کرب اذیت اور تکلیف میں کیا فرق ہے

جب روح جسم کی بد دعا پر آمین کہے تو ظالم سے توبہ کی توفیق چھن جاتی ہے۔ نیکیوں کا یارا نہیں رہتا۔

کرب پہنچانے والا بد نصیب ہوتا ہے۔ اس کی مثال کسی ایسے شخص کی سی ہوتی ہے جو اپنے نصیب کی کتاب پر خود ہی سیاہی پھینک دے کہ پھر کچھ پڑھا ہی نہ جا سکے اور سب خلط ملط ہوجائے۔

کرب، اذیت اور تکلیف، یہ تین الفاظ ہمارے معاشرے میں بالعموم اس وقت بولے جاتے ہیں، جب کوئی غم پیش آجائے، کوئی شکوہ ہوجائے، کوئی نامناسب بات درپیش آجائے، یا من چاہے کے برعکس کوئی امر واقعہ ہو تو لوگ اپنی سمجھ اور زبان کے لحاظ سے ان میں سے کسی لفظ کا انتخاب کرتے ہیں۔ بظاہر تینوں الفاظ ایک جیسے ہی لگتے ہیں مگر ان کے معنوں میں چھپی کیفیات بہت مختلف ہیں۔

تکلیف آپ کو اس وقت پہنچتی ہے جب کوئی جسمانی چوٹ لگے۔ مثلًا پاوں میں پتھر لگ جانا، پھسل کے گر جانا، ہاتھ میں پھانس لگ جانا وغیرہ۔ تکلیف میں درد جسم سے شروع ہوکر جسم پر ہی ختم ہوجاتا ہے اور زخم رفو ہونے کے بعد آپکو تکلیف یاد تک نہیں رہتی۔ کون ہوگا جو حساب رکھے کہ زندگی میں کتنی بار پھانس لگی؟ کتنی بار ہاتھ کٹا یا مچھر نے کاٹا؟

یہ تکالیف روز کے معمول کی باتیں ہیں، کوئی ذی روح ان سے بری نہیں۔ زندگی کے ساتھ ساتھ ان کا سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے۔ ولادت سے وفات تک زندگی تکلیف کی تسبیح ہی تو ہے۔ بس یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ ہر دانے پر کہنا کیا ہے۔ صبر و شکر سے کام لیا تو تکلیف تو گزر ہی جاتی ہے، لیکن ایسا کرنے سے ثواب ضرور ملے گا اور لعن طعن سے کام لیا تو تکلیف کا اثر بھی بڑھ جائے گا اور آخرت کے لئے بھی کچھ جمع نہ ہوگا۔

دوسرا درجہ اذیّت کا ہے۔ اس کا سفر جسم سے شروع ہوکر روح پر ختم ہوتا ہے۔ مثلًا کسی بے زبان جانور پر گرم پانی ڈال دینا، کسی کے چہرے پر تیزاب پھینک دینا، ڈاکہ مار لینا، لوٹ لینا، لوگوں کے سامنے پیٹ دینا۔ اس کی ابتداء بھی جسمانی تکلیف سے ہی ہوتی ہے مگر جوں جوں زخم بھرتا ہے روح میں سوراخ کرتا چلا جاتا ہے۔ آدمی سوچتا ہی ہے کہ اگر ناچاقی تھی، صورت پسند نہ تھی تو بندہ چھوڑ دیتا، غریب عورت پر تیزاب کیوں پھینکا؟ چہرے کے ساتھ ساتھ روح کی کھال بھی جل گئی۔ جسمانی تکلیف تو کچھ عرصے میں چلی گئی مگر روح کے گھاؤ زندگی بھر اس تکلیف کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ اس درجے کو اذیّت کہتے ہیں اور اذیت پہنچانے والا سفاک کہلاتا ہے۔

یاد رکھنا چاہئیے کہ اذیت کا سفر جسم سے شروع ہو کر روح پر ختم ہوتا ہے اور جب روح جسم کی بد دعا پر آمین کہے تو ظالم سے توبہ کی توفیق چھن جاتی ہے۔ نیکیوں کا یارا نہیں رہتا۔ نیند، سکون، اطمینان یہ سب نام اس کی زندگی سے خارج ہوجاتے ہیں اور وہ آہستہ آہستہ عادی ظالم بن جاتا ہے، جو جان کر ظلم کرتا ہے اور لوگوں کی بد دعائیں سمیٹتا سمیٹتا مرجاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں سفاک ہونا اور سردست اذیت پہنچانے کے ہنر سے واقف ہونا خوبیوں میں شمار ہوتا ہے کہ کوئی ایسے شخص کے سامنے کچھ بول ہی نہیں پاتا۔

