ذہانت و صلاحیت کے شاہکار
پاناما پیپرز کیا سامنے آئے ہمارے ملک کی سیاست میں تو ہلچل مچ گئی (ہماری کیا دنیا بھر کی) سیاسی ہلچل تو ہوتی رہی ہے
KARACHI:
پاناما پیپرز کیا سامنے آئے ہمارے ملک کی سیاست میں تو ہلچل مچ گئی (ہماری کیا دنیا بھر کی) سیاسی ہلچل تو ہوتی رہی ہے مگر ہمارے سیاستدانوں کی جو صلاحیتیں پوری طرح منظر عام پر آ نہیں پا رہی تھیں وہ اب کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے سیاستداں بلکہ خود وطن عزیز میں پہلے اتنے باکردار، بااصول، مخلص اور فعال سیاستدان پہلے کبھی نہ تھے جتنے آج کل کے ہیں، کیونکہ بہترین سیاسی شخصیت کی تعریف یہی ہے کہ اپنے مدمقابل کو بھرپور، برمحل منہ توڑ جواب مکمل اعتماد کے ساتھ دے سکے۔
سیاستدان کی متذکرہ تعریف کے ثبوت کے لیے ہم چند بیانات اخبارات (صرف دو دن کے) سے لے کر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں، جس سے قارئین اپنے ملکی سیاستدانوں کی اعلیٰ ظرفی، لیاقت، عملی انتظامات اور حاضر جوابی سے بخوبی واقف ہو سکیں گے۔ لہٰذا ہم ان بیانات میں نہ کوئی اضافہ کر رہے ہیں نہ کمی، جوں کے توں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ البتہ کہیں کہیں مختصر تبصرہ ضرور شامل کیا ہے، آپ اس کو نظرانداز بھی کر سکتے ہیں۔
لیجیے پہلا دھماکا خیز بیان ملاحظہ فرمائیے ''میاں صاحب اس بار گھر نہیں جیل جائیں گے'' عمران خان۔ حالانکہ پاکستان میں کبھی ایسا ہوا نہیں، جیل کے بجائے لندن، سوئٹزرلینڈ، امریکا تو جا سکتے ہیں (تبصرہ) ''ایک کرپٹ شخص کا بچہ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہا ہے، جن کے والد کے دور میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا... بچے کو سوچ سمجھ کر زبان کھولنی چاہیے'' وزیراعلیٰ پنجاب۔ بچے کی بات پر اتنا برا منانا بڑوں کو زیب نہیں دیتا۔
باپ کے اعمال کا ذمے دار بچہ تو نہیں (تبصرہ) ''عمران خان چوہے تو مار نہیں سکتے شیروں سے کیا مقابلہ کریں گے'' وفاقی وزراء۔ گویا چوہا اور شیر ایک سطح کے جانور ہیں ان کا آپس میں مقابلہ ہو سکتا ہے؟ (تبصرہ)۔ ''خواجہ آصف ایسے لگ رہے تھے جیسے پینٹ کوٹ میں چوہا'' عمران خان۔ یہ بیان اعلیٰ ذہنی و علمی لیاقت کا بہترین اظہار ہے (تبصرہ)۔ ''ہمارے فرانزک آڈٹ نہیں اپنے ڈی این اے کی فکر کریں'' پرویز رشید۔ ارادے خطرناک ہیں، قاتلانہ حملے کی پیشگی رپورٹ درج کرائی جا سکتی ہے (تبصرہ)۔ ''پشاور کے چوہے تو مار نہیں سکتے لاہور کے شیروں کا مقابلہ کرنے نکلے ہیں'' سعد رفیق۔ مارنا اور مقابلہ کرنا دو مختلف چیزیں ہیں یوں بھی چوہا افگن کبھی نہیں سنا البتہ شیر افگن ضرور سنا تھا (تبصرہ) ''عمران کے ساتھ کھڑے قرضہ خور احتساب سے نہیں بچ سکتے'' شہباز شریف۔ ''گویا پاکستان میں احتساب بھی ہوتا ہے (تبصرہ)۔ ''شہباز شریف شو بازی چھوڑ دیں۔
