سمندر سے باتیں
ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے سبزہ زار پر فنکشن جاری تھا اور خاصا بھرپور تھا
ریڈیو پاکستان حیدرآباد کے سبزہ زار پر فنکشن جاری تھا اور خاصا بھرپور تھا۔ میں ایک طرف بیٹھا تھا کہ میری نظر ان پر پڑی اور میں اپنی جگہ سے اٹھ کر ان کے قریب گیا اور سلام کیا انھوں نے میری طرف دیکھا ، میں نے کہا ''میں سید نوراظہر جعفری'' ، انھوں نے بے ساختہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور مجھ سے کہا ''یہ تم نے اپنا کیا حلیہ بنا لیا ہے؟'' ان کا اشارہ اس جانب تھا کہ میں اب کلین شیو نوجوان نہیں تھا جس سے وہ دوران ملازمت بحیثیت میرے باس کے واقف تھے۔ میں مسکرا دیا ان کی سنجیدہ ظرافت کی مجھے پرانی آگاہی تھی، اب لوگ ان سے کتراتے تھے کیونکہ وہ کچھ سخت مزاج رکھتے تھے،اپنے اصولوں کے مطابق Diamond سخت ہوتا ہے یہ بات جوہری ہی جان سکتا ہے عام آدمی کوکیا پتہ۔
میں نے کہا میں نے آپ کا ترجمہ شاہ عبداللطیف کے رسالے کا اردو مکمل اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا ہے نصیر مرزا صاحب نے بہت محنت اور شوق سے ریکارڈ کیا ہے کہنے لگے ہاں یار! میں نے اس سے کہا ہے کہ اسے پروڈیوس کرو جس جس سر میں کلام ہے اس میں اسے منتقل کرو۔ یہ بات وہ اس وقت کہہ رہے تھے جب انھوں نے مجھے ہاتھ پکڑکر اپنے ساتھ بٹھا لیا تھا اور میرے قریب اس وقت مِٹھی کے اسٹیشن ڈائریکٹر جو اب حیدرآباد کے اسٹیشن ڈائریکٹر ہیں محمدعلی بانبھن بھی تشریف رکھتے تھے۔
تھوڑی دیر میں ان کا نام پکارا گیا وہ مائیکروفون پرگئے چند منٹ گفتگو کی اور پھر مائیکروفون سے ہی واپسی کو روانہ ہوگئے کسی کو بھی مڑ کر نہ دیکھا۔ یہ آغا خالد سلیم تھے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا کلام سندھ واسیوں کی رگ رگ میں رچا بسا ہے اور میں بھی اس کلام کے ''متاثرین'' میں ہوں مگر میں وہ نہیں جو شاہ کا کلام اپنی گفتگو کے ریفرنس میں اپنی گفتگوکو خوبصورت بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور مقصد شاہ نہیں اپنی ذات ہوتی ہے۔
میں تو جب پڑھتا ہوں تو ڈوب جاتا ہوں اس طرح کہ جیسے کردار میں پرو دیا کسی نے مجھے اور وہ کردار ہے نوحہ گرکا جو سسی، ماروی، رائے ڈیاچ، سورٹھ، ملیر، مالوہ کا نوحہ گر ہے۔ کہاں گئیں وہ محل ماڑیاں کہاں گئے وہ لوگ وہ باکردار لوگ جو ظلم بھی کرتے تھے تو ظرف کو سامنے رکھ کر اور جب اس نوحہ گری سے باہر نکل آتا ہوں تو پھر سب بھول جاتا ہوں۔ میرے کالم کا سرنامہ بھی شاہ کے بیت کا ایک حصہ ہے جس کی وضاحت ایک کالم میں کرچکا ہوں ''پاٹی متھے جھونپڑا'' (گھر پانی پر) اس کا ترجمہ ہے۔
آغا خالد سلیم کو پروردگار نے ریڈیو پاکستان کو عطا کیا۔ یہ اس ادارے کی خوش قسمتی تھی کہ ایسا صاحب علم اور ایسا ''جذب و مستی کا ڈوبا ہوا بیڑہ'' ریڈیو پاکستان کو ملا تھا۔ حیدرآباد ان کے سفر میں ایک اہم منزل تھی۔ حیدرآباد سے ان کا بہت تعلق رہا۔ ملتان اور حیدرآباد کا یہ صوفی منش ادیب اپنے مزاج کی ایک وحدت تھی۔
