معاشی منظرنامہ
بیروزگاری ان مسائل میں سرفہرست ہے جن کا عوام کی اکثریت کو سامنا ہے۔
انتخابات کی آمد آمد ہے اورتجزیہ کار ترازو ہاتھ میں لیے نظر آتے ہیں۔
اپوزیشن کاایک ہی دعویٰ ہے کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ گویا چارسال کا عرصہ ضایع چلا گیا۔ مگر حقائق پر نظرڈالی جائے تو یہ دعویٰ کھوکھلا پراپیگنڈہ لگتا ہے۔عام آدمی کی حالت بہر حال وہ نہیں جو چار سال پہلے تھی، سرکاری ملازمین جو مارکیٹ میں مہنگائی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، ان کی خوشحالی سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، ان کی تنخواہوں اور مراعات میں دو مرتبہ اضافہ کیا جا چکا ہے اور شنید ہے کہ آیندہ جنوری میں ایک اضافہ اور ہو گا۔ چھوٹا کاروباری طبقہ ہو یا بڑا صنعتکار، وہ افراط زر کے اثرات صارف کو منتقل کر کے اپنا گھر محفوظ بنا لیتا ہے، سبزی اور پھل کی ریڑھی لگانے والا بھی شام کو منافع لے کر گھر لوٹتا ہے۔
چھوٹی سطح کے کاریگر کے ہاتھ میں بھی موبائل فون ہے اور ہر تیسرے شخص کے پاس دو دو موبائل نظر آتے ہیں۔سڑکوں پر موٹر سائیکلوں کا اژدہام ہے اور نئی نویلی کاروں سے لے کر امپورٹڈ لگژری گاڑیوں سے سڑکیں اٹی ہوئی ہیں۔ ڈھابے کھوکھے ہوں یا فائیو اسٹار ہوٹل ، ان میں پیشگی ٹیبل ریزرو کرائے بغیر روٹی نہیں ملتی۔ہوائی جہازوں میں سیٹ کے حصول کے لیے سفارشیں ڈھونڈنا پڑتی ہیں۔عمرہ اور حج پر جانے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی معاشی خوشحالی کا غماز ہے۔ حکومت نے اپنی معاشی کارکردگی کی تفصیلات جاری کی ہیںجو اپوزیشن کے پراپیگنڈے کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنی ذمے داریاں سنبھالیں تو اس وقت قومی بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.6فیصد تھاجس کو 2011-12 میں کم کرکے 6.6فیصد کیاگیااور موجودہ مالی سال میں اس کے 4.7 فیصد ہونے کی توقع ہے۔اسی طرح 2008 میں افراط زر کی شرح 25فیصد تھی جو 2011-12 میں 11فیصد ہوئی اور موجودہ مالی سال میں یہ شرح 9.5فیصد ہونے کی توقع ہے۔حکومت کی طرف سے دی جانے والی مالی اعانتوں کو نہ صرف بجٹ بلکہ اقتصادی ترقی کی رفتار پر اثراندازہونے والے عوامل میں انتہائی اہم حیثیت حاصل ہے۔2008 میں ایسی مالی اعانتوں کی شرح جی ڈی پی کا 3.5فیصد تھی جو موجودہ مالی سال میں کم ہو کر 1فیصد ہوجائے گی۔
حکومت نے درپیش مسائل کو حل کرنے اور حقیقت پسندانہ طرزفکروعمل اختیار کرتے ہوئے اپنے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کی۔ جی ڈی پی کے 1.3فیصد اخراجات کو کم کرکے 0.9فیصد تک لایاگیا۔قومی معیشت میں مختلف ٹیکسوں کی وصولی انتہائی نتیجہ خیز کردارادا کرتی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 2008 میں 1157بلین روپے مالیت کے ٹیکس وصول کیے ۔یہ رقم 2011-12 میں 1908بلین روپے ہوگئی اور توقع ہے کہ موجودہ مالی سال میں 2381بلین روپے ٹیکسوں کی مد میں وصول کیے جائیں گے۔برآمدات کے شعبے میں بھی نمایاں اضافہ مشاہدہ کیاگیاجس کااندازہ یوں کیاجاسکتا ہے کہ2008 میں 19.1بلین امریکی ڈالر کی برآمدات کی گئی جو 2010-11 میں 25.3بلین امریکی ڈالر ہوگئی۔
