جنوبی ایشیا کو تعصبات سے نجات دلانے کی سوچ آخری حصہ
بنگلہ دیش میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں ہیں، کیونکہ اس کی جمہوری تاریخ، پاکستان کی طرح داغدار ہے۔
بنگلہ دیش میں بھی حالات کچھ مختلف نہیں ہیں، کیونکہ اس کی جمہوری تاریخ، پاکستان کی طرح داغدار ہے۔ یہ ملک سیکولر اور اسلامی قوتوں کے درمیان کشمکش کے مرحلے سے گزر رہا ہے۔ اس تنازع میں ریاست اور اسلام پسند دونوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ اسلام پسندوں کے ہاتھوں بعض ممتاز سیکولر بلاگر اور فعال کارکن قتل ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف ریاست1971ء کی جنگ آزادی کے ایسے مجرموں کو پھانسی دے رہی ہے جن کا تعلق اسلامی جماعتوں سے ہے، جب کہ بنگلہ دیش اور بیرون ملک سے حقوق انسانی کے کارکن عدالتی کارروائی پر تنقید کر رہے ہیں۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے حقوق انسانی کے کارکن Muktasree Chakma Sathi نے چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں فوج بھیجنے کا بطور خاص ذکر کیا جہاں کی مقامی آبادی گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہی ہے۔ یہاں رہنے والوں کی اکثریت یا تو بودھ مت کے ماننے والوں کی ہے یا پھر ان کے اپنے قبائلی مذہب ہیں۔ ان پہاڑی علاقوں کی آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے حکومت مسلمانوں کو یہاں آباد کر رہی ہے، تقریباً ڈھائی لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو جنھوں نے ظلم و ستم سے تنگ آ کر برما سے نقل مکانی کی تھی، ان علاقوں میں بسا دیا گیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جن لوگوں کو میانمار انتقام کا نشانہ بناتا رہا وہ اب ان پہاڑی سلسلوں کے لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہ باتیں سن کر میں ان کی کسی مدد کے قابل تو نہیں تھا مگر سوچنے لگا کہ برصغیر کے نوآبادیاتی دور اور نوآبادیاتی دور کے بعد کی ریاستوں کے حکمرانوں کی مکاریوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا میں جب بھی پیچیدہ سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کا حل فوج پر چھوڑا گیا، اس کا نتیجہ یکساں طور پر غلط نکلا۔ پاکستان اس قسم کے حربوں سے ناواقف نہیں ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان میں مدارس کے پھیلاؤ کی حوصلہ افزائی کی، جہاں اپنے حقوق کے لیے لڑنے والے زیادہ تر لوگ سیکولر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بلوچ قوم پرستوں کو شبہ ہے کہ گوادر کی بندرگاہ کو ترقی دینے کا بڑا مقصد، باہر کے لوگوں کو اس صوبے میں لانا ہے جس سے بلوچ اپنے ہی صوبے میں اقلیت میں بدل جائیں گے۔
حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے نیپال کے فعال کارکن بیدرسبیدی کا کہنا تھا، لوگ اس بات پر خوش ہیں کہ ملک نے بالآخر ایک سیکولر آئین اختیار کر لیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت نے نیپال کی مادھیسی برادری کے دو اہم مطالبات پورے کرنے کے لیے ترامیم تجویز کی ہیں۔ یہ دو مطالبات یہ ہیں کہ انھیں حکومت میں متناسب نمایندگی دی جائے اور اس طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے جس کے تحت انتخابی حلقے بنائے جاتے ہیں۔
اگر چہ حقوق انسانی کے کارکن مادھیسیوں کی طرف سے، جو بھارت سے ملنے والی سرحد کے ساتھ آباد ہیں، پیش کیے جانے والے زیادہ تر مطالبات کی حمایت کرتے ہیں مگر انھوں نے اس بات پر تنقید کی کہ بھارت ان لوگوں کو نیپال کا راستہ غیر سرکاری طور پر بند کرنے پر اکسا رہا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ چاروں طرف خشکی سے گھرے ہوئے نیپال کا بھارت کے ساتھ راستہ بند کرنے سے غریب لوگ شدید متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ اشیاء کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ اسمگلروں اور چور بازاری کرنے والوں کو ہوتا ہے۔مالدیپ سے تعلق رکھنے والے فعال کارکن اسماعیل ابراہم نے اپوزیشن اور کسی اختلاف رائے کے ساتھ نمٹنے میں حکومت کے نامناسب رویے پر تنقید کی۔ انھیں ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی پر بھی تشویش تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس لاقانونیت نے ملک میں منشیات کی تجارت اور انسانی اسمگلنگ میں اضافہ کر دیا ہے۔
