جذبے کی کڑی دھوپ ہو توکیا نہیں ممکن

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ایک حالیہ جائزے میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا ساری دنیا میں سب سے زیادہ کرپٹ خطہ ہے

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ایک حالیہ جائزے میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا ساری دنیا میں سب سے زیادہ کرپٹ خطہ ہے اور اس خطے کے چھ ممالک میں پاکستان کو سب سے زیادہ کرپٹ ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا یہ جائزہ نہایت چونکا دینے والا اور افسوس ناک ہے اور اس سے زیادہ چشم کشا انکشاف سندھ کے ڈی جی نیب نے کیا ہے کہ پاکستان میں روزانہ 133 ملین ڈالرز کی کرپشن کی جاتی ہے جوکہ سال کے 41 ارب ڈالرز بنتے ہیں۔ اس جائزے اور اعداد وشمار کیمطابق پاکستان میں محکمہ پولیس، محکمہ مال، عدلیہ، بڑے افسران، چھوٹے کارکنان، سیاسی جماعتیں، پارلیمنٹ، محکمہ صحت، پاورسیکٹر، محکمہ تعلیم، پرائیویٹ سیکٹر، این جی اوز اور میڈیا وغیرہ سبھی اس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں اور ان کے ہاں کوئی سنجیدہ ارادہ ہے اور نہ ہی کوئی سنجیدہ کاوش کہ وہ اس غلاظت سے باہر نکل سکیں۔

14 جنوری 1949 میں اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے اختیارات کے ناجائز استعمال اور رشوت ستانی کی روک تھام کے لیے ''پروڈا ایکٹ'' نافذ کیا تھا۔ یہ ایکٹ 1949 میں پاس کیا گیا قانون تھا مگر اس کا اطلاق 14 اگست 1947 سے کیا گیا تھا۔ اس کی رو سے الزام ثابت ہونے پر سیاست دان کو 10 سال کے لیے نااہل قرار دے دیا جاتا۔ سیاسی مخالفین نے پروڈا ایکٹ کو مسلم لیگ کی کرپشن کو تحفظ دینے اور مخالفت پر دباؤکا حربہ قرار دیا تھا۔ قائداعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کے بعد وطن عزیزکی ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ آتی چلی گئی جنھیں وطن سے زیادہ اپنا مفاد عزیز تھا۔

یوں پاکستان میں کرپشن کنٹرول کرنے کے لیے جو ادارے بنائے گئے ان اداروں کی رگ حیات بھی حکومت کے قبضے میں ہوتی۔ آزاد ممالک میں تو ایسے ادارے حکومتوں کے کنٹرول سے مکمل طور پر ماورا ہوتے ہیں۔پاکستان میں کرپشن کے پھلنے پھولنے اور اس کے کینسر کی طرح پھیل جانے کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ کرپشن کے خاتمے کے لیے فولادی ارادے تو موجود ہیں لیکن عمل درآمد صفر اور گزشتہ ہفتے تک ہمارے ملک میں کرپشن کرنے والوں کا احتساب بے نتیجہ اور مخالفین کی سرکوبی کی حد تک ہی محدود تھا۔ جنرل راحیل شریف نے اپنے ادارے سے احتساب کا آغاز کرتے ہوئے 2 جرنیل، 3 بریگیڈیئر اور ایک کرنل کو کرپشن میں ملوث ہونے پر جبری ریٹائر کرکے فوج میں احتسابی عمل کی شروعات کی ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ملکی یکجہتی، سالمیت اور خوشحالی کے لیے ''سب کا احتساب'' انتہائی ضروری ہے، کرپشن کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے بغیر ملک میں پائیدار امن و استحکام نہیں آسکے گا۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ احتساب صرف مالی کرپشن کا ہی نہیں ہوتا، سیاسی بھی ہوتا ہے۔ وہ ممالک جہاں بلاتفریق احتساب ہوتا ہے، وہاں اس کا مطلب قانون کی بالادستی ہوتا ہے، ان ممالک میں ہر شخص اور ادارے پر یکساں قانون لاگو ہوتا ہے، بلاتفریق احتساب اور خوشحالی انھی ممالک میں پائی جاتی ہے جہاں جمہوریت اور قانون کی بالادستی ہے۔ ہر پارلیمنٹیرین کا مقصد کرپشن ختم ہونا چاہیے، اگر کرپشن، دہشت گردی سے بڑا مسئلہ ہے تو جس طرح ہم نے نیشنل ایکشن پلان بنایا اسی طرح ہمیں کرپشن کے خلاف بھی کوئی موثر پلان بنانا چاہیے، صرف بیان دینے سے کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوسکے گا۔

