امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

ساکت کیمرہ ایک بلند عمارت پہ فوکس ہے۔ بس اتنی دیر کہ نگاہ اس منظر کی عادی ہوجائے۔

harfetaza@yahoo.com

ساکت کیمرہ ایک بلند عمارت پہ فوکس ہے۔ بس اتنی دیر کہ نگاہ اس منظر کی عادی ہوجائے۔جیسے ہی نظر اس منظر سے آشنا ہوئی فضا میں کسی نامعلوم سمت سے آنیوالے مارٹر گولے نے عمارت کے پرخچے اڑا دیئے۔غبار بلند ہوا اور اگلے ہی لمحے وہاں ملبے کے ڈھیر کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ کسی ویڈیو گیم کا نہیں شام کے شہر حلب کا ایک منظر ہے ۔یہ وہی حلب ہے جہاں آرمینائی مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد قدیم زمانے سے بستی ہے اور جہاں آج کل روسی طیارے آگ اگلتے نظر آتے ہیں۔

امسال تیس اپریل کو اسلامک اسٹیٹ کے ابو ایوب انصاری بریگیڈ نے اچانک اپنی پوزیشن تبدیل کی اور رقہ سے حلب کے شمال میں واقع دابق میں تقریبا 300 جنگجوؤں اور بھاری آرٹلری کے ساتھ پوزیشن سنبھال لی۔ اس کے ساتھ ہی شامی فوج اور روسی طیاروں نے حلب پہ حملہ کر دیا۔ یہ حملے اسلامی اسٹیٹ پہ الباب،رسم العالم اور منبیج کے قصبوں پہ جب کہ جبہۃ النصرہ پہ تل عیسی، المنصورہ اور عنادان میںکئے گئے۔اس کے ساتھ ہی حلب ساری دنیا کے میڈیا کی نظروں میں آگیا لیکن شاید ہی کسی نے یہ حقائق بیان کیے ہوں کیونکہ اس سے بات نکلتی ہے تو نہ صرف دور تک جاتی ہے بلکہ ناگوار بھی گذرتی ہے۔

بازنطینیہ کے زیر تسلط آرمینیا پہ جب سلجوقی حکمرانوں نے قبضہ کیا تو آرمینائی مسیحیوں کی بڑی تعداد نے شام کے شمالی علاقوں رقہ ، حمص اور حلب کی طرف ہجرت کی۔آج بھی شرق وسطی کے آرمینیائی مسیحیوں کی سب سے بڑی تعداد حلب میں بستی ہے جہاں وہ نہ صرف امن سے زندگی گذارتے رہے بلکہ شامی افواج میں بھی قابل ذکر تعداد میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔2011 سے شروع ہونیوالے شامی بحران میں یہ آرمینیائی مسیحی شامی افواج اور حکومت کے وفادار رہے اور حکومت کے شانہ بشانہ باغی گروپوں کے خلاف لڑتے رہے۔شامی فوج میں حلب سے تعلق رکھنے والے ان مسیحیوں کا مخصوص بریگیڈ ریپبلکن گارڈز کے نام سے موجود ہے ۔

2012 میں جب فری سیرین آرمی نے حلب پہ حملہ کیا تو شہر کے اندر شامی افواج کا دفاع کرنیوالی یونٹ یہی تھی۔2014ء کے اوائل میں شامی فوج نے ایرانی عسکری ماہرین کے زیرنگرانی ان علاقوں کا دفاع کرنے کے لیے جہا ں سے شامی افواج ہتھیار پھینک کر بھاگ کھڑی ہوئی تھیں ان ہی شہریوں پہ مشتمل سول نیشنل ڈیفینس فورس بنائی ۔جب تمام نان اسٹیٹ ایکٹرز میدان میں آئے تو پورے شام سے اس فورس میں نوجوان بھرتی ہونے شروع ہوئے جن میں سترہ ہزار کا تعلق حلب سے تھا۔

