دفاعی سودوں میں کرپشن
تمام دفاعی سودوں میں کمیشن پہلے سے ہی شامل ہوتی ہے جو انھیں دی جاتی ہے جو یہ اسلحہ اور ساز و سامان خریدتے ہیں۔
تمام دفاعی سودوں میں کمیشن پہلے سے ہی شامل ہوتی ہے جو انھیں دی جاتی ہے جو یہ اسلحہ اور ساز و سامان خریدتے ہیں۔ کانگریس پارٹی آزادی کے فوراً بعد اقتدار میں آ گئی اور اسے انتخابات لڑنے کے لیے رقوم کی ضرورت تھی۔ اس وقت بابو جگ جیون رام وزیر دفاع تھے۔ لہٰذا فنڈز کا بندوبست کرنا بھی انھی کے ذمے تھا لیکن وہ اس قدر محتاط تھے کہ انھوں نے کسی دفاعی سودے کا اسکینڈل نہیں بننے دیا۔
آج جو ''کک بیکس'' پر شور مچایا جا رہا ہے وہ دراصل معمول کے کمیشن سے کہیں زیاد اور بالاتر ہے۔ اب تو زیادہ کمیشن حاصل کرنے کے لیے دفاعی ہتھیاروں کی مطلوبہ اقسام میں بھی تبدیلی کر دی جاتی ہے اور یہی کام وی وی آئی پی ہیلی کاپٹروں کی خریداری میں کیا گیا ہے۔ آگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹروں کی خرید کے لیے پرواز کی مطلوبہ بلندی کو کافی کم کر دیا گیا کیونکہ اس سودے میں بہت بڑی رشوت ملنے والی تھی۔ اٹلی کے شہر میلان کی عدالت نے سونیا گاندھی کو ملوث قرار دیا ہے لیکن بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔
جج نے ان کی طرف شبے کی نظروں سے دیکھا مگر اس معاملے میں الزامات اور جوابی الزامات سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ یہ کھلا راز ہے کہ مذکورہ ہیلی کاپٹروں کے سودے کے موقع پر سونیا گاندھی انتہائی طاقتور شخصیت کی حیثیت رکھتی تھیں لہٰذا وہی ہر ایک کی مرکز نگاہ تھیں۔ اب اس معاملے کا بہترین حل یہی ہے کہ سپریم کورٹ ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) قائم کرے جو سپریم کورٹ کی ہی نگرانی میں اس معاملے کی تحقیقات کرے تا کہ حقیقت آشکار ہو سکے۔ اس بات کا خیال نہ رکھا جائے کہ اس معاملے کو پہلے ہی کتنی دیر ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کو ایک کمیٹی قائم کرنی چاہیے جو دفاعی اشیاء خریدنے کے سلسلے میں قواعد و ضوابط طے کرے۔ موجودہ کمیٹی میں کوئی جان باقی نہیں ہے۔
اس سارے معاملے کا انحصار درحقیقت اس بات پر ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس حوالے سے کس قدر سنجیدہ ہیں۔ فی الوقت تو دفاعی سودے بھی حکمران پارٹی کی ''انتخابی مشینری'' کو تیل فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ سینٹرل بورڈ آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو کک بیکس کا کچھ علم ہی نہ ہو کہ اتنی بھاری رقم کہاں سے آ رہی ہے اور کہاں جا رہی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کی ہوا باہر نہیں نکلنے دیتا کیونکہ یہ ''طوطا'' پنجرے میں بند ہے اور اس نے وہی بیان کرنا ہے جو حکمران جماعت اس کو کہتی ہے۔ اس حوالے سے ان کالموں میں بھی کئی بار نشاندہی کی گئی ہے کہ سی بی آئی کو ایک آزاد ادارہ بنا دیا جائے جو صرف پارلیمنٹ کو جوابدہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی ان خطوط پر نہیں سوچتی کیونکہ سب کو اندازہ ہے کہ سی بی آئی کے حکومت کے زیر کنٹرول رہنے کا ہی ان کو فائدہ ہے۔
