یہ راستہ کدھر جاتا ہے
Mathematics ہمیں یہ نہیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں خوشیوں کو کسی طرح جمع کر سکتے ہیں
Mathematics ہمیں یہ نہیں سکھاتا ہے کہ ہم اپنی زندگی میں خوشیوں کو کسی طرح جمع کر سکتے ہیں یا غموں کو کس طرح Minus کر سکتے ہیں لیکن وہ ہمیں سب سے اہم بات یہ سکھاتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل موجود ہے لیکن ان مسئلوں کا حل نہیں جو انسان اپنے ذاتی فائدے، مفادات اور خواہشات کی خاطر خود پیدا کر لیتا ہے، کیونکہ وہ مسائل اصل میں اس قدر پیچیدہ ہوتے ہیں کہ انھیں حل کرتے کرتے بے شمار اور نئے مسائل خود بخود پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اسی حل کرنے اور پیدا ہوتے رہنے میں آپ کی ساری زندگی گزر جاتی ہے، لیکن مسائل ہوتے ہیں کہ پھر بھی حل ہی نہیں ہو پاتے۔
آپ انھیں جتنی بار حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اتنی ہی بار آپ صرف اپنا سر پھوڑ کر رہ جاتے ہیں۔ اب پانامہ لیکس کا ہی مسئلہ لے لیجئے، ہمارے حکمران اسے جتنی ہی بار حل کرنے کوشش کرتے ہیں، اتنے ہی اور نئے مسائل پیدا کرتے جا رہے ہیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسا وقت آ جائے کہ مسائل پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہوں اور حکمران آگے آگے دوڑ لگا رہے ہوں۔ یاد رہے بھوت جان چھوڑ دیتے ہیں، چڑیلیں بھاگ جاتی ہیں، جن کو آپ پر ترس آ جاتا ہے لیکن یہ جو بعض مسائل ہوتے ہیں وہ اس قدر بے شرم، بے حس اور اس قدر ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ آپ کچھ بھی کر لیں یہ آپ کا پیچھا پھر بھی نہیں چھوڑتے۔ بالکل قبل از مسیح کے ایتھنز کی طرح۔ جب ایتھنز نے اپنے بحری بیڑے کو ایگوس پوٹامی میں برباد ہوتے دیکھا تو ان کی دماغی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ گئیں۔
جب بربادی کی خبر ایتھنز پہنچی تو جیسا ژینوفن بتاتا ہے، آہ و بکا کی آوازیں سارے ایتھنز میں پھیل گئیں۔ اس شب کوئی سو نہ سکا۔ وہ نہ صرف مقتولین پر روئے بلکہ ان سے زیادہ خود پر، یہ سوچ سو چ کر کہ ان پر کون کون سی مصیبتیں اور نازل ہوں گی۔جب آپ کی زندگی کی کہانی ہنسی خوشی اور آپ کی عین مرضی و خواہش کے مطابق آگے بڑھ رہی ہوتی ہے تو آپ کے وہم و گمان تک میں یہ بات نہیں ہوتی ہے کہ کہانی کے اگلے سین میں سب کچھ بدل بھی سکتا ہے اور وہ وہ انہونیاں اور وہ وہ چیزیں بھی ہو سکتی ہیں جن کے متعلق آپ نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوا ہوتا ہے۔
اسی لیے جب ہنسی خوشی والی فلم میں ایک دم ڈراؤنے، دل دہلا دینے والے سین شروع ہو جاتے ہیں اور اچانک ڈریکولا، چڑیلیں اور بھوت نکل آ جاتے ہیں، تو آپ کی ذہنی صلاحیتیں سب سے پہلے الٹی چھلانگ لگا کر غائب ہو جاتی ہیں اور پھر آپ اپنی عقل کو ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ وہ کہاں جا کر چھپ گئی ہے۔ پھر آپ بغیر عقل والی مخلوق بن کے رہ جاتے ہیں۔شیکسپیئر نے کہا تھا کہ کچھ لوگ عظیم پیدا ہوتے ہیں، کچھ لوگ اپنے کام کی وجہ سے عظمت کے مستحق ٹھہرتے ہیں جب کہ کچھ لوگوں پر عظمت لادی جاتی ہے۔
