فلم مالک کی کہانی 12 سال قبل لکھی تھی لسانیت کو فروغ دیا نہ جمہوریت کیخلاف کوئی بات کی عاشرعظیم
کوئی فنڈنگ ہوئی نہ سیاسی رہنماکونشانہ بنایا،کہانی کاآج کے سیاسی حالات سےموافقت رکھنااتفاق ہے،ایکسپریس فورم میں گفتگو
JOHANNESBURG:
پابندی کاشکار فلم '' مالک'' کے رائٹراور ڈائریکٹر عاشر عظیم نے کہا ہے کہ میں نے فلم مالک کی کہانی12سال قبل لکھی تھی یہ نہیں معلوم تھاکہ جب فلم ریلیز ہوگی توپاکستان میں سیاست کی صورتحال اس قدرخراب ہوچکی ہوگی، یہ محض اتفاق ہے کہ کہانی آج کے حالات سے موافقت رکھتی ہے۔
ایکسپریس فورم میں گفتگو کرتے ہوئے عاشر عظیم نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات کامیں ذمے دارنہیں ہوں، سنسر بورڈ نے فلم کی نمائش کی اجازت دی،اب اچانک اس پر پابندی لگاکر کیا پیغام دیا گیاہے؟اس فلم کی نمائش پہلے 2مرتبہ ملتوی کی گئی ایک مرتبہ اسے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے آغاز کی وجہ سے نمائش کیلیے پیش نہیں کیاگیا،اب جبکہ یہ ریلیزہوگئی تو یہ کہاجانے لگا کہ اس فلم کو اس وقت ریلیز کیا جانا درست نہیں جبکہ میں سمجھتاہوں کہ اس سے بہترکوئی اور وقت نہیں ہوسکتا جب ہم حقائق اورسچائی کو عوام تک اس فلم کے ذریعے پہنچائیں۔انھوں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ کسی نے بھی یہ فلم بنانے پر مجھے مبارکبادنہیں دی بلکہ مجھے تو کسی مجرم کی طرح پیش کیا جارہاہے۔
عاشرعظیم نے کہاکہ یہ الزام درست نہیں کہ مجھے اس فلم بنانے کے لیے فنڈنگ کی گئی ہے،ایسی فلمیں بنانے والوں کوکوئی فنڈنگ نہیں کرتاکیونکہ یہ کوئی کمرشل فلم نہیں تھی،افسوس کی بات ہے اس فلم پر وہ لوگ تنقید کررہے ہیں جنھوں نے اس فلم کو دیکھاہی نہیں،میرے کوئی سیاسی مقاصدنہیں ہیں، میں اپنی فلم میں وہ سب کچھ سچائی کے ساتھ پیش کرناچاہتا تھا کہ جو اس وقت ہورہا ہے، اگر فوج اچھا کام کرنے والوں کو سپورٹ کرتی ہے اس میں کون سی غلط بات ہے، فوج بھی تو ہماری ہے،ہمارا حصہ ہے،اس فلم میں کسی سیاسی شخصیت کوتنقیدکانشانہ نہیں بنایاگیا، یہ سوچ کافرق ہے،میں نے نہ تو لسانیت کو فروغ دیا نہ ہی فوج کے تصورکو فروغ دیا،صرف جمہوریت کی بات کی ہے اور جمہوریت عوام سے ہی بنتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ فلم کی نمائش کے وقت تو کسی قسم کے الزامات سامنے نہیں آئے اور نہ ہی فلم کی نمائش پر پابندی کی کوئی بات کی گئی لیکن اب میری ذات پر جان بوجھ کر الزامات لگائے جارہے ہیں، جن کا جواب دینے کی ہمت رکھتا ہوں اور ہر قسم کے مسائل کا سامناکرسکتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ مجھے اس بات کی امیدنہیں کہ اس فلم پر سے پابندی ختم ہوگی میں بہت زیادہ دلبرداشتہ ہوں،فلم مالک کی کہانی کو دیکھا جائے تواس فلم کی کہانی میں بہت سے پہلوئوں کاعیاں نہیں کیاگیالیکن اب فلم دوسرا حصہ جب آئے گا توسب کچھ عیاں ہوجائے گا،مالک میں1998کے واقعات اورحالات کی کہانی موجودہے، 2016تک کی کہانی ابھی آنا باقی ہے، فلم میں ایسے کوئی مناظرنہیں ہیں جن کی وجہ سے اس پر پابندی عائد کردی جائے۔
