Anders Breivik ناروے کا بے رحم قاتل کیا آج بھی یورپ کے لیے خطرہ ہے
بریوک کی گرفتاری کے بعد اس کا نام منظر عام پر آیا تو انتہا پسندوں نے اسے اپنے من پسند افراد کی فہرست میں شامل کرلیا۔
ISLAMABAD:
جنونی درندے Anders Breivik نے 2011ء میں ناروے میں قتل و غارت گری کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس کی پاداش میں آج تک پابند سلاسل ہے، لیکن اس سے بھی بڑا عالمی نقصان اس نے یہ کیا کہ اپنی جیسی وحشیانہ سوچ رکھنے والے بے شمار لوگ پیدا کرلیے اور ان کا خود ساختہ ہیرو بھی بن گیا۔
وہ 13 فروری1979کو ناروے کے دارالحکومت اوسلومیں پیدا ہوا۔ اس نے اوسلو کامرس اسکول سے تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی اسمال بزنس منیجمنٹ پر متعدد آن لائن کورس بھی کیے۔ وہ شروع سے ہی نسلی برتری کے جنون میں مبتلا تھا۔ وہ ہمیشہ سے یورپ پر صرف سفید فاموں کی حکومت کے خواب دیکھا کرتا تھا اور اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کو ناپسند کرتا تھا۔ یہ غالباً اس کے اندر کی نفرت ہی تھی جس نے اسے دوسرے مذاہب سے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے ہمیشہ دور رکھا۔ پھر اس کے شیطانی دماغ نے دہشت گردی کے منصوبے بنائے۔ ظلم کبھی کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا، چناں چہ وہ بھی پکڑا گیا اور قانون نے اسے پابند سلاسل کردیا۔
اس وقت یہ جنونی قاتل اینڈرس بریوک 2013سے جنوبی ناروے کی ایک دور افتادہ جیل میں قید ہے اور اپنے ملک کی عدالتوں سے شکوے کرتا رہتا ہے کہ اسے قید تنہائی کی سزا دے کر ساری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے، وہ اپنے حقوق کی پامالی کی بات بھی کرتا ہے۔ پیشی کے روز جب وہ عدالت میں داخل ہوا تو اس کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی جیسے وہ خود کوئی مجرم نہیں، بلکہ ساری دنیا مجرم ہے۔
وہ اپنے محافظوں کی جانب سے ہتھکڑی کھولے جانے کا منتظر تھا۔ اس نے اطراف میں نظریں دوڑائیں تو دو درجن کے قریب صحافی اور کچھ جیل حکام دکھائی دیے۔ صحافیوں کو دیکھتے ہی اس نے اپنا دایاں ہاتھ نازی سیلیوٹ کے انداز میں کچھ دیر تک فضا میں بلند کیا۔ یہ وہ آدمی تھا جس نے 22جولائی2011ء کو 77 معصوم افراد کو نہایت بے رحمی سے زندگی سے محروم کردیا تھا۔ اینڈرس بریوک کی نظریں عدالت میں لوگوں کے بجائے کیمروں پر تھیں۔ فوری طور پر اس کے نازی سیلیوٹ کی تصویریں اور لائیو فوٹیج دنیا بھر کی نیوز ایجینسیوں تک پہنچ گئیں جنھیں لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور آن لائن شیئر بھی کرلیا اور اس طرح اس کا عالمی تشہیر کا مقصد پورا ہوگیا۔
ناروے سے تعلق رکھنے والا یہ 37سالہ انتہا پسند جنونی کاکیشیائی نسل یعنی ناروے کے لوگوں کی ایک آزاد ریاست قائم کرنا چاہتا ہے جس کے لیے وہ ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہتا تھا۔ 2011 میں پرتشدد واقعات کا ارتکاب کرنے کے بعد اس نے کہا تھا:''میں سوچتا ہوں کہ آخر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مجھے کتنے افراد ہلاک کرنے ہوں گے۔''
اس کے خیال میں اسے توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک درجن افراد ہلاک کرنے تھے، مگر اس نے زیادہ ہی ہلاک کر ڈالے جن میں 33افراد18سال سے بھی کم عمر کے تھے۔ بعد میں بریوک نے اس وحشت و بربریت کو اپنی کتاب کی لانچنگ کی تشہیر کے طور پر بیان کیا۔ اس نے اوسلو میں وزیراعظم کے دفتر کے باہر ایک بم نصب کردیا اور اس کے بعد دارالحکومت کے قریب واقع جزیرہ Utøya پر لیبر پارٹی کے یوتھ کیمپ میں شریک نوجوانوں کو گولی مارکر ہلاک کردیا۔ اس کے بعد ہی ہزاروں لوگوں نے اس کے پندرہ سو صفحات پر مشتمل ''منشور'' کو پڑھا، اس پر بحث بھی کی اور تبصرے بھی۔
بریوک اس طاقت کو نہیں بھولا ہے جو ظلم و بربریت کی چنگاری سے پیدا ہوتی ہے۔ مارچ کے وسط میں عدالت میں اس کی حاضری اس کے گناہ کے خلاف کوئی اپیل کے لیے نہیں تھی، بلکہ بریوک تو ناروے کی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کرنے وہاں آیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے قید تنہائی میں رکھ کر اس کے انسانی حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے، کیوں کہ اس طرح اسے بیرونی دنیا سے رابطہ کرنے سے روکا جارہا ہے۔
