ماں
بھائی نہیں رکھتا تو بہن کے گھر چھوڑ آؤ، ہم نے تمہاری ماں کی دیکھ بھال کا کوئی ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا۔
''بس بہت ہوگیا، میں اب تمہاری امّی کو مزید اپنے گھر میں برداشت نہیں کرسکتی،'' ثانیہ کا چہرہ غصّے سے سرخ ہو رہا تھا۔
''پلیز آہستہ بولو ۔۔۔۔۔ امّی سن لیں گی، آخر ہوا کیا ہے؟'' تیمور نے بیچارگی سے پوچھا۔
''آج ارسلان کو اپنے ساتھ کھانا کھلا رہی تھیں آپ کی امّی جان۔ ہر وقت کھانستی رہتی ہیں، کئی بار منع کیا ہے کہ بچوں سے تھوڑا دور رہا کریں مگر مجال ہے کہ کان دھریں، پتہ نہیں کونسی بیماری لگی ہوئی ہے، نہ ٹھیک ہوتی ہیں نہ جان چھوڑتی ہیں'' ثانیہ کے لہجے میں حقارت تھی۔
''ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ موسمی کھانسی ہے کچھ دنوں میں ٹھیک ہوجائے گی، تم تو خوامخواہ ہر وقت اُن کے پیچھے پڑی رہتی ہو۔''
''کیا میں اُن کے پیچھے پڑی رہتی ہوں؟ میں؟ ثانیہ کا غصّہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔ ''پیچھے تو وہ ہمارے پڑگئی ہیں ہاتھ دھو کر۔''
''خدا کا واسطہ ہے ثانیہ! پلیز چپ ہوجاؤ، میں تنگ آگیا ہوں تمھاری اس روز روز کی چخ چخ سے'' تیمور نے بیزاری سے کہا۔
''تو آپ ختم کردیں ناں یہ چخ چخ، چھوڑ آئیں انہیں بھائی جان کے گھر، اُن کی بھی تو ماں ہے، آخر کچھ ذمّہ داری اُن کی بھی بنتی ہے۔''
''کی تھی میں نے بھائی جان سے بھی بات، مگر وہ نہیں مانے۔ کہہ رہے تھے کہ میرا گھر چھوٹا ہے اور بچے بڑے ہوگئے ہیں، امّی کے رہنے کے لئے گنجائش نہیں نکلتی، اب بتاؤ میں کیا کروں؟'' وہ زچ ہو کر بولا۔
''تو ہم کونسا ٹرسٹ چلا رہے ہیں، یا ہمارا گھر ایک کنال میں ہے۔ خود اسلام آباد میں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں اور یہ مصیبت ہمارے سر ڈال دی ہے۔ آپ کو بھی بہت شوق ہے ناں فرماںبردار بیٹا بننے کا، بس ماں کی خدمت کرنی ہے، اپنی اولاد جوان ہورہی ہے اُس کی کوئی فکر نہیں۔ ساری تنخواہ تو ان کے علاج معالجے پر خرچ ہوجاتی ہے، ہم بچائیں کیا اور بنائیں کیا؟'' ثانیہ ہمیشہ کی طرح ایک ہی سانس میں بہت کچھ بول گئی تھی۔
''بولنے سے پہلے کچھ تو سوچ لیا کرو کہ کیا بول رہی ہو اور کس کے متعلق بول رہی ہو۔ اُنہوں نے تو کبھی کچھ کہا ہی نہیں ہے، یہ تو میں انہیں اس مرتبہ زبردستی ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا جو تم سے برداشت نہیں ہورہا۔ تمہیں کیا پتہ کہ انہوں نے ہم تینوں بہن بھائیوں کو کن مشکلات کا سامنا کرکے پالا ہے۔'' تیمور دکھی ہوگیا تھا۔
''ہاں ہاں! لاکھ مرتبہ سن چکی ہوں یہ کہانی میں تمہارے منہ سے کہ جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں، کوئی آسرا نہیں تھا، رہنے کو گھر نہیں تھا، ہم بہن بھائیوں کی پرورش میں کمی نہ رہے اس لیے دوسری شادی نہیں کی''۔
''تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے'' وہ ثانیہ کی بات کاٹتے ہوئے بولا اور کمرے سے نکل گیا۔
