نیا کوچ یا قربانی کا نیا بکرا

جب تک ڈومیسٹک کرکٹ ٹھیک نہیں ہوتی اُس وقت تک یونہی کوچ آتے رہینگے اور ٹیم کی کارکردگی بد سے بد تر ہوتی چلی جائے گی۔

آخر کیونکر ایک مقامی کوچ کے بعد غیر ملکی کو لے آیا جاتا ہے اور پھر غیر ملکی کی ناکامی کے بعد مقامی کو؟ بھلا کب تک اپنی خامیاں چھپانے کے لیے کوچ کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا رہے گا؟

لاہور:
اور بالآخر قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کی گتھی سلجھ گئی اور قرعہ اس دفعہ حسب توقع غیر ملکی مہمان مکی آرتھر کے نام نکلا۔ ویسے تو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے اسٹورٹ لاء کو بطور کوچ لانا چاہتے تھے لیکن ان کے انکار کے بعد بورڈ آف گورنرز میں اس حوالے سے مایوسی پائی جا رہی تھی کہ کہیں واپس گھر کی جانب نہ دیکھنا پڑجائے، حالانکہ ہماری اب تک سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی کہ 'بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں' کے مصداق کیونکر پی سی بی نے قومی ٹیم کے لئے غیر ملکی کوچ کا ہی انتخاب کیا؟



ابتدائی جملے سے یہ بات سمجھ آگئی ہوگی کہ ہم غیر ملکی کوچ سے خوش نہیں، اور یہ ہماری انا یا ضد کا مسئلہ نہیں بلکہ حقائق کی بنیاد پر یہ بیزاری ہے۔ جب پی سی بی نے مکی آرتھر کو بطور کوچ لانے کا اعلان کیا تو سڑکوں پر پایا جانے والا ردعمل بھی مزیدار تھا۔ کسی نے کہا کھلاڑی کیسے اچھا کھیلیں گے؟ نہ کھلاڑیوں کو سمجھ آئے گا کہ کوچ کیا کہہ رہا ہے اور نہ ہی کوچ کو سمجھ آئے گا کہ کھلاڑی کیا پوچھ رہے ہیں۔ پھر ہم جو خراب کارکردگی پر صبح شام روتے ہیں اُس کے بارے میں انگریز کو کچھ سمجھ آ ہی نہیں سکے گا، یعنی ہماری ساری محنت ضائع جائے گی؟۔

ویسے تو عوام کے ان نکات کی بہرحال اپنی جگہ اہمیت ہے لیکن ہم یہاں سنجیدہ معاملات اُٹھانے جارہے ہیں، اور وہ نکات یہ ہیں کہ ماضی میں چار مرتبہ غیر ملکی کوچ قومی ٹیم کی بھاگ دوڑ سنبھال چکے ہیں لیکن کسی کا تجربہ بھی کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ کونسا کوچ کب آیا اور کتنا عرصہ رہا آئیں اُس پر بات کرلیتے ہیں۔

  • رچرڈ پائی بس (1999)


قومی ٹیم کی تاریخ میں غیر ملکی کوچ کو لانے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ رچرڈ پائی بس کو بڑی اُمیدوں اور نجات دہندہ کے طور پر بلایا گیا تھا۔ لیکن 1999ء کے ورلڈ کپ کے فائنل میں آسٹریلیا سے شکست پر پائی بس کو ان کی ذمہ داری سے سبکدوش کردیا گیا۔ لیکن اُس سال کے آخر میں پائی بس کو ایک بار پھر 2 سال کے کنٹریکٹ پر ٹیم کی باگ ڈور دی گئی مگر ملک میں مارشل لاء کی وجہ سے انہیں پہلے ہی دن ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ پھر 2002ء میں تیسری مرتبہ ٹیم کی کمان دی گئی لیکن 2003ء کے ورلڈ کپ میں بد ترین شکست کی بنیاد پر انہیں ملازمت سے فارغ کردیا گیا اور جاوید میانداد کو ہیڈ کوچ کی ذمہ داری دی گئی۔

  • باب وولمر (2004)


دوسرے غیر ملکی کوچ باب وولمر تھے جنہیں 2004ء میں بطور ہیڈ کوچ سامنے لایا گیا۔ اُن کو لانے کا فیصلہ جاوید میانداد کی بطور ہیڈ کوچ موجودگی ہی کردیا گیا تھا کیونکہ اُس دور میں بھارت سے ہوم گراؤنڈ پر 1-2 سے ٹیسٹ سیریز اور 2-3 سے ایک روزہ سیریز میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔ باب وولمر شخصی لحاظ سے دھیمے لہجے والے اور کھلاڑیوں سے خلوص سے پیش آنے والے کوچ سمجھے جاتے تھے۔ 2007 کے ورلڈ کپ میں آئرلینڈ کے ہاتھوں شکست کے بعد ابتدائی روانڈ میں ہی باہر نکلنے کا دُکھ شاید وولمر برداشت نہ کرسکے اور اپنے ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ اس طرح دوسرے غیر ملکی کوچ کا ٹیم کے ساتھ سفر تلخ یادوں کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