ادھر ناروے کے اعلیٰ عہدے داران کا کہنا ہے کہ بریوک ابھی تک ایک بڑا خطرہ ہے، اس کے لیے قید تنہائی ضروری ہے، تاکہ وہ دائیں بازو کے ان انتہا پسندوں سے دور رہے جو وحشت و بربریت کا بازار گرم کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ناروے سے دور ہوتے ہوئے بھی بریوک کے حامیوں نے اسے نازی سیلیوٹ کرتے ہوئے دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ اس کا ایک حامی ایک امریکی انتہا پسند اینڈریو اورن ہیمر ہے جو اس وقت جمہوریہ Abkhazia، جارجیا، میں رہتا ہے۔ اینڈریو کا کہنا ہے: ''وہ اپنے لوگوں کا ہیرو ہے اور میں سؤروں کی قید سے اس کی رہائی کا انتظار نہیں کرسکتا۔ ہم غیر مشروط طور پر اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ناروے کی حکومت کے خلاف اس کے مقدمے اور نازی سیلیوٹ نے ہمارے دلوں میں اس کی محبت اور ہمدردی میں اضافہ کردیا ہے۔''
عدالت میں بریوک کی حاضری نے ناروے کی حکومت کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ جمہوری اقدار کی سربلندی کے لیے ناروے کے اعلیٰ عہدے داران کو اسے عدالت میں حاضر ہونے کی اجازت دینی پڑی، حالاں کہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ تمام کارروائی ٹیلی ویژن پر دکھائی جائے گی اور بریوک اپنے حامیوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔
Adele Matheson Mestad ریاست ناروے کا وکیل ہے، اس نے عدالت میں کہا:''خاص طور سے اس وقت بریوک کا نظریہ بہت خطرناک ہے، کیوں کہ یورپ میں داخل ہونے والے بے شمار پناہ گزینوں نے اس براعظم میں دائیں بازو کی سرگرمیوں میں اضافہ کردیا ہے اور اس کی وجہ سے بریوک ان لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے انہیں پر تشدد کارروائیوں پر آمادہ کرسکتا ہے۔''
عدالت کی کارروائیاں ناروے کے ان سب لوگوں کو مشتعل کررہی تھیں جو یا تو پرتشدد کارروائیوں میں بچ گئے تھے یا ان کے عزیز رشتے دار ان میں اپنی جانوں سے گئے تھے، اس کے بعد ایک بڑا سوال سامنے آگیا:
اس طرح کے پرتشدد، وحشت و بربریت والے حملوں کے دور میں جہاں سوشل میڈیا بھی سرگرم ہے، کیا بریوک ایک بہت بڑا خطرہ نہیں بن جائے گا؟
٭ ہماری اشرافیہ دوغلی اور دھوکے باز ہے:
22جولائی2011کی سہ پہر کو بریوک نے وزیر اعظم کے دفتر کے باہر بم دھماکا کیا جس میں 8افرد ہلاک ہوئے۔ دو گھنٹے بعد ہی وہ پولیس افسر کی یونیفارم میں ایک کشتی کے ذریعے جزیرہ Utøya پہنچا جہاں اس وقت کی حکمران جماعت لیبر پارٹی کے زیر اہتمام ایک یوتھ کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی اس نے 69افراد کو گولیاں مارکر ہلاک کردیا، بعد میں اس جزیرے پر پولیس پہنچی اور اسے گرفتار کرلیا گیا۔
٭ابتدائی حالات:
بریوک بچپن سے ہی ایک بگڑا ہوا بچہ تھا۔ اس نے 18سال کی عمر میں ناروے کی دائیں بازو کی پروگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا جنون اور بھی شدید ہوگیا۔ پھر اس نے سفید فاموں کی برتری، جدید نازی ازم اور اینٹی جہادی ویب سائٹس پڑھنی شروع کیں۔ نفرت پھیلانے والے ان مختلف ذرائع نے اس کے اندر کی آگ کو اور بھی بھڑکایا، وہ اکثر انٹرنیٹ سے متضاد اور ہلاکت خیز خیالات و افکار لے کر انہیں آگے بڑھاتا رہا۔ بعض اوقات تو وہ اپنے ہی خیالات کی ضد بھی پیش کردیتا تھا۔ اس کا بنیادی اور عام نقطۂ نظر یہ تھا:
یورپ پر مسلمانوں کی یلغار جاری ہے، مگر حکومتیں اس آفت ناگہانی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کررہی ہیں۔ ہماری اشرافیہ منافق ہے جو ہمیں دھوکا دے رہی ہے۔ اگر ہم نے اس وقت کچھ نہ کیا تو یورپ ختم ہوکر ایک اسلامی خلافت بن جائے گا۔
بریوک نے دائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں سے آن لائن رابطے کی کوشش کی جس کے جواب میں اسے بہت سے ہمدرد مل گئے۔ پھر اس نے ہتھیار اور گولا بارود خریدنا شروع کردیا۔ اس نے ایک کرائے کا فارم بھی حاصل کرلیا، تاکہ بم بنانے کے لیے درکار سینکڑوں کلو کیمیاوی کھاد اور دوسرے اجزاء خرید کر رکھ سکے۔
یہ فارم سوئیڈن کے بارڈر کے ساتھ گھنے جنگلات میں تھا جہاں سے اس نے اشرافیہ، سیاسی اکابرین اور ان کے بچوں پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ وہ یورپ میں ایک ایسی خوف ناک جنگ کی چنگاری بھڑکانا چاہتا تھا جس کا نتیجہ آخرکار یہ نکلے کہ عیسائیوں کو فتح ملے اور مسلمان شکست سے دوچار ہوں۔ اس مرحلے پر اس کا خیال تھا کہ تمام مسلمانوں کے سامنے یہ راستہ رہ جائے گا کہ یا تو وہ سب یہاں سے چلے جائیں گے یا اپنے نام بدل کر عیسائی بن جائیں گے یا پھر موت کو گلے لگالیں گے۔ تمام مساجد مسمار کردی جائیں گی یا انہیں دوسرے مقاصد میں استعمال کیا جائے گا۔ مسلمانوں کے تمام فن پارے تباہ کردیے جائیں گے، اور عربی، فارسی، اردو اور صومالی زبانوں پر پابندی لگادی جائے گی۔
