قومی تہذیب کی تشکیل کے فکری پہلو
جن میں انسانی جسم پر ہاتھی کا سر پیوند کرنے والے،آگ پر بغیر جھلسے چلنے والے
جدید وقدیم نظریات: جدید استبداد و استعمار کو مضبوط کرتی تحقیقات وایجادات کے دم پرانسانوں کے موجودہ ارتقائی مرحلے پرمعلوم انسانی تاریخ کے قدیم ترین ماخذکو مذہبی ہونے کی بنیاد پرمافوق المادہ ومافوق الطبع تخیلاتی داستانوں کے طور پرتصورکیا جانے لگا ہے۔
جن میں انسانی جسم پر ہاتھی کا سر پیوند کرنے والے،آگ پر بغیر جھلسے چلنے والے، دیوتا یا ان کی اولاد کہلوانے والے،کپڑے کے ایک ٹکڑے پر اڑنے والے، پانی سے بھرے برتن میں ''LiveShow'' دیکھنے یا دکھانے والے انسانوں کے وجودکو فرضی، قیاسی اورفرسودہ قراردیا جا چکا ہے۔ان کے مطابق مادی تاریخ اور تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان قدیم ترین ماخذ کا مخاطب علاقائیت اورانسان کے اسی ارتقائی مرحلے پرنہ صرف مشتمل اور محدود تھا بلکہ ان میں تحریف کے دیمک نے بھی اپنا کام کر دکھایا تھا۔ نتیجتاََ انسانوں کے موجودہ فوق الطبع وفوق المادہ تحقیقاتی وایجاداتی ارتقائی مرحلے کے ممالک عالم میں مادی بنیادوں پر رائج انتظام معاشرت اور نظام تمدن کے تمام پیمانوں میں ان ماخذ میں درج نظریات کے لیے کوئی جگہ قابل تحویل نہیں رہی ہے۔
جب کہ موجودہ انسان کی جدید تحقیقات کی تغیر پذیری کا یہ عالم ہے کہ ہر نیا محقق و موجد اپنے پیشرو کو نظریاتی و ایجاداتی پہلوؤں سے پچھاڑنے کی جگر سوزیوں میں سرگرداں رہتا نظر آرہا ہے۔
یعنی ان کے نزدیک دنیا میں کچھ بھی حتمی اورکامل نہیں ہے۔ جس کا زبانی طور پر بہترین اظہار انتظام معاشرت و نظام تمدن کی ترجمانی کی ذمے داریاں ادا کرنے پر مامور شعبے میں ''سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا'' کی سوچ ہے کہ جس کے نتیجے میں انتظام معاشرت کے بھیانک لیکس اور معروف و مقبول نظام تمدن کے اندر مادرپدر آزادی نے عالم انسانیت کو مضطرب، منفر ق، منتشر وہیجانی کیفیت میں جکڑلیا ہے۔ جب کہ کمال خوبصورتی کے ساتھ موجودہ استعماری واستبدادی قوتیں اس کو اپنے حق میں استعمال بھی کرنے لگی ہیں۔
مادہ پرست مغربی تہذیب میں اس کاسب سے نمایاں نکتہ ''میر ے ساتھ کچھ ٹھیک نہیں ہورہا ہے'' کی نفسیاتی شکایات کا بڑھنا اور شکایت کنندگان کو تغیرپذیری کے طور پر ہر قسم کی ''انتہاء پسندی'' کی جانب راغب کرایا جانا، اس کی چھوٹی سی مثال ہے۔ ان کے مطابق تغیرپذیر ی ہی زادِ بقاء اورکاملیت ہے۔ جسے انھیں بقا للا صلح کا نام دیا ہوا ہے۔ ان کے مطابق یکسانیت یا ٹھہراؤ خاتمے یا موت کے مترادف ہے۔ انھی نظریات کے باعث آج اوٹ پٹانگ مصروفیات و خرابات پیدا کرنے اور مادی لحاظ سے ہر طرح کے اپنے جبلی وسفلی جذبات کی تسکین کو پورا کرتے رہنے کو مقصود و منتہائے حیات تصورکیا جا نے لگا ہے۔ اس پر تنقید کرنے والے دقیانوسی اوربنیاد پرست قرار دیے جانے لگے ہیں۔
قومی تہذیب کی تکمیل اور خطرہ: تاریخ کے قدیم ترین دستیاب مذہبی ماخذ میں انسانوں کی لسانی دنیا میں آسودہ ترین عربی زبان کے ضابطہ تحریر میں لائی جانیوالی لاریب کتاب ''القرآن'' سب سے آخری (آفاقی والہامی) کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ ''القرآن'' نے ناقابل تغیر پذیر قوانین طبع و قوانین مادہ کو سورہ رحمٰن کے عنوان سے مافوق الطبع ومافوق المادہ پرانسانی احاطہ اختیارمحیط کیا ہوا ہے۔ انسان کوایسا کامل و صاحب اختیار ہونے کا لائحہ عمل کسی اور قدیم مذہبی کتب یا جدید مادی تحقیقات کی جانب سے اب تک فراہم نہیں کیا جاسکا ہے۔