  • جیف لاسن (2007)


تیسرے غیر ملکی کوچ سابق آسٹریلوی کھلاڑی جیف لاسن تھے جنہیں 2007ء میں باب وولمر کے فوری بعد قومی ٹیم کا ہیڈ کوچ مقرر کیا گیا۔ ان کا دور قدرے بہتر تھا کہ 2007ء میں پہلے ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں ٹیم فائنل تک پہنچی تھی۔ لیکن چونکہ ان کی کارکردگی اچھی تھی اس لیے اُس وقت کے بورڈ کو وہ پسند نہیں آئے اور اس وقت کے چیئرمین اعجاز بٹ کے ان سے تنازع کی خبریں بھی سامنے آتی رہیں، بلکہ بات یہاں تک پہنچ گئی کہ اعجاز بٹ کی جانب سے جیف لاسن کو 'Useless' کوچ بھی کہا گیا اور ساتھ یہ بھی سامنے آیا کہ انہیں صرف اپنا کنٹریکٹ پورا کرنے کے لیے ٹیم کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔ لیکن دو سال کے لیے ہونے والا معاہدہ اکتوبر 2008ء میں ہی ختم کردیا گیا اور انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ چونکہ یہ رویہ کوئی نہیں بھول سکتا تو جیف لاسن کیسے بھولتے؟ 2010 میں ایک پاکستانی ویب سائٹ کو انٹرویو دیتے ہوئے لاسن نے اعجاز بٹ کو پاکستان کرکٹ بورڈ سے فوری الگ ہوجانے کا مشورہ بھی دے ڈالا دیا۔

  • ڈیو واٹمور (2012)


پاکستانی ٹیم کے چوتھے غیر ملکی کوچ سری لنکن نژاد سابق آسٹریلوی کھلاڑی ڈیو واٹمور تھے۔ جنہیں یہ ذمہ داری مارچ 2012ء میں دی گئی تھی۔ انکی قیادت میں ٹیم ایشیاء کپ تو جیتی لیکن 2014ء میں انکا کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد یہ عہدہ معین خان کے حوالے کردیا گیا۔


موجودہ حالات کی بات کریں تو پی سی بی نے وقار یونس کا متبادل پہلے دن سے ہی غیر ملکی سوچا ہوا تھا۔ اس کے لیے ابتدائی طور پر آسٹریلیا کے اسٹورٹ لاء اور ٹام موڈی، انگلینڈ کے پیٹر مورس جنوبی افریقہ کے پیڈی اپٹن کو یہ سیٹ آفر کی مگر سب نے کسی نہ کسی وجہ سے ٹھکرا دی اور آخر کار مکی آرتھر کا نام فائنل ہوا۔

نئے ہیڈ کوچ کی بات کریں تو 47 سالہ مکی آرتھر اس سے پہلے جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا جیسی ٹیموں کے ساتھ کوچنگ کرچکے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اُن کا کارنامہ یہ ہے کہ ان کی کوچنگ میں جنوبی افریقہ تینوں فارمیٹ میں پہلے نمبر پر بھی آئی۔

لیکن اگر ہم آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور پاکستانی کھلاڑیوں کا موازنہ کریں تو کھیل سے وابستہ کسی بھی شخص کو یہ جانچنے میں دقت نہیں ہوگی کہ وہاں کے کھلاڑی پاکستانی کھلاڑیوں کی بہ نسبت نہ صرف جسمانی طور بلکہ دماغی طور پر بھی زیادہ مضبوط ہیں، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں ڈسپلن کی خلاف ورزی کسی بھی طور پر قابل معافی جرم نہیں ہے۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے کھلاڑی کتنے پانی میں ہیں، آئے دن کوئی نہ کوئی اسکینڈل سامنے آتا ہے لیکن مجال ہے کہ کسی ایک کو بھی کڑی سزا مل جائے۔ پھر جہاں تک فٹنس کا معاملہ ہے تو 42 سال کے مصباح الحق اور 39 سال کے یونس خان سب سے زیادہ فٹ کھلاڑی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ آرتھر جنوبی افریقہ کے لیے کامیاب ہوئے مگر دوسری جانب دیکھا جائے تو پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں آرتھر کراچی کنگز کے ہیڈ کوچ تھے لیکن اُس کے نتائج تو بہت ہی خراب نکلے تھے۔