بریوک کے ٹرائل کے دوران عدالت نے محتاط انداز سے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ آیا بریوک ذہنی مریض ہے اور اسے علاج کی ضرورت ہے یا پھر وہ سرد خون والا انسان ہے جو عقل و شعور کا حامل ہوتے ہوئے بھی ڈھیروں لوگوں کا قاتل ہے۔ بعض نفسیاتی ماہرین نے یہ تشخیص کیا کہ وہ ایک خود پرست انسان ہے جو غیرسماجی پرسنالٹی ڈس آرڈر کے ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔
اس سے پہلے کچھ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ شیزوفرینیا (ذہنی پراگندگی) کا مریض ہے۔ اگست 2012میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ چوں کہ وہ کوئی نفسیاتی مریض نہیں ہے اور جو کچھ کرتا ہے، اس کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کیا کررہا ہے، اس لیے وہ قانونی طور پر اپنے تمام اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔ جج نے بریوک کو دہشت گردی کا ارتکاب کرنے پر 21سال قید کی سزا سنائی جس میں ممکنہ طور پر اس کی موت تک توسیع بھی ہوسکتی ہے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک اسے معاشرے کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے، اسے قید میں رکھنا ہوگا۔
بریوک کی گرفتاری کے بعد اس کا نام منظر عام پر آیا تو انتہا پسندوں نے اسے اپنے من پسند افراد کی فہرست میں شامل کرلیا۔
اس کے خود ساختہ منشور کا عنوان تھا، '' یورپ کی آزادی کا اعلامیہ۔'' جنونی لوگوں نے اسے بہت پسند کیا اور اسے قابل قدر ریڈنگ میٹیریل قرار دیا گیا۔ دائیں بازو کے بلاگس اور سوشل میڈیا اس کی تعریفوں کے پل باندھنے لگے۔
ایک بلاگر نے لکھا :''کمانڈر بریوک کی رپورٹ میں شوٹرز کے حوالے سے تمام خبریں اور حوالے موجود ہیں، عدالت کی کارروائیاں اور نفسیاتی رپورٹس بھی شامل کرلی گئی ہیں۔''
بریوک خاص طور سے روس کے جنونیوں کے حامیوں میں بہت مقبول ہوا۔ وسطی ماسکو میں ہونے والی سالانہ روسی پریڈ میں بریوک کی شان میں قوم پرست تحریک کے حمایتیوں نے بڑے گیت گائے۔ روس کے ایک شہر میں دائیں بازو کے فورمز پر بریوک کی تصویروں اور بیانات کو وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا۔ بریوک کے پرستاروں نے اس کو ایک مقدس انسان بناکر پیش کیا جس کا کام ''اندھیرے میں روشنی کی کرن پیدا کرنا ہے۔''
بریوک کی خوں ریزی کے بعد ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس کے بہت سارے مقلدین ابھرے۔ اگست 2012 میں چیک پولیس نے Vojtech Mlýnek نامی شخص کو گرفتار کیا جو بریوک کی طرح کے حملوں کی پلاننگ کررہا تھا۔ تین ماہ بعد پولینڈ کی پولیس نے بریوک کے ایک پرستار کو گرفتار کیا جو پولینڈ کی سرکاری عمارتوں کو اڑانے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔
برطانیہ میں بھی بریوک سے متاثر چار افراد جنوری 2013اور جون 2015کے درمیان گرفتار کیے گئے جو شدت پسند حملوں کی پلاننگ میں مصروف تھے۔ بریوک کے پرستار صرف یورپ تک محدود نہیں تھے۔
14 دسمبر2012کو ایڈم لینز نامی ایک امریکی نے امریکی ریاست کنیکٹی کٹ کے نیوٹاؤن میں سینڈی ہک ایلیمینٹری اسکول میں فائرنگ کردی جس میں 26افراد مارے گئے، جن میں 20چھوٹے بچے تھے۔ بعد میں ایڈم نے خود کو گولی مارکر خود کشی کرلی۔ ذرائع نے بتایا کہ ایڈم اصل میں بریوک سے بہت متاثر تھا۔ بریوک کو ہر ماہ سینکڑوں خط ملتے تھے جن میں زیادہ تر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے ہوتے تھے۔
بہت سے خط خواتین کے ہوتے تھے جو اس سے محبت کا اظہار کرتی تھیں۔ کم عمر بچوں نے اسے اپنا ہیرو بنالیا تھا۔ ابتدائی بارہ ماہ تک جیل حکام نے تمام خط آنے دیے، پھر جب انہیں حالات کی سنگینی کا احساس ہوا تو انہوں نے ناروے کی وزارت انصاف سے نئی ہدایات مانگیں۔ اگست 2012سے جیل حکام نے بریوک کے آنے والے اور اس کے پاس سے جانے والے خطوط کو سینسر کرنا شروع کردیا۔ چناںچہ خطرناک خطوط نہ بریوک کے پاس پہنچ سکے اور نہ اس کی جانب سے باہر جاسکے۔ اب بریوک نے اپنی قید تنہائی کے خلاف آواز بلند کی، دو سال تک وہ اور اس کے وکیل جیل حکام سے مسلسل اور ناکام اپیلیں کرتے رہے۔ مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
