ایک گھنٹہ اسکول
یہ تقریباً ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے کہاں جائیں گے؟ کیا کریں گے؟ انھیں کبھی اسکول تو جانا نصیب نہ ہوا۔
یہ تقریباً ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے کہاں جائیں گے؟ کیا کریں گے؟ انھیں کبھی اسکول تو جانا نصیب نہ ہوا۔ ان ڈھائی کروڑ بچوں کے علاوہ وہ مزید باسٹھ لاکھ بچے کہاں جائیں گے؟ کیا کریں گے جو اپریل 2015ء میں جاری کردہ PAKISTAN EDUCATION STATISTICS REPORT 2013-2014 کے مطابق سال 2013-2014ء میں پرائمری سطح پر ہی اسکول چھوڑ گئے؟ 2012-2013ء میں یہ تعداد سڑسٹھ لاکھ تھی۔ یہ پانچ لاکھ بچے کہاں جائیں گے؟ کیا کریں گے؟ اور پاکستان بھر میں اینرولڈ تمام طالب علموں کا تقریباً 10 فیصد، یہ مذہبی مدارس میں زیر تعلیم تقریباً 18 لاکھ بچے کہاں جائیں گے؟ کیا کریں گے؟
ہم فارمولے والے لوگ ہیں۔ ہر انفرادی و اجتماعی معاملے کے لیے ہمارے پاس ایک تسلی بخش فارمولہ موجود ہے۔ مثلاً یہ کہ جمہوریت ہی تمام مسائل کی جڑ، معاف کیجیے گا حل ہے، تو جمہوریت میں جو ہو کم ہے۔ مثلاً یہ کہ فلاں فلاں عبادت اور ظاہری شخصیت کی بدولت ہمارے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، چنانچہ ہم ہیں کہ دل بھرکر بے ایمانی، کرپشن، جھوٹ، دھوکا دہی، قبضہ گیری، بے رحمی، خودغرضی، دوسروں کے چھوٹے بڑے حقوق کی پامالی، جو چاہیں بے دھڑک کرتے پھرتے ہیں، کہ گناہ تو سارے معاف ہو ہی جائیں گے۔
جب تک اس ایک ایک بندے و بندی کی سچی معافی نہ مل جائے کہ جس کا رتی برابر بھی حق مارا گیا ہو اور جب تک کرپشن، بے ایمانی، حرام کا ایک ایک پیسہ اور اس پیسے سے بنائی گئی مال و دولت کا ایک ایک ذرہ واپس نہ کر دیا جائے، حقوق العباد کے گناہ معاف نہیں کیے جائیں گے۔ یہ ہمیں صاف صاف بتا اور سمجھا دیا گیا ہے مگر ہمیں تو جیسے حقوق العباد کی موجودگی ہی کا نہیں پتہ تو ان کی وسعت، گہرائی اور باریکیوں کا کیا احساس ہو گا اور مثلاً یہ کہ تعلیم سے ہی ترقی ہو گی۔ کیسے ہو گی جب کہ ہمارے ہاں تو تعلیم بڑھنے کے ساتھ ہماری قومی تنزلی ہی بڑھی ہے۔
2013-2014ء میں ہماری شرح خواندگی PAKISTAN BUREAU OF STATISTICS (PBS) کے اگست میں 2013ء سے جون 2014ء تک کیے جانے والے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ میژرمنٹ سروے کے مطابق 60 فیصد سے کم ہو کر 58 فیصد ہو گئی۔ اب بولیے۔ ادھر 2013-2014ء میں ہماری وفاقی و صوبائی حکومتوں نے تعلیم کے لیے قومی جی ڈی پی کا 2.1% یعنی 537 ارب روپے مختص کیے، جب کہ 2015-2016ء کے مجموعی وفاقی و صوبائی بجٹوں میں کل ملا کر 734 ارب یعنی تہتر ہزار چار سو کروڑ روپے جو کہ GDP کا 2.68% بنتے ہیں، رکھے گئے۔ اس کے باوجود بلوچستان میں 66 فیصد، سندھ میں 51 فیصد، پنجاب میں 47 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 34 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ صرف صوبہ سندھ میں ہی ہر سال پہلی جماعت میں داخلہ لینے والے تقریباً آٹھ لاکھ بچوں میں سے تقریباً آدھے یعنی کوئی چار لاکھ بچے پانچویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ پورے ان پڑھ، یہ تھوڑے پڑھے یعنی پرائمری و سیکنڈری اسکول چھوڑ جانے والے بے منزل بچے کہاں جائیں گے؟ کیا کریں گے؟ اور یہ تقریباً ایک کروڑ باسٹھ لاکھ تعلیم حاصل کرنے والے بچے تعلیم حاصل کر کے کہاں جائیں گے؟ اور کیا کریں گے؟ یہاں تو MA بلکہ MBA والے رُلتے پھرتے ہیں تو یہ پورے ان پڑھ اور تھوڑے پڑھے کیا کریں گے؟ زندگی کیسے گزاریں گے؟