''بھائی نہیں رکھتا تو بہن کے گھر چھوڑ آؤ، ہم نے ان کی دیکھ بھال کا کوئی ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا، نہیں تو میں بچوں کو لے کر امّی کے پاس لاہور چلی جاتی ہوں'' اُس نے دھمکی دی۔ تیمور کمرے سے باہر نکلا تو سامنے پانی کا گلاس لئے امّی کھڑی تھیں۔ اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اُن سے کیسے نظریں ملائے۔
''فاطمہ بیٹی کا فون آیا تھا، کہہ رہی تھی کہ بچے آپ کو بہت یاد کر رہے ہیں کچھ دنوں کے لئے ہمارے گھر آجائیں۔ بیٹا! تم مجھے بس میں بٹھا دو میں اکیلی ہی چلی جاؤں گی۔'' امّی کی آنکھوں میں ٹمٹماتے آنسو بتا رہے تھے کہ انہوں نے ساری باتیں سن لی ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ امّی کے پاس موبائل فون نہیں ہے اور لینڈ لائن دو دن سے خراب پڑا ہے، بھلا فون کیسے آئے گا، وہ یہ سب فساد ختم کرنے کے لئے کہہ رہی تھیں۔
تیمور اگلے دن امّی کو فاطمہ کے گھر چھوڑ آیا۔ ''مائیں بیٹیوں کے گھر زیادہ دن رہتی اچھی نہیں لگتیں'' وہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں مگر آج وہ ہمیشہ کے لیے بیٹی کے گھر رہنے آگئیں تھیں۔ جس گھر کو تنکا تنکا جوڑ کر بنایا تھا، آج اُس گھر میں بوڑھی ماں کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ بیوی کی ضد، ماں کی محبت پر سبقت لے گئی تھی۔ تیمور اپنی کمزوری کو اپنی مجبوری قرار دے کر اپنے دل کو بہلانے کی کوشش کر رہا تھا، مگر دل تھا کہ ماننے میں نہیں آرہا تھا۔
آج تیمور آفس سے گھر آیا تو ثانیہ کا رو رو کر بُرا حال تھا، ''آپ کا نمبر کیوں بند ہے، اتنی کالز کیں میں نے آپ کو؟'' وہ تیمور پر برس پڑی۔
''بیٹری ختم ہوگئی تھی، سب خریت ہے ناں؟'' تیمور نے پوچھا۔
''خریت نہیں ہے، بھائی کا فون آیا تھا لاہور سے، امّی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، مجھے یاد کررہی ہیں، مجھے ابھی لاہور جانا ہے اپنی امّی کے پاس۔'' وہ سسکیاں لے رہی تھی، اپنی ماں کے لئے ثانیہ کی یہ تڑپ دیکھ کر تیمور شرم سے پانی پانی ہورہا تھا، اپنی ماں کو تو وہ اُس کے کہنے پربہن کے گھر چھوڑ آیا تھا۔
''تم پریشان مت ہو، اپنے بھائی کو فون کر کے کہو کہ انہیں یہاں بھیج دیں، ہم ان کا علاج کروالیں گے۔'' اُس کا لہجہ سپاٹ تھا۔
''کیا مطلب ہے آپ کا، میرا بھائی اپنی ماں کا علاج نہیں کروا سکتا؟ وہ اتنا بےغیرت نہیں ہے کہ بیمار ماں داماد کے گھر بھیج دے۔'' ثانیہ تیمور کی بات پر طیش میں آگئی تھی۔
''بالکل! اگر وہ بھی میری طرح بے غیرت ہوتا تو آج تمہاری امّی ہمارے گھر ہوتیں، جیسے میری امّی آج اپنے داماد کے گھر رہ رہی ہیں۔'' وہ ثانیہ کے اس دوغلے پن پر پھٹ پڑا تھا اور ثانیہ کے پاس اُس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا، ویسے بھی آج تک تیمور نے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی، وہ ششدر کھڑی اُسے دیکھ رہی تھی۔
''اب آپ کہاں جارہے ہیں؟'' اُس نے تیمور کو گھر سے نکلتا دیکھ کر پوچھا۔