دوسری طرف غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جو ستمبر 2008 میں 7.5بلین امریکی ڈالر مالیت کے تھے،وہ جون 2011 میں 18.2بلین امریکی ڈالر مالیت کے ہوگئے اور موجودہ مالی سال میں یہ 14.4بلین امریکی ڈالر مالیت کے لگ بھگ رہیں گے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم کی مالیت 2008میں 7.8بلین امریکی ڈالر تھی جو 2012میں 13.2بلین امریکی ڈالر ہوگئی۔ اقتصادی ترقی کی شرح جو گزشتہ مالی سال میں 3.7فیصد تھی ،موجودہ مالی سال کے دوران 4فیصد تک پہنچ جائے گی۔
پبلک سیکٹرڈویلپمنٹ پروگرام کا شعبہ دراصل اس امر کو واضح کرتا ہے کہ حکومت عوام کی فلاح وبہبود اور خوشحالی کے لیے کس حد تک اقدامات کررہی ہے اور اس سلسلے میں اس کی ترجیحات کی نوعیت کیا ہے۔ گزشتہ چاربرسوں کے دوران اس شعبے میں خاطرخواہ اور حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی جس کااندازہ یوں کیاجاسکتا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس شعبے میں3ٹریلین روپے خرچ ہوئے ۔گزشتہ برس یہ اخراجات 668بلین روپے تھے جو موجودہ برس میں 873بلین روپے ہوں گے۔عوام کو بجلی ،گیس ،شاہرات اورپانی وغیرہ کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جو سیکڑوں اسکیمیں تیار کی گئیں ان پر عملدرآمد کے لیے مجموعی طور پر 153بلین روپے خرچ کیے گئے۔
بیروزگاری ان مسائل میں سرفہرست ہے جن کا عوام کی اکثریت کو سامنا ہے لیکن یہ امر بھی مدنظر رہے کہ بیروزگاری کی آزمائش سے وہ ممالک اور اقوام بھی مبرا نہیں جو کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔موجودہ حکومت کی کوشش رہی ہے کہ اپنے محدود وسائل کو زیادہ سے زیادہ بہترانداز میں بروئے کار لاتے ہوئے بیروزگاری کے مسئلے پر قابو پایاجائے۔ اس سلسلے میں جو اقدامات اور کوششیں کی گئیں ان میں سب سے زیادہ نمایاں یہ اقدام تسلیم کیاجاتا ہے کہ حکومت نے سرکاری ملازمتوں پر عائدپابندی کو ختم کردیا۔ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے تحت ایک ''وسیلہ روزگار اسکیم''شروع کی گئی جس کے تحت بیروزگار افراد کی ایک بڑی تعداد نے سیلف ایمپلائمنٹ کی سہولت سے استفادہ کیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
دریں اثنا نیشنل انٹرن شپ پروگرام کے تحت ایک لاکھ سے زائد نوجوانوں کو انٹرن شپ کی ایسی سہولت فراہم کی گئی جس کے ذریعے ان کو نہ صرف مستقبل میں روزگار کے مواقعے میسر آئے ۔ دنیا بھر میں پاکستان کی ہنرمند اور تجربہ کارافرادی قوت کی بے پناہ مانگ ہے چنانچہ حکومت نے 660ہزار پاکستانیوں کو بیرون وطن ملازمت کے مواقع فراہم کیے۔ قومی ترقی وخوشحالی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک ملک کے تمام صوبے اور علاقے اس میں شامل نہ ہوں چنانچہ موجودہ حکومت نے صوبوں کو مالیاتی اور انتظامی اعتبارسے خودمختاری دیتے ہوئے انھیں 7ویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت ایسے مالیاتی وسائل فراہم کیے گئے جو یقینی طور پر ان کی توقعات سے زیادہ تصور کیے گئے۔