جب کہ اس کتاب نے اپنی سچائی میں تحریف کی دیمک سے محفوظ شدہ لازوال و لاثانی ''دریافتوں'' کے ناقابل تردید ثبوتوں کے دم پران سے وابستہ فوق المادہ نظریات اور مافوق المادہ کی حقیقتوں کے مابین ٹھوس مادی بنیادوں پر ہوتے رہنے والے والے ارتقائی ٹکراو ٔکے مرحلوں کی ''داستانوں'' کو قابل غور و فکرقرار دیا ہوا ہے اورخالق کائنات کی جانب سے متعین کردہ قوانین مادہ سے انحراف کے حتمی نتائج میں یکسانیت پر مختتم نتائج کے اظہار کا اعلان بھی کردیا ہے جب کہ ان متعین کردہ قوانین مادہ کو خالق بزرگ وبرتر کی عظیم، قابل عقل و فہم کھلی نشانیوں کے طور پر ہر قسم کی تکذیب سے مبراء اور غیر متبدل بھی قرار دیا ہوا ہے۔
ان قوانین مادہ اور عالمگیر سطح پر یکساں نکات کو ظاہرکرتی فطرت و جبلت انسا نی کے لوازمات میں توازن اور اعتدال پیدا کرنے کو انسانی عمل سے وابستہ و پیوستہ کرتے ہوئے ان کے حتمی ولازمی نتائج کو قوانین مادہ و مافوق المادہ پر تسخیرقراردیا گیا ہے۔ چونکہ دیگر مذہبی کتابوں کے مدمقابل ''القر آن'' کی الہامیت اور آفاقیت کا نکتہ توازن بہت ہی واضح عقلی و مادی پیمانوں کے عین مطابق ناقابل تردید استدلال کی بنیاد پرٹکا ہوا ہے۔
اس لیے قبل ازتاریخ کے تحقیقاتی حوالوں کی بنیادوں پر معلوم مادی تاریخ کے ابتدائی ایام ہی سے ایک فرد،ایک خاندان، ایک قبیلے،ایک قوم کو عالمگیریت پر مبنی عالم انسانیت یا اقوام عالم کی نفسیات، ترجیحات اور رجحانات کی بنیاد پر بننے والے معاشرے اور تہذیبوں کی ترویج و اطلاق کے لازمی و حتمی نتائج میں موجود یکسانیت کے حقیقی اور عملی طور پر مشاہدہ کرانے کے لیے مادی ارتقائی مرحلوں کے نشیب و فراز کو نہ صرف طے کراتے ہوئے مدلل، مکمل و مفصل طور پر بیان کیا ہوا ہے، بلکہ انسانوں کے موجودہ ارتقائی اظہار تک قائم و دائم رہنے والی عالمگیر و آفاقی نشانیوں، مافوق الطبع ومافوق المادہ کی حقیقت، قوانین مادہ کی تسخیر سمیت فلکیاتی اجسام سے انسانوں کے تعلق و روابط کو بھی ناقابل تردید استدلال کے ساتھ تفصیلا بیان کیا گیا ہے۔
1:جس کی فردی ابتداء ارض فلسطین پر عالم انسانیت کی امامت کے علمبردار کی حیثیت لیے حضرت ابراہیم ؑ کے ارتقائی اظہار میں نمرودی استبدادی تہذیب کا خاتمہ کرنے۔ 2 -خاندان حضرت یعقوب ؑکی حیثیت میں بابل کی جنوبی سرحد پر قائم پرامن شہر ''فدان'' میں بیک وقت بابل کی دیوی ''عیش طار'' کے معبدخانہ کو اس کی راہبہ ''عِیس طر'' سمیت لقمہ نار بن جانے کے وقت قحط سے ملتی جلتی صورتحال سے دوچار باقی ماندہ تمام فدان پر بارانِ رحمت گرانے کے عملی مظاہر ے دکھاکر فدان میں ر ہنے والے قدیم بابلی تہذیب سے متعلق لوگوں کو خدائے یکتا و رب العالمین سے آشناء کرانے کے بعد کنعان اورمصرکی جانب عازم ہجرت ہونے۔
