16 فیصد سیلز ٹیکس صنعتی ترقی میں رکاوٹ ہے ماہر اقتصادیات
ریونیو بڑھانے کیلیے شرح 5 فیصد کی جائے، برآمدات میں تنوع نہیں آرہا، قیصر بنگالی
ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کہا ہے کہ مینوفیکچرنگ سیکٹر پر 16 فیصد سیلز ٹیکس صنعتی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، سیلز ٹیکس کی شرح 5فیصد کرکے ریونیو میں بھرپور اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات انہوں نے گزشتہ روز ایف پی سی سی آئی کے تحت معیشت کو درپیش چیلنجز کے بارے میں ہونے والے ایک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی برآمدات پر مصنوعات کے لحاظ سے جمودی طاری ہے اور گزشتہ 6 سال کے دوران بھی چاول، چمڑے اور بیڈ شیٹ کے سوا کسی پراڈکٹ کا اضافہ نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ معیشت میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے تاہم پاکستان میں اس شعبے کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔قیصر بنگالی نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ریونیو ایک ٹریلین ہے تو اخراجات 1.16 ٹریلین ہیں، ہمارے ملک میں ڈیولپمنٹ اخراجات میں تو کمی آئی ہے لیکن نان ڈیولپمنٹ اخراجات میں کوئی کمی نہیں کی گئی اور کسی بھی ملک میں نان ڈیولپمنٹ اخراجات سے معیشت کو نہیں چلایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ 1971 میں پرائیویٹ سیکٹر کے اثاثے اور بینک قومیائے جانے سے پاکستان کو اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا1977 میں پاکستان کو پہنچا کیونکہ پاکستان ڈیولپمنٹ اسٹیٹ کے بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گوادر بندرگاہ بنائی گئی لیکن اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسے سوٹ کیس میں لگایا جانے والا تالا لگا دیا گیا ہے، ملک کے انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری تو درکنار مینٹیننس پر بھی سرمایہ کاری نہیں کی گئی جس نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
ایس ایم منیر نے کہا کہ ہم ایسے ایٹم بم کا کیا کریں جس کا فائدہ ہمارے نوجوان بھی نہ اٹھا سکیں، اس وقت ملک میں فیکٹریاں ورکشاپ اور گودام بن رہی ہیں، پاکستان میں سرمایہ غیر محفوظ ہوچکا ہے، پنجاب میں نہ بجلی ہے اور نہ پانی ہے، اس لیے میرے بیٹوں نے کہہ دیا ہے کہ وہ فیکٹریاں بند کرکے پولٹری فام اور ڈیری فارم کھولیں گے اور مرغیاں اور انڈے بیچیں گے جس میں نہ گیس کی ضرورت ہے اور نہ ہی پٹرول لگے گا۔
یہ بات انہوں نے گزشتہ روز ایف پی سی سی آئی کے تحت معیشت کو درپیش چیلنجز کے بارے میں ہونے والے ایک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی برآمدات پر مصنوعات کے لحاظ سے جمودی طاری ہے اور گزشتہ 6 سال کے دوران بھی چاول، چمڑے اور بیڈ شیٹ کے سوا کسی پراڈکٹ کا اضافہ نہ ہوسکا۔ انہوں نے کہا کہ معیشت میں مینوفیکچرنگ سیکٹر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے تاہم پاکستان میں اس شعبے کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔قیصر بنگالی نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ریونیو ایک ٹریلین ہے تو اخراجات 1.16 ٹریلین ہیں، ہمارے ملک میں ڈیولپمنٹ اخراجات میں تو کمی آئی ہے لیکن نان ڈیولپمنٹ اخراجات میں کوئی کمی نہیں کی گئی اور کسی بھی ملک میں نان ڈیولپمنٹ اخراجات سے معیشت کو نہیں چلایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ 1971 میں پرائیویٹ سیکٹر کے اثاثے اور بینک قومیائے جانے سے پاکستان کو اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا1977 میں پاکستان کو پہنچا کیونکہ پاکستان ڈیولپمنٹ اسٹیٹ کے بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ بن گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گوادر بندرگاہ بنائی گئی لیکن اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسے سوٹ کیس میں لگایا جانے والا تالا لگا دیا گیا ہے، ملک کے انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری تو درکنار مینٹیننس پر بھی سرمایہ کاری نہیں کی گئی جس نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
ایس ایم منیر نے کہا کہ ہم ایسے ایٹم بم کا کیا کریں جس کا فائدہ ہمارے نوجوان بھی نہ اٹھا سکیں، اس وقت ملک میں فیکٹریاں ورکشاپ اور گودام بن رہی ہیں، پاکستان میں سرمایہ غیر محفوظ ہوچکا ہے، پنجاب میں نہ بجلی ہے اور نہ پانی ہے، اس لیے میرے بیٹوں نے کہہ دیا ہے کہ وہ فیکٹریاں بند کرکے پولٹری فام اور ڈیری فارم کھولیں گے اور مرغیاں اور انڈے بیچیں گے جس میں نہ گیس کی ضرورت ہے اور نہ ہی پٹرول لگے گا۔