اس ضمن میں یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ چھٹے این ایف سی ایوارڈ کے تحت 2009 میں صوبوں کو 633بلین روپے فراہم کیے گئے تھے جو 2010-11 میں بڑھ کر 999بلین روپے ہوگئے لیکن یہ مالیت2011-12 میں 1090بلین روپے ہوگئی اور موجودہ مالی سال میں یہ مالیت 1459بلین روپے ہوجائے گی۔رقبے کے اعتبارسے وطن عزیز کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ایک عرصہ سے احساس محرومی کا شکار مشاہدہ کیاجاتا ہے۔موجودہ حکومت نے بلوچستان کے عوام کی خوشحالی اور علاقے کی ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جن میں''آغاز حقوقُ بلوچستان''سب سے نمایاں ہے ۔حکومت نے بلوچستان کا حصہ 9.09فیصد سے بڑھا کر 15.11 کردیا۔ اسی طرح حکومت اب قابل تقسیم شعبے کا 70فیصد حصہ صوبوں اور خصوصی علاقہ جات کو منتقل کررہی ہے۔ گویا وفاقی حکومت صوبوں کو زیادہ سے زیادہ مالی اختیارات تفویض کرنے پر عمل پیرا ہے۔
غربت کا مسئلہ بھی نمایاں نظرآتا ہے ۔موجودہ حکومت نے اس مسئلے کو ختم کرنے اور اس پر قابوپانے کے لیے طویل المدت اور مختصرمدت کے جو منصوبے تیار کیے ہیں ان میں بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام سب سے نمایاں قرار دیاجاسکتا ہے۔اس پروگرام کے شروع ہونے سے گزشتہ سال کے اختتام تک اس پروگرام کے لیے مجموعی طور پر 138بلین روپے مختص کیے گئے تھے جب کہ صرف موجودہ مالی سال کے دوران اس پروگرام کے لیے 70بلین کی رقم مختص کی گئی ہے۔ادھر پاکستان بیت المال کی طرف سے گزشتہ تین برسوں کے دوران 7بلین روپے غرباء ،ضرورت مند ،بے وسیلہ اور مستحق افراد میں تقسیم کیے گئے ہیں۔سیلاب کے دوران ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے اور متاثرہ افراد کی مدد کے لیے 52بلین روپے فراہم کیے گئے ۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بے نظیرایمپلائیزاسٹاک آپشن پروگرام کے تحت حکومت کے ملکیتی 80اداروں کے 5لاکھ افراد میں ان اداروں کے 12فیصدحصص تقسیم کیے گئے جس کے نتیجے میںیہ کارکن اب اپنے اداروں کے حصہ دار بن گئے ہیں۔ سرکاری ملکیتی صنعتی اداروں کی کارکردگی کو مزید بہتربنانے کے لیے حکومت نے اسٹیل ملز،پی آئی اے، پاسکو، یوٹیلیٹی اسٹورزکارپوریشن اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کی انتظامی سطح پر ازسرنوتشکیل کی طرف بھی توجہ دی گئی ۔قومی اقتصادی صورتحال کا یہ جائزہ بلاشبہ حوصلہ افزاہے ۔ایک وضاحت: میں اپنا کالم خود ہی ٹائپ کرکے بھجواتا ہوں،گزشتہ لاہور دو غلطیاں ہو گئیں۔
لاہور سے ایک معزز قاری جناب حارث مسعود نے ضروری تصحیح کے لیے توجہ دلائی ہے ۔ تھنڈر طیارے کی چین میںپہلی پرواز نہیں، اس سے پہلے یہ طیارہ دو مرتبہ بیرون ملک ایئر شو زمیں حصہ لے کرداد وصول کر چکا ہے، اسی طرح ممبئی دھماکوں کاسن بھی غلط ٹائپ ہو گیا۔ قارئین سے اس فروگزاشت پر بے حدمعذرت۔