فروری 2015 میں بریوک کے وکیل نے اعلان کیا کہ بریوک ریاست کے خلاف ایک مقدمہ دائر کرنے والا ہے کہ اس کے انسانی حقوق کا استحصال ہورہا ہے۔ وہ اپنے مہمانوں سے ملنا چاہتا ہے، وہ فون اور انٹرنیٹ پر رابطے چاہتا ہے، وہ پلے اسٹیشن استعمال کرنا چاہتا ہے اور وہ ساری دنیا کو اپنے خیالات سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔
٭میرے حقوق:
بریوک نے عدالت میں جج ہیلن انڈیناز کے سامنے اپنے بیان میں کہا:''میں نارڈک اسٹیٹ نامی پارٹی کا جنرل سیکریٹری ہوں۔ میرا حق ہے کہ مجھے قومی سوشلسٹ دوستوں کے ساتھ ایک قومی سوشلسٹ بیوی بھی دی جائے۔ ایسی بیوی کے لیے ایک اشتہار دینا بھی میرا حق ہے جو میرے سیاسی نظریات سے متفق ہو۔ میں اپنے جیسے خیالات اور نظریات کے حامل لوگوں سے رابطہ بھی چاہتا ہوں۔ میرا حق چھین کر انسانی حقوق پر یورپین کنونشن کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔''
بریوک جیل میں تین الگ کمروں میں رہتا ہے اور ہر کمرہ آٹھ مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ اس کے پاس شاور بھی ہے اور ایک اسٹور بھی۔ ایک کمرے میں بیڈ، ایک کرسی، ایک ٹی وی، کتابیں، ایک ڈی وی ڈی پلیئر اور ایک پلے اسٹیشن ہے۔ دوسرے کمرے میں ایک میز اور ایک ٹائپ رائٹر ہے۔ تیسرا کمرہ منی جیم ہے جس میں ایک ٹریڈ مل، ایک گھومتی ہوئی سائیکل اور ایک گول ٹرینر ہے۔
بریوک کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ اس کا کلائنٹ اپنی تنہائی سے عاجز آچکا ہے۔ یہاں اس کے ساتھ کم شدت والا ٹارچر ہورہا ہے۔ اس نے پلاسٹک کی کٹلری، پیپر کپ اور کافی کی شکایت بھی کی جو بعض اوقات ٹھنڈی دی جاتی ہے۔ اس نے جیل کے حکام کی شکایت کی تھی جو اسے مسلسل ایک ہی ڈش دیتے رہتے تھے۔ اسے جیل کے محافظوں سے بھی شکایت تھی جو اسے باہر جاکر چہل قدمی کرنے کے لیے کم وقت دیتے تھے۔ ہوسکتا ہے عام لوگوں کو یہ شکایات بے تکی لگیں، مگر بعض ماہرین کے خیال میں ایسی شکایات نفسیاتی خلل پیدا کرسکتی ہیں جس سے ذہنی مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اپنی شکایت میں بریوک نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ اس سے ملنا چاہتے ہیں، انہیں ملنے کی اجازت دی جائے۔ وہ جیل کے قیدیوں سے بھی ملنا چاہتا ہے، مگر جیل حکام یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتے کہ کہیں وہ قیدیوں کو اپنی باتوں سے متاثر نہ کرلے۔بریوک اپنی فیملی، رشتے داروں یا پرانے دوستوں سے ملنا نہیں چاہتا۔ وہ انہیں بے مقصد مہمان قرار دیتا ہے۔ اپنی ماں کی موت سے پہلے اس نے اس سے ملنے سے انکار کردیا تھا، کیوں کہ وہ عورت اسے قابل فخر بیٹا نہیں سمجھتی تھی۔ جب اس کا باپ اس سے ملنے آیا تو اس نے یہ شرط لگادی کہ پہلے وہ اس کی پارٹی نارڈک اسٹیٹ میں شامل ہو، اس کے بعد ہی وہ اس سے مل سکتا ہے، یہ سن کر اس کے باپ نے اس سے ملنے سے معذرت کرلی۔
٭عجیب خواہشات:
یہ عجیب انسان عجیب خواہشات رکھتا ہے۔ اس نے اب اپنے سیاسی پیغام میں بھی تبدیلی کرلی ہے۔ 2011میں وہ یورپ کو مسلمانوں سے نجات دلانا چاہتا تھا، لیکن اب وہ جدید نازی ازم کی طرف چلا گیا ہے۔ وہ نارڈک (ناروے نسل) یا آریان نسل کے عروج کی بات کرتا ہے، کیوں کہ اس کے خیال میں اس نسل کا خون بالکل خالص ہے۔ بریوک کی نام نہاد نارڈک اسٹیٹ یا تو اس کے دماغ میں پائی جاتی ہے یا پھر اس کی تحریروں میں۔ آج صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ جو لوگ ماضی میں اسے ہیرو سمجھتے تھے، آج اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اس نے اپنا انقلابی نظریہ کچھ جلدی پیش کردیا۔
اس کے لیے فی الحال ماحول سازگار نہیں تھا۔ لیکن بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کے ساتھ آج بھی مخلص دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ اپنے ہیرو کو ایک بار پھر ٹی وی پر دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ کچھ لوگ آج بھی اسے سفید فاموں کا ہیرو قرار دیتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اسے اب بھی کمانڈر بریوک کہہ کر پکارتے ہیں اور اس سے غیرمشروط طور پر محبت کرتے ہیں۔
بریوک کا کیا ہوگا؟ کیا اس کی ساری زندگی جیل میں گزرے گی؟ کیا اس کے ہمدرد اور پرستار اس کے لیے آواز بلند کریں گے؟ کیا مستقبل میں ایسا بھی ہوگا کہ وہ جیل سے باہر آزاد فضا میں سانس لے سکے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب کسی کو نہیں معلوم، بہ ظاہر تو اس کی ساری عمر جیل میں گزرے گی، مگر انقلاب زمانہ آگے جاکر کیا دکھاتا ہے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
