ہمارا چوہدری
اس کی خبر صبح ناشتے سے پہلے ایک اندر کے آدمی نے اس تک پہنچا دی تھی
SUKKUR:
ہمارے محفل باز فارغ البال احباب اکٹھے ہو بیٹھتے ہیں تو ان کا محبوب مشغلہ ملکی سیاست پر اندر کی خبر اور اہل سیاست کی بداعمالیاں ان کا موضوع سخن ہوتا ہے۔ ہر کوئی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ گزشتہ رات وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی کچن کیبنٹ میں جو گفتگو ہوئی صرف وہی اس کا رازداں ہے، یہاں تک کہ آیندہ کون مراعات پانے والا ہے اور کس کس کی شامت آنے کو ہے۔
اس کی خبر صبح ناشتے سے پہلے ایک اندر کے آدمی نے اس تک پہنچا دی تھی اور پھر وہ دھیمی آواز میں خبر کا ٹپکتا ہوا حصہ اپنے بائیں طرف بیٹھے ہوئے ساتھی کے ساتھ باقی سب مصاحبوں سے بچا کر شیئر کر لیتا ہے تا کہ وہ دیگر ساتھیوں کی تجسس زدہ محرومی کا مزہ لے سکے۔ مجھے بھی بیشمار ایسی محفلوں میں شمولیت کا موقع ملا ہے جن میں ایسے تمام حاضر سروس اور فارغ سروس سیاست دانوں اور بیورو کریٹوں کا ذکر ہوتا رہتا ہے اور جن کا نامۂ اعمال کھنگالنا عین ثواب سمجھ کر کھولا اور پرکھا جاتا ہے۔ مورخہ 18 اپریل 2016ء کو ہمارے ایک نہایت عزیز دوست اور نسبتاً بزرگ ساتھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ چوہدری عبدالغفور تھے جن کی زندگی کے کم و بیش 32 سال ملکی سیاست میں گزرے۔
پچیس سال قبل ان سے بتوسط کریم ظفر ملک ملاقات ہوئی جو محبت اور دوستی کے رشتے میں بدل گئی اور اس تعلق میں بتدریج بہتری ہی آئی۔ اگر میں اپنے تعلقداروں کی محافل میں یک موضوع ہونے والی Gossip کو یاد کروں تو چوہدری عبدالغفور کی 32 سالہ سیاسی زندگی کے بارے میں کسی بھی جگہ ان کے بارے میں منفی ذکر سننے میں نہ آیا ان کی شرافت دیانت اصول پسندی متانت اور نیک نامی کا ذکر سننے کو ملا۔ ہمارے ہاں کے کلچر میں ایک عوامی اور سیاسی شخصیت کے بارے میں مثبت اظہار خیال بلاشبہ اس کو ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے اور اسی بات نے مجھے مجبور کیا کہ چوہدری صاحب کو ان اصحاب سے متعارف کرواؤں جنھیں ہماری اکثر عوامی اور سیاسی شخصیات ہر قسم کی غلاظت میں لتھڑی ہوئی ملتی ہیں۔
چوہدری صاحب 1936ء میں ہارون آباد ضلع بہاولنگر کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی ٹاٹ اسکولوں میں حاصل کی اور لاہور سے قانون کی ڈگری لے کر نائب تحصیلدار بھرتی ہوئے جلد ہی نوکری چھوڑ کر وکالت شروع کی اور مقامی بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے کر سیاست میں قدم رکھ دیا۔ چیئرمین ضلع کونسل اور پھر بار کونسل میں رہے۔ ضیاء الحق کے غیر جماعتی دور میں الیکشن جیتا اور 1981ء میں پنجاب کے وزیر قانون اور اس کے بعد ان کے پاس تعلیم، جنگلات، زراعت کلچر اور اسپورٹس کی وزارتیں رہیں۔ اس دور میں دیہات کے لوگوں کی سادگی کے دو واقعات وہ ہنس ہنس کر سناتے تھے۔