بتائیں پیسہ کیسے باہر گیا؟'' جہانگیر خان۔ کیا آپ کو خود نہیں معلوم، تعجب ہے (تبصرہ) ''پاناما لیکس والوں کو پاناما میں بھی پناہ نہیں ملے گی'' سراج الحق۔ پاناما میں ملے نہ ملے دوسرے کئی ممالک میں مل جائے گی (تبصرہ) ''دھرنے والے خود پانامالیکس میں شامل ہیں'' فضل الرحمن۔ پاناما والوں نے یہ اطلاع خود آپ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی ہو گی (تبصرہ) ''جلسے میں خواتین سے بدتمیزی (ن) لیگ کے بھیجے غنڈوں نے کی'' نعیم الحق۔ افسوس پی ٹی آئی کے پاس غنڈے بھی نہیں پھر آخر وہ کریں گے کیا؟ (تبصرہ) ''نواز شریف استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں'' خورشید شاہ۔ حالانکہ معمولی معمولی بدعنوانی پر لوگ 90 دن کے ریمانڈ پر رینجرز کی تحویل میں دیے جاتے ہیں (تبصرہ)۔ ''وزیراعظم پانامہ لیکس پر صفائی پیش کرنے کے لیے اشتہاری مہم پر کروڑوں خرچ کر رہے ہیں'' خورشید شاہ۔ آپ کیوں جلتے ہیں جب ان کے پاس اربوں ہیں تو وہ کروڑوں خرچ بھی کر سکتے ہیں ۔
(تبصرہ) ''رائیونڈ کی طرف رخ کرنے والوں کی میاں صاحب کے متوالے اور پرستار ٹانگیں توڑ دیں گے'' زعیم قادری۔ مگر کیوں؟ احتجاج وہ بھی کرپشن پر کرنا سب کا جمہوری حق ہے (تبصرہ) ''چوہوں سے ڈرنے والے پنجاب کے شیروں کو چھیڑ رہے ہیں'' فضل الرحمن۔ پنجاب کے شیر کیا کوئی خاص شیر ہوتے ہیں؟ ''چوہوں سے ڈرنے والے اے آسمان نہیں ہم ''(پی ٹی آئی)'' چھیڑ شیروں سے چلی جائے خان'' ویسے چھیڑ چھاڑ اچھی بات نہیں (تبصرہ) ''وزیر اعظم کہیں نہیں جائیں گے، ان لوگوں کی باری آئی تو گھر ملے گا نہ جیل، یہ سسرال جائیں گے'' فضل الرحمن۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر وزیراعظم کیا آپ کے گھر جائیں گے؟ (تبصرہ) فضل الرحمن بڑے دور اندیش سیاستدان ہیں۔
موصوف کی صلاحیتوں اور خصائل سے مزید واقفیت کے لیے سابق سفیر پاکستان کرامت اللہ غوری کی تازہ تصنیف بار شناسائی کا مطالعہ فرمائیے (راقم الحروف) ''نواز شریف کے شور سے لگتا ہے کہ وہ قصوروار ہیں'' عمران خان۔ شاید اس بار اندازہ درست ثابت ہو جائے (تبصرہ)۔ ''یہ جوڑی سلامت رہے، وفاقی وزیر اکرم خان کی وزیراعظم اور فضل الرحمن کے لیے دعا'' مشکل ہے کیونکہ فضل الرحمن ہوا کا رخ پہچاننے کی بڑی صلاحیت رکھتے ہیں (تبصرہ) ''نواز شریف للکاریں گے تو نتیجہ غیر جمہوری نکلے گا'' شیخ رشید۔ گویا جو کچھ ہو رہا ہے وہ عین جمہوری ہے (تبصرہ) ''پانامہ لیکس نے سیاستدانوں کا بھانڈا پھوڑ دیا'' افتخار چوہدری۔ پھر بھی خود سیاست میں قدم رنجہ فرما رہے ہیں۔