جنونی درندے Anders Breivik نے 2011ء میں ناروے میں قتل و غارت گری کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، اس کی پاداش میں آج تک پابند سلاسل ہے، لیکن اس سے بھی بڑا عالمی نقصان اس نے یہ کیا کہ اپنی جیسی وحشیانہ سوچ رکھنے والے بے شمار لوگ پیدا کرلیے اور ان کا خود ساختہ ہیرو بھی بن گیا۔
وہ 13 فروری1979کو ناروے کے دارالحکومت اوسلومیں پیدا ہوا۔ اس نے اوسلو کامرس اسکول سے تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی اسمال بزنس منیجمنٹ پر متعدد آن لائن کورس بھی کیے۔ وہ شروع سے ہی نسلی برتری کے جنون میں مبتلا تھا۔ وہ ہمیشہ سے یورپ پر صرف سفید فاموں کی حکومت کے خواب دیکھا کرتا تھا اور اپنے مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب کو ناپسند کرتا تھا۔ یہ غالباً اس کے اندر کی نفرت ہی تھی جس نے اسے دوسرے مذاہب سے اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے ہمیشہ دور رکھا۔ پھر اس کے شیطانی دماغ نے دہشت گردی کے منصوبے بنائے۔ ظلم کبھی کسی کے لیے قابل قبول نہیں ہوتا، چناں چہ وہ بھی پکڑا گیا اور قانون نے اسے پابند سلاسل کردیا۔
اس وقت یہ جنونی قاتل اینڈرس بریوک 2013سے جنوبی ناروے کی ایک دور افتادہ جیل میں قید ہے اور اپنے ملک کی عدالتوں سے شکوے کرتا رہتا ہے کہ اسے قید تنہائی کی سزا دے کر ساری دنیا سے الگ تھلگ کردیا گیا ہے، وہ اپنے حقوق کی پامالی کی بات بھی کرتا ہے۔ پیشی کے روز جب وہ عدالت میں داخل ہوا تو اس کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی جیسے وہ خود کوئی مجرم نہیں، بلکہ ساری دنیا مجرم ہے۔
وہ اپنے محافظوں کی جانب سے ہتھکڑی کھولے جانے کا منتظر تھا۔ اس نے اطراف میں نظریں دوڑائیں تو دو درجن کے قریب صحافی اور کچھ جیل حکام دکھائی دیے۔ صحافیوں کو دیکھتے ہی اس نے اپنا دایاں ہاتھ نازی سیلیوٹ کے انداز میں کچھ دیر تک فضا میں بلند کیا۔ یہ وہ آدمی تھا جس نے 22جولائی2011ء کو 77 معصوم افراد کو نہایت بے رحمی سے زندگی سے محروم کردیا تھا۔ اینڈرس بریوک کی نظریں عدالت میں لوگوں کے بجائے کیمروں پر تھیں۔ فوری طور پر اس کے نازی سیلیوٹ کی تصویریں اور لائیو فوٹیج دنیا بھر کی نیوز ایجینسیوں تک پہنچ گئیں جنھیں لوگوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور آن لائن شیئر بھی کرلیا اور اس طرح اس کا عالمی تشہیر کا مقصد پورا ہوگیا۔
ناروے سے تعلق رکھنے والا یہ 37سالہ انتہا پسند جنونی کاکیشیائی نسل یعنی ناروے کے لوگوں کی ایک آزاد ریاست قائم کرنا چاہتا ہے جس کے لیے وہ ساری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا چاہتا تھا۔ 2011 میں پرتشدد واقعات کا ارتکاب کرنے کے بعد اس نے کہا تھا:''میں سوچتا ہوں کہ آخر لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے مجھے کتنے افراد ہلاک کرنے ہوں گے۔''
اس کے خیال میں اسے توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک درجن افراد ہلاک کرنے تھے، مگر اس نے زیادہ ہی ہلاک کر ڈالے جن میں 33افراد18سال سے بھی کم عمر کے تھے۔ بعد میں بریوک نے اس وحشت و بربریت کو اپنی کتاب کی لانچنگ کی تشہیر کے طور پر بیان کیا۔ اس نے اوسلو میں وزیراعظم کے دفتر کے باہر ایک بم نصب کردیا اور اس کے بعد دارالحکومت کے قریب واقع جزیرہ Utøya پر لیبر پارٹی کے یوتھ کیمپ میں شریک نوجوانوں کو گولی مارکر ہلاک کردیا۔ اس کے بعد ہی ہزاروں لوگوں نے اس کے پندرہ سو صفحات پر مشتمل ''منشور'' کو پڑھا، اس پر بحث بھی کی اور تبصرے بھی۔
بریوک اس طاقت کو نہیں بھولا ہے جو ظلم و بربریت کی چنگاری سے پیدا ہوتی ہے۔ مارچ کے وسط میں عدالت میں اس کی حاضری اس کے گناہ کے خلاف کوئی اپیل کے لیے نہیں تھی، بلکہ بریوک تو ناروے کی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کرنے وہاں آیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسے قید تنہائی میں رکھ کر اس کے انسانی حقوق کا استحصال کیا جارہا ہے، کیوں کہ اس طرح اسے بیرونی دنیا سے رابطہ کرنے سے روکا جارہا ہے۔
