یکم مئی سرمائے کے خلاف مزدورمورچہ بندی کا دن

حقیقت یہ ہےکہ مروجہ سیاسی جماعتیں مزودرطبقے اورعوام کی نجات کا باعث نہیں بلکہ اس کی راہ میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہیں

حقیقت یہ ہےکہ مروجہ سیاسی جماعتیں مزودرطبقے اورعوام کی نجات کا باعث نہیں بلکہ اس کی راہ میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہیں:فوٹو: اے ایف پی/فائل

پندرہویں صدی کے اختتام پر بھاپ کے انجن کی ایجاد نے یورپ میں صنعتی انقلاب برپا کردیا۔ جاگیرداری کو شکست ہوئی اور اس پر استوارسیاسی نظام یعنی بادشاہت اورپاپائیت کا معاشرے پرتسلط ختم ہوا۔

انسانی سماج نے تاریخی طور پر نئی جست لگائی اور عقل وسائنس کی بنیاد پر ترقی کی نئی حدوں کو چھونا شروع کیا۔ صنعتی پیداوار میں زبردست اضافے نے سرحدوں اور فاصلو ں کو مٹا کر رکھ دیا ۔ منڈیوں کی کھوج ، پیداور کی کھپت اور خام مال کے حصول نے سرمایہ داری نظام کو عالم گیر بنا دیا ۔ سرمایہ داری نظام جس نے جاگیرداری جیسے استبدادی نظام کو شکست سے ہم کنار کیا اور انسان کو عقل وخرد ، برابری، جمہوریت اور مساوات جیسے نعروں سے روشناس کیا۔ لیکن یہ نظام اپنی سرشت میں موجود جبر کے محرکات کو زیادہ دیر تک ان دل فریب نعروں کے پیچھے نہیں چھپا سکا۔

سرمائے کے عفریت نے خود اپنے ان تمام اصولوں کو منافع کے حصول کی ہوس میں روند ڈالا جس کا علم بلند کر کے اس نے جاگیرداری کے شکنجے کے خلاف عوام الناس کو جمع کیا تھا ۔ آلات ِپیداور کی ترقی سے پیداوار اور منافع میںبے تحاشا اضافہ ہوا لیکن اس ساری ترقی کے ثمرات سے مشینوں کو جدید بنانے والے اور اس پر پیداوار کرنے والے یعنی مزدور یک سر محروم رہے۔

یوں سرمایہ داری میں موجود ایک معاندانہ تضاد یعنی سرمایہ دار اور مزدور کے درمیان نہ ختم ہونے والی کش مکش کا آغاز ہوا ۔ سرمایہ دار اپنی طبقاتی جبلت اور کردار کے عین مطابق مشین کو ترقی دیتے ہوئے مزدور کو کم ازکم اجرت پر زیادہ سے زیادہ کام لینے پر مجبور کرتا رہا ۔ جب کہ مزدور اوقات کار میں کمی، اجرتوں میں اٖضافے اور حالات ِ زندگی میں بہتری کے لیے برسرِ پیکار رہا۔ سماجی ارتقا کی تاریخ میں سرمایہ داری کے خلاف مزدور طبقے کی جدوجہد طویل اور خوں ریز ہی نہیں بل کہ ایثاراور قربانیوں کی لازوال مثال بھی ہے۔

یکم مئی 1886کا دن بھی اسی جدوجہد کے عظیم استعاروں میں سے ایک ہے جو سرمائے پر محنت کی فتح کا پرچم سر بلند کیے ہوئے ہے۔ امریکا کے شہر شکاگو کی ''ہے پارک مارکیٹ'' میں حقوق کے حصول کے لیے بپھرے ہوئے لیکن پر امن نہتے مزدوروں پر پولیس کے وحشیانہ تشدد اور فائرنگ کے ذریعے اس توانا آواز اور تحریک کو دبانے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کوئی آخری معرکہ ثابت ہوا، لیکن یکم مئی کا دن محنت کشوں کے لیے بحیثیت طبقہ '' مزاحمت کی علامت '' بن گیا ہے۔ یہ سرمائے کے جرائم اور لوٹ مار کے خلاف مسلسل جدوجہد کا استعارہ ہی نہیں بلکہ سرمائے کی نحوست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا بھی دن ہے۔