زراعت زوال پذیر ہے، ہماری زرخیز زمینوں پہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور دنیا بھر میں ترک کیے جانے والے کوئلے سے بجلی بنانے کے پلانٹ لگ رہے ہیں، دیہی کاروباری معیشت تو ورلڈ بینک کے دنیا بھر کی 189 معیشتوں میں کاروبار کرنے کے لیے بہتر معیشتوں کی نشاندہی کے انڈیکس "EASE OF DOING BUSINESS INDEX 2015"ء کے مطابق پاکستان مزید دو درجے تنزلی کے بعد 138 ویں نمبر پر پہنچ گیا۔سرکاری ملازمتیں بھی آخر کتنی بیچی جائیں، معاف کیجیے گا فراہم کی جائیں کہ اب تو اکثر تنخواہیں دینی مشکل ہو جاتی ہیں۔ پھر ہر کوئی سندھ کے سرکاری ملازموں سا خوش نصیب نہیں کہ جہاں کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے چند ہفتے قبل ہی آبزرویشن دی کہ سندھ میں معمولی سرکاری ملازم بھی ہر سال نئی لینڈ کروزر نکلواتا ہے۔ جی ہاں اسی سندھ میں جہاں ہر سال سیکڑوں بچے صرف تھر میں ہی غذائی قلت اور علاج معالجے کی کمیاب سہولتوں کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
7 اپریل 2016ء کو حکومت پاکستان کے اعلان کے مطابق 6 کروڑ پاکستانی سطح غربت سے بھی نیچے موجود ہیں۔ یہ کروڑوں غریب، غریب سے غریب، ان پڑھ، معمولی پڑھے لکھے عام لوگ اور ان کے عام سے بچے کیا کریں کہ زندگی گزار سکیں؟ نت نئی بدلتی ٹیکنالوجی، مشینوں اور فنی صلاحیتوں کے اس سخت دور میں یہ کام خالی ہاتھ کیا کریں؟ ہمیں ان کے لیے کچھ ہٹ کر سوچنا اور کرنا ہو گا مثلاً یہ کہ ہم بنیادی تعلیم کو شروع سے ہی اسپیشلائزڈ کر دیں اور اس کام کے لیے ہمیں ناخواندہ اور پرائمری و سیکنڈری پاس بچوں اور بڑوں کے لیے ''ایک گھنٹہ اسکول'' قائم کرنا ہوں گے۔
ان ایک گھنٹہ اسکولوں میں ان لوگوں کو مخصوص ٹیکنیکل تعلیم و ٹریننگ دی جائے تاکہ یہ فنی ہنرمند بن کر بہتر آمدنی حاصل کر سکیں۔ یہ ایک گھنٹہ اسکول پہلے سے موجود سرکاری اسکولوں میں ان کے روز کے اوقات کار کے بعد شام میں کام کریں، اس سے ان تمام بچوں اور بڑوں کو فائدہ پہنچ سکے گا جو سارا سارا دن مختلف جگہوں پر محنت مزدوری کرتے ہیں اور باقاعدہ اسکول ٹائمنگ کے تحت وقت نہیں نکال سکتے۔
ان ایک گھنٹہ اسکولوں میں ان کے علاقے کی معیشت کے لحاظ سے متعلقہ شعبوں کی ٹیکنیکل تعلیم و تربیت دی جائے، ان ایک گھنٹہ اسکولوں میں دی جانے والی فنی تعلیم کے مختلف درجات ہوں تاکہ ان میں پڑھنے والے لوگ اپنی فنی صلاحیتوں SKILLS کو مسلسل بہتر کرسکیں۔ ان ایک گھنٹہ اسکولوں سے باروزگار اور بے روزگار دونوں طرح کے بچوں اور بڑوں کو فائدہ پہنچ سکے گا اور وہ اپنے اپنے شعبوں میں بہتر روزگار یا چھوٹا موٹا کام و کاروبار کرسکیں گے۔