ادھر ناروے کے اعلیٰ عہدے داران کا کہنا ہے کہ بریوک ابھی تک ایک بڑا خطرہ ہے، اس کے لیے قید تنہائی ضروری ہے، تاکہ وہ دائیں بازو کے ان انتہا پسندوں سے دور رہے جو وحشت و بربریت کا بازار گرم کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ ناروے سے دور ہوتے ہوئے بھی بریوک کے حامیوں نے اسے نازی سیلیوٹ کرتے ہوئے دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ اس کا ایک حامی ایک امریکی انتہا پسند اینڈریو اورن ہیمر ہے جو اس وقت جمہوریہ Abkhazia، جارجیا، میں رہتا ہے۔ اینڈریو کا کہنا ہے: ''وہ اپنے لوگوں کا ہیرو ہے اور میں سؤروں کی قید سے اس کی رہائی کا انتظار نہیں کرسکتا۔ ہم غیر مشروط طور پر اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔ ناروے کی حکومت کے خلاف اس کے مقدمے اور نازی سیلیوٹ نے ہمارے دلوں میں اس کی محبت اور ہمدردی میں اضافہ کردیا ہے۔''
عدالت میں بریوک کی حاضری نے ناروے کی حکومت کے لیے ایک نیا مسئلہ کھڑا کردیا ہے۔ جمہوری اقدار کی سربلندی کے لیے ناروے کے اعلیٰ عہدے داران کو اسے عدالت میں حاضر ہونے کی اجازت دینی پڑی، حالاں کہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ تمام کارروائی ٹیلی ویژن پر دکھائی جائے گی اور بریوک اپنے حامیوں کی ہمدردیاں سمیٹنے کے لیے یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔
Adele Matheson Mestad ریاست ناروے کا وکیل ہے، اس نے عدالت میں کہا:''خاص طور سے اس وقت بریوک کا نظریہ بہت خطرناک ہے، کیوں کہ یورپ میں داخل ہونے والے بے شمار پناہ گزینوں نے اس براعظم میں دائیں بازو کی سرگرمیوں میں اضافہ کردیا ہے اور اس کی وجہ سے بریوک ان لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرکے انہیں پر تشدد کارروائیوں پر آمادہ کرسکتا ہے۔''
عدالت کی کارروائیاں ناروے کے ان سب لوگوں کو مشتعل کررہی تھیں جو یا تو پرتشدد کارروائیوں میں بچ گئے تھے یا ان کے عزیز رشتے دار ان میں اپنی جانوں سے گئے تھے، اس کے بعد ایک بڑا سوال سامنے آگیا:
اس طرح کے پرتشدد، وحشت و بربریت والے حملوں کے دور میں جہاں سوشل میڈیا بھی سرگرم ہے، کیا بریوک ایک بہت بڑا خطرہ نہیں بن جائے گا؟
٭ ہماری اشرافیہ دوغلی اور دھوکے باز ہے:
22جولائی2011کی سہ پہر کو بریوک نے وزیر اعظم کے دفتر کے باہر بم دھماکا کیا جس میں 8افرد ہلاک ہوئے۔ دو گھنٹے بعد ہی وہ پولیس افسر کی یونیفارم میں ایک کشتی کے ذریعے جزیرہ Utøya پہنچا جہاں اس وقت کی حکمران جماعت لیبر پارٹی کے زیر اہتمام ایک یوتھ کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ وہاں پہنچتے ہی اس نے 69افراد کو گولیاں مارکر ہلاک کردیا، بعد میں اس جزیرے پر پولیس پہنچی اور اسے گرفتار کرلیا گیا۔
٭ابتدائی حالات:
بریوک بچپن سے ہی ایک بگڑا ہوا بچہ تھا۔ اس نے 18سال کی عمر میں ناروے کی دائیں بازو کی پروگریس پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا جنون اور بھی شدید ہوگیا۔ پھر اس نے سفید فاموں کی برتری، جدید نازی ازم اور اینٹی جہادی ویب سائٹس پڑھنی شروع کیں۔ نفرت پھیلانے والے ان مختلف ذرائع نے اس کے اندر کی آگ کو اور بھی بھڑکایا، وہ اکثر انٹرنیٹ سے متضاد اور ہلاکت خیز خیالات و افکار لے کر انہیں آگے بڑھاتا رہا۔ بعض اوقات تو وہ اپنے ہی خیالات کی ضد بھی پیش کردیتا تھا۔ اس کا بنیادی اور عام نقطۂ نظر یہ تھا:
یورپ پر مسلمانوں کی یلغار جاری ہے، مگر حکومتیں اس آفت ناگہانی کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کررہی ہیں۔ ہماری اشرافیہ منافق ہے جو ہمیں دھوکا دے رہی ہے۔ اگر ہم نے اس وقت کچھ نہ کیا تو یورپ ختم ہوکر ایک اسلامی خلافت بن جائے گا۔
بریوک نے دائیں بازو کے نظریات رکھنے والوں سے آن لائن رابطے کی کوشش کی جس کے جواب میں اسے بہت سے ہمدرد مل گئے۔ پھر اس نے ہتھیار اور گولا بارود خریدنا شروع کردیا۔ اس نے ایک کرائے کا فارم بھی حاصل کرلیا، تاکہ بم بنانے کے لیے درکار سینکڑوں کلو کیمیاوی کھاد اور دوسرے اجزاء خرید کر رکھ سکے۔
یہ فارم سوئیڈن کے بارڈر کے ساتھ گھنے جنگلات میں تھا جہاں سے اس نے اشرافیہ، سیاسی اکابرین اور ان کے بچوں پر حملے کا منصوبہ بنایا۔ وہ یورپ میں ایک ایسی خوف ناک جنگ کی چنگاری بھڑکانا چاہتا تھا جس کا نتیجہ آخرکار یہ نکلے کہ عیسائیوں کو فتح ملے اور مسلمان شکست سے دوچار ہوں۔ اس مرحلے پر اس کا خیال تھا کہ تمام مسلمانوں کے سامنے یہ راستہ رہ جائے گا کہ یا تو وہ سب یہاں سے چلے جائیں گے یا اپنے نام بدل کر عیسائی بن جائیں گے یا پھر موت کو گلے لگالیں گے۔ تمام مساجد مسمار کردی جائیں گی یا انہیں دوسرے مقاصد میں استعمال کیا جائے گا۔ مسلمانوں کے تمام فن پارے تباہ کردیے جائیں گے، اور عربی، فارسی، اردو اور صومالی زبانوں پر پابندی لگادی جائے گی۔