جہاں تک مکی آرتھر کی کھلاڑیوں سے تعلقات کی بات ہے تو انکے جنوبی افریقہ کے کپتان گریم اسمتھ کے ساتھ اختلافات بھی سامنے آئے جس کی وجہ سے انہوں نے پروٹیز کی ذمہ داری سے استعفیٰ دے دیا۔ دوسری طرف سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ نے انہیں آسٹریلیا کا کوچ بنانا ایک غلطی قرار دیا۔ آرتھر کا آسٹریلوی ٹیم کے ساتھ ریکارڈ اتنا اچھا نہیں رہا اور 2013ء میں بھارت کے خلاف خوفناک شکست کے بعد انہیں اہم ترین ایشز سیریز سے صرف 16 دن پہلے ہی عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

یہ وہ حالات اور واقعات ہیں جن کی روشنی میں ہم یہ کہتے ہیں کہ بورڈ کا غیر ملکی کوچ پر اعتماد کرنا ٹھیک نہیں۔ نہ پہلے چار مرتبہ اچھا نتیجہ میسر آیا ہے اور نہ اِس بار ایسا محسوس ہورہا ہے۔ میں یہاں یہ سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر کیونکر ایک مقامی کوچ کے بعد غیر ملکی کو لے آیا جاتا ہے اور پھر غیر ملکی کی ناکامی کے بعد مقامی کو؟ بھلا کوئی طے کیوں نہیں کرتا کہ کونسا کوچ ٹھیک رہے گا اور کونسا نہیں؟ کوئی کیوں ماضی کے تجربات سے استفادہ نہیں کرتا؟ انضمام الحق نے افغانستان جیسی ٹیم کی کارکردگی کو محض ایک سال سے بھی کم عرصے میں کہاں پہنچا دیا تو کیا یہ ضروری تھا کہ اُن کو چیف سلیکٹر بنایا جائے؟ کیا ان کو کوچ کی زمہ داریاں نہیں دی جاسکتی تھیں؟ یا پھرعاقب جاوید کے تجربے سے بھی فائدہ اُٹھایا جاسکتا تھا کہ انہوں نے اس حوالے سے مختلف کورسز بھی کئے ہوئے ہیں۔ جبکہ محسن علی خان اور جاوید میانداد تو آزمودہ نسخے ہیں جن سے ٹیم کو فائدہ بھی ہوا تھا۔

المیہ تو یہ ہے کہ بورڈ نے اس بار بھی میرٹ کے مطابق کام نہیں کیا۔ حالات ایسے کردئیے تھے کہ مقامی کھلاڑیوں کو پہلے سے ہی خبردار کردیا تھا کہ کوچنگ کے لئے رجوع مت کیجیے گا کہ ہم نے غیر ملکی کوچ لانے کا سوچ لیا ہے۔ ارے آپ پہلے لوگوں کو رابطہ تو کرنے دیجیئے، پھر جو کوئی بھی مطلوبہ شرائط پر پورا اترے آپ شوق سے رکھیئے، لیکن کسی کے لیے دروازے بند کرنا میرٹ کی دھجیاں اُڑانا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟

دیکھیئے جناب اصل مسئلہ نظام کا ہے۔ جب تک نظام نہیں بدلے گا کوئی بھی کوچ ٹیم کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کرسکے گا۔ بورڈ کو چاہیئے کہ جتنی محنت سے وہ قومی ٹیم کے لئے کوچ کی تلاش کرتے ہیں ایک بڑا نام ڈومیسٹک کرکٹ کے لیے بھی نامزد کرے۔ کیونکہ کھلاڑیوں کی تکنیک شروع میں ہی ٹھیک ہوسکتی ہے، اگر وقت نکل گیا تو پھر کچھ نہیں ہوسکتا۔ قومی ٹیم کے لیے جو کوچ بھی آئے گا وہ صرف اُن کو لڑنا سکھا سکتا ہے، یہ نہیں بتاسکتا کہ بلا کس طرح پکڑنا ہے یا پیر کہاں رکھنا ہے۔

لہذا ڈومیسٹک کرکٹ پر محنت کیجیئے کہ جب نچلی سطح سے تربیت شروع ہوگی تو ٹیم بھی بہتر نتائج ضرور دے گی۔ اُس وقت تک یونہی ایک کے بعد دوسرا کوچ آتا رہے گا اور ٹیم کی کارکردگی بد سے بد تر ہوتی چلی جائے گی۔

[poll id="1103"]

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی
Load Next Story