سائنس دانوں کا زندگی کے اجزا رکھنے والے 3 سیاروں کی دریافت کا دعویٰ
سیارے زمین سے 39 نوری سال دور ہیں جب کہ ان کا سائز اور درجہ حرارت زمین اور وینس کی طرح ہے، سائنسدان
جیسے جیسے آسمان کی وسعتوں میں کھوج لگانا آسان ہوتا جارہا ہے ویسے ویسے زمین کے علاوہ دیگر سیاروں پر زندگی کے آثار کے زیادہ ٹھوس ثبوت ملنے لگے ہیں اور اب سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آسمان کی وسعتوں پر 3 ایسے سیارے موجود ہیں جو زندگی کے لیے بہترین جگہ ہیں۔
عالمی سائنس دانوں کی ایک ٹیم کا دعویٰ ہے کہ 3 ایسے سیارے سامنے آئے ہیں جہاں زندگی گزارنے کے لیے ضروری اجزا موجود ہیں اگرچہ یہ سیارے زمین سے 39 نوری سال دور ہیں جب کہ ان کا سائز اور درجہ حرارت زمین اور وینس کی طرح ہے۔ بیلجیم میں یونیورسٹی آف لیگ کے سائنس دان کا کہنا ہے کہ یہ ایک نادر موقع ہے کہ زمین کے علاوہ بھی ہمارے نظام شمسی میں ایسے کیمیکل موجود ہیں جو زندگی کے لیے لازمی ہوتے ہیں اور ان کا مزید جائزہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے لگایا جا سکتا ہے۔
سائنس دانوں کی اس ٹیم نے چلی میں موجود 60 سیٹنی میٹر ٹیلی اسکوپ ''ٹریپسٹ'' کی مدد سے زمین سے انتہائی دوری پر واقع کئی ستاروں کی کھوج لگائی ہے جو نہ زیادہ گرم ہے اور نہ ہی زیادہ بڑے، اور کسی حد تک زمین سے ملتے جلتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی ماہ کے مشاہدے کے بعد انہوں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ اس سے نکلنے والے انفریڈ سگنلز مسلسل وقفوں کے بعد خارج ہورہے ہیں اور یہ ان کی موجودگی کا واضح ثبوت ہے جب کہ مزید گہرے مشاہدے سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ یہ ستارے اصل میں ایکسو پلینٹ ہیں جو اصل میں ستارے نہیں بلکہ ستاروں کے گرد گردش کرنے والے سیارے ہیں جو نظام شمسی سے باہر گھوم رہے ہیں یہ سیارے ستاروں کے گرد ایک چکر 1.5 یا 2.4 دن میں مکمل کرتے ہیں اور زمین سے صرف دگنا یا پھر چارگنا زیادہ حرارت خارج کرتے ہیں جتنی حرارت زمین سورج سے حاصل کرتی ہے۔
عالمی سائنس دانوں کی ایک ٹیم کا دعویٰ ہے کہ 3 ایسے سیارے سامنے آئے ہیں جہاں زندگی گزارنے کے لیے ضروری اجزا موجود ہیں اگرچہ یہ سیارے زمین سے 39 نوری سال دور ہیں جب کہ ان کا سائز اور درجہ حرارت زمین اور وینس کی طرح ہے۔ بیلجیم میں یونیورسٹی آف لیگ کے سائنس دان کا کہنا ہے کہ یہ ایک نادر موقع ہے کہ زمین کے علاوہ بھی ہمارے نظام شمسی میں ایسے کیمیکل موجود ہیں جو زندگی کے لیے لازمی ہوتے ہیں اور ان کا مزید جائزہ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے لگایا جا سکتا ہے۔
سائنس دانوں کی اس ٹیم نے چلی میں موجود 60 سیٹنی میٹر ٹیلی اسکوپ ''ٹریپسٹ'' کی مدد سے زمین سے انتہائی دوری پر واقع کئی ستاروں کی کھوج لگائی ہے جو نہ زیادہ گرم ہے اور نہ ہی زیادہ بڑے، اور کسی حد تک زمین سے ملتے جلتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ کئی ماہ کے مشاہدے کے بعد انہوں نے اس بات کا جائزہ لیا کہ اس سے نکلنے والے انفریڈ سگنلز مسلسل وقفوں کے بعد خارج ہورہے ہیں اور یہ ان کی موجودگی کا واضح ثبوت ہے جب کہ مزید گہرے مشاہدے سے یہ انکشاف سامنے آیا کہ یہ ستارے اصل میں ایکسو پلینٹ ہیں جو اصل میں ستارے نہیں بلکہ ستاروں کے گرد گردش کرنے والے سیارے ہیں جو نظام شمسی سے باہر گھوم رہے ہیں یہ سیارے ستاروں کے گرد ایک چکر 1.5 یا 2.4 دن میں مکمل کرتے ہیں اور زمین سے صرف دگنا یا پھر چارگنا زیادہ حرارت خارج کرتے ہیں جتنی حرارت زمین سورج سے حاصل کرتی ہے۔