ایک بار ان کے علاقے کا اسکول ماسٹر ایک سفارش کے سلسلے میں ان کے پاس آیا۔ غرض بیان کر کے اس نے تحفے کے طور پر ان کے سامنے مرغی کے انڈوں کا ٹوکرا رکھ کر کہا کہ قبول کر لیں چوہدری صاحب اور موجود لوگ ہنسے اور پوچھا اتنے زیادہ انڈے کیسے اکھٹے کیے۔ سادہ لوح اسکول ماسٹر نے کہا کہ اس نے اسکول کے طالب علموں کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ ہر بچہ ایک ایک انڈہ گھر سے لائے گا۔
یوں پورا ٹوکرہ انڈوں سے بھر گیا۔ ایک اور دیہاتی جس کا بیٹا امتحان دے رہا تھا ان کے دفتر پہنچا اور گڑگڑا کر درخواست کی کہ اس کا بیٹا بے حد نالائق ہے۔ امتحان میں ضرور فیل ہو جائے گا۔ چوہدری صاحب ممتحن کو فون کر کے سفارش کریں کہ وہ بچے کو نقل مارنے کی اجازت دے دے تا کہ بیٹا امتحان میں پاس ہو جائے۔ چوہدری صاحب نے اس شخص کو بھی ناراض نہیں کیا لیکن کام ناجائز تھا اس لیے سائل کو پیار سے رخصت کیا۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ طیش میں آئے بغیر غلط کام سے جان چھڑا لیتے تھے۔
گورنر غلام جیلانی کے بعد چوہدری صاحب نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے 1985ء میں اپنی دوسری سیاسی زندگی کا آغاز کیا وہ 1991ء میں مرکزی وزیر قانون کی حیثیت میں اسلام آباد منتقل ہو گئے۔ انھوں نے 1993ء میں کریم ظفر ملک کے توسط سے عبدالرؤف صاحب اور مجھے دعوت دی تو ہم تینوں فیڈرل لاج میں تین دن کے لیے ان کے مہمان ہوئے۔ وہ دفتر سے واپس آتے تو رات گئے تک محفل رہتی۔ تیسرے دن رات دس بجے انھیں کیبنٹ میٹنگ کے لیے وزیراعظم کا بلاوا آیا لیکن انھوں نے ٹال مٹول کر کے ہمارے ساتھ محفل جاری رکھی۔
دوبارہ بلاوا آیا رات کے 12 بج گئے وہ پھر بھی ہمارے ساتھ مصروف رہے تو حیرت ہوئی۔ ہم نے انھیں یاد دلایا کہ وزیراعظم انھیں یعنی وزیر قانون کو طلب کر رہے ہیں وہ پھر بات گول کر گئے۔ ہمیں اس سے اگلی دوپہر اسلام آباد سے واپس لاہور آنا تھا اس لیے صبح تین بجے تک محفل رہی اور پھر سب سونے کے لیے اٹھ گئے۔ صبح چھ بجے آنکھ کھلی تو چوہدری غفور صاحب کو تیزی سے تیار ہوتے دیکھا، پوچھا تو بولے وزیراعظم نے ڈرائیور گاڑی بھیج کر فوری اور لازمی طلب کیا ہے اب جانا ہی پڑے گا۔ ہم تینوں دوست دوپہر کے بعد لاہور روانہ ہو گئے۔ راستے میں پتہ چلا صدر غلام اسحاق خاں نے بذریعہ فوجی سربراہ وزیراعظم سے استعفی حاصل کر لیا ہے اب ہم پر یہ راز کھلا کہ رات بار بار طلبی کے باوجود چوہدری صاحب کیبنٹ میٹنگ میں جانے سے کیوں گریزاں تھے۔
چوہدری صاحب دوستیاں نبھاتے تھے موسیقی سے شغف رکھتے تھے، گالف کھیلتے تھے اور سیاست بھی عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔ انھیں 1976ء میں دل کا عارضہ ہوا جب وہ ایک عدالت میں بحث کر رہے تھے تب سے سیر کرنا ان کے معمول میں شامل ہو گیا۔ ان دنوں ڈاکٹر مظہر، ڈاکٹر اظہر اور سینیٹر ظفر اقبال سارا سارا دن اپنے والد کی زندگی کے واقعات سننے کے لیے تعزیت کے لیے آنیوالوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ چند سطریں چوہدری صاحب کی محبت کا قرض تو نہیں اتار سکتیں۔ لہٰذا باقی آیندہ۔