سی بی آئی کے ریٹائرڈ ڈائریکٹرز کا یہ کہنا ریکارڈ پر ہے کہ حکمران پارٹی کی طرف سے ان پر اس قدر دباؤ ہوتا ہے کہ ان کے لیے سرتسلیم خم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ جب عوام کی طرف سے کسی کرپٹ وزیراعلیٰ کے خلاف احتجاج ہوتا ہے تو وہ تحقیقات کے لیے اپنی بیوی کو متعین کر دیتا ہے۔ برصغیر کے تینوں پڑوسی ممالک میں کرپشن زندگی کا وتیرہ بن چکی ہے۔
آج ایک سیاستدان کا طرز زندگی اس قدر بلند ہو چکا ہے کہ جو تنخواہ اور مراعات اسے ملتی ہیں ان میں اس کا گزارہ ممکن ہی نہیں۔ اسے دولت کی بے تحاشہ ریل پیل درکار ہوتی ہے۔ وہ دن گئے جب پارلیمنٹ کا ایک رکن یہ سمجھتا تھا کہ وہ ملک کی خدمت کر رہا ہے۔ مہاتما گاندھی نے تو اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ صرف 500 روپے ماہوار مقرر کی تھی اور اس تنخواہ میں سے بھی پارٹی کے لیے چندہ دینا پڑتا تھا۔ آزادی کی جدوجہد کی تپش سے گزرنے والوں کی نسل جب معدوم ہو گئی تب یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات کتنی ہونی چاہئیں۔
حالیہ عرصے میں اراکین پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں دوگنا اضافے کا مطالبہ کیا جس پر پارلیمانی معاملات کی کمیٹی میں غور کیا گیا جب کہ اراکین مزید اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ ان کی تنخواہوں اور مراعات میں موجودہ معیار زندگی کے مطابق اضافہ کیا جانا چاہیے لیکن میڈیا بالخصوص ٹی وی نیٹ ورکس اس قدر شور و غوغا کرتے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا کھل کر مطالبہ کرتے ڈرتی ہے۔ چنانچہ اراکین پارلیمنٹ بھی متبادل ذرایع تلاش کرتے ہیں لہٰذا یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ بہت سے اراکین کو کارپوریٹ سیکٹر اور بزنس ہاؤسز سے باقاعدہ فنڈز دیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ سرکاری شعبے سے بھی انھیں مراعات ملتی ہیں۔
جو بھی کسی منصب پر متمکن ہو جاتا ہے تو وہ ادھر ادھر سے اپنی آمدنی میں اضافے کی کوشش کرتا ہے۔ قانون ساز بھی اپنی اس خواہش کو دبا نہیں سکتے۔ چوٹی کے ریٹائرڈ سرکاری افسران بھی اسی روش پر گامزن ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق ایئرچیف ایس پی تیاگی نے بھی اپنے اہل خانہ کو ہیلی کاپٹروں کے سودے میں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی۔ اٹلی میں جن لوگوں نے رشوت دی تھی انھیں عدالت سے سزائیں سنا دی گئیں جو کہ وہ بھگت رہے ہیں لیکن بھارت میں ذمے داروں کو ابھی کیفر کردار پر نہیں پہنچایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رشوت لینے والوں میں بیس کے لگ بھگ صحافی بھی شامل ہیں۔ ان کے نام حکومت کے پاس آ چکے ہیں لیکن ان ناموں کو ابھی تک افشأ نہ کیا جانا حیرت کی بات ہے۔