وڈیرانا نطام پر چند لوگوں کو سچائی ہضم نہیں ہورہی لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کسی وڈیرے کی بیٹی یابیٹا یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ یہ فلم چلے گی یا نہیں،اگر میری فلم پر سے پابندی نہیں ہٹائی گئی تو طاقت کے زور پرفلم کو تفریح مقامات پر نمائش کرکے انقلابی شکل نہیں دوںگا ۔چیئرمین سندھ بورڈبرائے فلم سینسرفخرعالم نے کہا کہ فلم مالک کو لے کر بہت سی قیاس آرائیاں ہیں،بہت سی غلط فہمیاں اور کنفیوژن ہیں موشن پکچرایکٹ کے مطابق فلم کا جائزہ لینے کیلیے چیئرمین کی ضرورت نہیں ہوتی،فلم کا جائزہ لینے کے لیے کم سے کم3 بورڈ ممبران کی ضرورت ہوتی ہے۔
فلم'' مالک'' پر کبھی بھی سندھ سینسر بورڈکی جانب سے پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ سینسربورڈکے احکام پرعدم تعمیل کی بنیاد پر فلم کے سرٹیفکیٹ کو معطل کیا گیا تھا کیونکہ سندھ حکومت کو فلم پر پابندی لگاناہوتی تو وہ پہلی بار میں ہی اسے ریلیز کی اجازت نہ دیتی،فلم کو3ہفتہ پہلے2 ہدایات کے ساتھ سرٹیفکیٹ جاری کیا گیاتھا ، پہلا یہ کہ فلم میں سے وزیراعلی(چیف منسٹر )کالفظ نکال دیا جائے جبکہ دوسری ہدایت یہ دی گئی تھی کہ فلم میں سے حلف اٹھانے والا منظرنکال دیا جائے،یہ تمام نکات طریقہ کارکے مطابق فلم ڈسٹری بیوٹرز اور پروڈیوسرز کو اطلاع کیے گئے تھے جس پر پروڈیوسرنے فارم''ای'' جمع کروایا جس کے مطابق انھوں نے اس بات کی توسیع کی کہ فلم میں سے جن مناظر پر اعتراض کیا گیا تھا وہ ہٹا دیے گئے ہیں، ہمیں جب فارم''ای'' موصول ہوا اس کے بعد فلم کو سینماگھروں میں ریلیز کی اجازت دی گئی۔
3ہفتے بعد جب سندھ سینسر بورڈ کی ٹیم نے معمول کے مطابق دورہ کیا تو اس میں معلوم ہوا کہ سینسر بورڈ کے احکام پرعمل درآمد نہیں کیا گیا، اس وقت موشن پکچر ایکٹ کے تحت، اصولوں کے مطابق فلم پر پابندی عائد نہیں کی گئی تھی بلکہ سرٹیفکیٹ کو معطل کیا گیا تھا،فلم کو لے کر فیصلہ سینسر بورڈکے قواعد و ضوابط کی روشنی میں کیا گیا ہے، ذاتی طورپر آزادی اظہارپر یقین رکھتا ہوں،عاشرعظیم کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، وہ بہت قابل شخصیت ہیں،وہ خود سرکاری ملازم ہیں اور قوانین کے قواعدوضوابط کوبہترین طور پر جانتے اور سمجھتے ہیں،میں فلم مالک دیکھنے کے لیے بہت زیادہ بے تاب ہوں کیونکہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آخر اصل معاملہ کیا ہے۔
معروف اداکار و پروڈیوسر ہمایوں سعید کا کہنا تھا کہ فلم''مالک'' پر عائد کردہ پابندی کی بھرپور مذمت کرتا ہوں کیونکہ یہ بے حد غلط قدم اٹھایا گیاہے، اس سے دیگر فلمساز و پروڈیوسرزکے حوصلہ پست ہونگے ،فی الوقت ہمیں فلمسازوں کے حوصلوں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی فلمی صنعت تیزی سے بحالی کاسفر طے کر کے جلد از جلد خود کو مستحکم کرسکے،میں یہ سمجھتا ہوں کہ جیسے میڈیا آزادہے، ادارے آزاد ہیں، اسی طرح فلم اندسٹری کو بھی آزادی دینی چاہیے، فلموں پر ایسے پابندی نہیں لگائی جاسکتی کہ آپ نے پہلے سینسر سے کلیئر کردی اور بعد میں پابندی لگا دی،جو درست عمل نہیں ہے اس سے پاکستانی فلمی صنعت پر برااثر پڑے گا۔
پروڈیوسرحسن ضیا نے فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فلم ''مالک'' دیکھی وہ ہر لحاظ سے بہترین فلم ہے جس پر پابندی کی وجہ غیر واضح ہے،میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک فرد اپنی پوری جمع پونجی خرچ کرکے فلم بناتا ہے اس کو معاونت فراہم کرنے کے لیے کوئی آگے نہیں آتا لیکن پابندی عائد کردی جاتی ہے،ہم جمہوری دور میں رہتے ہوئے قدغنوں کا سامنا کررہے ہیں۔