جب شامی فوج نے کساب کا قصبہ باغیوں سے واگزار کروایا تو یہی نوجوان مذہبی جوش و خروش کے ساتھ شامی افواج کے شانہ بشانہ لڑے اور اس منظر کو اپنی آرمینیا سے بے دخلی کا ایک چھوٹا سا بدلہ سمجھے۔ 2015 میں جب القاعدہ کے انصار الحلب گروپ نے حلب کے مغرب اور شمال میں پیش قدمی کی اور شامی فوج سے خوفناک جھڑپ کے بعد الراشدین پہ قبضہ کرلیا تو یہ نیشنل ڈیفینس فورس کے آرمیننی جوان ہی تھے جنہوں نے انھیں الخالدیہ ، العزیزہ اور سلیمانیہ پہ قبضہ کرنے سے روکا۔وہ القاعدہ کے ان جنگجووں کو عثمانی دہشتگردوں کے لقب سے پکارتے تھے جنہوں نے 1915 میں ان مسیحیوں کا آرمینیا میں قتل عام کیا تھا۔

دی انڈیپینڈنٹ کا مرد خوش نویس رابرٹ فسک جو اپنے فقروں کی گہری کاٹ کے باعث ہمیں دل کے بہت قریب محسوس ہوتا ہے گذشتہ کئی برسوں سے آرمینیا نسل کشی پہ بلا وجہ ہی صفحے کالے نہیں کر رہا۔ بزرگوار کو نیٹو ممبر ترکی پہ تو غصہ ہے ہی کہ وہ تھا ہی اس سانحے کا ذمے دار ساتھ ہی امریکا اور برطانیہ پہ بھی کہ ترکی سے پوچھتے کیوں نہیں ۔اس کے ساتھ ہی آرتھوڈوکس کلیسا میں بھی ایک ہلچل سی مچ گئی۔

عمان میں ہونے والی ایک کانفرنس میں دنیا بھر سے اکٹھے ہوئے مسیحی رہنماؤں نے شام اور بالخصوص حلب میں کہ وہاں ڈھائی ملین مسیحیوں میں سے ڈھائی لاکھ مسیحی بستے ہیں، بشار حکومت پہ مکمل اعتماد اور حمایت کا اظہار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ شام میں مغربی طاقتوں کی دخل اندازی باغی گروپوں کو سر اٹھانے کا موقع دیگی اور اگر بشار حکومت گئی تو یہ ہمیں نہیں چھوڑینگے۔واضح رہے کہ پورے مشرق وسطی میں اس وقت پچاس لاکھ سے زائد مسیحی موجود ہیں جو پوپ فرانسس کے مقلد ہیں۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار اوبامہ نے 2015 میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔


ان کا خیال تھا کہ بشار عیسائیوں کے محافظ ہیں اور ان کی حکومت اسی لیے قائم رہنی چاہیے۔جنوری 2016 میں پوپ فرانسس رشین اورتھوڈوکس پوپ کیریل سے کیوبا میں ملے اور یہ دونوں فرقوں کے مابین طویل عرصے سے جاری چپقلش کے تناظر میں انتہائی اہم ملاقات تھی۔اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے مشرق وسطی میں مسیحیوں کی نازک پوزیشن کے پیش نظر باہمی اتحاد کی اہمیت پہ زور دیا۔انھوں نے کہا کہ قریبا ایک ہزار سال سے ہم ایک دوسرے سے مکالمہ کرنے کے روادار نہیں تھے اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت نازک صورتحال ہے۔ دونوں عندلیب دیر تک آہ و زاریاں کرتے رہے۔ہمیں البتہ اس کی بھی توفیق نہ ہوئی۔

روس کی حلب میں دخل اندازی اور شامی فوج کے ساتھ مل کر مسلح باغی گروپوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ اپریل میں ہی کرلیا گیا تھا۔ شامی وزیر اعظم واعل الحلکی نے طاس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے اتحادی روس کے ساتھ ہیں اور حلب کو واگزار کروانے کے لیے ایک مشترکہ آپریشن شروع کرنیوالے ہیں۔روسی پارلیمنٹ کے ممبر Dmitry Sablin نے اعلان کیا کہ روسی فضائیہ شامی بری فوج کی مدد کریگی۔