(تبصرہ) ''پاناما لیکس کہیں جمہوریت لیکس نہ بن جائے'' رحمن ملک۔ آپ ماضی و حال کی جمہوریت کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں، کہ کبھی تھی بھی یا نہیں (تبصرہ)۔ ''نواز شریف پاناما لیکس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں'' رضا ہارون۔ چھاج تو بولا ہی بولا، چھلنی بھی بولی (تبصرہ)۔ ''سعد رفیق نے تحریک انصاف کے جلسے کو نیو لکی عمرانی سرکس قرار دے دیا'' بالکل درست کیونکہ موصوف خود بھی ایسے سرکس میں کام کرتے ہیں (تبصرہ) لیجیے اب بامحاورہ علمی گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ''آپ کے کہنے پر گھر چلا جاؤں، یہ منہ اور مسور کی دال'' نواز شریف۔ ملکی سیاست میں تین بار پی ایچ ڈی کرنے کے بعد کیا اتنی اچھی اردو بھی نہ آئے گی؟ (تبصرہ) ''راجن پور کے بعد لاہور میں چھوٹو گینگ پکڑا جائے گا'' پیپلز پارٹی۔ کیونکہ ان کے دور میں تو سب آزاد ملک کے آزاد شہری تھے جو کچھ کرنا چاہے بلا روک ٹوک کرے مگر حصہ ملتا رہنا شرط تھی (تبصرہ)پاناما لیکس پر ہر اردو انگریزی اخبار میں روزانہ کئی کئی کالم مختلف زاویوں سے لکھے جا رہے ہیں۔
ہم نے سوچا کہ ہم ان کے سامنے کیا لکھیں۔ چھوٹا منہ بڑی بات مگر ایک دن جوش میں آ کر لکھ دیا، اس میں ہم نے ملک کے بڑے اہم کالم نگار و تجزیہ کار کا ایک جملہ شامل کیا تھا کہ برطانیہ، آسٹریلیا، آئس لینڈ، جرمنی، بھارت غرض سب جگہ پاناما لیکس پر کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے، مگر پاکستان میں کچھ نہ ہو گا۔ اب ان سے گزارش ہے کہ دیکھ لیں پاکستان میں بھی اس سلسلے میں کیا کچھ نہیں ہو رہا۔
پاناما پیپرز کیا سامنے آئے ہمارے ملک کی سیاست میں تو ہلچل مچ گئی (ہماری کیا دنیا بھر کی) سیاسی ہلچل تو ہوتی رہی ہے مگر ہمارے سیاستدانوں کی جو صلاحیتیں پوری طرح منظر عام پر آ نہیں پا رہی تھیں وہ اب کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ دنیا بھر میں ایسے سیاستداں بلکہ خود وطن عزیز میں پہلے اتنے باکردار، بااصول، مخلص اور فعال سیاستدان پہلے کبھی نہ تھے جتنے آج کل کے ہیں، کیونکہ بہترین سیاسی شخصیت کی تعریف یہی ہے کہ اپنے مدمقابل کو بھرپور، برمحل منہ توڑ جواب مکمل اعتماد کے ساتھ دے سکے۔
سیاستدان کی متذکرہ تعریف کے ثبوت کے لیے ہم چند بیانات اخبارات (صرف دو دن کے) سے لے کر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کر رہے ہیں، جس سے قارئین اپنے ملکی سیاستدانوں کی اعلیٰ ظرفی، لیاقت، عملی انتظامات اور حاضر جوابی سے بخوبی واقف ہو سکیں گے۔ لہٰذا ہم ان بیانات میں نہ کوئی اضافہ کر رہے ہیں نہ کمی، جوں کے توں آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ البتہ کہیں کہیں مختصر تبصرہ ضرور شامل کیا ہے، آپ اس کو نظرانداز بھی کر سکتے ہیں۔