افغانستان نے پچھلے 35 سال میں خانہ جنگی سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ طالبان کے ہاتھوں ملک لہولہان ہے۔ مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، سیکیورٹی فورسز بھی ماورائے عدالت قتل اور شہری آزادیوں کا کوئی لحاظ کیے بغیر لوگوں کو اغوا کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہیں۔
افغان مندوب پلوشہ حسن نے بتایا کہ اگرچہ موجودہ حکومت میں خواتین کو زیادہ حقوق حاصل ہیں، مگر اصل میں بہت سے جنگی سرداروں کے لشکر لوگوں پر مظالم ڈھانے کے ذمے دار ہیں۔ ملک کے زیادہ تر علاقوں پر کابل کا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے طالبان کو عام لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کی اکثریت پاکستان کو اپنے مصائب کا ذمے دار سمجھتی ہے، کیوں کہ وہ طالبان کی حمایت کرتا ہے۔ بقول ان کے، افغانستان میں بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت طالبان کی حمایت کے خلاف ہے اور پاکستانی عوام کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کرنا نہیں چاہتے۔
اس اجلاس میں یہ تجویز سامنے آئی کہ SAHR عوام سے رابطہ کے لیے اس قسم کے مزید دو طرفہ اجلاسوں کا اہتمام کرے، جن میں دو ملکوں کے تنازعات کے بارے میں حکومت کے بجائے عوام کے نکتہ نظر سے آگاہی حاصل ہو۔ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کا معاملہ صرف افغانستان اور پاکستان کے عوام کے درمیان ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان اور بھارت اور پاکستان و بنگلہ دیش کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے۔
حاوی سرکاری نکتہ نظر کی موجودگی ان ملکوں کے عوام کو غلط اشارے دیتی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں میڈیا بھی زیادہ تر انتہاپسند قوم پرستانہ سرکاری بیانیوں کو اہمیت دیتا ہے۔ جب لوگ غیر سرکاری اجلاسوں اور کانفرنسوں میں ایک دوسرے سے انفرادی سطح پر ملتے ہیں تو تب ہی انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ عوام سے عوام کی سطح پر کوئی مخاصمت نہیں ہے۔ اگر علاقے کے ملکوں کی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسیاں عوامی امنگوں کی نمایندگی کریں تو آپس کے بیشتر تنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ امن پر یقین رکھنے والے عوام متحد ہوں اور ایسے بیانیہ کو چیلنج کرنے کے لیے، جس کا پرچار جنوبی ایشیائی ملکوں میں جنگی معیشت پر پلنے والے تنومند کرتے ہیں، عوام کے نکتہ نظر سے قومی سلامتی کا بیانیہ تیار کریں۔
بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے حقوق انسانی کے کارکن Muktasree Chakma Sathi نے چٹاگانگ کے پہاڑی علاقوں میں فوج بھیجنے کا بطور خاص ذکر کیا جہاں کی مقامی آبادی گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہی ہے۔ یہاں رہنے والوں کی اکثریت یا تو بودھ مت کے ماننے والوں کی ہے یا پھر ان کے اپنے قبائلی مذہب ہیں۔ ان پہاڑی علاقوں کی آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے حکومت مسلمانوں کو یہاں آباد کر رہی ہے، تقریباً ڈھائی لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو جنھوں نے ظلم و ستم سے تنگ آ کر برما سے نقل مکانی کی تھی، ان علاقوں میں بسا دیا گیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ جن لوگوں کو میانمار انتقام کا نشانہ بناتا رہا وہ اب ان پہاڑی سلسلوں کے لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
یہ باتیں سن کر میں ان کی کسی مدد کے قابل تو نہیں تھا مگر سوچنے لگا کہ برصغیر کے نوآبادیاتی دور اور نوآبادیاتی دور کے بعد کی ریاستوں کے حکمرانوں کی مکاریوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جنوبی ایشیا میں جب بھی پیچیدہ سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کا حل فوج پر چھوڑا گیا، اس کا نتیجہ یکساں طور پر غلط نکلا۔ پاکستان اس قسم کے حربوں سے ناواقف نہیں ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نے بلوچستان میں مدارس کے پھیلاؤ کی حوصلہ افزائی کی، جہاں اپنے حقوق کے لیے لڑنے والے زیادہ تر لوگ سیکولر ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بلوچ قوم پرستوں کو شبہ ہے کہ گوادر کی بندرگاہ کو ترقی دینے کا بڑا مقصد، باہر کے لوگوں کو اس صوبے میں لانا ہے جس سے بلوچ اپنے ہی صوبے میں اقلیت میں بدل جائیں گے۔
حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والے نیپال کے فعال کارکن بیدرسبیدی کا کہنا تھا، لوگ اس بات پر خوش ہیں کہ ملک نے بالآخر ایک سیکولر آئین اختیار کر لیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت نے نیپال کی مادھیسی برادری کے دو اہم مطالبات پورے کرنے کے لیے ترامیم تجویز کی ہیں۔ یہ دو مطالبات یہ ہیں کہ انھیں حکومت میں متناسب نمایندگی دی جائے اور اس طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے جس کے تحت انتخابی حلقے بنائے جاتے ہیں۔
اگر چہ حقوق انسانی کے کارکن مادھیسیوں کی طرف سے، جو بھارت سے ملنے والی سرحد کے ساتھ آباد ہیں، پیش کیے جانے والے زیادہ تر مطالبات کی حمایت کرتے ہیں مگر انھوں نے اس بات پر تنقید کی کہ بھارت ان لوگوں کو نیپال کا راستہ غیر سرکاری طور پر بند کرنے پر اکسا رہا ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ چاروں طرف خشکی سے گھرے ہوئے نیپال کا بھارت کے ساتھ راستہ بند کرنے سے غریب لوگ شدید متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ اشیاء کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچی ہیں اور ظاہر ہے کہ اس کا فائدہ اسمگلروں اور چور بازاری کرنے والوں کو ہوتا ہے۔مالدیپ سے تعلق رکھنے والے فعال کارکن اسماعیل ابراہم نے اپوزیشن اور کسی اختلاف رائے کے ساتھ نمٹنے میں حکومت کے نامناسب رویے پر تنقید کی۔ انھیں ملک میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی پر بھی تشویش تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس لاقانونیت نے ملک میں منشیات کی تجارت اور انسانی اسمگلنگ میں اضافہ کر دیا ہے۔
افغانستان نے پچھلے 35 سال میں خانہ جنگی سے بہت نقصان اٹھایا ہے۔ طالبان کے ہاتھوں ملک لہولہان ہے۔ مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، سیکیورٹی فورسز بھی ماورائے عدالت قتل اور شہری آزادیوں کا کوئی لحاظ کیے بغیر لوگوں کو اغوا کرنے اور تشدد کا نشانہ بنانے کے ذریعے انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہیں۔
افغان مندوب پلوشہ حسن نے بتایا کہ اگرچہ موجودہ حکومت میں خواتین کو زیادہ حقوق حاصل ہیں، مگر اصل میں بہت سے جنگی سرداروں کے لشکر لوگوں پر مظالم ڈھانے کے ذمے دار ہیں۔ ملک کے زیادہ تر علاقوں پر کابل کا کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے طالبان کو عام لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ لوگوں کی اکثریت پاکستان کو اپنے مصائب کا ذمے دار سمجھتی ہے، کیوں کہ وہ طالبان کی حمایت کرتا ہے۔ بقول ان کے، افغانستان میں بہت کم لوگوں کو یہ علم ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت طالبان کی حمایت کے خلاف ہے اور پاکستانی عوام کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت کرنا نہیں چاہتے۔
اس اجلاس میں یہ تجویز سامنے آئی کہ SAHR عوام سے رابطہ کے لیے اس قسم کے مزید دو طرفہ اجلاسوں کا اہتمام کرے، جن میں دو ملکوں کے تنازعات کے بارے میں حکومت کے بجائے عوام کے نکتہ نظر سے آگاہی حاصل ہو۔ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمانی کا معاملہ صرف افغانستان اور پاکستان کے عوام کے درمیان ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان اور بھارت اور پاکستان و بنگلہ دیش کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے۔
حاوی سرکاری نکتہ نظر کی موجودگی ان ملکوں کے عوام کو غلط اشارے دیتی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں میڈیا بھی زیادہ تر انتہاپسند قوم پرستانہ سرکاری بیانیوں کو اہمیت دیتا ہے۔ جب لوگ غیر سرکاری اجلاسوں اور کانفرنسوں میں ایک دوسرے سے انفرادی سطح پر ملتے ہیں تو تب ہی انھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ عوام سے عوام کی سطح پر کوئی مخاصمت نہیں ہے۔ اگر علاقے کے ملکوں کی خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسیاں عوامی امنگوں کی نمایندگی کریں تو آپس کے بیشتر تنازعات کو حل کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ امن پر یقین رکھنے والے عوام متحد ہوں اور ایسے بیانیہ کو چیلنج کرنے کے لیے، جس کا پرچار جنوبی ایشیائی ملکوں میں جنگی معیشت پر پلنے والے تنومند کرتے ہیں، عوام کے نکتہ نظر سے قومی سلامتی کا بیانیہ تیار کریں۔