مان لیجیے کہ ’سوشل میڈیا‘ اب غیر سنجیدہ میڈیا نہیں رہا
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس صرف عوام الناس کے لیے بڑی نعمت نہیں ہے بلکہ حکمرانوں اور اداروں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔
DAMASCUS:
جب کوئی مجھے کہتا ہے کہ ہمارے کالم کو اخبارات جگہ نہیں دیتے تو میرا جواب ہوتا ہے کہ ارے بھائی پریشان کیوں ہوتے ہو؟ سب سے زیادہ پڑھے جانے والا اخبار (انٹرنیٹ) آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس بات پر میرا پختہ یقین اُس وقت ہوا جب متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کارکن آفتاب احمد کی دوران حراست ہلاکت پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا۔ آرمی چیف کے اعلان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ انہوں نے یہ فیصلہ لے کر عوام کو ایک بار پھر باور کروایا ہے کہ ظلم اور ناانصافی پر خاموشی ہرگز اختیار نہیں کی جائے گی۔ لیکن اس فیصلے سے بڑھ کر میری حیرت اُس وقت بڑھتی ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ سپہ سالار نے یہ فیصلہ روائتی میڈیا پر چلنے والی خبروں کی روشنی میں نہیں لیا بلکہ گزشتہ دو دنوں سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر آفتاب احمد کی پُر تشدد زدہ جسم کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد کیا۔ آرمی چیف کا اعلان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جس سوشل میڈیا کو لوگ غیر مستند، غیر سنجیدہ اور محض نوجوانوں کا پلیٹ فارم کہتے تھے، وہ تمام ہی لوگ غلط ہیں۔
آرمی چیف کے بیان کے ساتھ ہی ہمیں رینجرز کی پریس ریلیز کی بھی خبر ہوتی ہے جس میں آفتاب احمد کی موت کے محرکات کا جائزہ لینے کیلئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی کا بتایا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ممکنہ ملوث اہلکاروں کو معطل بھی کردیا گیا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ ہے اگر اتنے بڑے بڑے فیصلہ صرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر چلنے والے مناظر کی صورت ہوسکتے ہیں تو ہم آخر کب تک اِس میڈیا کو سنجیدہ میڈیا تصور کرنے کے لیے راضی نہیں ہونگے؟
ایک وقت تھا جب ہم مجبوراً خبروں کے حصول کے لیے سرکاری ٹی وی اور اگلے روز آنے والے اخبارات پر انحصار کیا کرتے تھے، اور جو کچھ بھی ہمیں اُن کے ذریعے بتایا جاتا تھا ہم اسی پر یقین کرلیا کرتے تھے، کیونکہ شاید اُس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن پھر نجی ٹی وی چینلز نے ہماری عادتیں خراب کردیں۔ ہر خبر بروقت کے رجحان نے اخبارات کی اہمیت کو بتدریج کم کردیا۔ لیکن ایک بار پھر وقت بدلا اور سوشل میڈیا نے صرف دیکھنے اور سننے کے بجائے اظہار رائے کی بھی مکمل آزادی دی۔ یہ انہی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا کمال ہے کہ آج ہر انسان اپنی رائے کے اظہار کے لیے مکمل آزاد ہے۔ عوام ہر وقت ان ویب سائٹس کا روائتی میڈیا سے تقابل کررہے ہوتے ہیں، اور جب بھی کسی خبر کو چھپایا جائے یا مفاد عامہ کی خاطر خبر کو نہ دکھایا جائے تو فوری طور پر ان سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر عوام اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی ہے۔
آفتاب احمد کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ یہ عین ممکن ہے کہ آفتاب احمد کے جسم پر ہونے والے تشدد کی تصاویر یا ویڈیو روائتی میڈیا پر صرف اس لیے نہیں دکھائی ہو کہ وہ بچوں اور کمزور دل کے افراد کے لیے ٹھیک نہیں تھے، لیکن سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے لوگوں کو معاملات سے آگاہ کرنے میں ایم کیو ایم کی قیادت بھرپور طریقے سے کامیاب رہی۔ یہ عین ممکن ہے کہ میرے نظریات ایم کیو ایم سے مطابقت نہ رکھتے ہوں لیکن جو کچھ ایم کی ایم کی جانب سے جاری ویڈیو میں دکھایا گیا، اگر وہ ٹھیک ہے تو یقیناً ہم سب کو بطور انسان ایسے مظالم کی مذمت کرنی ہوگی، اور بھرپور تحقیقات کا مطالبہ کرنا ہوگا کہ عوام الناس کو یہ بتایا جائے کہ یہ کیسے اور کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے کون ملوث ہے؟ اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے تاکہ آئندہ کسی انسان کے ساتھ ایسا رویہ نہ اپنایا جائے۔