3: اور پھر لگ بھگ پانچ صدیوں پر مشتمل طویل ترین عرصے کی گردش لیل و نہار کے نتیجے میں ایک فرد سے ایک قوم کی تشکیل و تکمیل کے ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد اور تاریخ کے اس دور میں انسانی ارتقائی مرحلے کی گروہی تقسیم کے مطابق ''بنی اسرائیل'' کا تشخص لیے حضرت موسیٰ ؑ کی قیادت میں مصر سے واپس اپنے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کے علاقے میں آئے۔
جن میں انسانی جسم پر ہاتھی کا سر پیوند کرنے والے،آگ پر بغیر جھلسے چلنے والے، دیوتا یا ان کی اولاد کہلوانے والے،کپڑے کے ایک ٹکڑے پر اڑنے والے، پانی سے بھرے برتن میں ''LiveShow'' دیکھنے یا دکھانے والے انسانوں کے وجودکو فرضی، قیاسی اورفرسودہ قراردیا جا چکا ہے۔ان کے مطابق مادی تاریخ اور تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان قدیم ترین ماخذ کا مخاطب علاقائیت اورانسان کے اسی ارتقائی مرحلے پرنہ صرف مشتمل اور محدود تھا بلکہ ان میں تحریف کے دیمک نے بھی اپنا کام کر دکھایا تھا۔ نتیجتاََ انسانوں کے موجودہ فوق الطبع وفوق المادہ تحقیقاتی وایجاداتی ارتقائی مرحلے کے ممالک عالم میں مادی بنیادوں پر رائج انتظام معاشرت اور نظام تمدن کے تمام پیمانوں میں ان ماخذ میں درج نظریات کے لیے کوئی جگہ قابل تحویل نہیں رہی ہے۔
جب کہ موجودہ انسان کی جدید تحقیقات کی تغیر پذیری کا یہ عالم ہے کہ ہر نیا محقق و موجد اپنے پیشرو کو نظریاتی و ایجاداتی پہلوؤں سے پچھاڑنے کی جگر سوزیوں میں سرگرداں رہتا نظر آرہا ہے۔
یعنی ان کے نزدیک دنیا میں کچھ بھی حتمی اورکامل نہیں ہے۔ جس کا زبانی طور پر بہترین اظہار انتظام معاشرت و نظام تمدن کی ترجمانی کی ذمے داریاں ادا کرنے پر مامور شعبے میں ''سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا'' کی سوچ ہے کہ جس کے نتیجے میں انتظام معاشرت کے بھیانک لیکس اور معروف و مقبول نظام تمدن کے اندر مادرپدر آزادی نے عالم انسانیت کو مضطرب، منفر ق، منتشر وہیجانی کیفیت میں جکڑلیا ہے۔ جب کہ کمال خوبصورتی کے ساتھ موجودہ استعماری واستبدادی قوتیں اس کو اپنے حق میں استعمال بھی کرنے لگی ہیں۔
مادہ پرست مغربی تہذیب میں اس کاسب سے نمایاں نکتہ ''میر ے ساتھ کچھ ٹھیک نہیں ہورہا ہے'' کی نفسیاتی شکایات کا بڑھنا اور شکایت کنندگان کو تغیرپذیری کے طور پر ہر قسم کی ''انتہاء پسندی'' کی جانب راغب کرایا جانا، اس کی چھوٹی سی مثال ہے۔ ان کے مطابق تغیرپذیر ی ہی زادِ بقاء اورکاملیت ہے۔ جسے انھیں بقا للا صلح کا نام دیا ہوا ہے۔ ان کے مطابق یکسانیت یا ٹھہراؤ خاتمے یا موت کے مترادف ہے۔ انھی نظریات کے باعث آج اوٹ پٹانگ مصروفیات و خرابات پیدا کرنے اور مادی لحاظ سے ہر طرح کے اپنے جبلی وسفلی جذبات کی تسکین کو پورا کرتے رہنے کو مقصود و منتہائے حیات تصورکیا جا نے لگا ہے۔ اس پر تنقید کرنے والے دقیانوسی اوربنیاد پرست قرار دیے جانے لگے ہیں۔
قومی تہذیب کی تکمیل اور خطرہ: تاریخ کے قدیم ترین دستیاب مذہبی ماخذ میں انسانوں کی لسانی دنیا میں آسودہ ترین عربی زبان کے ضابطہ تحریر میں لائی جانیوالی لاریب کتاب ''القرآن'' سب سے آخری (آفاقی والہامی) کتاب کا درجہ رکھتی ہے۔ ''القرآن'' نے ناقابل تغیر پذیر قوانین طبع و قوانین مادہ کو سورہ رحمٰن کے عنوان سے مافوق الطبع ومافوق المادہ پرانسانی احاطہ اختیارمحیط کیا ہوا ہے۔ انسان کوایسا کامل و صاحب اختیار ہونے کا لائحہ عمل کسی اور قدیم مذہبی کتب یا جدید مادی تحقیقات کی جانب سے اب تک فراہم نہیں کیا جاسکا ہے۔