اس حقیقت سے کبھی انکار ممکن نہیں ہوگا کہ پاکستان میں حکمران اور دیگر طاقتور طبقات کے ساتھ مقدس گائے جیسا سلوک روا رکھا گیا اس کے برعکس بیشتر ممالک میں کئی مختلف جرائم کی پاداش میں ملوث لوگوں کو احتساب کے کٹہرے میں لایا گیا اور انھیں قرار واقعی سزا دی گئی۔ کون نہیں جانتا، کسے نہیں معلوم کہ 1973 کا آئین بننے تک بیورو کریسی اور سول ملٹری بیوروکریٹس نے احتساب سے ماورا حکمرانی کی، اس وقت احتساب نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن کی انتہا تھی، سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ساتھ وابستہ 22 بڑے خاندانوں نے بھی ملک کو لوٹا، 1973 کے آئین کے بعد قانون کی بالادستی کرنے والوں نے اپنے مفادات کے لیے آئین میں ترامیم کیں۔


ہمارے سیاستداں جو ہمیشہ شیشے کے گھروں میں رہ کر دوسروں پر پتھر مارنے کی عادت بد میں ہمیشہ مبتلا رہے ہیں۔ انھوں نے اقتدار میں آکر یا ''باریاں'' لے لے کر اپنی اپنی مرضی کا احتساب اپنے مخالفین کا کیا۔ یوں ہماری قومی تاریخ شاہد ہے کہ ایسے احتسابی اقدامات ہمیشہ بے نتیجہ رہے۔ اور ہم دنیا کی قوموں میں بہت پیچھے ہوتے چلے گئے۔ ہمارے کسی حکمران نے کبھی کسی دور میں کرپشن کے معاملے کو وسیع تناظر میں نہیں دیکھا، یوں پاکستان میں کرپشن دیمک کی طرح اس کے وجود کو چاٹتی چلی آرہی ہے۔

ہمارے بااختیار یا آہنی ہاتھ والوں کے قول و فعل کے تضاد کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف احتساب کا نعرہ بھی وہ خود ہی لگا کر برسر اقتدار آتے ہیں اور پھر خود ہی NRO کے ذریعے بدعنوانی کے تمام مقدمات کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ سب کا احتساب ضروری کا جو نعرہ بلند کیا گیا ہے وہ عملی شکل اس وقت تک اختیار کرے گا جب اس سے نظام کو خطرہ نہ ہو بلکہ نظام کے اندر احتساب کا ایسا خودکار میکنزم ہو جیسا امریکا، برطانیہ، چین، سعودی عرب اور بھارت میں ہے جو بھی کرپشن کرتا ہے وہ احتساب کے شکنجے میں آجاتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی احتساب وقت کی ضرورت ہے جس سے نظام بھی قائم رہے اور احتساب کا مستقل سلسلہ بھی چلتا رہے۔

مگر ہم واقعی احتساب چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تاریخ تبدیل کرنا ہوگی۔ آفاقی حقیقت یہی ہے کہ تاریکی جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو اجالا ہونے کو ہوتا ہے۔ یہ امر بھی بڑا خوش آیند ہے کہ وطن عزیز کے سب سے بڑے احتسابی ادارے ''نیب''(قومی احتساب بیورو) نے اپنے اندرونی معاملات کو شفاف بنانے کے لیے ''داخلی محاسبے'' کا نظام نافذ کردیا ہے۔ اس نظام کا مقصد نیب کے لیے بدنامی کا سبب بننے والے غیر فعال، غیر شائستہ، بدعنوان اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کے مرتکب عناصر کی سرکوبی کرنا ہے۔ اس سلسلے میں گزشتہ ڈھائی سال کے عرصے میں نیب کے 83 افسروں اور اہلکاروں کے خلاف ضابطے کی کارروائیاں کی گئیں۔

نیب کے چیئرمین کا وژن ہے کہ دوسروں کے احتساب اور ان کے متعلق فیصلے دینے کے پیش نظر نیب کے اپنے کردار کو بھی ''رول ماڈل'' بنانا ہوگا۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے خود احتسابی کا جو نظام اپنایا ہے ملک کے اور دوسرے اداروں کے لیے بھی قابل تقلید ہے۔ کیونکہ عوام کو اکثر اداروں سے شکایت ہے کہ ان کی کارکردگی ناقص، ان کے فیصلے انصاف کے تقاضوں کے منافی اور ان کے اہلکاروں کا رویہ متکبرانہ اور غیر شائستہ ہے۔ پولیس عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ذمے دار ہے لیکن آئے دن جرائم کے ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن میں خود پولیس اہلکار ملوث ہوتے ہیں۔

دراصل بعض چیزیں بہت خوبصورت، بامقصد یا اصلاحی ہوتی ہیں لیکن وہ بااختیار لوگوں کے قبضہ قدرت میں جب آجائیں تو ان کی خوبصورتی میں کمی واقع ہوجاتی ہے یا اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے افسوس ملکی سطح پر بھی اس کے مظاہر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
Load Next Story