کیا اس معاملے میں بھی سیاست کا عمل دخل ہے؟ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو عوام کا یہ حق ہے کہ انھیں متذکرہ صحافیوں کے ناموں سے آگاہ کیا جائے کیونکہ صحافی وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہمہ وقت اخلاقیات کا درس دیتے رہتے ہیں لہٰذا اگر وہ اس قسم کی حرکت میں ملوث ہو جائیں تو ان کا نام ضرور ظاہر کیا جانا چاہیے۔یہ ''ایڈیٹرز گلڈ'' کا فرض ہے کہ ان کے نام بلاتاخیر عوام کو بتائے جائیں۔ یہاں مجھے یاد آتا ہے کہ ایک میٹنگ میں جب میں اخلاقیات کی بات کر رہا تھا تو میں نے تجویز پیش کی کہ ایڈیٹروں کے اثاثے بھی ظاہر کیے جانے چاہئیں، لیکن کسی ممبر نے میرا ساتھ نہیں دیا حتیٰ کہ ''پریس کونسل'' نے بھی ایسے کوئی اصول اور ضابطے وضع نہیں کیے جن کے تحت ایڈیٹروں کا احتساب ہو سکے۔
حالانکہ جب کسی کو ایڈیٹر مقرر کیا جاتا ہے تو اس کے لیے اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جارحانہ حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ممکن ہے الفاظ کے حساب سے خاصی سنسنی خیز ہو تاہم عملی طور پر یہ بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔وزیر دفاع منوہر پاریکر نے اس حوالے سے کئی بیانات جاری کیے ہیں جن میں بعض اسکینڈلوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ ساری سیاست بازی ہے۔
اس سے اصل ذمے داروں کو پکڑا نہیں جا سکتا۔ جب تک ایسے اسکینڈلوں کی پردہ پوشی کی کوشش کی جائے گی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اگر تمام سیاسی پارٹیاں بھی کوئی ضابطۂ اخلاق تیار کر لیں تب بھی اس پر من و عن عمل درآمد نہیں ہو سکے گا۔ جہاں تک مرکزی نگران کمیشن کا تعلق ہے اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس پر حکومت کا اثر ہوتا ہے لہٰذا ایک ہی طریقہ باقی رہ جاتا ہے کہ مستقل بنیادوں پر ایک ایسی آئی ٹی قائم کی جائے جس کی نگرانی سپریم کورٹ کے پاس ہو۔ حتیٰ کہ آر بی آئی کے گورنر رگھورام راجن جنہوں نے ہماری امیدیں پروان چڑھائیں وہ بھی اپنے مقصد میں ناکام ہو گئے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
آج جو ''کک بیکس'' پر شور مچایا جا رہا ہے وہ دراصل معمول کے کمیشن سے کہیں زیاد اور بالاتر ہے۔ اب تو زیادہ کمیشن حاصل کرنے کے لیے دفاعی ہتھیاروں کی مطلوبہ اقسام میں بھی تبدیلی کر دی جاتی ہے اور یہی کام وی وی آئی پی ہیلی کاپٹروں کی خریداری میں کیا گیا ہے۔ آگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹروں کی خرید کے لیے پرواز کی مطلوبہ بلندی کو کافی کم کر دیا گیا کیونکہ اس سودے میں بہت بڑی رشوت ملنے والی تھی۔ اٹلی کے شہر میلان کی عدالت نے سونیا گاندھی کو ملوث قرار دیا ہے لیکن بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔
جج نے ان کی طرف شبے کی نظروں سے دیکھا مگر اس معاملے میں الزامات اور جوابی الزامات سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ یہ کھلا راز ہے کہ مذکورہ ہیلی کاپٹروں کے سودے کے موقع پر سونیا گاندھی انتہائی طاقتور شخصیت کی حیثیت رکھتی تھیں لہٰذا وہی ہر ایک کی مرکز نگاہ تھیں۔ اب اس معاملے کا بہترین حل یہی ہے کہ سپریم کورٹ ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) قائم کرے جو سپریم کورٹ کی ہی نگرانی میں اس معاملے کی تحقیقات کرے تا کہ حقیقت آشکار ہو سکے۔ اس بات کا خیال نہ رکھا جائے کہ اس معاملے کو پہلے ہی کتنی دیر ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پارلیمنٹ کو ایک کمیٹی قائم کرنی چاہیے جو دفاعی اشیاء خریدنے کے سلسلے میں قواعد و ضوابط طے کرے۔ موجودہ کمیٹی میں کوئی جان باقی نہیں ہے۔