اپوزیشن کاایک ہی دعویٰ ہے کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا۔ گویا چارسال کا عرصہ ضایع چلا گیا۔ مگر حقائق پر نظرڈالی جائے تو یہ دعویٰ کھوکھلا پراپیگنڈہ لگتا ہے۔عام آدمی کی حالت بہر حال وہ نہیں جو چار سال پہلے تھی، سرکاری ملازمین جو مارکیٹ میں مہنگائی کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ، ان کی خوشحالی سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا، ان کی تنخواہوں اور مراعات میں دو مرتبہ اضافہ کیا جا چکا ہے اور شنید ہے کہ آیندہ جنوری میں ایک اضافہ اور ہو گا۔ چھوٹا کاروباری طبقہ ہو یا بڑا صنعتکار، وہ افراط زر کے اثرات صارف کو منتقل کر کے اپنا گھر محفوظ بنا لیتا ہے، سبزی اور پھل کی ریڑھی لگانے والا بھی شام کو منافع لے کر گھر لوٹتا ہے۔
چھوٹی سطح کے کاریگر کے ہاتھ میں بھی موبائل فون ہے اور ہر تیسرے شخص کے پاس دو دو موبائل نظر آتے ہیں۔سڑکوں پر موٹر سائیکلوں کا اژدہام ہے اور نئی نویلی کاروں سے لے کر امپورٹڈ لگژری گاڑیوں سے سڑکیں اٹی ہوئی ہیں۔ ڈھابے کھوکھے ہوں یا فائیو اسٹار ہوٹل ، ان میں پیشگی ٹیبل ریزرو کرائے بغیر روٹی نہیں ملتی۔ہوائی جہازوں میں سیٹ کے حصول کے لیے سفارشیں ڈھونڈنا پڑتی ہیں۔عمرہ اور حج پر جانے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی معاشی خوشحالی کا غماز ہے۔ حکومت نے اپنی معاشی کارکردگی کی تفصیلات جاری کی ہیںجو اپوزیشن کے پراپیگنڈے کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ حکومت نے اپنی ذمے داریاں سنبھالیں تو اس وقت قومی بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 7.6فیصد تھاجس کو 2011-12 میں کم کرکے 6.6فیصد کیاگیااور موجودہ مالی سال میں اس کے 4.7 فیصد ہونے کی توقع ہے۔اسی طرح 2008 میں افراط زر کی شرح 25فیصد تھی جو 2011-12 میں 11فیصد ہوئی اور موجودہ مالی سال میں یہ شرح 9.5فیصد ہونے کی توقع ہے۔حکومت کی طرف سے دی جانے والی مالی اعانتوں کو نہ صرف بجٹ بلکہ اقتصادی ترقی کی رفتار پر اثراندازہونے والے عوامل میں انتہائی اہم حیثیت حاصل ہے۔2008 میں ایسی مالی اعانتوں کی شرح جی ڈی پی کا 3.5فیصد تھی جو موجودہ مالی سال میں کم ہو کر 1فیصد ہوجائے گی۔
حکومت نے درپیش مسائل کو حل کرنے اور حقیقت پسندانہ طرزفکروعمل اختیار کرتے ہوئے اپنے اخراجات میں خاطر خواہ کمی کی۔ جی ڈی پی کے 1.3فیصد اخراجات کو کم کرکے 0.9فیصد تک لایاگیا۔قومی معیشت میں مختلف ٹیکسوں کی وصولی انتہائی نتیجہ خیز کردارادا کرتی ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے 2008 میں 1157بلین روپے مالیت کے ٹیکس وصول کیے ۔یہ رقم 2011-12 میں 1908بلین روپے ہوگئی اور توقع ہے کہ موجودہ مالی سال میں 2381بلین روپے ٹیکسوں کی مد میں وصول کیے جائیں گے۔برآمدات کے شعبے میں بھی نمایاں اضافہ مشاہدہ کیاگیاجس کااندازہ یوں کیاجاسکتا ہے کہ2008 میں 19.1بلین امریکی ڈالر کی برآمدات کی گئی جو 2010-11 میں 25.3بلین امریکی ڈالر ہوگئی۔
