استاد دامن یاد آتے چلے گئے

گزشتہ کالم میں پانامہ لیکس کے حوالے سے استاد دامن یاد آگئے تھے اور پھر پورا ہفتہ انھی کی یادوں میں گزرا۔

گزشتہ کالم میں پانامہ لیکس کے حوالے سے استاد دامن یاد آگئے تھے اور پھر پورا ہفتہ انھی کی یادوں میں گزرا۔ اب تک وہی سلسلہ چل رہا ہے۔ سو آج پنجابی زبان کے اسی بہادر عوامی شاعر کی باتیں ہونگی۔ استاد دامن خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے، بظاہر سادہ بودوباش رکھنے والے کو دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ وہ کثیر المطالعہ شخص تھے۔

ان کی کھولی (ایک چھوٹا سا کمرہ) میں 80 فیصد جگہ کتابوں نے گھیر رکھی تھی، حتیٰ کہ استاد کی چارپائی کے آدھے حصے پر بھی کتابیں پڑی ہوتی تھیں۔ استاد دامن فارسی، سنسکرت، عربی، اردو زبانیں جانتے تھے۔ عالمی ادب پر بھی ان کی توجہ رہتی تھی۔ استاد دامن اپنے روحانی مرشد شاہ حسین کی روایت کے امین تھے۔ شاہ حسین بھی مغل اعظم جلال الدین محمد اکبرکی بے شمار خواہش کے باوجود شہنشاہ کے دربار میں حاضر نہیں ہوئے اور استاد دامن کا بھی حکمرانوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں تھا۔ استاد دامن ٹکسالی گیٹ کے علاقے میں اسی کھولی میں رہتے تھے جہاں عظیم پنجابی زبان کے شاعر شاہ حسین رہتے تھے۔

پاکستان، ہندوستان علیحدہ علیحدہ ملک بن گئے تو استاد دامن کو ہندو پاک مشاعرے میں بلایا گیا۔ دہلی کے لال قلعے میں ہونے والے مشاعرے کی صدارت وزیراعظم ہندوستان پنڈت جواہر لعل نہروکررہے تھے۔ بٹوارے کے زخم تازہ تھے۔استاد نے یہ اشعار پڑھے۔

آزادیاں ہتھوں مجبور یارو
ہوئے تسی وی او 'ہوئے اسی وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دس دی اے
روئے تسی وی او' روئے اسی وی آں

اردو ترجمہ پیش کرتا ہوں''آزادیوں کے ہاتھوں مجبور یارو، ہوئے تم بھی ہو، ہوئے ہم بھی ہیں۔ آنکھوں کی سرخی بتا رہی ہے کہ روئے تم بھی ہو اور روئے ہم بھی ہیں۔'' پورا مشاعرہ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب کھڑے ہو گئے۔ سب رو رہے تھے۔ پنڈت جواہر لعل نہرو نے استادکو گلے لگایا۔ ان کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ یہ تھے استاد دامن، مضبوط کردار کے نہ جھکنے والے، نہ بکنے والے شاعر۔ جنرل ایوب خان کے مقابل قائداعظم کی بہن مادرملت محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی انتخاب لڑا۔ استاد دامن مادرملت کے ساتھ تھے۔

ایک سازش کے تحت حبیب جالب کو گورنر نواب کالا باغ نے اقدام قتل کے جھوٹے مقدمے کے تحت جیل میں ڈال دیا۔ موچی گیٹ لاہور کے لاکھوں کے جلسے میں استاد دامن اپنی شاعری سنا رہے تھے۔ لاہور شہرکا یہ واحد شاعر تھا جو میدان میں اترا تھا۔ ''ایہہ کی کری جاندا ایں ' کدی شملے جاندا ایں کدی مری جاندا ایں'' یہ سادہ سے مگر بھرپور سیاسی تجزیہ لیے مصرعے، امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی شملہ اور مری یاتراؤں کا بھید کھول رہے تھے۔

اس سنگین جرم کی پاداش میں حکومت پاکستان نے امریکی وفاداری نبھاتے ہوئے استاد کی کھولی سے دستی بم اور رائفلیں برآمد کرکے انھیں جیل میں ڈال دیا۔ یہ تھے پنجابی زبان کے عوام دوست انقلابی شاعر استاد دامن۔استاد دامن کی کھولی میں فیض احمد فیض، سبط حسن، مولانا کوثر نیازی، اداکار علاؤ الدین (استاد کا منہ بولا بیٹا) اورکالجوں کے طلبا وطالبات بھی استاد سے ملنے آتے تھے۔ کبھی کبھی استاد دامن خود ہانڈی پکا کر اپنے مہمانوں کو کھانا کھلایا کرتے تھے۔

