تن ساز اور دھن ساز

ماہ اپریل کے 17 دنوں میں قوت بخش ادویہ کے استعمال نے چار تن سازوں (باڈی بلڈرز) کی جان لے لی ہے

advo786@yahoo.com

ماہ اپریل کے 17 دنوں میں قوت بخش ادویہ کے استعمال نے چار تن سازوں (باڈی بلڈرز) کی جان لے لی ہے، مرنے والوں میں دو ساؤتھ ایشین میڈلسٹ بھی شامل ہیں۔ قوت بخش دوائیں تن سازوں کے لیے موت کا سامان بن گئی ہیں۔ اس بات کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ گھوڑوں کو لگائے جانے والے انجکشن باڈی بلڈرز کو لگائے جارہے ہیں۔ انجکشن کی مقدار بڑھانے کے لیے گرم پانی کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔

غیر ملکی اسٹیرائڈ مہنگی ہونے کی وجہ سے دیسی طور پر غیر معیاری اسٹیرائڈ تیار کرکے زائد منافع کمایا جارہا ہے۔ گوجرانوالہ اور لاہور میں ایسے مراکز موجود ہیں جو اس دھندے میں ملوث ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں تن سازوں کی ہلاکتوں کے بعد حکومت پنجاب نے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنادی ہے۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نے بھی ان ناگہانی اموات کا نوٹس لیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری نے کہا ہے کہ 4 تن سازوں کی اموات کی تحقیقات چیئرمین اینٹی ڈوپنگ اور پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن کے حکام کریں گے۔ تحقیقاتی رپورٹ میڈیا کے سامنے لائی جائیں گی اور اولمپک ایسوسی ایشن مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے اقدامات کرے گی۔

ملک میں کھیلوں کے میدانوں اور پارکوں کی شدید کمی ہے، مکانات بھی چھوٹے اور کثیرالمنزل ہوتے جارہے ہیں۔ اس لیے لوگوں میں ہیلتھ کلب، سلمنگ سینٹر اور جم جانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ان کی تعداد اور کاروبار میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ مختلف النوع اقسام کے ورزش کے آلات اور معیارات سے آراستہ ہیلتھ کلب اور جم مردوں، خواتین اور بچوں کو صبح سے لے کر رات تک ورزش کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ بعض میں تو بزرگوں سے فیس بھی نہیں لی جاتی ہے۔

شہروں میں سوئمنگ پول بھی بڑی تعداد میں قائم ہوچکے ہیں، جہاں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی بڑے شوق سے جاتے ہیں اور ان کے اچھے خاصے چارجز بھی ادا کرتے ہیں۔ پچھلے چند سال سے نوجوانوں میں تن سازی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جس میں فلموں، میڈیا اور اشتہارات کا بڑا کردار ہے۔ تن سازی کے شوقین جذباتی نوجوان کم وقت میں زیادہ ورزش کرکے فوڈ سپلیمنٹ اور ادویات کے ذریعے فوری نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

عموماً ان کو صحیح رہنمائی فراہم کرنے والا کوئی نہیں ہوتا، کلب میں بھی سینئر ممبرز ان نوجوانوں کی صحیح رہنمائی نہیں کرتے۔ کم عرصے میں زیادہ سے زیادہ ورزش کراکے فوڈ سپلیمنٹ اور ادویات کے استعمال سے ان کے مسلز بنانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ جسم اور مسلز بنانے والے اشتہارات بھی نوجوانوں کے لیے مرغوب ہوتے ہیں، وہ اس قسم کے نسخے استعمال کرکے اپنی صحت اور پیسہ دونوں برباد کرتے ہیں۔ بہت سے اشتہارات میں تو صرف موبائل نمبر سے کاروبار کیا جاتا ہے، جن کا اتا پتا کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔


پاکستان میں سالانہ اربوں روپے کی جعلی یا غیر معیاری ادویات کا کاروبار ہوتا ہے، میڈیسن مارکیٹ ایسی دواؤں سے بھری پڑی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسپتالوں اور بستر مرگ پر پڑے 50 فیصد مریض جعلی وغیر معیاری ادویات کی پیداکردہ ناقابل تشخیص بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ یہ تمام معاملات متعلقہ کنٹرولنگ اداروں کی مجرمانہ غفلت اور ناکامی کا ثبوت ہے۔ تن سازوں کی ادویات کے استعمال سے ہلاکتوں کے بعد پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن اور باڈی بلڈنگ فیڈریشن کے ذمے داران نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ایسے واقعات کی روک تھام کی کوششیں کریں گے اور غیر رجسٹرڈ کلب کے کھلاڑیوں کو مقابلوں میں شریک نہیں کریں گے۔