اس واقعہ کے بعد دوسرے لوگوں کیلئے بھی مثال وضع ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر ادارے، سیاسی و مذہبی جماعتوں کی نمائندگی ہے مگر اس کا صحیح اور بروقت استعمال بہت ہی کم ہورہا ہے۔ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ دیکھا بھی گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ تحریک انصاف کے نوجوان متحرک ہیں، مگر وہ لوگ سوشل میڈیا کو موثر طریقے سے بروئے کار نہیں لا پائے ہیں۔ اگر ہم صحیح معنوں میں اپنے ادارے اور جماعت کے ساتھ مخلص ہیں تو ہمیں بھرپور طریقے سے اس کا ساتھ بھی دینا چاہیئے۔ ہمارا المیہ یہ ہوچکا ہے کہ ہمیں اپنی بات کرنے سے زیادہ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے میں مزہ آتا ہے، اور اِسی عادت کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے قریب آنے کے بجائے دور جارہے ہیں۔
ہمیں آزاد سوشل میڈیا سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے تمام صلاحیتیں بروئے کار لانی ہونگی۔ وہ وقت یاد کیجیے جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کرپشن کا الزام ثابت ہونے پر یکدم 11 فوجی افسران کو فارغ کردیا تھا تو پلک جھپکتے ٹوئٹر پر ThankYouRaheelSharif# کا ٹرینڈ بن گیا تھا۔ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ لوگوں کو یہ فیصلہ بہت پسند آیا۔ یہ بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس صرف عوام الناس کے لیے بڑی نعمت نہیں ہے بلکہ حکمرانوں اور اداروں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ اگر وہ اچھا کام کریں تو عوام اُن کی حمایت میں اُمڈ آئے گی لیکن اگر اُن سے کوئی غلطی سرزد ہوگی تو یہ عوام کا حق ہے وہ اس فیصلے سے اختلاف کریں۔ بس اگر حکمران واقعی عوام کی فلاح اور اُن کی بہتری کے لیے سنجیدہ ہیں تو فوری طور پر احتجاج کو دیکھتے ہوئے فیصلہ واپس لے لیں گے۔ اگر سوشل میڈیا کا مثبت اور موثر استعمال مسلسل ہوتا رہا تو کوئی دو رائے نہیں کہ عوام اور حکمرانوں میں بڑھتا فرق بھی مٹ جائے گا اور مملکت خداداد ترقی کی راہ پر گامزن بھی ہوجائے گا۔
[poll id="1098"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
جب کوئی مجھے کہتا ہے کہ ہمارے کالم کو اخبارات جگہ نہیں دیتے تو میرا جواب ہوتا ہے کہ ارے بھائی پریشان کیوں ہوتے ہو؟ سب سے زیادہ پڑھے جانے والا اخبار (انٹرنیٹ) آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس بات پر میرا پختہ یقین اُس وقت ہوا جب متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے کارکن آفتاب احمد کی دوران حراست ہلاکت پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دیا۔ آرمی چیف کے اعلان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کیونکہ انہوں نے یہ فیصلہ لے کر عوام کو ایک بار پھر باور کروایا ہے کہ ظلم اور ناانصافی پر خاموشی ہرگز اختیار نہیں کی جائے گی۔ لیکن اس فیصلے سے بڑھ کر میری حیرت اُس وقت بڑھتی ہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ سپہ سالار نے یہ فیصلہ روائتی میڈیا پر چلنے والی خبروں کی روشنی میں نہیں لیا بلکہ گزشتہ دو دنوں سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر آفتاب احمد کی پُر تشدد زدہ جسم کی تصاویر منظر عام پر آنے کے بعد کیا۔ آرمی چیف کا اعلان اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جس سوشل میڈیا کو لوگ غیر مستند، غیر سنجیدہ اور محض نوجوانوں کا پلیٹ فارم کہتے تھے، وہ تمام ہی لوگ غلط ہیں۔
آرمی چیف کے بیان کے ساتھ ہی ہمیں رینجرز کی پریس ریلیز کی بھی خبر ہوتی ہے جس میں آفتاب احمد کی موت کے محرکات کا جائزہ لینے کیلئے اعلیٰ سطح کی کمیٹی کا بتایا جاتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ممکنہ ملوث اہلکاروں کو معطل بھی کردیا گیا ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ ہے اگر اتنے بڑے بڑے فیصلہ صرف سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر چلنے والے مناظر کی صورت ہوسکتے ہیں تو ہم آخر کب تک اِس میڈیا کو سنجیدہ میڈیا تصور کرنے کے لیے راضی نہیں ہونگے؟