ریڈیو پر بھی عجیب عجیب وقت پڑا اور پڑ رہا ہے جب سے یہ ایک علم وفن کے ادارے کے بجائے سرکاری ادارہ بنا اور سیاستدانوں، جرنیلوں نے ملک کی طرح اس کا بھی خوب استحصال اور استعمال کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ آپ حیرت کریں گے اس ترقی یافتہ دور میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی نشریات میں دوپہر بارہ بجے سے دو بجے تک وقفہ رہتا ہے۔ یہ پرائم ٹائم ہے ریڈیو کا، کمرشل کے اعتبار سے بھی بہت قیمتی وقت مگر ریڈیو حیدرآباد کو Maintenance کے نام پر عین دوپہر میں بند کردیا جاتا ہے۔
اس دور میں جب کا ہم ذکرکر رہے ہیں یہ کام رات کو انجام دیا جاتا تھا اور انجینئرزکی ایک نائٹ شفٹ ہوتی تھی جو رات کو سارے ایکوئپمنٹ کی جانچ کرتی تھی اور ٹھیک کرتی تھی۔ اب کیا ہو رہا ہے یہ قصہ طولانی اور بے مقصد ہے کہ جس طرح سب کا حال ہے وہی اب اس اہم ادارے کا حال ہے جسے پہلے فوج کے بعد اہم ترین ادارہ سمجھا جاتا تھا۔
ہم کسی اور بحث میں نہ الجھ جائیں تو اس قصے کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں بات ہو رہی تھی آغا خالد سلیم کی۔ میں نے بحیثیت اناؤنسر ڈرامہ آرٹسٹ اپنا کیریئر ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے شروع کیا تھا اور بحیثیت ڈپٹی کنٹرولر ہوم ختم کیا تو سارے نشیب وفرازکا عینی شاہد ہوں۔
آغا صاحب مردانہ وجاہت بھی رکھتے تھے اور حس ذکاوت بھی، ان میں ایک مخصوص قسم کی سختی بھی نظر آتی تھی یہ سختی ایسی تھی جیسے آپ ناریل کی طرف نظر اٹھائیں تو ہرچند کہ آپ کو علم ہے کہ اس کے اندر میٹھا پانی ہے اور بہت لذیذ کھوپرا نرم نرم پھر بھی آپ وہ مشقت اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے جو آپ کو اس لذت تک لے جائے۔
آغا صاحب کے ساتھ میں نے اس سارے عرصے میں کام کیا ہے جب وہ حیدرآباد رہے۔ اسکرپٹ پر بہت توجہ اور پروڈکشن پر بہت دھیان دیتے تھے۔ حالانکہ براہ راست ان کا پروڈکشن سے اس طرح واسطہ نہیں تھا مگر دلچسپی بہت تھی اور پروگرام منیجرکی حیثیت سے وہ ضرور ان پروگراموں میں اپنا حصہ ادا کرتے جو وہ سمجھتے تھے کہ بہت اہم ہیں۔
ملتان کے قیام کے دوران انھوں نے شاہ جو رسالو کا ترجمہ کیا جو بعد میں شایع ہوا۔ اس کے ترجمے میں واقعی یہ خوبی ہے کہ موسیقیت موجود ہے بالکل وہی جو سندھی حصے میں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ اس بات کوکچھ ''مخصوص وجوہات'' کی بنا پر نہ تسلیم کرتے ہیں اور نہ انھوں نے اس اردو ترجمے کو اس طرح گوایا یا پروڈیوس کیا جس طرح سندھی میں یہ موجود ہے۔ گائے جانے کے لحاظ سے۔