میں بتاتا چلوں کہ استاد کی کھولی لاہور کے مشہور بازار ہیرامنڈی میں تھی اور وہ اکثر اپنے مہمانوں کے لیے روٹیاں سامنے رہنے والی بازار کی رہائشی سے یہ کہہ کر منگوایا کرتے تھے ''دھیئے! چار بندیاں دی روٹیاں پکا کر بھیج دے'' یعنی استاد سامنے والی ''رہائش پذیر'' کو بیٹی کہہ کر بلاتے تھے۔ یہ تھے بڑے انسان اللہ کے نیک بندے استاد دامن۔ فیض صاحب کا انتقال ہوا تو استاد دامن اور حبیب جالب گنگا رام اسپتال میں داخل تھے۔

حبیب جالب صاحب کا ہرنیا کا آپریشن ہوا تھا اور استاد دامن محض آخری چند دن کے مہمان تھے۔ فیض صاحب کے جنازے میں احباب کا سہارا لے کر استاد دامن ڈاکٹروں کی ہدایات کو نظرانداز کرتے ہوئے شریک ہوئے اور دو تین دن بعد خود وہ بھی فیض کے پیچھے چل دیے۔ جالب صاحب آپریشن کے باعث بستر سے اٹھ نہ سکے۔ جنازے میں شریک نہ ہونے کے دکھ کو جالب نے یوں بیان کیا تھا۔

فیض اور فیض کا غم بھولنے والا ہے کہیں
موت یہ تیرا ستم بھولنے والا ہے کہیں

آخری بار اسے دیکھ نہ پائے جالب
یہ مقدرکا ستم بھولنے والا ہے کہیں

بیاد فیض یہ پانچ اشعار کی نظم ہے میں نے صرف مطلع اور مقطع نقل کیے ہیں۔استاد دامن ساری حیاتی حق اور سچ کی لڑائی لڑتے رہے۔ انھوں نے شاہ حسین کی طرح ''دربار'' سے کوئی تعلق نہیں رکھا اور سادگی سے باوقار زندگی گزارکے اپنے مرشد کے مزار کے احاطے کے نزد شالامار باغ سپرد خاک ہوگئے۔ جالب، استاد دامن اور خالد علیگ جیسے شاعر یہی پیغام چھوڑ کر گئے ہیں:

جیو ہماری طرح سے مرو ہماری طرح
نظامِ زر تو اسی سادگی سے جائے گا
(جالب)

آج اندھیرے اور بڑھ گئے ہیں۔ ہم چند لکھنے والے ظالموں، لٹیروں کے خلاف جتنا لکھتے ہیں جتنا بولتے ہیں یہ ظالم لٹیرے اپنے ظلم اور مار میں مزید اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں۔

آج کہیں کوئی دامن نہیں ہے،کوئی جالب نہیں ہے،کوئی خالد علیگ نہیں ہے۔ آج بھی ''سب جا رہے ہیں سایۂ دیوار کی طرف'' حبیب جالب نے دو نظمیں استاد دامن کے لیے لکھیں، دونوں نذر قارئین کروں گا۔''ساڈے دیس نوں چوراں تے ڈاکوآں تو نئیں ملی نجات استاد دامن/اُچّی دھونڑ ہوئی ہور امریکیاں دی، بدلے نئیں حالات استاد دامن/تیرے وانگ جینا تیرے وانگ مرنا' سامراجیاں توں اساں نئیں ڈرنا/اساں چھڈنی نئیں حق سچ دی گل' کہنا رات نوں رات استاد دامن/چین کھونڑ نئیں دینا لٹیریاں نوں' خون پین نئیں دینا وڈیریاں نوں/ تیرے ذہن دی سونہہ' تیری سوچ دی سونہہ' دینی ظلم نوں مات استاد دامن۔ ترجمہ: ہمارے دیس کو چوروں، ڈاکوؤں سے نجات نہیں ملی ہے اے استاد دامن/ اونچی گردن ہوئی اور امریکیوں کی، بدلے نہیں حالات استاد دامن/ تیری طرح جینا تیری طرح مرنا سامراجیوں سے ہم نے نہیں ڈرنا/ہم نے چھوڑنی نہیں سچ کی بات، کہنا رات کو رات استاد دامن/ چین چھیننے نہیں دینا لٹیروں کو' خون پینے نہیں دینا وڈیروں کو/تیرے ذہن کی قسم' تیری سوچ کی قسم' ظلم کو شکست دینا ہے استاد دامن۔

اک شاہ سخن
اک کٹیا وچ پیا رہیا' اک شاہِ سخن
دنیا جنہوں کہندی سی دامن دامن
ہوراں وانگوں او درباری بنیا نئیں
بھل کے وی شاعر سرکاری بنیا نئیں
لوکاں اُتے وار گیا اپنا جیون
اک شاہِ سخن
اوہدے شعر ستم گاراں نوں کھلدے رہے
طوفاناں وچ ڈیوے اوہدے بلدے رہے
کردا روے گا اوہدے اُتے ناز وطن
اک شاہِ سخن
Load Next Story