فلم گجنیکا عامر خان اور …

چنانچہ بھلکڑ جانوروں کا بہت زیادہ گوشت کھانے کی وجہ سے پاکستانیوں میں بھلکڑ پن بہت زیادہ پائی جاتی ہے

barq@email.com

انڈین فلم گاجنی یا گجنی میں عامر خان کو ایک ایسی بیماری ہوتی ہے کہ وہ کوئی کام، کوئی نام اور واقعہ چند منٹ سے زیادہ یاد نہیں رکھ سکتا، جب یہ فلم آئی تو ہم نے حکومت پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ اس پر شدید احتجاج کرے کیوں کہ یہ صاف صاف اور کھلم کھلا پاکستانیوں کی ذاتی زندگی میں مداخلت بلکہ اس پر طنز ہے، لیکن کسی نے کچھ بھی نہیں کیا اور یہی بات ہم اب بھی کہتے ہیں کہ اس فلم میں ''عامر خان'' کا کردار پوری پاکستانی قوم کا کردار ہے کہ یہ بھی کوئی بات ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن بلکہ ایک جلسے سے دوسرے جلسے اور ایک تقریر سے دوسری تقریر تک ''یاد'' نہیں رکھ سکتی، ایک میڈیکل سپیشلسٹ نے جو اتفاق سے ہم خود ہیں ۔

اس کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ چونکہ پاکستانی گوشت بہت کھاتے ہیں اور گوشت کا اثر انسان پر اس طرح بھی ہوتا ہے کہ کھائے جانے والے جانور کی سی خصلیتں گوشت کے ذریعے کھانے والے میں بھی منتقل ہو جاتی ہیں اور چونکہ تمام وہ جانور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے حافظہ یاداشت یا دماغ نام کی کوئی چیز نہیں رکھتے، اس لیے ان کا گوشت کھانے والے بھی زیادہ تر سر کے اندر کا مال و متاع کھو بیٹھتے ہیں اور یہ بات ہم یونہی نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ دلائل و شواہد کے ذریعے ثابت بھی کر سکتے ہیں۔

وہ تو ہمارے پاس دوسروں کا غم کھانے کی وجہ سے فرصت نہیں ہے ورنہ ہم اس موضوع پر مقالہ لکھ کر کوئی نوبل یا صرف ''بیل'' ایوارڈ تو حاصل کر ہی سکتے تھے، ویسے کسی بزرگ نے جو ہم نہیں ہیں کہا ہے کہ انسان خود کو بھلے ہی انسان کہہ کر بانس پر چڑھائے یعنی خود ہی ایوب خان کی طرح فیلڈ مارشل کے عہدے پر فائز کرائے لیکن اپنے اجداد کی مماثلت و مشابہت سے پیچھا ہر گز نہیں چھڑا سکتا، بعض لوگ اتنے زیادہ بندر ہوتے ہیں کہ اگر بندروں میں چھوڑ دیے جائیں تو ان میں سے خود کو بھی پہچان نہ پائیں، مطلب یہ ہے کہ گوشت اور صحبت دونوں ہی انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں اسی لیے تو بزرگوں نے کہا ہے کہ

صحبت مرغک ترامر نمک کند
صحبت بندر ترا بندر کند


چنانچہ بھلکڑ جانوروں کا بہت زیادہ گوشت کھانے کی وجہ سے پاکستانیوں میں بھلکڑ پن بہت زیادہ پائی جاتی ہے اس سے زیادہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ پڑوسی ملک اس پر ''گاجنی'' جیسی طنزیہ اور طعنہ فلم بنائے، بلکہ ہمیں تو نہایت ہی باوثوق ذرایع سے پتہ چلا ہے کہ عامر خان چونکہ مسٹر پرفیکٹ کہلاتا ہے اس لیے فلم گاجنی میں کام کرنے سے پہلے پاکستان آئے تھے اور یہاں عوام میں گھل مل کر ان کے بھلکڑ پن کا مطالعہ کر کے گئے تھے اس نے دیکھا کہ پاکستانی لوگ کسی کو سر بٹھانے میں جتنی دیر لگاتے ہیں اس سے کہیں کم وقت اسے گرا کر پیروں تلے روندنے میں لگا دیتے ہیں۔