محنت کشوں کی تحریک نے مختلف ادوار میں مختلف روپ دھارے لیکن اس نے ہر روپ میں سرمائے کے تسلط اور ملکیت کے نظام کو ہی چیلنج کیا۔ مزدور طبقے نے بحیثیت طبقہ غیر منظم انداز میں پیرس کمیون جیسا معرکہ سر کیا تو کہیں اپنی انقلابی سیاسی تنظیم بنا کر انقلاب روس جیسا عظیم مزدور انقلاب برپا کیا، کہیں مزدوروں کسانوں کی سرخ فوج کی شکل میں فاشسٹ نازی جرمنی کو شکست سے دوچار کیا تو کہیں مسلح لانگ مارچ کی شکل میں چین میں مزدورں اور کسانوں کو فتح سے ہم کنار کیا ۔ یہ جدوجہد کے ادوار اور اس میں اتار چڑھاؤ سماجی ارتقا کے سفر میں ہنوز لمحاتی واقعات ہی گردانے جائیں گے چاہے انقلابات کی ناکامی ہو یا کہ مزدور طبقے کی تحریک میں آنے والی گراوٹ اور کمزوری، لیکن سرمایہ داری کی مکمل شکست مزدور تحریکوں کا آخری پڑاؤ قرار پایا ہے۔

مزدور تحریکیں اور مزدور حقوق مسلسل حملوں کی زد پر ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کو یورپ، ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کے اکثر ممالک میں مسلسل ہوتا نظر آ رہا ہو گا۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی اس قسم کے جبر اور حملوںکا شکار ہے۔ ملک میں دوبارہ جمہوری ادارے بحال ہوئے عرصہ گزر گیا۔ مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، جمعیت علمائے اسلام، جماعتِ اسلامی، مسلم لیگ ( ق)، نیشنل پارٹی، پختون خوا ملی عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم وہ جماعتیں ہیں جو وفاقی، صوبائی حکومتوں کا حصہ ہیں یا رہی ہیں۔

ان سب میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ یہ مزدور طبقے کو درپیش مسائل کا ادارک کرنے اور کوئی بھی ٹھوس اقدام کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ان جماعتوں میں ایک اور قدر مشترک یہ ہے کہ سرمایہ داری کے بنیادی چلن پر ان میں سے کسی کو بھی اعتراض نہیں ہے اور نہ ہی ان کے طبقاتی مفادات ان کو اس کے خلاف صف آرا ہونے کی اجازت دیتے ہیں۔ PIAکو کمپنی بنانے کے مزدور دشمن اقدام پر سب نے مشترکہ نقطۂ نظر اپنا کر اپنے طبقاتی کردار کو کھل کر بیان کر دیا ہے۔


پرائیوٹ سیکٹر کے مزدور وں کی ناگفتہ بہ صورت حال پر شاید ہی کسی سیاسی، مذہبی، لسانی جماعت نے لب کشائی کی ہو ۔ ملک کا مزدور طبقہ جس بھیانک صورت حال سے دوچار ہے ہے وہ سوائے افغانستان کے خطے کے تمام ممالک سے بدتر ہے۔ پاکستان کی ساڑھے چھ کروڑ کی لیبر فورس میں نوجوانوں کی تعداد ساٹھ فی صد سے زائد ہے۔ اس میں سے صرف دو فی صد محنت کشوں کو یونین سازی کا بنیادی حق حاصل ہے۔ پچانویں فی صد سے زائد فیکٹریاں، کارخانے اور کارگاہیں، غیر رجسٹرڈ ہیں،ٖ یعنی غیر قانونی طور پر کام کر رہی ہیں۔

پاکستان صنعتی تعلقات کے ضمن میں دنیا کے ان بدترین ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں کام کی جگہوں پر تحفظ کے انتظامات خطرناک حد تک ناقص ہیں اور یونین بنانا دہشت گردی جیسے جرم کے برابر گردانا جاتا ہے۔ فیکٹریاں اورکارخانے،کام کی جگہوں سے زیادہ عقوبت خانوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ سانحۂ بلدیہ کا الم ناک واقعہ اس صورت حال کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اسی طرح معدنیات کی کانوں، فیکٹریوں،کارخانوں میں مسلسل ہونے والے حادثات حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت اور بے حسی کی منہ بولتی تصاویر ہیں۔

فیکٹری مالکان نے لیبر قوانین پر عمل درآمد اور اپنی قانونی ذمہ داریوں سے بچنے کے لیے غیر انسانی ٹھیکہ داری نظام متعارف کرادیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ٹھیکے داری نظام کوخلاف ِ قانون دیے جانے کے باوجود حکومت اس فیصلے پر عمل درآمد کرانے میں مکمل طور پرناکام رہی ہے ۔ سپریم کورٹ ایک خط نہ لکھنے پر منتخب وزیر اعظم کو گھر بھیج دیتی ہے لیکن مزدوروں سے متعلق اپنے تاریخی فیصلے پر عمل کروانے سے اب تک قاصر رہی ہے۔