جن پر عظمت لادی جاتی ہے، یہ لوگ وقت کے بوجھ تلے کبڑے ہو جاتے ہیں اور پھر گمنامی کی گرد میں دفن ہو جاتے ہیں۔ ہم آج کل ان گنت ایسے کبڑوں کو بھگت رہے ہیں جن پر عظمت لادی گئی ہے۔ ہر انسان ہر کام نہیں کر سکتا، وہ صرف وہی کام کرسکتا ہے جس کی صلاحیت خدا نے اسے دی ہوئی ہے۔ وہ اگر عطا کردہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرتا ہے تو وہ خود بھی پرسکون رہتا ہے اور دوسرے بھی اس سے پرسکون رہتے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنی صلاحیتوں کے برخلاف کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ خود بھی پریشان رہتا ہے اور اس کی وجہ سے دوسروں بھی پریشان رہتے ہیں اور کچھ ہی عرصے بعد پریشانوں کے غول کے غول بن جاتے ہیں اور پھر وہ سب کے سب ایک دوسرے کو پریشان کرتے پھرتے ہیں۔
اسی وجہ سے آج پاکستان میں سب پریشان ہیں۔ عوام حکمرانوں سے پریشان ہیں، تو حکمران اپنے کرتوتوں سے پریشان ہیں۔ وزراء ایک دوسروں کے کرتبوں سے پریشان ہیں۔ حکمران جماعت کے کارکن اپنے لیڈروں کی بے رخی اور بیوفائی سے پریشان ہیں اور تو اور سب پریشان ایک دوسرے سے پریشان ہیں۔ آج ہر شخص اپنا کام کرنے کے بجائے دوسروں کے کام کرنے میں مصروف ہے۔ بزنس مین سیاست کرتے پھر رہے ہیں، تو سیاست دان بزنس کرتے پھر رہے ہیں۔ اور یہ دونوں چھپ چھپ کر آف شور کمپنیاں بناتے پھر رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی بے نقاب ہوتے پھر رہے ہیں۔ مولوی حضرات کو اصولاً مسجدوں میں نظر آنا چاہیے، وہ وہاں تو نظر آ نہیں رہے ہیں، البتہ اقتدار کے ایوانوں میں جابجا نظر آرہے ہیں۔
عوامی نمایندوں کا کام عوام کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود کرنا ہوتا ہے لیکن وہ یہ کرنے کے بجائے اپنی اور اپنے پیاروں کی خدمت اور فلاح و بہبود میں مصروف ہیں۔ انصاف کرنے والے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ پولیس کا کام قانون پر عمل داری کروانا اور جرائم کو کنٹرول میں رکھنا ہوتا ہے، وہ اپنا کام تو کر نہیں رہے ہیں، الٹا قانون شکنوں کے ساتھی بن کر رہ گئے ہیں۔
ڈاکٹر ڈاکوؤں کا کام سرانجام دے رہے ہیں اور ڈاکو ڈاکٹر بن گئے ہیں اور جب یہ سب کے سب گرفت میں آ جاتے ہیں تو پھر یہ اپنے کہے اور کیے سے فرار حاصل کرنے کے لیے بہانوں کی تختیاں سینے پر سجائے جیلوں، عدالتوں اور میڈیا میں کہتے پھرتے ہیں کہ میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا، مجھ سے یہ سب شیطان نے کروایا ہے، میرا خود پر قابو نہیں تھا، مجھے نہیں پتہ میں بھول گیا تھا، مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں، یہ میری غلطی نہیں، میں تو بس ایسا ہی ہوں، میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں۔ آپ کے پاس آخری وقت تک اپنے لیے ڈراؤنے مسائل پیدا نہ کرنے کا آپشن ہر وقت موجود ہوتا ہے لیکن جب آپ اپنے دشمن آپ ہو چکے ہیں تو پھر کوئی دوسرا کر ہی کیا سکتا ہے۔