''امّی کو لینے جارہا ہوں، پتہ نہیں کتنا تڑپ رہی ہوں گیں ہمارے لئے،'' تیمور نے کار میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
''میں بھی چلوں آپ کے ساتھ؟'' ثانیہ کے لہجے میں ندامت تھی، اُسے شاید عقل آگئی تھی۔
''نہیں! تم پیکنگ کرلو، میں امّی کو لے آتا ہوں، پھر اکھٹے لاہور چلیں گے آنٹی سے ملنے۔'' وہ نرمی سے بولا، گاڑی اسٹارٹ کی اور گھر سے نکل گیا۔
''صاحب جی! یہ اپنی امّی کے لیے خرید لیں، آج مدرز ڈے ہے۔'' ٹریفک سگنل پر کار رکی تو ایک بچے نے پھولوں کا ایک گلدستہ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ''کتنے کا ہے؟'' تیمور نے بٹوے سے پیسے نکالتے ہوئے پوچھا، اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، دل کا سارا بوجھ جو اُتر گیا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
''پلیز آہستہ بولو ۔۔۔۔۔ امّی سن لیں گی، آخر ہوا کیا ہے؟'' تیمور نے بیچارگی سے پوچھا۔
''آج ارسلان کو اپنے ساتھ کھانا کھلا رہی تھیں آپ کی امّی جان۔ ہر وقت کھانستی رہتی ہیں، کئی بار منع کیا ہے کہ بچوں سے تھوڑا دور رہا کریں مگر مجال ہے کہ کان دھریں، پتہ نہیں کونسی بیماری لگی ہوئی ہے، نہ ٹھیک ہوتی ہیں نہ جان چھوڑتی ہیں'' ثانیہ کے لہجے میں حقارت تھی۔
''ڈاکٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ موسمی کھانسی ہے کچھ دنوں میں ٹھیک ہوجائے گی، تم تو خوامخواہ ہر وقت اُن کے پیچھے پڑی رہتی ہو۔''
''کیا میں اُن کے پیچھے پڑی رہتی ہوں؟ میں؟ ثانیہ کا غصّہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔ ''پیچھے تو وہ ہمارے پڑگئی ہیں ہاتھ دھو کر۔''
''خدا کا واسطہ ہے ثانیہ! پلیز چپ ہوجاؤ، میں تنگ آگیا ہوں تمھاری اس روز روز کی چخ چخ سے'' تیمور نے بیزاری سے کہا۔
''تو آپ ختم کردیں ناں یہ چخ چخ، چھوڑ آئیں انہیں بھائی جان کے گھر، اُن کی بھی تو ماں ہے، آخر کچھ ذمّہ داری اُن کی بھی بنتی ہے۔''
''کی تھی میں نے بھائی جان سے بھی بات، مگر وہ نہیں مانے۔ کہہ رہے تھے کہ میرا گھر چھوٹا ہے اور بچے بڑے ہوگئے ہیں، امّی کے رہنے کے لئے گنجائش نہیں نکلتی، اب بتاؤ میں کیا کروں؟'' وہ زچ ہو کر بولا۔
''تو ہم کونسا ٹرسٹ چلا رہے ہیں، یا ہمارا گھر ایک کنال میں ہے۔ خود اسلام آباد میں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں اور یہ مصیبت ہمارے سر ڈال دی ہے۔ آپ کو بھی بہت شوق ہے ناں فرماںبردار بیٹا بننے کا، بس ماں کی خدمت کرنی ہے، اپنی اولاد جوان ہورہی ہے اُس کی کوئی فکر نہیں۔ ساری تنخواہ تو ان کے علاج معالجے پر خرچ ہوجاتی ہے، ہم بچائیں کیا اور بنائیں کیا؟'' ثانیہ ہمیشہ کی طرح ایک ہی سانس میں بہت کچھ بول گئی تھی۔
''بولنے سے پہلے کچھ تو سوچ لیا کرو کہ کیا بول رہی ہو اور کس کے متعلق بول رہی ہو۔ اُنہوں نے تو کبھی کچھ کہا ہی نہیں ہے، یہ تو میں انہیں اس مرتبہ زبردستی ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا جو تم سے برداشت نہیں ہورہا۔ تمہیں کیا پتہ کہ انہوں نے ہم تینوں بہن بھائیوں کو کن مشکلات کا سامنا کرکے پالا ہے۔'' تیمور دکھی ہوگیا تھا۔
