بھی نہ ہوگا۔ چناں چہ حدیث میں وارد ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ''حیا اور ایمان دونوں ہمیشہ اکٹھے ہی رہتے ہیں، جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔'' (شعب الایمان)

حیا ایمان کی شاخوں میں سے ایک اہم ترین شاخ ہے۔ ایک پاکیزہ اور اسلامی معاشرے کے قیام میں اس کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ اس کی کمی ایمان اور اسلامی تہذیب سے دور کر دیتی ہے اور ذلت و پستی کی گہرائیوں میں پہنچا دیتی ہے۔ جس قوم سے یہ وصف نکل جائے وہ بہت سی برائیوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اور اس کا ایمان نہایت کم زور ہو جاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ''اﷲ عزوجل جب کسی بندے کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس سے حیا نکال لیتے ہیں، جب اس سے حیا نکل جائے تو تمہیں وہ شخص (اپنے اعمال بد کی وجہ سے) ہمیشہ اﷲ کے قہر میں گرفتار ملے گا، اس وقت اس سے امانت داری سلب ہو جاتی ہے تو وہ تمہیں ہمیشہ چوری اور خیانت میں مبتلا نظر آئے گا، جب وہ چوری اور خیانت میں مبتلا ہو تو اس کے دل سے رحم ختم کر دیا جاتا ہے، جب وہ رحم سے محروم ہوگیا تو تمہیں وہ ہمیشہ ملعون اور مردود نظر آئے گا اور جب تم اسے ملعون و مردود دیکھو تو وہ وقت قریب ہو جاتا ہے کہ اس کی گردن سے اسلام کی رسی نکل جائے۔'' (سنن ابن ماجہ)

ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ''لوگوں کو سابقہ انبیاء کی جو باتیں ملی ہیں ان میں یہ ہے کہ جب تم میں سے حیا ختم ہو جائے تو جو چاہو کرو۔'' (سنن ابوداؤد)

شریعت میں حیا کو اس قدر تاکید اور جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ یہ اسلام کا ایک ممتاز اخلاقی وصف بن گیا ہے۔ اسی بنا پر حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ''ہر دین والوں میں ایک عمدہ خصلت ہوتی ہے اور اسلام کی عمدہ خصلت حیا ہے ۔'' (سنن ابن ماجہ)

ایک مسلمان کو کسی وقت بھی یہاں تک کہ تنہائی کی حالت میں بھی شرم و حیا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ مسلم معاشرے نے شرم و حیا کی بنیاد پر اخلاقیات اور اعلیٰ اقدار کا مثالی نمونہ پیش کیا تھا۔ اب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسلمانوں میں بے حیائی اور فحاشی کا کلچر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ حیا سوز لٹریچر، عریاں فلموں اور فحش تصویروں کے ذریعے ہمارے معاشرے کو مادر پدر آزاد معاشرے کی طرح آوارگی و بے راہ روی میں مبتلا کیا جا رہا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو مغربی تہذیب و تمدن کے سانچے میں ڈھالا جا رہا ہے۔ لہذا اس فحاشی کے سیلاب میں مغربی تہذیب کو اختیار کرنے کے بجائے اسلامی تہذیب کو مضبوطی سے تھامنے اور بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ کسی وقت بھی حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔
Load Next Story