لیجیے پہلا دھماکا خیز بیان ملاحظہ فرمائیے ''میاں صاحب اس بار گھر نہیں جیل جائیں گے'' عمران خان۔ حالانکہ پاکستان میں کبھی ایسا ہوا نہیں، جیل کے بجائے لندن، سوئٹزرلینڈ، امریکا تو جا سکتے ہیں (تبصرہ) ''ایک کرپٹ شخص کا بچہ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگ رہا ہے، جن کے والد کے دور میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا... بچے کو سوچ سمجھ کر زبان کھولنی چاہیے'' وزیراعلیٰ پنجاب۔ بچے کی بات پر اتنا برا منانا بڑوں کو زیب نہیں دیتا۔
باپ کے اعمال کا ذمے دار بچہ تو نہیں (تبصرہ) ''عمران خان چوہے تو مار نہیں سکتے شیروں سے کیا مقابلہ کریں گے'' وفاقی وزراء۔ گویا چوہا اور شیر ایک سطح کے جانور ہیں ان کا آپس میں مقابلہ ہو سکتا ہے؟ (تبصرہ)۔ ''خواجہ آصف ایسے لگ رہے تھے جیسے پینٹ کوٹ میں چوہا'' عمران خان۔ یہ بیان اعلیٰ ذہنی و علمی لیاقت کا بہترین اظہار ہے (تبصرہ)۔ ''ہمارے فرانزک آڈٹ نہیں اپنے ڈی این اے کی فکر کریں'' پرویز رشید۔ ارادے خطرناک ہیں، قاتلانہ حملے کی پیشگی رپورٹ درج کرائی جا سکتی ہے (تبصرہ)۔ ''پشاور کے چوہے تو مار نہیں سکتے لاہور کے شیروں کا مقابلہ کرنے نکلے ہیں'' سعد رفیق۔ مارنا اور مقابلہ کرنا دو مختلف چیزیں ہیں یوں بھی چوہا افگن کبھی نہیں سنا البتہ شیر افگن ضرور سنا تھا (تبصرہ) ''عمران کے ساتھ کھڑے قرضہ خور احتساب سے نہیں بچ سکتے'' شہباز شریف۔ ''گویا پاکستان میں احتساب بھی ہوتا ہے (تبصرہ)۔ ''شہباز شریف شو بازی چھوڑ دیں۔
بتائیں پیسہ کیسے باہر گیا؟'' جہانگیر خان۔ کیا آپ کو خود نہیں معلوم، تعجب ہے (تبصرہ) ''پاناما لیکس والوں کو پاناما میں بھی پناہ نہیں ملے گی'' سراج الحق۔ پاناما میں ملے نہ ملے دوسرے کئی ممالک میں مل جائے گی (تبصرہ) ''دھرنے والے خود پانامالیکس میں شامل ہیں'' فضل الرحمن۔ پاناما والوں نے یہ اطلاع خود آپ کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی ہو گی (تبصرہ) ''جلسے میں خواتین سے بدتمیزی (ن) لیگ کے بھیجے غنڈوں نے کی'' نعیم الحق۔ افسوس پی ٹی آئی کے پاس غنڈے بھی نہیں پھر آخر وہ کریں گے کیا؟ (تبصرہ) ''نواز شریف استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں'' خورشید شاہ۔ حالانکہ معمولی معمولی بدعنوانی پر لوگ 90 دن کے ریمانڈ پر رینجرز کی تحویل میں دیے جاتے ہیں (تبصرہ)۔ ''وزیراعظم پانامہ لیکس پر صفائی پیش کرنے کے لیے اشتہاری مہم پر کروڑوں خرچ کر رہے ہیں'' خورشید شاہ۔ آپ کیوں جلتے ہیں جب ان کے پاس اربوں ہیں تو وہ کروڑوں خرچ بھی کر سکتے ہیں ۔