دوسری طرف غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر جو ستمبر 2008 میں 7.5بلین امریکی ڈالر مالیت کے تھے،وہ جون 2011 میں 18.2بلین امریکی ڈالر مالیت کے ہوگئے اور موجودہ مالی سال میں یہ 14.4بلین امریکی ڈالر مالیت کے لگ بھگ رہیں گے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی طرف سے بھیجی جانے والی رقوم کی مالیت 2008میں 7.8بلین امریکی ڈالر تھی جو 2012میں 13.2بلین امریکی ڈالر ہوگئی۔ اقتصادی ترقی کی شرح جو گزشتہ مالی سال میں 3.7فیصد تھی ،موجودہ مالی سال کے دوران 4فیصد تک پہنچ جائے گی۔
پبلک سیکٹرڈویلپمنٹ پروگرام کا شعبہ دراصل اس امر کو واضح کرتا ہے کہ حکومت عوام کی فلاح وبہبود اور خوشحالی کے لیے کس حد تک اقدامات کررہی ہے اور اس سلسلے میں اس کی ترجیحات کی نوعیت کیا ہے۔ گزشتہ چاربرسوں کے دوران اس شعبے میں خاطرخواہ اور حوصلہ افزا پیش رفت ہوئی جس کااندازہ یوں کیاجاسکتا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران اس شعبے میں3ٹریلین روپے خرچ ہوئے ۔گزشتہ برس یہ اخراجات 668بلین روپے تھے جو موجودہ برس میں 873بلین روپے ہوں گے۔عوام کو بجلی ،گیس ،شاہرات اورپانی وغیرہ کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جو سیکڑوں اسکیمیں تیار کی گئیں ان پر عملدرآمد کے لیے مجموعی طور پر 153بلین روپے خرچ کیے گئے۔
بیروزگاری ان مسائل میں سرفہرست ہے جن کا عوام کی اکثریت کو سامنا ہے لیکن یہ امر بھی مدنظر رہے کہ بیروزگاری کی آزمائش سے وہ ممالک اور اقوام بھی مبرا نہیں جو کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور خوشحال ہیں۔موجودہ حکومت کی کوشش رہی ہے کہ اپنے محدود وسائل کو زیادہ سے زیادہ بہترانداز میں بروئے کار لاتے ہوئے بیروزگاری کے مسئلے پر قابو پایاجائے۔ اس سلسلے میں جو اقدامات اور کوششیں کی گئیں ان میں سب سے زیادہ نمایاں یہ اقدام تسلیم کیاجاتا ہے کہ حکومت نے سرکاری ملازمتوں پر عائدپابندی کو ختم کردیا۔ بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کے تحت ایک ''وسیلہ روزگار اسکیم''شروع کی گئی جس کے تحت بیروزگار افراد کی ایک بڑی تعداد نے سیلف ایمپلائمنٹ کی سہولت سے استفادہ کیا اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
دریں اثنا نیشنل انٹرن شپ پروگرام کے تحت ایک لاکھ سے زائد نوجوانوں کو انٹرن شپ کی ایسی سہولت فراہم کی گئی جس کے ذریعے ان کو نہ صرف مستقبل میں روزگار کے مواقعے میسر آئے ۔ دنیا بھر میں پاکستان کی ہنرمند اور تجربہ کارافرادی قوت کی بے پناہ مانگ ہے چنانچہ حکومت نے 660ہزار پاکستانیوں کو بیرون وطن ملازمت کے مواقع فراہم کیے۔ قومی ترقی وخوشحالی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک ملک کے تمام صوبے اور علاقے اس میں شامل نہ ہوں چنانچہ موجودہ حکومت نے صوبوں کو مالیاتی اور انتظامی اعتبارسے خودمختاری دیتے ہوئے انھیں 7ویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت ایسے مالیاتی وسائل فراہم کیے گئے جو یقینی طور پر ان کی توقعات سے زیادہ تصور کیے گئے۔