پابندی کاشکار فلم '' مالک'' کے رائٹراور ڈائریکٹر عاشر عظیم نے کہا ہے کہ میں نے فلم مالک کی کہانی12سال قبل لکھی تھی یہ نہیں معلوم تھاکہ جب فلم ریلیز ہوگی توپاکستان میں سیاست کی صورتحال اس قدرخراب ہوچکی ہوگی، یہ محض اتفاق ہے کہ کہانی آج کے حالات سے موافقت رکھتی ہے۔
ایکسپریس فورم میں گفتگو کرتے ہوئے عاشر عظیم نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات کامیں ذمے دارنہیں ہوں، سنسر بورڈ نے فلم کی نمائش کی اجازت دی،اب اچانک اس پر پابندی لگاکر کیا پیغام دیا گیاہے؟اس فلم کی نمائش پہلے 2مرتبہ ملتوی کی گئی ایک مرتبہ اسے ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے آغاز کی وجہ سے نمائش کیلیے پیش نہیں کیاگیا،اب جبکہ یہ ریلیزہوگئی تو یہ کہاجانے لگا کہ اس فلم کو اس وقت ریلیز کیا جانا درست نہیں جبکہ میں سمجھتاہوں کہ اس سے بہترکوئی اور وقت نہیں ہوسکتا جب ہم حقائق اورسچائی کو عوام تک اس فلم کے ذریعے پہنچائیں۔انھوں نے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ کسی نے بھی یہ فلم بنانے پر مجھے مبارکبادنہیں دی بلکہ مجھے تو کسی مجرم کی طرح پیش کیا جارہاہے۔
عاشرعظیم نے کہاکہ یہ الزام درست نہیں کہ مجھے اس فلم بنانے کے لیے فنڈنگ کی گئی ہے،ایسی فلمیں بنانے والوں کوکوئی فنڈنگ نہیں کرتاکیونکہ یہ کوئی کمرشل فلم نہیں تھی،افسوس کی بات ہے اس فلم پر وہ لوگ تنقید کررہے ہیں جنھوں نے اس فلم کو دیکھاہی نہیں،میرے کوئی سیاسی مقاصدنہیں ہیں، میں اپنی فلم میں وہ سب کچھ سچائی کے ساتھ پیش کرناچاہتا تھا کہ جو اس وقت ہورہا ہے، اگر فوج اچھا کام کرنے والوں کو سپورٹ کرتی ہے اس میں کون سی غلط بات ہے، فوج بھی تو ہماری ہے،ہمارا حصہ ہے،اس فلم میں کسی سیاسی شخصیت کوتنقیدکانشانہ نہیں بنایاگیا، یہ سوچ کافرق ہے،میں نے نہ تو لسانیت کو فروغ دیا نہ ہی فوج کے تصورکو فروغ دیا،صرف جمہوریت کی بات کی ہے اور جمہوریت عوام سے ہی بنتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ فلم کی نمائش کے وقت تو کسی قسم کے الزامات سامنے نہیں آئے اور نہ ہی فلم کی نمائش پر پابندی کی کوئی بات کی گئی لیکن اب میری ذات پر جان بوجھ کر الزامات لگائے جارہے ہیں، جن کا جواب دینے کی ہمت رکھتا ہوں اور ہر قسم کے مسائل کا سامناکرسکتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ مجھے اس بات کی امیدنہیں کہ اس فلم پر سے پابندی ختم ہوگی میں بہت زیادہ دلبرداشتہ ہوں،فلم مالک کی کہانی کو دیکھا جائے تواس فلم کی کہانی میں بہت سے پہلوئوں کاعیاں نہیں کیاگیالیکن اب فلم دوسرا حصہ جب آئے گا توسب کچھ عیاں ہوجائے گا،مالک میں1998کے واقعات اورحالات کی کہانی موجودہے، 2016تک کی کہانی ابھی آنا باقی ہے، فلم میں ایسے کوئی مناظرنہیں ہیں جن کی وجہ سے اس پر پابندی عائد کردی جائے۔
