حق ملتا نہیں لینا پڑتا ہے
IPO مخفف ہے Intellectual Property Rights Organisation کا جو ایک ایسا مخصوص نوعیت کا عالمی ادارہ ہے
IPO مخفف ہے Intellectual Property Rights Organisation کا جو ایک ایسا مخصوص نوعیت کا عالمی ادارہ ہے جو دیگر کئی حفاظتی اقدامات کے ساتھ ساتھ تخلیقی فن کاروں یعنی ادیبوں، شاعروں، گلوکاروں، موسیقاروں اور مصوروں وغیرہ کے ان حقوق کی حفاظت کے لیے قانون سازی اور عمل کرتا ہے جن کا تعلق ان کی تخلیقی صلاحیت اور اس کے ملکیتی حقوق کے ساتھ ہوتا ہے اور جن کا اطلاق دنیا کے ان تمام ممالک پر ہوتا ہے جنہوں نے اس کی قانونی دستاویز پر دستخط کر رکھے ہیں۔
کئی دیگر بین الاقوامی قوانین کی طرح اس قانون پر بھی ہر جگہ ایک سا عمل درآمد نہیں ہوتا جس کی بنیادی وجہ مختلف ممالک میں موجود تعلیمی معیار' غربت' سیاسی ماحول اور وہاں کا انفراسٹرکچر ہے۔ کچھ عرصہ قبل مجھے چھ برس اس ادارے کی پاکستان کی سطح پر مرکزی کمیٹی میں صوبہ پنجاب کی نمایندگی کا موقع بھی ملا ہے، اب اسے اتفاق کہیے یا انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس سے ہمارے تخلیق کاروں کی ناواقفیت یا بے اعتنائی کہ اس سارے عرصے میں دو تین کے علاوہ کوئی ایسا کیس کمیٹی کے سامنے نہیں آیا جس کا تعلق تخلیقی فن کاروں کے کسی معاملے سے ہو زیادہ تر کیسز کا تعلق ٹریڈ مارک' ڈیزائن' مصنوعات کے ناموں اور ان کے حقوق ملکیت سے ہی متعلق تھے جب کہ ادارے کے اپنے وسائل کے مسائل ان سے بھی زیادہ گمبھیر اور الجھے ہوئے تھے، سو ایسے میں جب کچھ پرانے رفقائے کار کی طرف سے اطلاع ملی کہ IPO کے عالمی دن کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور یہ کہ میں اس کا مہمان خصوصی ہوں گا تو اول اول میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہاں کیا بات کی جائے گی۔
اندازہ یہی تھا کہ یہ ساری کارروائی کسی فائل کا پیٹ بھرنے کے لیے کی جا رہی ہو گی لیکن سب سے پہلی خوشگوار حیرت تو یہ ہوئی کہ نہ صرف تقریب کے لیے حاصل کی گئی جگہ بہت سلیقے کی تھی بلکہ ہال میں موجود حاضرین کی تعداد اور معیار دونوں خاصے حوصلے افزا تھے، ادارے کے اسلام آباد سے آئے ہوئے ڈائریکٹر اور لوکل انتظامیہ کے نمایندے کے ساتھ سید نور' بہار بیگم اور پبلشرز یونین کے نمایندے سلیم صاحب کے ساتھ مجھے اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی جو انگریزی میں تھی جب کہ اسٹیج سے دیگر اعلانات بھی متعلقہ اسٹیج سیکریٹری خاتون نے انگریزی ہی میں کیے۔
میں نے ہال پر نظر دوڑائی کہ ممکن ہے کچھ غیر ملکی مہمان یا مندوبین بھی تشریف فرما ہوں لیکن اس قسم کا کوئی چہرہ نظر نہیں آیا اور ایک بار پھر اپنی بیوروکریسی کے پھیلائے ہوئے اس کامپلکس پر افسوس ہوا کہ سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود ہم خالص پاکستانی نوعیت کی تقریبات میں بھی اپنی زبان بولنے سے شرماتے ہیں اور مشتاق احمد یوسفی صاحب کا یہ سدا بہار اور باکمال جملہ بھی یاد آیا کہ ہمارے بیوروکریٹ صحیح اردو پر غلط انگریزی کو ترجیح دیتے ہیں اور ساتھ ہی انور مسعود کا یہ شعر بھی ذہن میں گونجا کہ
دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیے
پروگرام میں اس موضوع کے تین نوجوان ماہرین کی تقاریر رکھی گئی تھیں جو مواد کے اعتبار سے بہت عمدہ اور معلومات افزا تھیں لیکن زبان ان کی بھی انگریزی ہی تھی یہ اور بات ہے کہ ان میں سے دو نے صورت حال کو جلد سمجھ لیا اور بیچ بیچ میں اردو کا تڑکا لگا کر اپنی بات مکمل کی۔ اس میں شک نہیں کہ بعض موضوعات میں استعمال ہونے والی ٹرمینالوجی کے لیے ہمارے پاس مناسب اردو مترادفات موجود نہیں ہیں لیکن میری ذاتی رائے ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ آپ بے شک اصطلاحات کا ترجمہ نہ کریں اور انھیں ان کی اصل شکل ہی میں رہنے دیں مگر بات تو اپنی قومی زبان میں کریں بلکہ میں تو یہاں تک بھی جاتا ہوں کہ دوران گفتگو اگر کسی بھی دوسری پاکستانی زبان کا لفظ اردو سے زیادہ بہتر اور بامعنی لگے تو اس کو بھی بغیر کسی تکلف اور جھجک کے استعمال کریں کہ اصل بات زبان کی نہیں بلکہ ابلاغ کی ہے۔
تینوں مقررین کی گفتگو کا اگر خلاصہ کیا جائے تو وہ یہی بنتا ہے کہ ملک میں ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جن کے تحت انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس پر عمل درآمد کے لیے خود قانون آگے آئے کیونکہ ایک تو بیشتر تخلیقی فنی کاموں کو اپنے حقوق اور ان کی حفاظت کے طریق کار کا ٹھیک سے پتہ نہیں اور دوسرے وہ ان کے حصول کے لیے وکیلوں کی بھاری فیسیں ادا کرنے اور عدالتوں کے چکر لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جب کہ مہذب اور قانون پرست معاشروں میں ان کے سسٹم ان حقوق کی حفاظت کرتے ہیں اور جہاں کہیں کسی بھی شکل میں آپ کی تخلیقی ملکیت کو استعمال میں لایا جاتا ہے اس کی رائلٹی آپ تک خود بخود پہنچ جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے اور یہ واقعہ میں نے اپنی تقریر کے دوران ہی سنایا کہ ای ایم ای ریکارڈنگ کمپنی کے پاکستان میں بند ہونے کے پندرہ برس بعد مجھے ان کی طرف سے ایک چیک موصول ہوا کہ تمام کارروائی مکمل ہونے کے بعد عدالتی فیصلے کے تحت آپ کی رائلٹی کا اتنے فی صد حصہ ہمارے ذمے نکلتا ہے سو ہم یہ امانت آپ کو بھجوا رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے فروغ نے کاپی رائٹ کو مزید الجھا دیا ہے لیکن اس کے باوجود یوٹیوب ہو یا فیس بک یا کوئی اور طریقہ کار جہاں سے فن کاروں کا تخلیقی سرمایہ آسانی سے کاپی ہو سکتا ہے۔
ہر جگہ ایسے سسٹم وضع کیے جا رہے ہیں کہ جن کی مدد سے بہت حد تک ''حق بہ حق دار رسید'' کا معاملہ ممکن ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے یہاں بھی معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ایسے قوانین بنائے جائیں کہ ممکنہ حد تک ان حقوق کی حفاظت نہ صرف کی جا سکے بلکہ متعلقہ فن کاروں تک وہ فوائد بھی پہنچ سکیں جو ان کا قانونی اور جائز حق ہیں۔