گذشتہ سال روس نے اسی طرح بشار کی مدد کی تھی گو کہ پوٹن نے پچھلے ماہ کچھ فوج واپس بلا لی تھی تاہم اس کا ایئر بیس اب بھی لطاکیہ میں موجود ہے اور اسلامی اسٹیٹ کے خلاف متحرک ہے۔حلب کے آرچ بشپ Jean-Clément نے پوٹن کو مسیحیوں کے لیے امید کی کرن قرار دیا۔انھوں نے کہا کہ صرف پوٹن ہی ایسے رہ گئے ہیں جو اپنا مقصد حیات نہیں بھولے اور آپ بھی بھولے تو نہیں ہونگے کہ یہ وہی پوٹن ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ قبل باقاعدہ عیسائیت قبول کی اور پبتسمہ کروایا۔

سوویت یونین کے سقوط کے بعد پوٹن نے نہ صرف روس کی مذہبی حیثیت بحال کی بلکہ زار روس کی طرح وہ ایک مذہبی سیاسی حکمران کی طرح ابھرے اور کلیسا سے اپنا رشتہ مضبوط کیا حتی کہ مسیحیوؤں میں انھیں ایک معجز نما نجات دہندہ جیسی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ خود پوٹن کا کہنا ہے کہ وہ اسلامی اسٹیٹ کی مسیحیت کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دینگے، اس سلسلے میں وہ خود کو ایک مقدس جنگ میں محسوس کرتے ہیں۔ یہاں آپ کو صدر بش کی ناین الیون کے بعد والی تقریر یاد آجائے جس میں انھوں نے صلیبی جنگ کا تذکرہ کیا تھا تو بے محل نہ ہوگا گو وہ بعد میں اس کی وضاحتیں پیش کرتے رہے۔ حلب کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں یہ لفظ مسیحی دنیا میں کئی بار استعمال ہوا ۔

ہمارے یہاںاس سلسلے میںدور فتن کی احادیث میں بھی واضح اشارے ملتے ہیں۔معرکہ روم ہی وہ آخری جنگ عظیم ہے جس کے بعد قیامت کی بڑی علامتوںکا ظہور شروع ہو جائے گا۔ معرکہ کی تفصیل یہ ہے کہ شامی مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ایک جنگ ہوگی جس میں مسلمانوں کو فتح ہوگی اور وہ عیسائیوں کے مردوں اور عورتوں کو اپنا غلام بنا لیں گے۔ لشکر، شامی مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے شام پر حملہ آور ہوگا۔ شام کے شہر حلب کے قریب اعماق یا دابق کا مقام میدان جنگ بنے گا۔ مسلمانوں کا ایک تہائی لشکر جنگ میں قتل ہو جائے گا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہترین شہادت کا درجہ پائیں گے۔

ایک تہائی لشکر میدان جنگ سے ڈر کر بھاگ جائے گا اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول نہیں فرمائینگے، باقی تہائی لشکر فاتح ہوگا جسے اللہ تعالیٰ ہر طرح کے فتنوں سے محفوظ رکھیں گے۔ شام میں عیسائیوں کو شکست فاش دینے کے بعد مسلمان عیسائیوں کے روحانی مرکز روم پر چڑھائی کرینگے۔ بحری محاذ پراستنبول کے مقام پر جنگ ہوگی۔ ا س جنگ میں ستر ہزار مسلمان شریک ہونگے۔مسلمان روم کی فتح کے بعد ابھی مال غنیمت تقسیم کر رہے ہونگے کہ انھیں دجال کے خروج کی خبر مل جائے گی اور وہ ہر چیز کو چھوڑ چھاڑ کر شام کی طرف دوڑ پڑینگے جو کہ دجال کے خلاف معرکو ں کا میدان ہوگا۔

لیکن یہ سب تو پیش گوئیاں ہیں اور ہم ٹہر ے وہ منطقی عملیت پسند جنھیں ایسی باتیں کرنیوالے احمق لگتے ہیں پھر چاہے خطرہ سر پہ منڈلا رہا ہو ہمیں نسیم حجازی جیسا جذباتی ناول نگار تخیل پرست لگتا ہے جس نے صلاح الدین ایوبی کا وہ نقش پڑھنے والوں کے ذہن میں بٹھا دیا تھا جس سے آج بھی یورپ کے رچرڈ کانپتے ہیں۔ہمارے ہیرو تو کچھ اور لوگ ہیں۔
Load Next Story