اچھا ہوتا کہ اس سوچ سے بلند ہوکرکوئی ایسی کوشش کرتا۔ مگر جو ہوا ہے وہ بھی کم نہیں ہے کہ اس کا اردو ترجمہ ریکارڈ کیا گیا۔ شاید کسی کے ذہن میں یہ خیال ہو کیونکہ اسے میں نے پڑھا ہے میری آواز میں ہے لہٰذا میں اس کا پرچار کر رہا ہوں تو ایسا نہیں ہے۔ میں ان منازل سے گزرچکا ہوں اس کی نہ اب ضرورت ہے نہ پہلے تھی۔ دوسرے شعبوں میں قدرت نے بہت نام عطا کیا ۔ یہ تو میرا شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ اور آغا خالد سلیم کو خراج تحسین ہے اور سندھ دھرتی کا قرض تھا جو فرض کی صورت میں نے ادا کردیا اور اب میری روح بھی بہت سرشار ہے شاید آغا صاحب جتنی نہیں توکچھ کم سہی۔
آغا صاحب نے بہت مشکل وقت بھی دیکھا، آمریت نے ''سارنگ'' کو قید بھی کیا مگرآغا صاحب میں ایک نہ ختم ہونے والا عزم اور حوصلہ تھا اور شاید وہ ان کی موت پر ہی ختم ہوا۔
ہم نے سوٹ میں ملبوس بھی دیکھا۔ پھر شلوار قمیص، ویسٹ کوٹ اور پھر یہی تاآخر ان کا لباس رہا، ملتان جاکر ان کے مزاج میں صوفیانہ تبدیلی محسوس ہوئی تھی اور پھر وہ بقول شخصے آخر تک صوفی کے صوفی رہے۔ ان کے ساتھ اللہ بخش بخاری، ایک اور بزرگ براڈ کاسٹر تھے۔ ان دونوں کا ایک ''رمزانہ تعلق'' تھا۔ جاننا ایک سخت مقام ہے اور جو جانے گا وہ پائے گا کے مصداق پانا کیا ہوتا ہے، یہ پانا بہت مشکل ہے ''درد، ہجر، فراق، اشکوں سے نم آنکھیں''۔ یہی جاننے والوں کا ورثہ ہوتا ہے۔
تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ آغا صاحب نے بھی ''کچھ پالیا تھا'' ان کے مزاج میں ایک ''الاؤ'' کی کیفیت بھی تھی اور بعض لوگ انھیں بہت مشکل پسند اور مشکل انسان سمجھتے تھے۔ ان کے لیے یہ بات ٹھیک ہے کیونکہ وہ کنارے سے سمندرکا نظارہ کررہے ہیں اور سمندرکا نظارہ کنارے سے نہیں ہوتا اس کی پرسکون لہروں کے نیچے طوفان پل رہے ہوتے ہیں اور میں نے جب بھی زندگی بھر ہر لمحے میں جب بھی آغاخالد سلیم کو دیکھا، ان سے ملا،کچھ باتیں کیں تو یوں لگا کہ سمندرکو دیکھ رہا ہوں سمندر سے مل رہا ہوں، سمندر سے باتیں کررہا ہوں، مگر میں یہ کس سے کہہ رہا ہوں؟ وہ سمندر تو اب ابد کے سمندر سے جا ملا۔
میں نے کہا میں نے آپ کا ترجمہ شاہ عبداللطیف کے رسالے کا اردو مکمل اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا ہے نصیر مرزا صاحب نے بہت محنت اور شوق سے ریکارڈ کیا ہے کہنے لگے ہاں یار! میں نے اس سے کہا ہے کہ اسے پروڈیوس کرو جس جس سر میں کلام ہے اس میں اسے منتقل کرو۔ یہ بات وہ اس وقت کہہ رہے تھے جب انھوں نے مجھے ہاتھ پکڑکر اپنے ساتھ بٹھا لیا تھا اور میرے قریب اس وقت مِٹھی کے اسٹیشن ڈائریکٹر جو اب حیدرآباد کے اسٹیشن ڈائریکٹر ہیں محمدعلی بانبھن بھی تشریف رکھتے تھے۔
تھوڑی دیر میں ان کا نام پکارا گیا وہ مائیکروفون پرگئے چند منٹ گفتگو کی اور پھر مائیکروفون سے ہی واپسی کو روانہ ہوگئے کسی کو بھی مڑ کر نہ دیکھا۔ یہ آغا خالد سلیم تھے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ کا کلام سندھ واسیوں کی رگ رگ میں رچا بسا ہے اور میں بھی اس کلام کے ''متاثرین'' میں ہوں مگر میں وہ نہیں جو شاہ کا کلام اپنی گفتگو کے ریفرنس میں اپنی گفتگوکو خوبصورت بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور مقصد شاہ نہیں اپنی ذات ہوتی ہے۔
