کراچی میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ

کراچی میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ پولیس اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کو فعال کیا جائے۔

tauceeph@gmail.com

کراچی میں شہری قتل ہورہے ہیں صرف ایک ماہ میں ٹارگٹ کلنگ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعدا د سو کے ہندسے کو عبور کرگئی،روزانہ قتل ہونے والے کم سے کم افراد کی تعداد 6سے 10تک ہے۔

اکتوبر اور نومبر میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے۔ گزشتہ سالوں کے دوران سیاسی، لسانی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر قتل کا سلسلہ جاری تھا۔عوامی نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ کراچی کی صورتحال کو قابو میں لانے کے لیے فوج کو طلب کرنا چاہیے۔ سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کراچی میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔سندھ کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے چند تھانوں پر چھاپے مارے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ کراچی کی صورتحال اتنی خراب نہیں جتنا میڈیا بیان کررہا ہے ۔ ملک میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کی روایت خاصی پرانی ہے ۔

یوں تو شیعہ سنی جھگڑا 14سو سال پرانا ہے ،برطانوی ہند حکومت میں مسلمانوں کی اکثریت آبادی والے شہروں میں اس نوعیت کے فسادات ہوتے رہتے تھے ، پاکستان کے قیام کے بعد بھی مغربی پاکستان کے مختلف شہروں میں محرم الحرام کے مہینے میں کشیدگی پیدا ہوتی تھی اور بعض اوقات فساد کی صورتحال پیداہوتی تھی مگر پولیس اور اس کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کے اقدامات سے صورتحال معمول پرآجاتی تھی پھر دونوں بڑے فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں قرابت داری اور برداشت کی روایت خاصی گہری تھی اس بناء پر فرقہ وارانہ صورتحال خطرناک حد سے تک پہنچنے سے پہلے ہی سرد ہوجاتی تھی۔ جنرل ضیاء الحق نے 1977میں جب اقتدار سنبھالا تو ایک سال بعد افغانستان میں نور محمدتراکی کی انقلابی حکومت قائم ہوئی اور ایران میں آیت اللہ خمینی کی قیادت میں انقلاب کامیاب ہوا۔

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے نورمحمد تراکی کی حکومت کے خاتمے کا منصوبہ تیار کیا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت اس منصوبے میں شریک ہوگئی ،افغانستان کی انقلابی حکومت کے خاتمے کے لیے پاکستان میں مجاہدین کے اڈے قائم ہوئے ، پوری دنیا سے ایک مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو افغان جہاد میں شرکت کے لیے پاکستان میں جمع کیا گیا ، امریکی سی آئی اے نے صوبہ سرحد سے متصل پارا چنار کے قبائلی علاقے کو افغانستان میں مداخلت کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر منتخب کیا گیا یوں سرکاری سرپرستی میں پارا چنار میں پہلا فرقہ وارانہ فساد منظم ہوا اور دونوں طرف کے علما ء کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی۔ علامہ عارف الحسینی ، علامہ احسان الٰہی ظہیراسی لہر کا شکار ہوئے۔

آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایران کی حکومت نے اسلامی انقلاب برآمد کرنے کا اعلان کیا ۔ پاکستان سمیت اسلامی ممالک میں آیت اللہ خمینی کے انقلاب کا مطلب شیعہ انقلاب لیا گیا ۔ سعودی عرب ، عراق اور لیبیا کے فراہم کردہ سرمایے سے شدت پسند تنظیمیں قائم ہونے لگیں۔ جنرل ضیاء الحق نے ملک میں متنازعہ اسلامی قوانین نافذ کیے ، ان قوانین کی پیپلزپارٹی سمیت تمام لبرل اور ترقی پسند جماعتوں نے مذمت کی، ان قوانین سے شیعہ کمیونٹی بھی متاثر ہوئی مگر اس اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے بعض علماء نے جنرل ضیاء الحق کے خلاف جمہوری اور روشن خیال جماعتوں کی جدوجہد میں حصہ لینے کے بجائے فرقہ وارانہ بنیادوں پر دھرنے اور احتجاج کا طریقہ اختیار کیااس پالیسی کے تحت پہلے کراچی اور پھر اسلام آباد میں دھرنے دیے گئے۔ اگرچہ ان دھرنوں کی بناء پر فوجی حکومت کچھ مطالبات ماننے پر تیار ہوگئی مگر سعودی عرب اور عراق کی حکومتوں کو اکثریتی فرقے کے انتہاپسندوں کو متحرک کرنے کا موقع مل گیا۔ 80کی دہائی میں جب جمہوری قوتیں ایم آر ڈی کے نام سے1973 کے آئین کی بحالی اور جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خاتمے کے لیے جدوجہد کررہی تھی ۔