عامر خان اس فلم میں بھلکڑ پن کے باوجود اتنا سمجھ دار تھا کہ وہ کرنے والے کاموں کو اپنے جسم کے اوپر لکھو الیا کرتا تھا لیکن ہمارے یہ بھلکڑ تو سامنے نوشتہ تقدیر کو پڑھ کر بھی ہوش میں نہیں آتے، بار بار گھوم گھوم کر اسی ایک ''کیل'' سے ٹھوکر کھاتے ہیں اپنے زخم سہلاتے ہیں اٹھتے ہیں اور پھر گھوم کر آنے اور اسی کیل سے ٹھوکر کھانے میں لگ جاتے ہیں ایک حدیث شریف اس مضمون کا ہے کہ مومن کو ایک ہی سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا لیکن یہاں تو ایک ہی سوراخ سے ڈسوانے کی سنچریاں بنائی جارہی ہیں، وہ حدیث شریف بالکل درست ہے لیکن اس میں ''مومن'' کہا گیا ہے۔

مسلمان یا پاکستانی نہیں کہا گیا ہے اور پھر مومن کو ایک ہی سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا لیکن اگر اسے خود ہی ''ڈسوانے'' کی لت پڑ جاتے تو؟، آپ نے دیکھا یا سنا ہی ہو گا کہ کچھ لوگ سانپ یا بچھوؤں سے خود کو ڈسوانے کے نشے میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ بھی عین زبان کے اوپر... اور پاکستانیوں کو ایسا کرنا ہی چاہیے کہ ان کی زندہ باد مردہ باد کی عادی زبان ہی سارے فساد کی جڑ ہوتی ہے، جن جانوروں کا گوشت پاکستانی لوگ بڑی رغبت سے کھاتے ہیں ان میں ''ایک دوسرے کے علاوہ'' بھینس، گائے، بیل، بکرے اور بھیڑوں کا تو زمانوں سے کھایا جاتا ہے اور ان تمام جانوروں کو دیکھ کر آپ مان لیں گے کہ ان کے پاس سب کچھ ہے مگر حافظہ بالکل نہیں ہوتا، لیکن آج کل جو گوشت سب سے زیادہ کھایا جاتا ہے ۔

وہ اس پرندے کا ہے جو ہے تو پرندہ لیکن پرندے اسے بالکل بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ ایک عجیب تماشہ ہے کہ جانور بھی اسے پرے پرے کہتے ہیں اور پرندے بھی، گویا نہ تین میں ہے نہ تیرہ میں نہ ہیؤں میں نہ شیؤں میں اس پر بھی اسے دعویٰ ہے کہ وہ سر پر پیر رکھتا ہے اور پاکستانی اگر سب سے زیادہ کسی چیز پر گئے ہیں تو وہ یہی پرندہ بلکہ ناپرندہ پرندہ ہے، بھلکڑ اتنا ہے جی بھر کر دھتکارو لیکن پلٹ کر پھر حاضر ...یہ اس کا بھلکڑ پن ہی ہے کہ دن بھر کھاتا رہتا ہے کیوں کہ بھول جاتا ہے کہ ابھی کھا چکا ہو۔

وہ تو اچھا ہے کہ پیٹ کے بجائے پوٹا رکھتا ہے اور فالتو مال اسی میں جمع کرتا ہے یہاں بھی انسان اسی جیسا ہے کھاتا رہتا ہے کھاتا رہتا ہے پیٹ بھر جائے تو جیب، جیب بھر جائے تو تجوری، تجوری بھی بھر جائے تو بینک... بینک بھی بھر جائے تو ان شور بینک اور اگر یہ بھی سب بھر جائیں تو نیت تو کبھی بھرتی ہی نہیں، چاہیے زمین و آسمان بھی مل جائیں، کسی بزرگ کا کہنا ہے کہ انسان کی مانگنے کی انتہاء نہیں ہے چاہتا ہے کہ خدا کے پاس جو کچھ ہے وہ سب دے دے لیکن پھر بھی شاید کہے کہ کچھ اور...سب سے بڑی مماثلت تو انڈے کی ہے کہ ابھی انڈا دیتا ہے اور پھر شور مچائے رکھتا ہے کہ میں انڈا دوں گی اور انسان تو انڈوں کے موسم یعنی الیکشن میں یہ بھی بھول جاتا ے کہ وہ مرغی نہیں انسان ہے۔
Load Next Story