ہمارے محفل باز فارغ البال احباب اکٹھے ہو بیٹھتے ہیں تو ان کا محبوب مشغلہ ملکی سیاست پر اندر کی خبر اور اہل سیاست کی بداعمالیاں ان کا موضوع سخن ہوتا ہے۔ ہر کوئی ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ گزشتہ رات وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کی کچن کیبنٹ میں جو گفتگو ہوئی صرف وہی اس کا رازداں ہے، یہاں تک کہ آیندہ کون مراعات پانے والا ہے اور کس کس کی شامت آنے کو ہے۔
اس کی خبر صبح ناشتے سے پہلے ایک اندر کے آدمی نے اس تک پہنچا دی تھی اور پھر وہ دھیمی آواز میں خبر کا ٹپکتا ہوا حصہ اپنے بائیں طرف بیٹھے ہوئے ساتھی کے ساتھ باقی سب مصاحبوں سے بچا کر شیئر کر لیتا ہے تا کہ وہ دیگر ساتھیوں کی تجسس زدہ محرومی کا مزہ لے سکے۔ مجھے بھی بیشمار ایسی محفلوں میں شمولیت کا موقع ملا ہے جن میں ایسے تمام حاضر سروس اور فارغ سروس سیاست دانوں اور بیورو کریٹوں کا ذکر ہوتا رہتا ہے اور جن کا نامۂ اعمال کھنگالنا عین ثواب سمجھ کر کھولا اور پرکھا جاتا ہے۔ مورخہ 18 اپریل 2016ء کو ہمارے ایک نہایت عزیز دوست اور نسبتاً بزرگ ساتھی اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ چوہدری عبدالغفور تھے جن کی زندگی کے کم و بیش 32 سال ملکی سیاست میں گزرے۔
پچیس سال قبل ان سے بتوسط کریم ظفر ملک ملاقات ہوئی جو محبت اور دوستی کے رشتے میں بدل گئی اور اس تعلق میں بتدریج بہتری ہی آئی۔ اگر میں اپنے تعلقداروں کی محافل میں یک موضوع ہونے والی Gossip کو یاد کروں تو چوہدری عبدالغفور کی 32 سالہ سیاسی زندگی کے بارے میں کسی بھی جگہ ان کے بارے میں منفی ذکر سننے میں نہ آیا ان کی شرافت دیانت اصول پسندی متانت اور نیک نامی کا ذکر سننے کو ملا۔ ہمارے ہاں کے کلچر میں ایک عوامی اور سیاسی شخصیت کے بارے میں مثبت اظہار خیال بلاشبہ اس کو ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے اور اسی بات نے مجھے مجبور کیا کہ چوہدری صاحب کو ان اصحاب سے متعارف کرواؤں جنھیں ہماری اکثر عوامی اور سیاسی شخصیات ہر قسم کی غلاظت میں لتھڑی ہوئی ملتی ہیں۔
چوہدری صاحب 1936ء میں ہارون آباد ضلع بہاولنگر کے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مقامی ٹاٹ اسکولوں میں حاصل کی اور لاہور سے قانون کی ڈگری لے کر نائب تحصیلدار بھرتی ہوئے جلد ہی نوکری چھوڑ کر وکالت شروع کی اور مقامی بلدیاتی الیکشن میں حصہ لے کر سیاست میں قدم رکھ دیا۔ چیئرمین ضلع کونسل اور پھر بار کونسل میں رہے۔ ضیاء الحق کے غیر جماعتی دور میں الیکشن جیتا اور 1981ء میں پنجاب کے وزیر قانون اور اس کے بعد ان کے پاس تعلیم، جنگلات، زراعت کلچر اور اسپورٹس کی وزارتیں رہیں۔ اس دور میں دیہات کے لوگوں کی سادگی کے دو واقعات وہ ہنس ہنس کر سناتے تھے۔