میں تو جب پڑھتا ہوں تو ڈوب جاتا ہوں اس طرح کہ جیسے کردار میں پرو دیا کسی نے مجھے اور وہ کردار ہے نوحہ گرکا جو سسی، ماروی، رائے ڈیاچ، سورٹھ، ملیر، مالوہ کا نوحہ گر ہے۔ کہاں گئیں وہ محل ماڑیاں کہاں گئے وہ لوگ وہ باکردار لوگ جو ظلم بھی کرتے تھے تو ظرف کو سامنے رکھ کر اور جب اس نوحہ گری سے باہر نکل آتا ہوں تو پھر سب بھول جاتا ہوں۔ میرے کالم کا سرنامہ بھی شاہ کے بیت کا ایک حصہ ہے جس کی وضاحت ایک کالم میں کرچکا ہوں ''پاٹی متھے جھونپڑا'' (گھر پانی پر) اس کا ترجمہ ہے۔
آغا خالد سلیم کو پروردگار نے ریڈیو پاکستان کو عطا کیا۔ یہ اس ادارے کی خوش قسمتی تھی کہ ایسا صاحب علم اور ایسا ''جذب و مستی کا ڈوبا ہوا بیڑہ'' ریڈیو پاکستان کو ملا تھا۔ حیدرآباد ان کے سفر میں ایک اہم منزل تھی۔ حیدرآباد سے ان کا بہت تعلق رہا۔ ملتان اور حیدرآباد کا یہ صوفی منش ادیب اپنے مزاج کی ایک وحدت تھی۔
ریڈیو پر بھی عجیب عجیب وقت پڑا اور پڑ رہا ہے جب سے یہ ایک علم وفن کے ادارے کے بجائے سرکاری ادارہ بنا اور سیاستدانوں، جرنیلوں نے ملک کی طرح اس کا بھی خوب استحصال اور استعمال کیا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ آپ حیرت کریں گے اس ترقی یافتہ دور میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی نشریات میں دوپہر بارہ بجے سے دو بجے تک وقفہ رہتا ہے۔ یہ پرائم ٹائم ہے ریڈیو کا، کمرشل کے اعتبار سے بھی بہت قیمتی وقت مگر ریڈیو حیدرآباد کو Maintenance کے نام پر عین دوپہر میں بند کردیا جاتا ہے۔
اس دور میں جب کا ہم ذکرکر رہے ہیں یہ کام رات کو انجام دیا جاتا تھا اور انجینئرزکی ایک نائٹ شفٹ ہوتی تھی جو رات کو سارے ایکوئپمنٹ کی جانچ کرتی تھی اور ٹھیک کرتی تھی۔ اب کیا ہو رہا ہے یہ قصہ طولانی اور بے مقصد ہے کہ جس طرح سب کا حال ہے وہی اب اس اہم ادارے کا حال ہے جسے پہلے فوج کے بعد اہم ترین ادارہ سمجھا جاتا تھا۔
ہم کسی اور بحث میں نہ الجھ جائیں تو اس قصے کو کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں بات ہو رہی تھی آغا خالد سلیم کی۔ میں نے بحیثیت اناؤنسر ڈرامہ آرٹسٹ اپنا کیریئر ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے شروع کیا تھا اور بحیثیت ڈپٹی کنٹرولر ہوم ختم کیا تو سارے نشیب وفرازکا عینی شاہد ہوں۔
آغا صاحب مردانہ وجاہت بھی رکھتے تھے اور حس ذکاوت بھی، ان میں ایک مخصوص قسم کی سختی بھی نظر آتی تھی یہ سختی ایسی تھی جیسے آپ ناریل کی طرف نظر اٹھائیں تو ہرچند کہ آپ کو علم ہے کہ اس کے اندر میٹھا پانی ہے اور بہت لذیذ کھوپرا نرم نرم پھر بھی آپ وہ مشقت اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے جو آپ کو اس لذت تک لے جائے۔