اس ضمن میں یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ چھٹے این ایف سی ایوارڈ کے تحت 2009 میں صوبوں کو 633بلین روپے فراہم کیے گئے تھے جو 2010-11 میں بڑھ کر 999بلین روپے ہوگئے لیکن یہ مالیت2011-12 میں 1090بلین روپے ہوگئی اور موجودہ مالی سال میں یہ مالیت 1459بلین روپے ہوجائے گی۔رقبے کے اعتبارسے وطن عزیز کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ایک عرصہ سے احساس محرومی کا شکار مشاہدہ کیاجاتا ہے۔موجودہ حکومت نے بلوچستان کے عوام کی خوشحالی اور علاقے کی ترقی کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں جن میں''آغاز حقوقُ بلوچستان''سب سے نمایاں ہے ۔حکومت نے بلوچستان کا حصہ 9.09فیصد سے بڑھا کر 15.11 کردیا۔ اسی طرح حکومت اب قابل تقسیم شعبے کا 70فیصد حصہ صوبوں اور خصوصی علاقہ جات کو منتقل کررہی ہے۔ گویا وفاقی حکومت صوبوں کو زیادہ سے زیادہ مالی اختیارات تفویض کرنے پر عمل پیرا ہے۔
غربت کا مسئلہ بھی نمایاں نظرآتا ہے ۔موجودہ حکومت نے اس مسئلے کو ختم کرنے اور اس پر قابوپانے کے لیے طویل المدت اور مختصرمدت کے جو منصوبے تیار کیے ہیں ان میں بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام سب سے نمایاں قرار دیاجاسکتا ہے۔اس پروگرام کے شروع ہونے سے گزشتہ سال کے اختتام تک اس پروگرام کے لیے مجموعی طور پر 138بلین روپے مختص کیے گئے تھے جب کہ صرف موجودہ مالی سال کے دوران اس پروگرام کے لیے 70بلین کی رقم مختص کی گئی ہے۔ادھر پاکستان بیت المال کی طرف سے گزشتہ تین برسوں کے دوران 7بلین روپے غرباء ،ضرورت مند ،بے وسیلہ اور مستحق افراد میں تقسیم کیے گئے ہیں۔سیلاب کے دوران ہونے والے نقصانات کا ازالہ کرنے کے لیے اور متاثرہ افراد کی مدد کے لیے 52بلین روپے فراہم کیے گئے ۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بے نظیرایمپلائیزاسٹاک آپشن پروگرام کے تحت حکومت کے ملکیتی 80اداروں کے 5لاکھ افراد میں ان اداروں کے 12فیصدحصص تقسیم کیے گئے جس کے نتیجے میںیہ کارکن اب اپنے اداروں کے حصہ دار بن گئے ہیں۔ سرکاری ملکیتی صنعتی اداروں کی کارکردگی کو مزید بہتربنانے کے لیے حکومت نے اسٹیل ملز،پی آئی اے، پاسکو، یوٹیلیٹی اسٹورزکارپوریشن اور ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کی انتظامی سطح پر ازسرنوتشکیل کی طرف بھی توجہ دی گئی ۔قومی اقتصادی صورتحال کا یہ جائزہ بلاشبہ حوصلہ افزاہے ۔ایک وضاحت: میں اپنا کالم خود ہی ٹائپ کرکے بھجواتا ہوں،گزشتہ لاہور دو غلطیاں ہو گئیں۔
لاہور سے ایک معزز قاری جناب حارث مسعود نے ضروری تصحیح کے لیے توجہ دلائی ہے ۔ تھنڈر طیارے کی چین میںپہلی پرواز نہیں، اس سے پہلے یہ طیارہ دو مرتبہ بیرون ملک ایئر شو زمیں حصہ لے کرداد وصول کر چکا ہے، اسی طرح ممبئی دھماکوں کاسن بھی غلط ٹائپ ہو گیا۔ قارئین سے اس فروگزاشت پر بے حدمعذرت۔