جب کہ اس کتاب نے اپنی سچائی میں تحریف کی دیمک سے محفوظ شدہ لازوال و لاثانی ''دریافتوں'' کے ناقابل تردید ثبوتوں کے دم پران سے وابستہ فوق المادہ نظریات اور مافوق المادہ کی حقیقتوں کے مابین ٹھوس مادی بنیادوں پر ہوتے رہنے والے والے ارتقائی ٹکراو ٔکے مرحلوں کی ''داستانوں'' کو قابل غور و فکرقرار دیا ہوا ہے اورخالق کائنات کی جانب سے متعین کردہ قوانین مادہ سے انحراف کے حتمی نتائج میں یکسانیت پر مختتم نتائج کے اظہار کا اعلان بھی کردیا ہے جب کہ ان متعین کردہ قوانین مادہ کو خالق بزرگ وبرتر کی عظیم، قابل عقل و فہم کھلی نشانیوں کے طور پر ہر قسم کی تکذیب سے مبراء اور غیر متبدل بھی قرار دیا ہوا ہے۔
ان قوانین مادہ اور عالمگیر سطح پر یکساں نکات کو ظاہرکرتی فطرت و جبلت انسا نی کے لوازمات میں توازن اور اعتدال پیدا کرنے کو انسانی عمل سے وابستہ و پیوستہ کرتے ہوئے ان کے حتمی ولازمی نتائج کو قوانین مادہ و مافوق المادہ پر تسخیرقراردیا گیا ہے۔ چونکہ دیگر مذہبی کتابوں کے مدمقابل ''القر آن'' کی الہامیت اور آفاقیت کا نکتہ توازن بہت ہی واضح عقلی و مادی پیمانوں کے عین مطابق ناقابل تردید استدلال کی بنیاد پرٹکا ہوا ہے۔
اس لیے قبل ازتاریخ کے تحقیقاتی حوالوں کی بنیادوں پر معلوم مادی تاریخ کے ابتدائی ایام ہی سے ایک فرد،ایک خاندان، ایک قبیلے،ایک قوم کو عالمگیریت پر مبنی عالم انسانیت یا اقوام عالم کی نفسیات، ترجیحات اور رجحانات کی بنیاد پر بننے والے معاشرے اور تہذیبوں کی ترویج و اطلاق کے لازمی و حتمی نتائج میں موجود یکسانیت کے حقیقی اور عملی طور پر مشاہدہ کرانے کے لیے مادی ارتقائی مرحلوں کے نشیب و فراز کو نہ صرف طے کراتے ہوئے مدلل، مکمل و مفصل طور پر بیان کیا ہوا ہے، بلکہ انسانوں کے موجودہ ارتقائی اظہار تک قائم و دائم رہنے والی عالمگیر و آفاقی نشانیوں، مافوق الطبع ومافوق المادہ کی حقیقت، قوانین مادہ کی تسخیر سمیت فلکیاتی اجسام سے انسانوں کے تعلق و روابط کو بھی ناقابل تردید استدلال کے ساتھ تفصیلا بیان کیا گیا ہے۔
1:جس کی فردی ابتداء ارض فلسطین پر عالم انسانیت کی امامت کے علمبردار کی حیثیت لیے حضرت ابراہیم ؑ کے ارتقائی اظہار میں نمرودی استبدادی تہذیب کا خاتمہ کرنے۔ 2 -خاندان حضرت یعقوب ؑکی حیثیت میں بابل کی جنوبی سرحد پر قائم پرامن شہر ''فدان'' میں بیک وقت بابل کی دیوی ''عیش طار'' کے معبدخانہ کو اس کی راہبہ ''عِیس طر'' سمیت لقمہ نار بن جانے کے وقت قحط سے ملتی جلتی صورتحال سے دوچار باقی ماندہ تمام فدان پر بارانِ رحمت گرانے کے عملی مظاہر ے دکھاکر فدان میں ر ہنے والے قدیم بابلی تہذیب سے متعلق لوگوں کو خدائے یکتا و رب العالمین سے آشناء کرانے کے بعد کنعان اورمصرکی جانب عازم ہجرت ہونے۔
3: اور پھر لگ بھگ پانچ صدیوں پر مشتمل طویل ترین عرصے کی گردش لیل و نہار کے نتیجے میں ایک فرد سے ایک قوم کی تشکیل و تکمیل کے ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد اور تاریخ کے اس دور میں انسانی ارتقائی مرحلے کی گروہی تقسیم کے مطابق ''بنی اسرائیل'' کا تشخص لیے حضرت موسیٰ ؑ کی قیادت میں مصر سے واپس اپنے جد امجد حضرت ابراہیمؑ کے علاقے میں آئے۔