ایک وقت تھا جب ہم مجبوراً خبروں کے حصول کے لیے سرکاری ٹی وی اور اگلے روز آنے والے اخبارات پر انحصار کیا کرتے تھے، اور جو کچھ بھی ہمیں اُن کے ذریعے بتایا جاتا تھا ہم اسی پر یقین کرلیا کرتے تھے، کیونکہ شاید اُس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی اور راستہ بھی نہیں ہوتا تھا۔ لیکن پھر نجی ٹی وی چینلز نے ہماری عادتیں خراب کردیں۔ ہر خبر بروقت کے رجحان نے اخبارات کی اہمیت کو بتدریج کم کردیا۔ لیکن ایک بار پھر وقت بدلا اور سوشل میڈیا نے صرف دیکھنے اور سننے کے بجائے اظہار رائے کی بھی مکمل آزادی دی۔ یہ انہی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا کمال ہے کہ آج ہر انسان اپنی رائے کے اظہار کے لیے مکمل آزاد ہے۔ عوام ہر وقت ان ویب سائٹس کا روائتی میڈیا سے تقابل کررہے ہوتے ہیں، اور جب بھی کسی خبر کو چھپایا جائے یا مفاد عامہ کی خاطر خبر کو نہ دکھایا جائے تو فوری طور پر ان سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر عوام اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتی ہے۔
آفتاب احمد کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ یہ عین ممکن ہے کہ آفتاب احمد کے جسم پر ہونے والے تشدد کی تصاویر یا ویڈیو روائتی میڈیا پر صرف اس لیے نہیں دکھائی ہو کہ وہ بچوں اور کمزور دل کے افراد کے لیے ٹھیک نہیں تھے، لیکن سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے لوگوں کو معاملات سے آگاہ کرنے میں ایم کیو ایم کی قیادت بھرپور طریقے سے کامیاب رہی۔ یہ عین ممکن ہے کہ میرے نظریات ایم کیو ایم سے مطابقت نہ رکھتے ہوں لیکن جو کچھ ایم کی ایم کی جانب سے جاری ویڈیو میں دکھایا گیا، اگر وہ ٹھیک ہے تو یقیناً ہم سب کو بطور انسان ایسے مظالم کی مذمت کرنی ہوگی، اور بھرپور تحقیقات کا مطالبہ کرنا ہوگا کہ عوام الناس کو یہ بتایا جائے کہ یہ کیسے اور کیوں ہوا؟ اس کے پیچھے کون ملوث ہے؟ اور ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے تاکہ آئندہ کسی انسان کے ساتھ ایسا رویہ نہ اپنایا جائے۔
اس واقعہ کے بعد دوسرے لوگوں کیلئے بھی مثال وضع ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر ادارے، سیاسی و مذہبی جماعتوں کی نمائندگی ہے مگر اس کا صحیح اور بروقت استعمال بہت ہی کم ہورہا ہے۔ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ دیکھا بھی گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ تحریک انصاف کے نوجوان متحرک ہیں، مگر وہ لوگ سوشل میڈیا کو موثر طریقے سے بروئے کار نہیں لا پائے ہیں۔ اگر ہم صحیح معنوں میں اپنے ادارے اور جماعت کے ساتھ مخلص ہیں تو ہمیں بھرپور طریقے سے اس کا ساتھ بھی دینا چاہیئے۔ ہمارا المیہ یہ ہوچکا ہے کہ ہمیں اپنی بات کرنے سے زیادہ دوسروں پر کیچڑ اچھالنے میں مزہ آتا ہے، اور اِسی عادت کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے قریب آنے کے بجائے دور جارہے ہیں۔
ہمیں آزاد سوشل میڈیا سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہوئے تمام صلاحیتیں بروئے کار لانی ہونگی۔ وہ وقت یاد کیجیے جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کرپشن کا الزام ثابت ہونے پر یکدم 11 فوجی افسران کو فارغ کردیا تھا تو پلک جھپکتے ٹوئٹر پر ThankYouRaheelSharif# کا ٹرینڈ بن گیا تھا۔ ایسا صرف اس لیے ہوا کہ لوگوں کو یہ فیصلہ بہت پسند آیا۔ یہ بات کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس صرف عوام الناس کے لیے بڑی نعمت نہیں ہے بلکہ حکمرانوں اور اداروں کے لیے بھی ایک آئینہ ہے۔ اگر وہ اچھا کام کریں تو عوام اُن کی حمایت میں اُمڈ آئے گی لیکن اگر اُن سے کوئی غلطی سرزد ہوگی تو یہ عوام کا حق ہے وہ اس فیصلے سے اختلاف کریں۔ بس اگر حکمران واقعی عوام کی فلاح اور اُن کی بہتری کے لیے سنجیدہ ہیں تو فوری طور پر احتجاج کو دیکھتے ہوئے فیصلہ واپس لے لیں گے۔ اگر سوشل میڈیا کا مثبت اور موثر استعمال مسلسل ہوتا رہا تو کوئی دو رائے نہیں کہ عوام اور حکمرانوں میں بڑھتا فرق بھی مٹ جائے گا اور مملکت خداداد ترقی کی راہ پر گامزن بھی ہوجائے گا۔
[poll id="1098"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