پھر ان حالات میں اگر سقراط، سولن، بدھا، بیکن، لنکن، برونو، ارسطو، شیکسپیئر بھی اگر ان کے مشیر ہوتے تو وہ بھی ان کے آگے بے بس ہو جاتے اور وہ وہی کچھ کر رہے ہوتے جو ابھی کر رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ ان سے ان کی حرکات کے بارے میں سوال کرنے کی غلطی کر بیٹھیں تو وہ تمام حضرات الٹا آپ پر چڑھ دوڑیں گے اور آپ کو غیر ملکی یا اپوزیشن کا ایجنٹ اتنے غصے کے عالم میں ثابت کر رہے ہوں گے کہ آپ ان کی حالت دیکھ کر اس قدر ڈر جائیں گے کہ خدا خیر کرے، کہیں ان کے ساتھ کچھ ہو نہ جائے۔ اس لیے آپ کو مشورہ ہے کہ آپ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، عنقریب جب آپ کی ان سے ملاقات ہو گی تو وہ آپ کا گریبان پکڑ پکڑ کر دہائیاں دے رہے ہوں گے کہ آپ نے انھیں پہلے کیوں نہیں بتایا تھا کہ یہ راستہ کہاں جاتا ہے۔
آپ انھیں جتنی بار حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اتنی ہی بار آپ صرف اپنا سر پھوڑ کر رہ جاتے ہیں۔ اب پانامہ لیکس کا ہی مسئلہ لے لیجئے، ہمارے حکمران اسے جتنی ہی بار حل کرنے کوشش کرتے ہیں، اتنے ہی اور نئے مسائل پیدا کرتے جا رہے ہیں۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسا وقت آ جائے کہ مسائل پیچھے پیچھے بھاگ رہے ہوں اور حکمران آگے آگے دوڑ لگا رہے ہوں۔ یاد رہے بھوت جان چھوڑ دیتے ہیں، چڑیلیں بھاگ جاتی ہیں، جن کو آپ پر ترس آ جاتا ہے لیکن یہ جو بعض مسائل ہوتے ہیں وہ اس قدر بے شرم، بے حس اور اس قدر ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ آپ کچھ بھی کر لیں یہ آپ کا پیچھا پھر بھی نہیں چھوڑتے۔ بالکل قبل از مسیح کے ایتھنز کی طرح۔ جب ایتھنز نے اپنے بحری بیڑے کو ایگوس پوٹامی میں برباد ہوتے دیکھا تو ان کی دماغی صلاحیتیں مفلوج ہو کر رہ گئیں۔
جب بربادی کی خبر ایتھنز پہنچی تو جیسا ژینوفن بتاتا ہے، آہ و بکا کی آوازیں سارے ایتھنز میں پھیل گئیں۔ اس شب کوئی سو نہ سکا۔ وہ نہ صرف مقتولین پر روئے بلکہ ان سے زیادہ خود پر، یہ سوچ سو چ کر کہ ان پر کون کون سی مصیبتیں اور نازل ہوں گی۔جب آپ کی زندگی کی کہانی ہنسی خوشی اور آپ کی عین مرضی و خواہش کے مطابق آگے بڑھ رہی ہوتی ہے تو آپ کے وہم و گمان تک میں یہ بات نہیں ہوتی ہے کہ کہانی کے اگلے سین میں سب کچھ بدل بھی سکتا ہے اور وہ وہ انہونیاں اور وہ وہ چیزیں بھی ہو سکتی ہیں جن کے متعلق آپ نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوا ہوتا ہے۔
اسی لیے جب ہنسی خوشی والی فلم میں ایک دم ڈراؤنے، دل دہلا دینے والے سین شروع ہو جاتے ہیں اور اچانک ڈریکولا، چڑیلیں اور بھوت نکل آ جاتے ہیں، تو آپ کی ذہنی صلاحیتیں سب سے پہلے الٹی چھلانگ لگا کر غائب ہو جاتی ہیں اور پھر آپ اپنی عقل کو ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ وہ کہاں جا کر چھپ گئی ہے۔ پھر آپ بغیر عقل والی مخلوق بن کے رہ جاتے ہیں۔شیکسپیئر نے کہا تھا کہ کچھ لوگ عظیم پیدا ہوتے ہیں، کچھ لوگ اپنے کام کی وجہ سے عظمت کے مستحق ٹھہرتے ہیں جب کہ کچھ لوگوں پر عظمت لادی جاتی ہے۔
جن پر عظمت لادی جاتی ہے، یہ لوگ وقت کے بوجھ تلے کبڑے ہو جاتے ہیں اور پھر گمنامی کی گرد میں دفن ہو جاتے ہیں۔ ہم آج کل ان گنت ایسے کبڑوں کو بھگت رہے ہیں جن پر عظمت لادی گئی ہے۔ ہر انسان ہر کام نہیں کر سکتا، وہ صرف وہی کام کرسکتا ہے جس کی صلاحیت خدا نے اسے دی ہوئی ہے۔ وہ اگر عطا کردہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کرتا ہے تو وہ خود بھی پرسکون رہتا ہے اور دوسرے بھی اس سے پرسکون رہتے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنی صلاحیتوں کے برخلاف کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ خود بھی پریشان رہتا ہے اور اس کی وجہ سے دوسروں بھی پریشان رہتے ہیں اور کچھ ہی عرصے بعد پریشانوں کے غول کے غول بن جاتے ہیں اور پھر وہ سب کے سب ایک دوسرے کو پریشان کرتے پھرتے ہیں۔