گزرے ہوئے وقت کو تو کوئی واپس نہیں لا سکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ آیندہ کے لیے اگر ہم اس طرح کی قانون سازی کر کے اس پر عمل درآمد بھی کروا سکیں تو مستقبل کا کوئی مہدی حسن' طفیل نیازی' حبیب جالب یا ساغر صدیقی نہ صرف یہ کہ کسمپرسی کی موت کا شکار نہیں ہو گا بلکہ وہ اور ان کے بچے ایک بہتر اور باوقار زندگی بھی گزار سکیں گے۔
کئی دیگر بین الاقوامی قوانین کی طرح اس قانون پر بھی ہر جگہ ایک سا عمل درآمد نہیں ہوتا جس کی بنیادی وجہ مختلف ممالک میں موجود تعلیمی معیار' غربت' سیاسی ماحول اور وہاں کا انفراسٹرکچر ہے۔ کچھ عرصہ قبل مجھے چھ برس اس ادارے کی پاکستان کی سطح پر مرکزی کمیٹی میں صوبہ پنجاب کی نمایندگی کا موقع بھی ملا ہے، اب اسے اتفاق کہیے یا انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس سے ہمارے تخلیق کاروں کی ناواقفیت یا بے اعتنائی کہ اس سارے عرصے میں دو تین کے علاوہ کوئی ایسا کیس کمیٹی کے سامنے نہیں آیا جس کا تعلق تخلیقی فن کاروں کے کسی معاملے سے ہو زیادہ تر کیسز کا تعلق ٹریڈ مارک' ڈیزائن' مصنوعات کے ناموں اور ان کے حقوق ملکیت سے ہی متعلق تھے جب کہ ادارے کے اپنے وسائل کے مسائل ان سے بھی زیادہ گمبھیر اور الجھے ہوئے تھے، سو ایسے میں جب کچھ پرانے رفقائے کار کی طرف سے اطلاع ملی کہ IPO کے عالمی دن کے حوالے سے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور یہ کہ میں اس کا مہمان خصوصی ہوں گا تو اول اول میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہاں کیا بات کی جائے گی۔
اندازہ یہی تھا کہ یہ ساری کارروائی کسی فائل کا پیٹ بھرنے کے لیے کی جا رہی ہو گی لیکن سب سے پہلی خوشگوار حیرت تو یہ ہوئی کہ نہ صرف تقریب کے لیے حاصل کی گئی جگہ بہت سلیقے کی تھی بلکہ ہال میں موجود حاضرین کی تعداد اور معیار دونوں خاصے حوصلے افزا تھے، ادارے کے اسلام آباد سے آئے ہوئے ڈائریکٹر اور لوکل انتظامیہ کے نمایندے کے ساتھ سید نور' بہار بیگم اور پبلشرز یونین کے نمایندے سلیم صاحب کے ساتھ مجھے اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی جو انگریزی میں تھی جب کہ اسٹیج سے دیگر اعلانات بھی متعلقہ اسٹیج سیکریٹری خاتون نے انگریزی ہی میں کیے۔
میں نے ہال پر نظر دوڑائی کہ ممکن ہے کچھ غیر ملکی مہمان یا مندوبین بھی تشریف فرما ہوں لیکن اس قسم کا کوئی چہرہ نظر نہیں آیا اور ایک بار پھر اپنی بیوروکریسی کے پھیلائے ہوئے اس کامپلکس پر افسوس ہوا کہ سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود ہم خالص پاکستانی نوعیت کی تقریبات میں بھی اپنی زبان بولنے سے شرماتے ہیں اور مشتاق احمد یوسفی صاحب کا یہ سدا بہار اور باکمال جملہ بھی یاد آیا کہ ہمارے بیوروکریٹ صحیح اردو پر غلط انگریزی کو ترجیح دیتے ہیں اور ساتھ ہی انور مسعود کا یہ شعر بھی ذہن میں گونجا کہ
دوستو انگلش ضروری ہے ہمارے واسطے
فیل ہونے کو بھی اک مضمون ہونا چاہیے