(تبصرہ) ''رائیونڈ کی طرف رخ کرنے والوں کی میاں صاحب کے متوالے اور پرستار ٹانگیں توڑ دیں گے'' زعیم قادری۔ مگر کیوں؟ احتجاج وہ بھی کرپشن پر کرنا سب کا جمہوری حق ہے (تبصرہ) ''چوہوں سے ڈرنے والے پنجاب کے شیروں کو چھیڑ رہے ہیں'' فضل الرحمن۔ پنجاب کے شیر کیا کوئی خاص شیر ہوتے ہیں؟ ''چوہوں سے ڈرنے والے اے آسمان نہیں ہم ''(پی ٹی آئی)'' چھیڑ شیروں سے چلی جائے خان'' ویسے چھیڑ چھاڑ اچھی بات نہیں (تبصرہ) ''وزیر اعظم کہیں نہیں جائیں گے، ان لوگوں کی باری آئی تو گھر ملے گا نہ جیل، یہ سسرال جائیں گے'' فضل الرحمن۔ وہ تو ٹھیک ہے مگر وزیراعظم کیا آپ کے گھر جائیں گے؟ (تبصرہ) فضل الرحمن بڑے دور اندیش سیاستدان ہیں۔
موصوف کی صلاحیتوں اور خصائل سے مزید واقفیت کے لیے سابق سفیر پاکستان کرامت اللہ غوری کی تازہ تصنیف بار شناسائی کا مطالعہ فرمائیے (راقم الحروف) ''نواز شریف کے شور سے لگتا ہے کہ وہ قصوروار ہیں'' عمران خان۔ شاید اس بار اندازہ درست ثابت ہو جائے (تبصرہ)۔ ''یہ جوڑی سلامت رہے، وفاقی وزیر اکرم خان کی وزیراعظم اور فضل الرحمن کے لیے دعا'' مشکل ہے کیونکہ فضل الرحمن ہوا کا رخ پہچاننے کی بڑی صلاحیت رکھتے ہیں (تبصرہ) ''نواز شریف للکاریں گے تو نتیجہ غیر جمہوری نکلے گا'' شیخ رشید۔ گویا جو کچھ ہو رہا ہے وہ عین جمہوری ہے (تبصرہ) ''پانامہ لیکس نے سیاستدانوں کا بھانڈا پھوڑ دیا'' افتخار چوہدری۔ پھر بھی خود سیاست میں قدم رنجہ فرما رہے ہیں۔
(تبصرہ) ''پاناما لیکس کہیں جمہوریت لیکس نہ بن جائے'' رحمن ملک۔ آپ ماضی و حال کی جمہوریت کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں، کہ کبھی تھی بھی یا نہیں (تبصرہ)۔ ''نواز شریف پاناما لیکس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیں'' رضا ہارون۔ چھاج تو بولا ہی بولا، چھلنی بھی بولی (تبصرہ)۔ ''سعد رفیق نے تحریک انصاف کے جلسے کو نیو لکی عمرانی سرکس قرار دے دیا'' بالکل درست کیونکہ موصوف خود بھی ایسے سرکس میں کام کرتے ہیں (تبصرہ) لیجیے اب بامحاورہ علمی گفتگو بھی ملاحظہ فرمائیے۔ ''آپ کے کہنے پر گھر چلا جاؤں، یہ منہ اور مسور کی دال'' نواز شریف۔ ملکی سیاست میں تین بار پی ایچ ڈی کرنے کے بعد کیا اتنی اچھی اردو بھی نہ آئے گی؟ (تبصرہ) ''راجن پور کے بعد لاہور میں چھوٹو گینگ پکڑا جائے گا'' پیپلز پارٹی۔ کیونکہ ان کے دور میں تو سب آزاد ملک کے آزاد شہری تھے جو کچھ کرنا چاہے بلا روک ٹوک کرے مگر حصہ ملتا رہنا شرط تھی (تبصرہ)پاناما لیکس پر ہر اردو انگریزی اخبار میں روزانہ کئی کئی کالم مختلف زاویوں سے لکھے جا رہے ہیں۔
ہم نے سوچا کہ ہم ان کے سامنے کیا لکھیں۔ چھوٹا منہ بڑی بات مگر ایک دن جوش میں آ کر لکھ دیا، اس میں ہم نے ملک کے بڑے اہم کالم نگار و تجزیہ کار کا ایک جملہ شامل کیا تھا کہ برطانیہ، آسٹریلیا، آئس لینڈ، جرمنی، بھارت غرض سب جگہ پاناما لیکس پر کچھ نہ کچھ ہو سکتا ہے، مگر پاکستان میں کچھ نہ ہو گا۔ اب ان سے گزارش ہے کہ دیکھ لیں پاکستان میں بھی اس سلسلے میں کیا کچھ نہیں ہو رہا۔