اس ٹھیکے داری نظام کے تحت کام کرنے والے پچانویں فی صد مزدور بیس سے پچیس سال کام کرنے کے باوجود خودکو فیکٹری کا ملازم کہلانے کے حق سے محروم ہیں۔ نوے فی صد فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو تحریری تقرر نامے جاری نہیں کیے جاتے جس کی وجہ سے وہ صنعتی تنازعات کے دوران یا کسی حادثے کی صورت میں اپنا قانونی حق حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، کیوں کہ وہ فیکٹری میںملازمت کا ثبوت فراہم نہیں کر پاتے۔

مزدوروں کے لیے یونین بنانا شجر ممنوعہ ہے جس کا انجام سلاخوں کے پیچھے ہونا ہے۔ لیبر کورٹس اور لیبر ڈپارٹمنٹ صنعت کاروں کے رحم وکرم پر ہے جہاں مزدوروں کو اکثرذلت، رسوائی، پشیمانی اور ہر بار نئی تاریخ کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ یہ دنیا کا شاید واحد ملک ہو گا جہاں صنعت کار خود پیسے دے کر یونینیں رجسٹرڈ کرواتے ہیں، تاکہ مزدوروں کی اصل نمائندہ یونینوں کی تشکیل کا راستہ روکا جاسکے۔ اس سلسلے میں حکومتی ادارے NIRC اور لیبر ڈپارٹمنٹ کے اعلیٰ سطح کے اہل کار نذرانے کے عوض صنعت کاروں کو مفید شیطانی مشورے دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔

یہ تو ان مزدوروں کی صورت حال ہے جو منظم صنعتی اداروں میں کام کرتے ہیں لیکن اگر غیر منظم شعبوں یعنی تعمیراتی اور بھٹا مزدورں ، زرعی محنت کشوں اور گھر مزدور عورتوں کی صورت حال پر نظر ڈالیں تو شرم محسوس ہوتی ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی پیداواری عمل کے اہم حصے کے مزدور غلاموں سے بدتر حالات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ثابت یہ ہوا کہ پیداواری عمل کا شعبہ منظم ہو یا غیر منظم منافع کی پروردہ سرمایہ داری کا جبر بد سے بدتر ہے۔ پاکستان بین الاقوامی ادارۂ محنت (ILO)کے 38 سے زائد کنونشنوں کی توثیق کر چکا ہے جن میں سے آٹھ بنیادی لیبر حقوق کے کنونشن بھی شامل ہیں۔ لیکن ان کی پاسداری کو ناممکن بنا دیا گیا ہے ۔ پاکستان کے صنعت کارGSP+کے تحت یورپی منڈیوں تک بغیر محصولات کے رسائی کے ذریعے اربوں ڈالر سالانہ بٹور رہے ہیں لیکن مزدور حقوق سے متعلق اس میں کیے گئے عہد ہوا میں اڑا دیے گئے ہیں ۔

اس صورت حال سے نکلنے کی اگر کوئی سبیل ہے تو وہ خود محنت کش طبقے کی اپنے بل بوتے پر ابھرتی ہوئی تحریک ہی ہو سکتی ہے ، کیوں کہ موجود تمام سیاسی جماعتیں اور گروہ بنیادی طور پر سرمایہ دار طبقے کے ترجمان ہی نہیں بل کہ ان کے اکثر رہنما خود سرمایہ دار اور حکمران طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ کیا مذاق کہ انبوہ غم گساراں میں
ترے لیے جو پریشاں نہیں ہے وہ بھی ہے

تلخ حقیقت یہ ہے کہ مروجہ سیاسی جماعتیں مزودر طبقے اور عوام کی نجات کا باعث نہیں بل کہ اس کی راہ میں بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہیں۔ مزدور طبقے کے باشعور حصے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جہاں فیکٹریوں،کارخانوں میں ٹریڈ یونین تحریک کو منظم ومضبوط کرے وہاں ان میں مزدوروں کو سیاسی، مذہبی اور لسانی جماعتوں کے مفادات کا ایندھن بننے سے روکنے کی شعوری کوشش کرتے ہوئے انھیں سیاسی طور پر متبادل طبقاتی تنظیم سازی کی طرف لے جائے۔
Load Next Story