ان اسکولوں میں فنی تعلیم و تربیت دینے کے لیے موجودہ متعلقہ اساتذہ کے علاوہ ان شعبوں میں کام کرنے والے پروفیشنل لوگوں کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں جس کے عوض انھیں اضافی آمدنی حاصل ہوسکے گی۔ اس کے لیے علاقے کے مخیر حضرات، تنظیموں اور کاروباری اداروں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ میں کافی عرصے سے ایک گھنٹہ اسکول کا آئیڈیا پیش کررہا ہوں مگر کسی کو دلچسپی نہیں۔ حکمرانوں کو میگا پراجیکٹ پسند ہیں۔ رہی ملکی و غیر ملکی این جی اوز تو ان میں بیٹھی بیوروکریسی ان این جی اوز سے باہر موجود لوگوں اور ان کے آئیڈیاز سے نفرت کرتی ہے کیونکہ اس سے ان کے لگے بندھے ''سلسلوں'' میں رخنہ پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
ہم فارمولے والے لوگ ہیں۔ ہر انفرادی و اجتماعی معاملے کے لیے ہمارے پاس ایک تسلی بخش فارمولہ موجود ہے۔ مثلاً یہ کہ جمہوریت ہی تمام مسائل کی جڑ، معاف کیجیے گا حل ہے، تو جمہوریت میں جو ہو کم ہے۔ مثلاً یہ کہ فلاں فلاں عبادت اور ظاہری شخصیت کی بدولت ہمارے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، چنانچہ ہم ہیں کہ دل بھرکر بے ایمانی، کرپشن، جھوٹ، دھوکا دہی، قبضہ گیری، بے رحمی، خودغرضی، دوسروں کے چھوٹے بڑے حقوق کی پامالی، جو چاہیں بے دھڑک کرتے پھرتے ہیں، کہ گناہ تو سارے معاف ہو ہی جائیں گے۔
جب تک اس ایک ایک بندے و بندی کی سچی معافی نہ مل جائے کہ جس کا رتی برابر بھی حق مارا گیا ہو اور جب تک کرپشن، بے ایمانی، حرام کا ایک ایک پیسہ اور اس پیسے سے بنائی گئی مال و دولت کا ایک ایک ذرہ واپس نہ کر دیا جائے، حقوق العباد کے گناہ معاف نہیں کیے جائیں گے۔ یہ ہمیں صاف صاف بتا اور سمجھا دیا گیا ہے مگر ہمیں تو جیسے حقوق العباد کی موجودگی ہی کا نہیں پتہ تو ان کی وسعت، گہرائی اور باریکیوں کا کیا احساس ہو گا اور مثلاً یہ کہ تعلیم سے ہی ترقی ہو گی۔ کیسے ہو گی جب کہ ہمارے ہاں تو تعلیم بڑھنے کے ساتھ ہماری قومی تنزلی ہی بڑھی ہے۔
2013-2014ء میں ہماری شرح خواندگی PAKISTAN BUREAU OF STATISTICS (PBS) کے اگست میں 2013ء سے جون 2014ء تک کیے جانے والے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ میژرمنٹ سروے کے مطابق 60 فیصد سے کم ہو کر 58 فیصد ہو گئی۔ اب بولیے۔ ادھر 2013-2014ء میں ہماری وفاقی و صوبائی حکومتوں نے تعلیم کے لیے قومی جی ڈی پی کا 2.1% یعنی 537 ارب روپے مختص کیے، جب کہ 2015-2016ء کے مجموعی وفاقی و صوبائی بجٹوں میں کل ملا کر 734 ارب یعنی تہتر ہزار چار سو کروڑ روپے جو کہ GDP کا 2.68% بنتے ہیں، رکھے گئے۔ اس کے باوجود بلوچستان میں 66 فیصد، سندھ میں 51 فیصد، پنجاب میں 47 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 34 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں۔ صرف صوبہ سندھ میں ہی ہر سال پہلی جماعت میں داخلہ لینے والے تقریباً آٹھ لاکھ بچوں میں سے تقریباً آدھے یعنی کوئی چار لاکھ بچے پانچویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔
یہ پورے ان پڑھ، یہ تھوڑے پڑھے یعنی پرائمری و سیکنڈری اسکول چھوڑ جانے والے بے منزل بچے کہاں جائیں گے؟ کیا کریں گے؟ اور یہ تقریباً ایک کروڑ باسٹھ لاکھ تعلیم حاصل کرنے والے بچے تعلیم حاصل کر کے کہاں جائیں گے؟ اور کیا کریں گے؟ یہاں تو MA بلکہ MBA والے رُلتے پھرتے ہیں تو یہ پورے ان پڑھ اور تھوڑے پڑھے کیا کریں گے؟ زندگی کیسے گزاریں گے؟