تیسرا اور سب سے مشکل درجہ کرب کا ہے۔ اس کا سفر روح سے شروع ہوکر جسم پر ختم ہوتا ہے۔ اسی میں عموماً ابتداء کسی جسمانی تکلیف سے نہیں ہوتی۔ پہلا وار ہی روح پر ہوتا ہے۔ کسی شخص پر بہتان لگانا، کسی کی عزت سے کھیلنا، سرعام رسوا کردینا، مقروض پر ہاتھ اتنا تنگ کر دینا کہ اسے زندگی سے خوف آئے۔ کسی شخص پر پے در پے اتنے وار کرنا کہ وہ سنبھل ہی نہ پائے یا اپنی نیکیوں کے تکبر کے چابک سے گناہ گاروں کی کھال اُتار دینا یا اپنی ذات و برادری کے زعم میں غریب لوگوں پر حکم چلانا، یہ سب اسی زمرہ میں شمار ہوتے ہیں۔ کرب پہنچانے والا بد نصیب ہوتا ہے۔ اس کی مثال کسی ایسے شخص کی سی ہوتی ہے جو اپنے نصیب کی کتاب پر خود ہی سیاہی پھینک دے کہ پھر کچھ پڑھا ہی نہ جا سکے اور سب خلط ملط ہوجائے۔


کرب کی کیفیت سے گزرنا بہت مشکل ہے۔ کسی شخص کا بظاہر معمولی سا جملہ آپکی روح کے آرپار ہوجاتا ہے۔ اس کے لئے مذاق اور آپ کے لئے زندگی و موت کا مسئلہ۔ اس کیفیت میں آدمی کو کچھ اچھا نہیں لگتا، ہر طرف پریشانی ہی پریشانی دکھتی ہے۔ حتٰی کہ سامنے اگر کوئی اُمید کی سبیل ہو تو بھی نظر نہیں آتی۔ جس کی عزت لٹ گئی ہو اُسے دنیا کا ہر شخص زانی ہی لگتا ہے۔ جس کا پیٹ بھوکا ہو اسے ہر کھانے والے پر غصہ آتا ہے۔ جس کی رسوئی خالی ہو اس کا دل سارے کھیت جلا دینے کا چاہتا ہے۔

بڑا مشکل ہوتا ہے ایسے میں صبر کرنا۔ آدمی کا کسی شخص کی وجہ سے پوری انسانیت پر سے اعتبار اُٹھ جائے اور بہتان سہہ سہہ کر اپنی صلاحیتوں سے بھی بد گمان ہوجائے۔ بس ایک آس بندے کو اسکے رب سے جوڑے رکھتی ہے کہ میں جس حال میں ہوں، جہاں ہوں، جو کچھ سہہ رہا ہوں، وہ دیکھ رہا ہے، وہ سن رہا ہے، وہ جانتا ہے اور جب محب کو محبوب کے دھیان کی گارنٹی مل جائے تو پتہ نہیں کیوں درد، درد نہیں رہتا۔

کرب گزیدہ بندے دور سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی نمی سے تر آنکھیں سارے پول کھول دیتی ہیں۔ انہیں چپ سی لگ جاتی ہے۔ بڑا محتاط رہنا چاہئیے ایسے لوگوں کے بارے میں جنہیں دلاسہ بھی چوٹ پہنچائے۔ جس کی کوئی نہیں سنتا وہ جلد یا بدیر روتا پیٹتا اُس کی بارگاہ تک پہنچ ہی جاتا ہے جو سب کی سنتا ہے۔ اس کے روح کے زخم اس کے جسم سے نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ روح کے گھاؤ آنکھوں سے عیاں ہوتے ہیں اور اندر کا ادھورا پن چہرے پر ایک اجنبی سی لازوال چپ چھوڑ جاتا ہے کہ جس کا مقابلہ کلام سے ممکن نہیں۔

کرب سے گزرتے ہوئے آدمی کی دعا کو لفاظی درکار نہیں ہوتی۔ یہ دل سے نکلتی ہے اور سیدھا عرش تک جا پہنچتی ہے۔ آپ کا واسطہ کبھی کسی ایسے آدمی سے پڑجائے تو اُسے دعا کا ضرور کہہ دیں کہ رات کی تاریکی میں نکلا کوئی آنسو جب جواب لے کر آئے گا تو اس کے طفیل آپکی مراد بھی شاید بر آئے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story