تن سازوں کی ہلاکتوں کے بعد فیڈریشن نے قوت بخش ممنوعہ ادویات کے استعمال کے خوف سے یکم مئی کو ہونے والا ''مسٹر پاکستان'' کا مقابلہ بھی ملتوی کردیا ۔ سپریم کورٹ نے انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں جعلی ادویات کی وجہ سے 90 سے زائد مریضوں کی اموات پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر کہا کہ بنیادی حقوق کے معاملے پر خاموش نہیں بیٹھ سکتے، یہ انسانی خدمت کی معراج ہے، شعبہ صحت کی حالت خراب ہے، کچھ نہ کیا گیا تو اس کو آکسیجن لگانی پڑے گی، میڈیکل کالجز میں اسپتال موجود نہیں ہیں، ڈاکٹر نہ جانے کہاں وارڈ ٹریننگ حاصل کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ نے نمونیہ اور ہیپاٹائٹس سی سے روزانہ ہونے والی 4 ہزار اموات اور ہیپاٹائٹس سی کی سستی ادویات کی رجسٹریشن کے راستے میں حائل رکاوٹوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریگولیٹری اتھارٹی کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ہفتے کے اندر ہیپاٹائٹس کی ادویات کی رجسٹریشن کے حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر فیصلہ کرکے اپنی رپورٹ پیش کرے۔ عدالت نے کہا کہ جو شخص دو وقت کی روٹی کما کر جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتا وہ مہنگی ادویات کیسے خرید سکتا ہے؟ جو ریاست اپنے عوام کو تعلیم وصحت جیسی سہولیات فراہم نہیں کرسکتی کیا اس کے باقی رہنے کا کوئی جواز بنتا ہے؟

عوام کو تعلیم، صحت اور انصاف کی فراہمی ریاست کی کلیدی و آئینی ذمے داری ہے، تعلیم تو ہمارے ہاں طبقاتی اور تباہ حال ہوچکی ہے، میرٹ کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ ناانصافی و بدامنی قوم کے مقدر میں لکھوا دی گئی ہے۔ ریاست شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے تک میں ناکام ہوچکی ہے۔ شہری ٹینکر مافیا سے منہ مانگے داموں، لائنیں لگا کر مضر صحت پانی خریدنے پر مجبور ہیں۔ ٹینکر مافیا کا حکومتی اہلکار سے گٹھ جوڑ ہے۔ پینے کے لیے منرل واٹر کی غیر معیاری جعلی بوتلیں سرعام فروخت ہو رہی ہیں۔ قریہ قریہ واٹر فلٹریشن پلانٹس نصب ہیں، جہاں سے شہری قطاریں لگا کر پانی خریدتے ہیں۔ پھلوں، سبزیوں، گوشت، دودھ وغیرہ جیسی صحت کی بنیادی اشیا مہنگے داموں خریدنے کے باوجود بھی ملاوٹ سے پاک نہیں ہیں۔

ان میں زہریلی ادویات، کیمیکل اور مضر صحت اجزا شامل کرکے فروخت کیا جارہا ہے، جن کے استعمال سے فائدے کے بجائے نقصانات ہورہے ہیں۔ شہری مہلک اور نت نئی بیماریوں، امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ غریبوں کو تو علاج کی سہولیات ہی نہیں ہیں، صاحب حیثیت لوگ بھی بڑے بڑے اسپتالوں اور ڈاکٹروں کی فیسیں اور مہنگی دواؤں کے استعمال کے باوجود صحت و زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں، کیونکہ اسپتالوں، ڈاکٹروں، لیبارٹریوں اور دواسازوں کی منظم مافیائیں وجود میں آچکی ہیں، جن کے نزدیک پیشہ ورانہ ذمے داری انسانیت، اخلاقیات اور قانون کوئی وقعت نہیں رکھتا۔ حکومتی اداروں اور اہلکاروں کی پشت پناہی ان کی عدم فعالیت و دلچسپی کی وجہ سے ایسے عناصر قانون کی گرفت سے محفوظ رہتے ہیں۔ چند ماہ پیشتر لاہور کی عدالت نے ایک ممتاز ڈاکٹر کو جو بڑے اسپتال کا سابقہ ڈین بھی تھا، ایک بچی کے علاج میں مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کرنے پر 3 کروڑ 40 لاکھ روپے کی ادائیگی کا حکم دیا تھا۔ بچی کے والدین کو بیرون ملک لے جا کر اس کا علاج کرنا پڑا تھا جب اس بچی کی جان بچ پائی۔

ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ ایک فلاحی اسلامی معاشرے کا قیام عمل میں لائے، جہاں سب کے لیے انصاف، مساوات، تحفظ جان و مال، تعلیم و صحت اور روزگار کی سہولیات اور گڈ گورننس قائم ہو۔ مگر ریاست کی ناکامی کی وجہ سے ملک میں ناانصافی، حق تلفی، بدامنی، بیروزگاری، دہشت گردی، کرپشن اور انتشار کی کیفیت ہے، جس سے سب سے زیادہ نوجوان نسل متاثر ہورہی ہے، جو قوم کا مستقبل ہے، ان میں ناامیدی، محرومی وغیر یقینی و ذہنی انتشار کو جنم دے کر ان کی اخلاقیات کو بھی متاثر کررہا ہے، جو خطرناک علامت ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، کم ازکم اپنے مفاد میں اتنا ہی سوچ لیں کہ ان کی عیاشیاں اسی وقت تک قائم ہیں جب تک اس ملک کا وجود قائم ہے۔
Load Next Story