زراعت زوال پذیر ہے، ہماری زرخیز زمینوں پہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور دنیا بھر میں ترک کیے جانے والے کوئلے سے بجلی بنانے کے پلانٹ لگ رہے ہیں، دیہی کاروباری معیشت تو ورلڈ بینک کے دنیا بھر کی 189 معیشتوں میں کاروبار کرنے کے لیے بہتر معیشتوں کی نشاندہی کے انڈیکس "EASE OF DOING BUSINESS INDEX 2015"ء کے مطابق پاکستان مزید دو درجے تنزلی کے بعد 138 ویں نمبر پر پہنچ گیا۔سرکاری ملازمتیں بھی آخر کتنی بیچی جائیں، معاف کیجیے گا فراہم کی جائیں کہ اب تو اکثر تنخواہیں دینی مشکل ہو جاتی ہیں۔ پھر ہر کوئی سندھ کے سرکاری ملازموں سا خوش نصیب نہیں کہ جہاں کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے چند ہفتے قبل ہی آبزرویشن دی کہ سندھ میں معمولی سرکاری ملازم بھی ہر سال نئی لینڈ کروزر نکلواتا ہے۔ جی ہاں اسی سندھ میں جہاں ہر سال سیکڑوں بچے صرف تھر میں ہی غذائی قلت اور علاج معالجے کی کمیاب سہولتوں کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔
7 اپریل 2016ء کو حکومت پاکستان کے اعلان کے مطابق 6 کروڑ پاکستانی سطح غربت سے بھی نیچے موجود ہیں۔ یہ کروڑوں غریب، غریب سے غریب، ان پڑھ، معمولی پڑھے لکھے عام لوگ اور ان کے عام سے بچے کیا کریں کہ زندگی گزار سکیں؟ نت نئی بدلتی ٹیکنالوجی، مشینوں اور فنی صلاحیتوں کے اس سخت دور میں یہ کام خالی ہاتھ کیا کریں؟ ہمیں ان کے لیے کچھ ہٹ کر سوچنا اور کرنا ہو گا مثلاً یہ کہ ہم بنیادی تعلیم کو شروع سے ہی اسپیشلائزڈ کر دیں اور اس کام کے لیے ہمیں ناخواندہ اور پرائمری و سیکنڈری پاس بچوں اور بڑوں کے لیے ''ایک گھنٹہ اسکول'' قائم کرنا ہوں گے۔
ان ایک گھنٹہ اسکولوں میں ان لوگوں کو مخصوص ٹیکنیکل تعلیم و ٹریننگ دی جائے تاکہ یہ فنی ہنرمند بن کر بہتر آمدنی حاصل کر سکیں۔ یہ ایک گھنٹہ اسکول پہلے سے موجود سرکاری اسکولوں میں ان کے روز کے اوقات کار کے بعد شام میں کام کریں، اس سے ان تمام بچوں اور بڑوں کو فائدہ پہنچ سکے گا جو سارا سارا دن مختلف جگہوں پر محنت مزدوری کرتے ہیں اور باقاعدہ اسکول ٹائمنگ کے تحت وقت نہیں نکال سکتے۔
ان ایک گھنٹہ اسکولوں میں ان کے علاقے کی معیشت کے لحاظ سے متعلقہ شعبوں کی ٹیکنیکل تعلیم و تربیت دی جائے، ان ایک گھنٹہ اسکولوں میں دی جانے والی فنی تعلیم کے مختلف درجات ہوں تاکہ ان میں پڑھنے والے لوگ اپنی فنی صلاحیتوں SKILLS کو مسلسل بہتر کرسکیں۔ ان ایک گھنٹہ اسکولوں سے باروزگار اور بے روزگار دونوں طرح کے بچوں اور بڑوں کو فائدہ پہنچ سکے گا اور وہ اپنے اپنے شعبوں میں بہتر روزگار یا چھوٹا موٹا کام و کاروبار کرسکیں گے۔
ان اسکولوں میں فنی تعلیم و تربیت دینے کے لیے موجودہ متعلقہ اساتذہ کے علاوہ ان شعبوں میں کام کرنے والے پروفیشنل لوگوں کی خدمات بھی حاصل کی جاسکتی ہیں جس کے عوض انھیں اضافی آمدنی حاصل ہوسکے گی۔ اس کے لیے علاقے کے مخیر حضرات، تنظیموں اور کاروباری اداروں سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ میں کافی عرصے سے ایک گھنٹہ اسکول کا آئیڈیا پیش کررہا ہوں مگر کسی کو دلچسپی نہیں۔ حکمرانوں کو میگا پراجیکٹ پسند ہیں۔ رہی ملکی و غیر ملکی این جی اوز تو ان میں بیٹھی بیوروکریسی ان این جی اوز سے باہر موجود لوگوں اور ان کے آئیڈیاز سے نفرت کرتی ہے کیونکہ اس سے ان کے لگے بندھے ''سلسلوں'' میں رخنہ پڑنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