اسی وجہ سے آج پاکستان میں سب پریشان ہیں۔ عوام حکمرانوں سے پریشان ہیں، تو حکمران اپنے کرتوتوں سے پریشان ہیں۔ وزراء ایک دوسروں کے کرتبوں سے پریشان ہیں۔ حکمران جماعت کے کارکن اپنے لیڈروں کی بے رخی اور بیوفائی سے پریشان ہیں اور تو اور سب پریشان ایک دوسرے سے پریشان ہیں۔ آج ہر شخص اپنا کام کرنے کے بجائے دوسروں کے کام کرنے میں مصروف ہے۔ بزنس مین سیاست کرتے پھر رہے ہیں، تو سیاست دان بزنس کرتے پھر رہے ہیں۔ اور یہ دونوں چھپ چھپ کر آف شور کمپنیاں بناتے پھر رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں ہی بے نقاب ہوتے پھر رہے ہیں۔ مولوی حضرات کو اصولاً مسجدوں میں نظر آنا چاہیے، وہ وہاں تو نظر آ نہیں رہے ہیں، البتہ اقتدار کے ایوانوں میں جابجا نظر آرہے ہیں۔
عوامی نمایندوں کا کام عوام کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود کرنا ہوتا ہے لیکن وہ یہ کرنے کے بجائے اپنی اور اپنے پیاروں کی خدمت اور فلاح و بہبود میں مصروف ہیں۔ انصاف کرنے والے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ پولیس کا کام قانون پر عمل داری کروانا اور جرائم کو کنٹرول میں رکھنا ہوتا ہے، وہ اپنا کام تو کر نہیں رہے ہیں، الٹا قانون شکنوں کے ساتھی بن کر رہ گئے ہیں۔
ڈاکٹر ڈاکوؤں کا کام سرانجام دے رہے ہیں اور ڈاکو ڈاکٹر بن گئے ہیں اور جب یہ سب کے سب گرفت میں آ جاتے ہیں تو پھر یہ اپنے کہے اور کیے سے فرار حاصل کرنے کے لیے بہانوں کی تختیاں سینے پر سجائے جیلوں، عدالتوں اور میڈیا میں کہتے پھرتے ہیں کہ میرے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا، مجھ سے یہ سب شیطان نے کروایا ہے، میرا خود پر قابو نہیں تھا، مجھے نہیں پتہ میں بھول گیا تھا، مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں، یہ میری غلطی نہیں، میں تو بس ایسا ہی ہوں، میں اپنے کیے پر شرمندہ ہوں۔ آپ کے پاس آخری وقت تک اپنے لیے ڈراؤنے مسائل پیدا نہ کرنے کا آپشن ہر وقت موجود ہوتا ہے لیکن جب آپ اپنے دشمن آپ ہو چکے ہیں تو پھر کوئی دوسرا کر ہی کیا سکتا ہے۔
پھر ان حالات میں اگر سقراط، سولن، بدھا، بیکن، لنکن، برونو، ارسطو، شیکسپیئر بھی اگر ان کے مشیر ہوتے تو وہ بھی ان کے آگے بے بس ہو جاتے اور وہ وہی کچھ کر رہے ہوتے جو ابھی کر رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ ان سے ان کی حرکات کے بارے میں سوال کرنے کی غلطی کر بیٹھیں تو وہ تمام حضرات الٹا آپ پر چڑھ دوڑیں گے اور آپ کو غیر ملکی یا اپوزیشن کا ایجنٹ اتنے غصے کے عالم میں ثابت کر رہے ہوں گے کہ آپ ان کی حالت دیکھ کر اس قدر ڈر جائیں گے کہ خدا خیر کرے، کہیں ان کے ساتھ کچھ ہو نہ جائے۔ اس لیے آپ کو مشورہ ہے کہ آپ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں، عنقریب جب آپ کی ان سے ملاقات ہو گی تو وہ آپ کا گریبان پکڑ پکڑ کر دہائیاں دے رہے ہوں گے کہ آپ نے انھیں پہلے کیوں نہیں بتایا تھا کہ یہ راستہ کہاں جاتا ہے۔