رہائی پانیوالے طالبان رہنما افغانستان نہیں جائیں گے مفاہمتی عمل میں معاونت مشکوک
طالبان قیادت کا اپنے ہرساتھی پراعتمادہے نہ رہا ہونیوالے طالبان کا قیادت سے رابطہ
SIALKOT:
افغان ہائی پیس کونسل کی درخواست پر پاکستان کی جانب سے رہا کئے جانے والے طالبان قیدیوں کے کردار اور اس رہائی کے ممکنہ فوائد کے حوالے سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہورہا ہے۔
افغان طالبان کے ذرائع کے مطابق طالبان قیادت نے اب تک مذاکراتی ادوار میں جن طالبان رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا ان میں سے ایک بھی رہنما کو رہا نہیں کیاگیا جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جن قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے وہ نہ تو طالبان قیادت سے روابط رکھتے ہیں اور نہ مذاکرات کے حوالے سے امریکہ، پاکستان اور افغان حکومت کی کوئی مددکرسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق رہا ہونیوالے طالبان قیدی پاکستان میں ہی دوسرے افغان مہاجرین کی طرح رہ سکیں گے تاہم مستقبل میں ان کے افغانستان دورے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔
قطر میں تعطل کا شکار ہونے والے امریکا طالبان مذاکرات میں طالبان نے تین سال سے قید ایک امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے گوانتاموبے میں قید پانچ اہم طالبان رہنمائوں کی رہائی کی شرط رکھی تھی جو امریکا نے نہیں مانی جس کے بعد طالبان نے بات چیت کا سلسلہ ختم کردیا۔ ان رہنمائوں میں طالبان دور کے چیف آف آرمی اسٹاف ملافضل، ہرات کے سابق گورنر ملا خیراللہ خیرخواہ، سابق چیف جسٹس نوراللہ نوری،انٹیلی جنس وائس چیف مولوی عبدالحق وثیق اور خوست کے اہم طالبان کمانڈر مولوی محمد نبی شامل ہیں۔
ان کے علاوہ طالبان کی مالی معاونت کے الزام میں ایک اہم رہنماء حاجی ولی محمد صراف بھی گوانتاناموبے میں قید ہیں تاہم طالبان کی طرف سے فراہم کی جانے والی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔ افغان امن کونسل کی جانب سے حکومت پاکستان کو پیش کی جانے والی فہرست میں جن اہم رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا ان میں سے بعض مفاہمتی عمل میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں،افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق طالبان مذکورہ فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں، ترجمان کے مطابق افغان باشندے گزشتہ تیس سال سے پاکستان میں مہاجرکی حیثیت سے زندگی گذار رہے ہیں، طالبان کے بعض ذمے داران بھی علاج کی خاطر پاکستان گئے تھے۔
افغان ہائی پیس کونسل کی درخواست پر پاکستان کی جانب سے رہا کئے جانے والے طالبان قیدیوں کے کردار اور اس رہائی کے ممکنہ فوائد کے حوالے سے شکوک و شبہات میں اضافہ ہورہا ہے۔
افغان طالبان کے ذرائع کے مطابق طالبان قیادت نے اب تک مذاکراتی ادوار میں جن طالبان رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا ان میں سے ایک بھی رہنما کو رہا نہیں کیاگیا جبکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ جن قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے وہ نہ تو طالبان قیادت سے روابط رکھتے ہیں اور نہ مذاکرات کے حوالے سے امریکہ، پاکستان اور افغان حکومت کی کوئی مددکرسکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق رہا ہونیوالے طالبان قیدی پاکستان میں ہی دوسرے افغان مہاجرین کی طرح رہ سکیں گے تاہم مستقبل میں ان کے افغانستان دورے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔
قطر میں تعطل کا شکار ہونے والے امریکا طالبان مذاکرات میں طالبان نے تین سال سے قید ایک امریکی فوجی کی رہائی کے بدلے گوانتاموبے میں قید پانچ اہم طالبان رہنمائوں کی رہائی کی شرط رکھی تھی جو امریکا نے نہیں مانی جس کے بعد طالبان نے بات چیت کا سلسلہ ختم کردیا۔ ان رہنمائوں میں طالبان دور کے چیف آف آرمی اسٹاف ملافضل، ہرات کے سابق گورنر ملا خیراللہ خیرخواہ، سابق چیف جسٹس نوراللہ نوری،انٹیلی جنس وائس چیف مولوی عبدالحق وثیق اور خوست کے اہم طالبان کمانڈر مولوی محمد نبی شامل ہیں۔
ان کے علاوہ طالبان کی مالی معاونت کے الزام میں ایک اہم رہنماء حاجی ولی محمد صراف بھی گوانتاناموبے میں قید ہیں تاہم طالبان کی طرف سے فراہم کی جانے والی فہرست میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔ افغان امن کونسل کی جانب سے حکومت پاکستان کو پیش کی جانے والی فہرست میں جن اہم رہنمائوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا ان میں سے بعض مفاہمتی عمل میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں،افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق طالبان مذکورہ فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں، ترجمان کے مطابق افغان باشندے گزشتہ تیس سال سے پاکستان میں مہاجرکی حیثیت سے زندگی گذار رہے ہیں، طالبان کے بعض ذمے داران بھی علاج کی خاطر پاکستان گئے تھے۔