اس سارے معاملے کا انحصار درحقیقت اس بات پر ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس حوالے سے کس قدر سنجیدہ ہیں۔ فی الوقت تو دفاعی سودے بھی حکمران پارٹی کی ''انتخابی مشینری'' کو تیل فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں لیکن کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ سینٹرل بورڈ آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو کک بیکس کا کچھ علم ہی نہ ہو کہ اتنی بھاری رقم کہاں سے آ رہی ہے اور کہاں جا رہی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کی ہوا باہر نہیں نکلنے دیتا کیونکہ یہ ''طوطا'' پنجرے میں بند ہے اور اس نے وہی بیان کرنا ہے جو حکمران جماعت اس کو کہتی ہے۔ اس حوالے سے ان کالموں میں بھی کئی بار نشاندہی کی گئی ہے کہ سی بی آئی کو ایک آزاد ادارہ بنا دیا جائے جو صرف پارلیمنٹ کو جوابدہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی بڑی سیاسی پارٹی ان خطوط پر نہیں سوچتی کیونکہ سب کو اندازہ ہے کہ سی بی آئی کے حکومت کے زیر کنٹرول رہنے کا ہی ان کو فائدہ ہے۔
سی بی آئی کے ریٹائرڈ ڈائریکٹرز کا یہ کہنا ریکارڈ پر ہے کہ حکمران پارٹی کی طرف سے ان پر اس قدر دباؤ ہوتا ہے کہ ان کے لیے سرتسلیم خم کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ جب عوام کی طرف سے کسی کرپٹ وزیراعلیٰ کے خلاف احتجاج ہوتا ہے تو وہ تحقیقات کے لیے اپنی بیوی کو متعین کر دیتا ہے۔ برصغیر کے تینوں پڑوسی ممالک میں کرپشن زندگی کا وتیرہ بن چکی ہے۔
آج ایک سیاستدان کا طرز زندگی اس قدر بلند ہو چکا ہے کہ جو تنخواہ اور مراعات اسے ملتی ہیں ان میں اس کا گزارہ ممکن ہی نہیں۔ اسے دولت کی بے تحاشہ ریل پیل درکار ہوتی ہے۔ وہ دن گئے جب پارلیمنٹ کا ایک رکن یہ سمجھتا تھا کہ وہ ملک کی خدمت کر رہا ہے۔ مہاتما گاندھی نے تو اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ صرف 500 روپے ماہوار مقرر کی تھی اور اس تنخواہ میں سے بھی پارٹی کے لیے چندہ دینا پڑتا تھا۔ آزادی کی جدوجہد کی تپش سے گزرنے والوں کی نسل جب معدوم ہو گئی تب یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات کتنی ہونی چاہئیں۔
حالیہ عرصے میں اراکین پارلیمنٹ نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں دوگنا اضافے کا مطالبہ کیا جس پر پارلیمانی معاملات کی کمیٹی میں غور کیا گیا جب کہ اراکین مزید اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ بات قابل فہم ہے کہ ان کی تنخواہوں اور مراعات میں موجودہ معیار زندگی کے مطابق اضافہ کیا جانا چاہیے لیکن میڈیا بالخصوص ٹی وی نیٹ ورکس اس قدر شور و غوغا کرتے ہیں کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا کھل کر مطالبہ کرتے ڈرتی ہے۔ چنانچہ اراکین پارلیمنٹ بھی متبادل ذرایع تلاش کرتے ہیں لہٰذا یہ حقیقت بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ بہت سے اراکین کو کارپوریٹ سیکٹر اور بزنس ہاؤسز سے باقاعدہ فنڈز دیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ سرکاری شعبے سے بھی انھیں مراعات ملتی ہیں۔