آغا صاحب کے ساتھ میں نے اس سارے عرصے میں کام کیا ہے جب وہ حیدرآباد رہے۔ اسکرپٹ پر بہت توجہ اور پروڈکشن پر بہت دھیان دیتے تھے۔ حالانکہ براہ راست ان کا پروڈکشن سے اس طرح واسطہ نہیں تھا مگر دلچسپی بہت تھی اور پروگرام منیجرکی حیثیت سے وہ ضرور ان پروگراموں میں اپنا حصہ ادا کرتے جو وہ سمجھتے تھے کہ بہت اہم ہیں۔
ملتان کے قیام کے دوران انھوں نے شاہ جو رسالو کا ترجمہ کیا جو بعد میں شایع ہوا۔ اس کے ترجمے میں واقعی یہ خوبی ہے کہ موسیقیت موجود ہے بالکل وہی جو سندھی حصے میں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگ اس بات کوکچھ ''مخصوص وجوہات'' کی بنا پر نہ تسلیم کرتے ہیں اور نہ انھوں نے اس اردو ترجمے کو اس طرح گوایا یا پروڈیوس کیا جس طرح سندھی میں یہ موجود ہے۔ گائے جانے کے لحاظ سے۔
اچھا ہوتا کہ اس سوچ سے بلند ہوکرکوئی ایسی کوشش کرتا۔ مگر جو ہوا ہے وہ بھی کم نہیں ہے کہ اس کا اردو ترجمہ ریکارڈ کیا گیا۔ شاید کسی کے ذہن میں یہ خیال ہو کیونکہ اسے میں نے پڑھا ہے میری آواز میں ہے لہٰذا میں اس کا پرچار کر رہا ہوں تو ایسا نہیں ہے۔ میں ان منازل سے گزرچکا ہوں اس کی نہ اب ضرورت ہے نہ پہلے تھی۔ دوسرے شعبوں میں قدرت نے بہت نام عطا کیا ۔ یہ تو میرا شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ اور آغا خالد سلیم کو خراج تحسین ہے اور سندھ دھرتی کا قرض تھا جو فرض کی صورت میں نے ادا کردیا اور اب میری روح بھی بہت سرشار ہے شاید آغا صاحب جتنی نہیں توکچھ کم سہی۔
آغا صاحب نے بہت مشکل وقت بھی دیکھا، آمریت نے ''سارنگ'' کو قید بھی کیا مگرآغا صاحب میں ایک نہ ختم ہونے والا عزم اور حوصلہ تھا اور شاید وہ ان کی موت پر ہی ختم ہوا۔
ہم نے سوٹ میں ملبوس بھی دیکھا۔ پھر شلوار قمیص، ویسٹ کوٹ اور پھر یہی تاآخر ان کا لباس رہا، ملتان جاکر ان کے مزاج میں صوفیانہ تبدیلی محسوس ہوئی تھی اور پھر وہ بقول شخصے آخر تک صوفی کے صوفی رہے۔ ان کے ساتھ اللہ بخش بخاری، ایک اور بزرگ براڈ کاسٹر تھے۔ ان دونوں کا ایک ''رمزانہ تعلق'' تھا۔ جاننا ایک سخت مقام ہے اور جو جانے گا وہ پائے گا کے مصداق پانا کیا ہوتا ہے، یہ پانا بہت مشکل ہے ''درد، ہجر، فراق، اشکوں سے نم آنکھیں''۔ یہی جاننے والوں کا ورثہ ہوتا ہے۔
تو میں یہی سمجھتا ہوں کہ آغا صاحب نے بھی ''کچھ پالیا تھا'' ان کے مزاج میں ایک ''الاؤ'' کی کیفیت بھی تھی اور بعض لوگ انھیں بہت مشکل پسند اور مشکل انسان سمجھتے تھے۔ ان کے لیے یہ بات ٹھیک ہے کیونکہ وہ کنارے سے سمندرکا نظارہ کررہے ہیں اور سمندرکا نظارہ کنارے سے نہیں ہوتا اس کی پرسکون لہروں کے نیچے طوفان پل رہے ہوتے ہیں اور میں نے جب بھی زندگی بھر ہر لمحے میں جب بھی آغاخالد سلیم کو دیکھا، ان سے ملا،کچھ باتیں کیں تو یوں لگا کہ سمندرکو دیکھ رہا ہوں سمندر سے مل رہا ہوں، سمندر سے باتیں کررہا ہوں، مگر میں یہ کس سے کہہ رہا ہوں؟ وہ سمندر تو اب ابد کے سمندر سے جا ملا۔