بریوک کے ٹرائل کے دوران عدالت نے محتاط انداز سے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ آیا بریوک ذہنی مریض ہے اور اسے علاج کی ضرورت ہے یا پھر وہ سرد خون والا انسان ہے جو عقل و شعور کا حامل ہوتے ہوئے بھی ڈھیروں لوگوں کا قاتل ہے۔ بعض نفسیاتی ماہرین نے یہ تشخیص کیا کہ وہ ایک خود پرست انسان ہے جو غیرسماجی پرسنالٹی ڈس آرڈر کے ذہنی مرض میں مبتلا ہے۔
اس سے پہلے کچھ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ وہ شیزوفرینیا (ذہنی پراگندگی) کا مریض ہے۔ اگست 2012میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ چوں کہ وہ کوئی نفسیاتی مریض نہیں ہے اور جو کچھ کرتا ہے، اس کے بارے میں اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کیا کررہا ہے، اس لیے وہ قانونی طور پر اپنے تمام اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔ جج نے بریوک کو دہشت گردی کا ارتکاب کرنے پر 21سال قید کی سزا سنائی جس میں ممکنہ طور پر اس کی موت تک توسیع بھی ہوسکتی ہے۔ عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جب تک اسے معاشرے کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے، اسے قید میں رکھنا ہوگا۔
بریوک کی گرفتاری کے بعد اس کا نام منظر عام پر آیا تو انتہا پسندوں نے اسے اپنے من پسند افراد کی فہرست میں شامل کرلیا۔
اس کے خود ساختہ منشور کا عنوان تھا، '' یورپ کی آزادی کا اعلامیہ۔'' جنونی لوگوں نے اسے بہت پسند کیا اور اسے قابل قدر ریڈنگ میٹیریل قرار دیا گیا۔ دائیں بازو کے بلاگس اور سوشل میڈیا اس کی تعریفوں کے پل باندھنے لگے۔
ایک بلاگر نے لکھا :''کمانڈر بریوک کی رپورٹ میں شوٹرز کے حوالے سے تمام خبریں اور حوالے موجود ہیں، عدالت کی کارروائیاں اور نفسیاتی رپورٹس بھی شامل کرلی گئی ہیں۔''
بریوک خاص طور سے روس کے جنونیوں کے حامیوں میں بہت مقبول ہوا۔ وسطی ماسکو میں ہونے والی سالانہ روسی پریڈ میں بریوک کی شان میں قوم پرست تحریک کے حمایتیوں نے بڑے گیت گائے۔ روس کے ایک شہر میں دائیں بازو کے فورمز پر بریوک کی تصویروں اور بیانات کو وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا۔ بریوک کے پرستاروں نے اس کو ایک مقدس انسان بناکر پیش کیا جس کا کام ''اندھیرے میں روشنی کی کرن پیدا کرنا ہے۔''
بریوک کی خوں ریزی کے بعد ایک سال سے بھی کم عرصے میں اس کے بہت سارے مقلدین ابھرے۔ اگست 2012 میں چیک پولیس نے Vojtech Mlýnek نامی شخص کو گرفتار کیا جو بریوک کی طرح کے حملوں کی پلاننگ کررہا تھا۔ تین ماہ بعد پولینڈ کی پولیس نے بریوک کے ایک پرستار کو گرفتار کیا جو پولینڈ کی سرکاری عمارتوں کو اڑانے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔
برطانیہ میں بھی بریوک سے متاثر چار افراد جنوری 2013اور جون 2015کے درمیان گرفتار کیے گئے جو شدت پسند حملوں کی پلاننگ میں مصروف تھے۔ بریوک کے پرستار صرف یورپ تک محدود نہیں تھے۔
14 دسمبر2012کو ایڈم لینز نامی ایک امریکی نے امریکی ریاست کنیکٹی کٹ کے نیوٹاؤن میں سینڈی ہک ایلیمینٹری اسکول میں فائرنگ کردی جس میں 26افراد مارے گئے، جن میں 20چھوٹے بچے تھے۔ بعد میں ایڈم نے خود کو گولی مارکر خود کشی کرلی۔ ذرائع نے بتایا کہ ایڈم اصل میں بریوک سے بہت متاثر تھا۔ بریوک کو ہر ماہ سینکڑوں خط ملتے تھے جن میں زیادہ تر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے ہوتے تھے۔
بہت سے خط خواتین کے ہوتے تھے جو اس سے محبت کا اظہار کرتی تھیں۔ کم عمر بچوں نے اسے اپنا ہیرو بنالیا تھا۔ ابتدائی بارہ ماہ تک جیل حکام نے تمام خط آنے دیے، پھر جب انہیں حالات کی سنگینی کا احساس ہوا تو انہوں نے ناروے کی وزارت انصاف سے نئی ہدایات مانگیں۔ اگست 2012سے جیل حکام نے بریوک کے آنے والے اور اس کے پاس سے جانے والے خطوط کو سینسر کرنا شروع کردیا۔ چناںچہ خطرناک خطوط نہ بریوک کے پاس پہنچ سکے اور نہ اس کی جانب سے باہر جاسکے۔ اب بریوک نے اپنی قید تنہائی کے خلاف آواز بلند کی، دو سال تک وہ اور اس کے وکیل جیل حکام سے مسلسل اور ناکام اپیلیں کرتے رہے۔ مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔
فروری 2015 میں بریوک کے وکیل نے اعلان کیا کہ بریوک ریاست کے خلاف ایک مقدمہ دائر کرنے والا ہے کہ اس کے انسانی حقوق کا استحصال ہورہا ہے۔ وہ اپنے مہمانوں سے ملنا چاہتا ہے، وہ فون اور انٹرنیٹ پر رابطے چاہتا ہے، وہ پلے اسٹیشن استعمال کرنا چاہتا ہے اور وہ ساری دنیا کو اپنے خیالات سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔
٭میرے حقوق:
بریوک نے عدالت میں جج ہیلن انڈیناز کے سامنے اپنے بیان میں کہا:''میں نارڈک اسٹیٹ نامی پارٹی کا جنرل سیکریٹری ہوں۔ میرا حق ہے کہ مجھے قومی سوشلسٹ دوستوں کے ساتھ ایک قومی سوشلسٹ بیوی بھی دی جائے۔ ایسی بیوی کے لیے ایک اشتہار دینا بھی میرا حق ہے جو میرے سیاسی نظریات سے متفق ہو۔ میں اپنے جیسے خیالات اور نظریات کے حامل لوگوں سے رابطہ بھی چاہتا ہوں۔ میرا حق چھین کر انسانی حقوق پر یورپین کنونشن کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔''
بریوک جیل میں تین الگ کمروں میں رہتا ہے اور ہر کمرہ آٹھ مربع میٹر پر مشتمل ہے۔ اس کے پاس شاور بھی ہے اور ایک اسٹور بھی۔ ایک کمرے میں بیڈ، ایک کرسی، ایک ٹی وی، کتابیں، ایک ڈی وی ڈی پلیئر اور ایک پلے اسٹیشن ہے۔ دوسرے کمرے میں ایک میز اور ایک ٹائپ رائٹر ہے۔ تیسرا کمرہ منی جیم ہے جس میں ایک ٹریڈ مل، ایک گھومتی ہوئی سائیکل اور ایک گول ٹرینر ہے۔
بریوک کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ اس کا کلائنٹ اپنی تنہائی سے عاجز آچکا ہے۔ یہاں اس کے ساتھ کم شدت والا ٹارچر ہورہا ہے۔ اس نے پلاسٹک کی کٹلری، پیپر کپ اور کافی کی شکایت بھی کی جو بعض اوقات ٹھنڈی دی جاتی ہے۔ اس نے جیل کے حکام کی شکایت کی تھی جو اسے مسلسل ایک ہی ڈش دیتے رہتے تھے۔ اسے جیل کے محافظوں سے بھی شکایت تھی جو اسے باہر جاکر چہل قدمی کرنے کے لیے کم وقت دیتے تھے۔ ہوسکتا ہے عام لوگوں کو یہ شکایات بے تکی لگیں، مگر بعض ماہرین کے خیال میں ایسی شکایات نفسیاتی خلل پیدا کرسکتی ہیں جس سے ذہنی مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اپنی شکایت میں بریوک نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ اس سے ملنا چاہتے ہیں، انہیں ملنے کی اجازت دی جائے۔ وہ جیل کے قیدیوں سے بھی ملنا چاہتا ہے، مگر جیل حکام یہ خطرہ مول نہیں لینا چاہتے کہ کہیں وہ قیدیوں کو اپنی باتوں سے متاثر نہ کرلے۔بریوک اپنی فیملی، رشتے داروں یا پرانے دوستوں سے ملنا نہیں چاہتا۔ وہ انہیں بے مقصد مہمان قرار دیتا ہے۔ اپنی ماں کی موت سے پہلے اس نے اس سے ملنے سے انکار کردیا تھا، کیوں کہ وہ عورت اسے قابل فخر بیٹا نہیں سمجھتی تھی۔ جب اس کا باپ اس سے ملنے آیا تو اس نے یہ شرط لگادی کہ پہلے وہ اس کی پارٹی نارڈک اسٹیٹ میں شامل ہو، اس کے بعد ہی وہ اس سے مل سکتا ہے، یہ سن کر اس کے باپ نے اس سے ملنے سے معذرت کرلی۔
٭عجیب خواہشات:
یہ عجیب انسان عجیب خواہشات رکھتا ہے۔ اس نے اب اپنے سیاسی پیغام میں بھی تبدیلی کرلی ہے۔ 2011میں وہ یورپ کو مسلمانوں سے نجات دلانا چاہتا تھا، لیکن اب وہ جدید نازی ازم کی طرف چلا گیا ہے۔ وہ نارڈک (ناروے نسل) یا آریان نسل کے عروج کی بات کرتا ہے، کیوں کہ اس کے خیال میں اس نسل کا خون بالکل خالص ہے۔ بریوک کی نام نہاد نارڈک اسٹیٹ یا تو اس کے دماغ میں پائی جاتی ہے یا پھر اس کی تحریروں میں۔ آج صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ جو لوگ ماضی میں اسے ہیرو سمجھتے تھے، آج اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اس نے اپنا انقلابی نظریہ کچھ جلدی پیش کردیا۔
اس کے لیے فی الحال ماحول سازگار نہیں تھا۔ لیکن بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کے ساتھ آج بھی مخلص دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ اپنے ہیرو کو ایک بار پھر ٹی وی پر دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔ کچھ لوگ آج بھی اسے سفید فاموں کا ہیرو قرار دیتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو اسے اب بھی کمانڈر بریوک کہہ کر پکارتے ہیں اور اس سے غیرمشروط طور پر محبت کرتے ہیں۔
بریوک کا کیا ہوگا؟ کیا اس کی ساری زندگی جیل میں گزرے گی؟ کیا اس کے ہمدرد اور پرستار اس کے لیے آواز بلند کریں گے؟ کیا مستقبل میں ایسا بھی ہوگا کہ وہ جیل سے باہر آزاد فضا میں سانس لے سکے؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جواب کسی کو نہیں معلوم، بہ ظاہر تو اس کی ساری عمر جیل میں گزرے گی، مگر انقلاب زمانہ آگے جاکر کیا دکھاتا ہے، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