جو بھی کسی منصب پر متمکن ہو جاتا ہے تو وہ ادھر ادھر سے اپنی آمدنی میں اضافے کی کوشش کرتا ہے۔ قانون ساز بھی اپنی اس خواہش کو دبا نہیں سکتے۔ چوٹی کے ریٹائرڈ سرکاری افسران بھی اسی روش پر گامزن ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر سابق ایئرچیف ایس پی تیاگی نے بھی اپنے اہل خانہ کو ہیلی کاپٹروں کے سودے میں فائدہ پہنچانے کی کوشش کی۔ اٹلی میں جن لوگوں نے رشوت دی تھی انھیں عدالت سے سزائیں سنا دی گئیں جو کہ وہ بھگت رہے ہیں لیکن بھارت میں ذمے داروں کو ابھی کیفر کردار پر نہیں پہنچایا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رشوت لینے والوں میں بیس کے لگ بھگ صحافی بھی شامل ہیں۔ ان کے نام حکومت کے پاس آ چکے ہیں لیکن ان ناموں کو ابھی تک افشأ نہ کیا جانا حیرت کی بات ہے۔
کیا اس معاملے میں بھی سیاست کا عمل دخل ہے؟ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو عوام کا یہ حق ہے کہ انھیں متذکرہ صحافیوں کے ناموں سے آگاہ کیا جائے کیونکہ صحافی وہ لوگ ہوتے ہیں جو ہمہ وقت اخلاقیات کا درس دیتے رہتے ہیں لہٰذا اگر وہ اس قسم کی حرکت میں ملوث ہو جائیں تو ان کا نام ضرور ظاہر کیا جانا چاہیے۔یہ ''ایڈیٹرز گلڈ'' کا فرض ہے کہ ان کے نام بلاتاخیر عوام کو بتائے جائیں۔ یہاں مجھے یاد آتا ہے کہ ایک میٹنگ میں جب میں اخلاقیات کی بات کر رہا تھا تو میں نے تجویز پیش کی کہ ایڈیٹروں کے اثاثے بھی ظاہر کیے جانے چاہئیں، لیکن کسی ممبر نے میرا ساتھ نہیں دیا حتیٰ کہ ''پریس کونسل'' نے بھی ایسے کوئی اصول اور ضابطے وضع نہیں کیے جن کے تحت ایڈیٹروں کا احتساب ہو سکے۔
حالانکہ جب کسی کو ایڈیٹر مقرر کیا جاتا ہے تو اس کے لیے اپنے اثاثے ظاہر کرنا لازم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے جارحانہ حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ممکن ہے الفاظ کے حساب سے خاصی سنسنی خیز ہو تاہم عملی طور پر یہ بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔وزیر دفاع منوہر پاریکر نے اس حوالے سے کئی بیانات جاری کیے ہیں جن میں بعض اسکینڈلوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن یہ ساری سیاست بازی ہے۔
اس سے اصل ذمے داروں کو پکڑا نہیں جا سکتا۔ جب تک ایسے اسکینڈلوں کی پردہ پوشی کی کوشش کی جائے گی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اگر تمام سیاسی پارٹیاں بھی کوئی ضابطۂ اخلاق تیار کر لیں تب بھی اس پر من و عن عمل درآمد نہیں ہو سکے گا۔ جہاں تک مرکزی نگران کمیشن کا تعلق ہے اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس پر حکومت کا اثر ہوتا ہے لہٰذا ایک ہی طریقہ باقی رہ جاتا ہے کہ مستقل بنیادوں پر ایک ایسی آئی ٹی قائم کی جائے جس کی نگرانی سپریم کورٹ کے پاس ہو۔ حتیٰ کہ آر بی آئی کے گورنر رگھورام راجن جنہوں نے ہماری امیدیں پروان چڑھائیں وہ بھی اپنے مقصد میں ناکام ہو گئے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)