کراچی میں متوسط اور نچلے طبقے کی آبادیوں لیاقت آباد، نیو کراچی اور نارتھ کراچی وغیرہ میں فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لیے انتظامیہ کو بار بار کرفیونافذ کرنا پڑا تھا ۔ جب 90کی دھائی کے آغاز پر افغان جہاد سے فارغ ہونے والے بعض گروہوں کوبھارت کے زیر کنٹرول کشمیر میں آزادی کا فریضہ انجام دینے کے لیے برآمد کیا جارہا تھا تو ان گروہوںسے تعلق رکھنے والے تربیت یافتہ کمانڈوز نے پہلے پنجاب میں اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے سول و پولیس افسروں ،شاعروں ، وکلا کی ٹارگٹ کلنگ کی ۔ کراچی میں ڈاکٹروں، اساتذہ ، وکلاء ، پولیس اور انٹیلی جنس افسرون کو نشانہ بنایا جانے لگا ۔ پولیس اور انٹیلی جنس نیٹ ورک اس ٹارگٹ کلنگ کے ذمے دار افراد کا قلع قمع کرنے میں ناکام رہا۔ اس زمانے میں انگریزی اخبارات رسائل میں شایع ہونے والی تحقیقاتی رپورٹوں میں یہ بتایا گیا کہ عسکری خفیہ ایجنسیاں ٹارگٹ کلنگ کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈائون کے حق میں نہیں ہیں ۔

یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں اس صورتحال کے تدارک میں ناکام رہیں ۔ سول ایڈمنسٹریشن اور پولیس کے کئی لائق اور سینئر افسران بھی اس صورتحال کا شکار ہوئے۔ جب نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف حکومت کی پالیسی تبدیل ہوئی تو انتہا پسند مذہبی تنظیموں کے خلاف مربوط آپریشن ہوا، اس آپریشن کے دوران فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے ذمے دار کئی اہم دہشت گرد بھی ہلاک ہوئے اور کچھ گرفتار ہوئے مگر پولیس کی کمزور تحقیقات گواہوں کے تحفظ کے لیے ناقص انتظامات اور خوف زدہ عدالتی نظام کی بناء پر کسی بھی قاتل کو سزانھیں ہوسکی ۔

عسکری اسٹبلشمنٹ کی پالیسی کی بناء پر پنجاب، سرائیکی ، بلوچی طالبان کے دستے متحرک ہوئے۔ طالبان اور انتہا پسندوں نے کراچی میں اپنی کمین گاہیں قائم کرلی یوں کوئٹہ میں ہزارہ برادری اور کراچی میں اقلیتی شیعہ برادری کے افراد قتل ہونے لگے ۔ شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے انتہا پسند گروپ قائم کیے یوں کراچی میں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی۔ تو ایک وقت یہ آیا کہ ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے ایک یا دو افراد کے قتل کے ساتھ دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی لاشیں گرنے لگی۔ کراچی کے شہریوں نے جنازوں پر فائرنگ کے مناظر دیکھے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ گروہوں کی پشت پناہی بعض مسلمان ممالک کے حکمران کررہے ہیں اس بناء پر انتظامیہ بے بس ہے۔ یوں کراچی سیاسی، لسانی ، بھتہ نہ دینے پرٹارگٹ کلنگ کے بعد فرقہ وارانہ بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ کا مرکز بن گیا۔

اس سے پہلے کراچی کے قدیم علاقے گڈاپ ٹائون میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم چلانے والے ایک پاکستانی ڈاکٹر کو ان کے کلینک میں قتل کردیا تھا جب کہ یونیسکو کی جانب سے اس مہم کی نگرانی کرنے والے غیر ملکی ڈاکٹر قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوئے تھے۔ مذہبی انتہاپسندوں کی مزاحمت کی بناء پر چارٹائون میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم معطل کردی گئی تھی اور پولیس پاکستانی ڈاکٹرکے قتل میں ملوث افراد کی تلاش کرنے میں ناکام ہوگئی ۔الطاف حسین کے مطالبے کے بعد اب سپریم کورٹ نے بھی طالبان کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی ہے ۔

بعض صحافیوں کا کہنا ہے کہ کراچی کے مضافاتی علاقوں میں طالبان نے ٹی وی چینلز دیکھنے پر پابندی لگادی ہے ۔کراچی میں اس فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ پولیس اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کو فعال کیا جائے۔ پختونخواہ اور بلوچستان سے آنے والے اسلحے کو روکنے کے لیے جنرل نصیراللہ بابر کے دور کی طرح کے اقدامات کیے جائیں ۔ جیسے بھارت کی ریاست بہار کی حکومت نے کیے تھے ، ملزمان کی گرفتاری کے لیے جدید اور آئی ٹی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ نصاب سے مذہبی منافرت پر مبنی مواد خارج کرکے اور نئی نسل کو یہ بتا کر کہ پاکستان بنانے میں تمام فرقوں نے قربانیاں دیں ۔ بعض رہنمائوں نے فوج کو بلانے اور کراچی کے سابق ناظم مصطفی کمال نے ایمرجنسی نافذ کرنے کی تجویز دی ہے ۔ ان تجاویز پر عملدرآمد سے فوری طور پر تو امن قائم ہوگا لیکن مستقبل میں امن کے لیے اہم اور بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے۔
Load Next Story