وڈیرانا نطام پر چند لوگوں کو سچائی ہضم نہیں ہورہی لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کسی وڈیرے کی بیٹی یابیٹا یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ یہ فلم چلے گی یا نہیں،اگر میری فلم پر سے پابندی نہیں ہٹائی گئی تو طاقت کے زور پرفلم کو تفریح مقامات پر نمائش کرکے انقلابی شکل نہیں دوںگا ۔چیئرمین سندھ بورڈبرائے فلم سینسرفخرعالم نے کہا کہ فلم مالک کو لے کر بہت سی قیاس آرائیاں ہیں،بہت سی غلط فہمیاں اور کنفیوژن ہیں موشن پکچرایکٹ کے مطابق فلم کا جائزہ لینے کیلیے چیئرمین کی ضرورت نہیں ہوتی،فلم کا جائزہ لینے کے لیے کم سے کم3 بورڈ ممبران کی ضرورت ہوتی ہے۔
فلم'' مالک'' پر کبھی بھی سندھ سینسر بورڈکی جانب سے پابندی نہیں لگائی گئی بلکہ اصل صورتحال یہ ہے کہ سینسربورڈکے احکام پرعدم تعمیل کی بنیاد پر فلم کے سرٹیفکیٹ کو معطل کیا گیا تھا کیونکہ سندھ حکومت کو فلم پر پابندی لگاناہوتی تو وہ پہلی بار میں ہی اسے ریلیز کی اجازت نہ دیتی،فلم کو3ہفتہ پہلے2 ہدایات کے ساتھ سرٹیفکیٹ جاری کیا گیاتھا ، پہلا یہ کہ فلم میں سے وزیراعلی(چیف منسٹر )کالفظ نکال دیا جائے جبکہ دوسری ہدایت یہ دی گئی تھی کہ فلم میں سے حلف اٹھانے والا منظرنکال دیا جائے،یہ تمام نکات طریقہ کارکے مطابق فلم ڈسٹری بیوٹرز اور پروڈیوسرز کو اطلاع کیے گئے تھے جس پر پروڈیوسرنے فارم''ای'' جمع کروایا جس کے مطابق انھوں نے اس بات کی توسیع کی کہ فلم میں سے جن مناظر پر اعتراض کیا گیا تھا وہ ہٹا دیے گئے ہیں، ہمیں جب فارم''ای'' موصول ہوا اس کے بعد فلم کو سینماگھروں میں ریلیز کی اجازت دی گئی۔
3ہفتے بعد جب سندھ سینسر بورڈ کی ٹیم نے معمول کے مطابق دورہ کیا تو اس میں معلوم ہوا کہ سینسر بورڈ کے احکام پرعمل درآمد نہیں کیا گیا، اس وقت موشن پکچر ایکٹ کے تحت، اصولوں کے مطابق فلم پر پابندی عائد نہیں کی گئی تھی بلکہ سرٹیفکیٹ کو معطل کیا گیا تھا،فلم کو لے کر فیصلہ سینسر بورڈکے قواعد و ضوابط کی روشنی میں کیا گیا ہے، ذاتی طورپر آزادی اظہارپر یقین رکھتا ہوں،عاشرعظیم کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، وہ بہت قابل شخصیت ہیں،وہ خود سرکاری ملازم ہیں اور قوانین کے قواعدوضوابط کوبہترین طور پر جانتے اور سمجھتے ہیں،میں فلم مالک دیکھنے کے لیے بہت زیادہ بے تاب ہوں کیونکہ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ آخر اصل معاملہ کیا ہے۔
معروف اداکار و پروڈیوسر ہمایوں سعید کا کہنا تھا کہ فلم''مالک'' پر عائد کردہ پابندی کی بھرپور مذمت کرتا ہوں کیونکہ یہ بے حد غلط قدم اٹھایا گیاہے، اس سے دیگر فلمساز و پروڈیوسرزکے حوصلہ پست ہونگے ،فی الوقت ہمیں فلمسازوں کے حوصلوں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی فلمی صنعت تیزی سے بحالی کاسفر طے کر کے جلد از جلد خود کو مستحکم کرسکے،میں یہ سمجھتا ہوں کہ جیسے میڈیا آزادہے، ادارے آزاد ہیں، اسی طرح فلم اندسٹری کو بھی آزادی دینی چاہیے، فلموں پر ایسے پابندی نہیں لگائی جاسکتی کہ آپ نے پہلے سینسر سے کلیئر کردی اور بعد میں پابندی لگا دی،جو درست عمل نہیں ہے اس سے پاکستانی فلمی صنعت پر برااثر پڑے گا۔
پروڈیوسرحسن ضیا نے فورم میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ فلم ''مالک'' دیکھی وہ ہر لحاظ سے بہترین فلم ہے جس پر پابندی کی وجہ غیر واضح ہے،میری سمجھ سے بالا تر ہے کہ ایک فرد اپنی پوری جمع پونجی خرچ کرکے فلم بناتا ہے اس کو معاونت فراہم کرنے کے لیے کوئی آگے نہیں آتا لیکن پابندی عائد کردی جاتی ہے،ہم جمہوری دور میں رہتے ہوئے قدغنوں کا سامنا کررہے ہیں۔