ایک بار ان کے علاقے کا اسکول ماسٹر ایک سفارش کے سلسلے میں ان کے پاس آیا۔ غرض بیان کر کے اس نے تحفے کے طور پر ان کے سامنے مرغی کے انڈوں کا ٹوکرا رکھ کر کہا کہ قبول کر لیں چوہدری صاحب اور موجود لوگ ہنسے اور پوچھا اتنے زیادہ انڈے کیسے اکھٹے کیے۔ سادہ لوح اسکول ماسٹر نے کہا کہ اس نے اسکول کے طالب علموں کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ ہر بچہ ایک ایک انڈہ گھر سے لائے گا۔
یوں پورا ٹوکرہ انڈوں سے بھر گیا۔ ایک اور دیہاتی جس کا بیٹا امتحان دے رہا تھا ان کے دفتر پہنچا اور گڑگڑا کر درخواست کی کہ اس کا بیٹا بے حد نالائق ہے۔ امتحان میں ضرور فیل ہو جائے گا۔ چوہدری صاحب ممتحن کو فون کر کے سفارش کریں کہ وہ بچے کو نقل مارنے کی اجازت دے دے تا کہ بیٹا امتحان میں پاس ہو جائے۔ چوہدری صاحب نے اس شخص کو بھی ناراض نہیں کیا لیکن کام ناجائز تھا اس لیے سائل کو پیار سے رخصت کیا۔ ان کی یہ خوبی تھی کہ طیش میں آئے بغیر غلط کام سے جان چھڑا لیتے تھے۔
گورنر غلام جیلانی کے بعد چوہدری صاحب نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے 1985ء میں اپنی دوسری سیاسی زندگی کا آغاز کیا وہ 1991ء میں مرکزی وزیر قانون کی حیثیت میں اسلام آباد منتقل ہو گئے۔ انھوں نے 1993ء میں کریم ظفر ملک کے توسط سے عبدالرؤف صاحب اور مجھے دعوت دی تو ہم تینوں فیڈرل لاج میں تین دن کے لیے ان کے مہمان ہوئے۔ وہ دفتر سے واپس آتے تو رات گئے تک محفل رہتی۔ تیسرے دن رات دس بجے انھیں کیبنٹ میٹنگ کے لیے وزیراعظم کا بلاوا آیا لیکن انھوں نے ٹال مٹول کر کے ہمارے ساتھ محفل جاری رکھی۔
دوبارہ بلاوا آیا رات کے 12 بج گئے وہ پھر بھی ہمارے ساتھ مصروف رہے تو حیرت ہوئی۔ ہم نے انھیں یاد دلایا کہ وزیراعظم انھیں یعنی وزیر قانون کو طلب کر رہے ہیں وہ پھر بات گول کر گئے۔ ہمیں اس سے اگلی دوپہر اسلام آباد سے واپس لاہور آنا تھا اس لیے صبح تین بجے تک محفل رہی اور پھر سب سونے کے لیے اٹھ گئے۔ صبح چھ بجے آنکھ کھلی تو چوہدری غفور صاحب کو تیزی سے تیار ہوتے دیکھا، پوچھا تو بولے وزیراعظم نے ڈرائیور گاڑی بھیج کر فوری اور لازمی طلب کیا ہے اب جانا ہی پڑے گا۔ ہم تینوں دوست دوپہر کے بعد لاہور روانہ ہو گئے۔ راستے میں پتہ چلا صدر غلام اسحاق خاں نے بذریعہ فوجی سربراہ وزیراعظم سے استعفی حاصل کر لیا ہے اب ہم پر یہ راز کھلا کہ رات بار بار طلبی کے باوجود چوہدری صاحب کیبنٹ میٹنگ میں جانے سے کیوں گریزاں تھے۔
چوہدری صاحب دوستیاں نبھاتے تھے موسیقی سے شغف رکھتے تھے، گالف کھیلتے تھے اور سیاست بھی عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔ انھیں 1976ء میں دل کا عارضہ ہوا جب وہ ایک عدالت میں بحث کر رہے تھے تب سے سیر کرنا ان کے معمول میں شامل ہو گیا۔ ان دنوں ڈاکٹر مظہر، ڈاکٹر اظہر اور سینیٹر ظفر اقبال سارا سارا دن اپنے والد کی زندگی کے واقعات سننے کے لیے تعزیت کے لیے آنیوالوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ یہ چند سطریں چوہدری صاحب کی محبت کا قرض تو نہیں اتار سکتیں۔ لہٰذا باقی آیندہ۔