پروگرام میں اس موضوع کے تین نوجوان ماہرین کی تقاریر رکھی گئی تھیں جو مواد کے اعتبار سے بہت عمدہ اور معلومات افزا تھیں لیکن زبان ان کی بھی انگریزی ہی تھی یہ اور بات ہے کہ ان میں سے دو نے صورت حال کو جلد سمجھ لیا اور بیچ بیچ میں اردو کا تڑکا لگا کر اپنی بات مکمل کی۔ اس میں شک نہیں کہ بعض موضوعات میں استعمال ہونے والی ٹرمینالوجی کے لیے ہمارے پاس مناسب اردو مترادفات موجود نہیں ہیں لیکن میری ذاتی رائے ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ آپ بے شک اصطلاحات کا ترجمہ نہ کریں اور انھیں ان کی اصل شکل ہی میں رہنے دیں مگر بات تو اپنی قومی زبان میں کریں بلکہ میں تو یہاں تک بھی جاتا ہوں کہ دوران گفتگو اگر کسی بھی دوسری پاکستانی زبان کا لفظ اردو سے زیادہ بہتر اور بامعنی لگے تو اس کو بھی بغیر کسی تکلف اور جھجک کے استعمال کریں کہ اصل بات زبان کی نہیں بلکہ ابلاغ کی ہے۔
تینوں مقررین کی گفتگو کا اگر خلاصہ کیا جائے تو وہ یہی بنتا ہے کہ ملک میں ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جن کے تحت انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس پر عمل درآمد کے لیے خود قانون آگے آئے کیونکہ ایک تو بیشتر تخلیقی فنی کاموں کو اپنے حقوق اور ان کی حفاظت کے طریق کار کا ٹھیک سے پتہ نہیں اور دوسرے وہ ان کے حصول کے لیے وکیلوں کی بھاری فیسیں ادا کرنے اور عدالتوں کے چکر لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جب کہ مہذب اور قانون پرست معاشروں میں ان کے سسٹم ان حقوق کی حفاظت کرتے ہیں اور جہاں کہیں کسی بھی شکل میں آپ کی تخلیقی ملکیت کو استعمال میں لایا جاتا ہے اس کی رائلٹی آپ تک خود بخود پہنچ جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے اور یہ واقعہ میں نے اپنی تقریر کے دوران ہی سنایا کہ ای ایم ای ریکارڈنگ کمپنی کے پاکستان میں بند ہونے کے پندرہ برس بعد مجھے ان کی طرف سے ایک چیک موصول ہوا کہ تمام کارروائی مکمل ہونے کے بعد عدالتی فیصلے کے تحت آپ کی رائلٹی کا اتنے فی صد حصہ ہمارے ذمے نکلتا ہے سو ہم یہ امانت آپ کو بھجوا رہے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے فروغ نے کاپی رائٹ کو مزید الجھا دیا ہے لیکن اس کے باوجود یوٹیوب ہو یا فیس بک یا کوئی اور طریقہ کار جہاں سے فن کاروں کا تخلیقی سرمایہ آسانی سے کاپی ہو سکتا ہے۔
ہر جگہ ایسے سسٹم وضع کیے جا رہے ہیں کہ جن کی مدد سے بہت حد تک ''حق بہ حق دار رسید'' کا معاملہ ممکن ہو سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے یہاں بھی معلومات کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ایسے قوانین بنائے جائیں کہ ممکنہ حد تک ان حقوق کی حفاظت نہ صرف کی جا سکے بلکہ متعلقہ فن کاروں تک وہ فوائد بھی پہنچ سکیں جو ان کا قانونی اور جائز حق ہیں۔
گزرے ہوئے وقت کو تو کوئی واپس نہیں لا سکتا لیکن اتنا ضرور ہے کہ آیندہ کے لیے اگر ہم اس طرح کی قانون سازی کر کے اس پر عمل درآمد بھی کروا سکیں تو مستقبل کا کوئی مہدی حسن' طفیل نیازی' حبیب جالب یا ساغر صدیقی نہ صرف یہ کہ کسمپرسی کی موت کا شکار نہیں ہو گا بلکہ وہ اور ان کے بچے ایک بہتر اور باوقار زندگی بھی گزار سکیں گے۔