خالد شمیم وڈیو اڈیالہ جیل کی نرالی زندگی میں پیسے سے ہرکام ممکن
بھاری رقم لے کرخطرناک دہشتگردوںکوموبائل فون کی سہولت دی گئی ہے،ابتدائی رپورٹ تیار
اڈیالہ جیل سے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے مرکزی ملزم خالدشمیم کی وڈیولیک ہونے کے بعد حساس اداروں نے اپنی ابتدائی رپورٹ مکمل کرلی اور اڈیالہ جیل کے ناقص انتظامات کوسیکیورٹی رسک قراردے دیا۔
ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ جیل کے اندر قید خطرناک دہشتگرد اور اغوا برائے تاوان کے ملزمان بڑی وارداتوں کی منصوبہ بندی جیل کے اندر سے ہی کرتے ہیں،جیل کے اندر24لاکھ روپے سے زائد کی رقم ماہانہ بھتہ وصول کرکے ملک کے خطرناک ترین مجرموںکوموبائل فون کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔اڈیالہ جیل کے اطراف اور مین روڈ پر موبائل جیمرز بہت موثر ہیں جبکہ جیل کی دہلیز سے آگے موبائل نیٹ ورک کی بہترین کام کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سابق اٹارنی جنرل سردار خان کے قتل کی منصوبہ بندی بھی ملزم روح اللہ نے اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر ہی کی تھی واضح رہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثارنے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے ملزم خالد شمیم کی وڈیو لیک ہونے پر تحقیقات کاحکم دیا تھاجس پرمختلف تحقیقاتی اداروں نے اپنی رپورٹ مرتب کی ہے اس رپورٹ کے مطابق جیل کے اندر موبائل کے استعمال سمیت چرس ہیروئن وغیرہ کے استعمال کیلئے مجموعی طور پر جیل انتظامیہ 2 کروڑ روپے کے لگ بھگ بھتہ وصول کرتی ہے۔
اڈیالہ جیل میں اس وقت موبائل رکھنے کیلیے30ہزار روپے ماہانہ ادائیگی کاریٹ مقررہے موبائل استعمال کرنے والے کچھ بااثرافراد 30ہزار روپے سے زیادہ بھی دیتے ہیں اوروہ اپناموبائل بطور پی سی اواستعمال نہیں کرتے مگرکچھ قیدی اور حوالاتی حضرات نے جیل کے اندر سے کال کروانے کاریٹ فی کال 200روپے مقرر کر رکھا ہے۔ اڈیالہ جیل کی کل بیرکس8ہیں اورہر بیرک میں8کمرے ہیں اور ہر بیرک میں کم از کم 10موبائل ضرور موجود ہیں۔ اس کے علاوہ جیل کے اندرچرس اور ہیروئن کی فروخت عام ہے اور جیل انتظامیہ اس دھندے کے ذریعے ماہان 50لاکھ روپے کے لگ بھگ وصول کرتی ہے۔
اڈیالہ جیل میں قیدحوالاتیوں اور قیدیوں سے ملاقات کیلیے2500روپے مخصوص ہے اوردن بھر میں جیل انتظامیہ کے کارندے اس کاروبارمیں مشغول رہتے ہیں اس کے علاوہ عام ملاقاتوں کابھی سو روپے سے لیکر500روپے تک وصول کیا جاتاہے اسی طرح اگر کسی شہری نے اپنے کسی پیارے کوجیل کے اندر رات گئے کھانے کاسامان یا سونے کیلیے بستر وغیرہ فراہم کرنا ہو تو اس کیلیے جیل کے کارندے فی بیک 500روپے وصول کرتے ہیں ۔جیل کی اس پرنرالی دنیا میں غربت اوربے بسی کی بھی کئی داستانیں دیکھنے کو ملتی ہیں کیونکہ وکیل کی فیس یاجرمانہ ادائیگی نہ ہونے سے کئی قیدی طویل عرصے سے اس دنیا میں زندگی گزاررہے ہیں۔
ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ جیل کے اندر قید خطرناک دہشتگرد اور اغوا برائے تاوان کے ملزمان بڑی وارداتوں کی منصوبہ بندی جیل کے اندر سے ہی کرتے ہیں،جیل کے اندر24لاکھ روپے سے زائد کی رقم ماہانہ بھتہ وصول کرکے ملک کے خطرناک ترین مجرموںکوموبائل فون کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔اڈیالہ جیل کے اطراف اور مین روڈ پر موبائل جیمرز بہت موثر ہیں جبکہ جیل کی دہلیز سے آگے موبائل نیٹ ورک کی بہترین کام کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سابق اٹارنی جنرل سردار خان کے قتل کی منصوبہ بندی بھی ملزم روح اللہ نے اڈیالہ جیل میں بیٹھ کر ہی کی تھی واضح رہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثارنے ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے ملزم خالد شمیم کی وڈیو لیک ہونے پر تحقیقات کاحکم دیا تھاجس پرمختلف تحقیقاتی اداروں نے اپنی رپورٹ مرتب کی ہے اس رپورٹ کے مطابق جیل کے اندر موبائل کے استعمال سمیت چرس ہیروئن وغیرہ کے استعمال کیلئے مجموعی طور پر جیل انتظامیہ 2 کروڑ روپے کے لگ بھگ بھتہ وصول کرتی ہے۔
اڈیالہ جیل میں اس وقت موبائل رکھنے کیلیے30ہزار روپے ماہانہ ادائیگی کاریٹ مقررہے موبائل استعمال کرنے والے کچھ بااثرافراد 30ہزار روپے سے زیادہ بھی دیتے ہیں اوروہ اپناموبائل بطور پی سی اواستعمال نہیں کرتے مگرکچھ قیدی اور حوالاتی حضرات نے جیل کے اندر سے کال کروانے کاریٹ فی کال 200روپے مقرر کر رکھا ہے۔ اڈیالہ جیل کی کل بیرکس8ہیں اورہر بیرک میں8کمرے ہیں اور ہر بیرک میں کم از کم 10موبائل ضرور موجود ہیں۔ اس کے علاوہ جیل کے اندرچرس اور ہیروئن کی فروخت عام ہے اور جیل انتظامیہ اس دھندے کے ذریعے ماہان 50لاکھ روپے کے لگ بھگ وصول کرتی ہے۔
اڈیالہ جیل میں قیدحوالاتیوں اور قیدیوں سے ملاقات کیلیے2500روپے مخصوص ہے اوردن بھر میں جیل انتظامیہ کے کارندے اس کاروبارمیں مشغول رہتے ہیں اس کے علاوہ عام ملاقاتوں کابھی سو روپے سے لیکر500روپے تک وصول کیا جاتاہے اسی طرح اگر کسی شہری نے اپنے کسی پیارے کوجیل کے اندر رات گئے کھانے کاسامان یا سونے کیلیے بستر وغیرہ فراہم کرنا ہو تو اس کیلیے جیل کے کارندے فی بیک 500روپے وصول کرتے ہیں ۔جیل کی اس پرنرالی دنیا میں غربت اوربے بسی کی بھی کئی داستانیں دیکھنے کو ملتی ہیں کیونکہ وکیل کی فیس یاجرمانہ ادائیگی نہ ہونے سے کئی قیدی طویل عرصے سے اس دنیا میں زندگی گزاررہے ہیں۔