''ہاں ہاں! لاکھ مرتبہ سن چکی ہوں یہ کہانی میں تمہارے منہ سے کہ جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں، کوئی آسرا نہیں تھا، رہنے کو گھر نہیں تھا، ہم بہن بھائیوں کی پرورش میں کمی نہ رہے اس لیے دوسری شادی نہیں کی''۔
''تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے'' وہ ثانیہ کی بات کاٹتے ہوئے بولا اور کمرے سے نکل گیا۔
''بھائی نہیں رکھتا تو بہن کے گھر چھوڑ آؤ، ہم نے ان کی دیکھ بھال کا کوئی ٹھیکہ نہیں اٹھا رکھا، نہیں تو میں بچوں کو لے کر امّی کے پاس لاہور چلی جاتی ہوں'' اُس نے دھمکی دی۔ تیمور کمرے سے باہر نکلا تو سامنے پانی کا گلاس لئے امّی کھڑی تھیں۔ اُسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اُن سے کیسے نظریں ملائے۔
''فاطمہ بیٹی کا فون آیا تھا، کہہ رہی تھی کہ بچے آپ کو بہت یاد کر رہے ہیں کچھ دنوں کے لئے ہمارے گھر آجائیں۔ بیٹا! تم مجھے بس میں بٹھا دو میں اکیلی ہی چلی جاؤں گی۔'' امّی کی آنکھوں میں ٹمٹماتے آنسو بتا رہے تھے کہ انہوں نے ساری باتیں سن لی ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ امّی کے پاس موبائل فون نہیں ہے اور لینڈ لائن دو دن سے خراب پڑا ہے، بھلا فون کیسے آئے گا، وہ یہ سب فساد ختم کرنے کے لئے کہہ رہی تھیں۔
تیمور اگلے دن امّی کو فاطمہ کے گھر چھوڑ آیا۔ ''مائیں بیٹیوں کے گھر زیادہ دن رہتی اچھی نہیں لگتیں'' وہ ہمیشہ کہا کرتی تھیں مگر آج وہ ہمیشہ کے لیے بیٹی کے گھر رہنے آگئیں تھیں۔ جس گھر کو تنکا تنکا جوڑ کر بنایا تھا، آج اُس گھر میں بوڑھی ماں کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ بیوی کی ضد، ماں کی محبت پر سبقت لے گئی تھی۔ تیمور اپنی کمزوری کو اپنی مجبوری قرار دے کر اپنے دل کو بہلانے کی کوشش کر رہا تھا، مگر دل تھا کہ ماننے میں نہیں آرہا تھا۔
آج تیمور آفس سے گھر آیا تو ثانیہ کا رو رو کر بُرا حال تھا، ''آپ کا نمبر کیوں بند ہے، اتنی کالز کیں میں نے آپ کو؟'' وہ تیمور پر برس پڑی۔
''بیٹری ختم ہوگئی تھی، سب خریت ہے ناں؟'' تیمور نے پوچھا۔
''خریت نہیں ہے، بھائی کا فون آیا تھا لاہور سے، امّی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، مجھے یاد کررہی ہیں، مجھے ابھی لاہور جانا ہے اپنی امّی کے پاس۔'' وہ سسکیاں لے رہی تھی، اپنی ماں کے لئے ثانیہ کی یہ تڑپ دیکھ کر تیمور شرم سے پانی پانی ہورہا تھا، اپنی ماں کو تو وہ اُس کے کہنے پربہن کے گھر چھوڑ آیا تھا۔
''تم پریشان مت ہو، اپنے بھائی کو فون کر کے کہو کہ انہیں یہاں بھیج دیں، ہم ان کا علاج کروالیں گے۔'' اُس کا لہجہ سپاٹ تھا۔
''کیا مطلب ہے آپ کا، میرا بھائی اپنی ماں کا علاج نہیں کروا سکتا؟ وہ اتنا بےغیرت نہیں ہے کہ بیمار ماں داماد کے گھر بھیج دے۔'' ثانیہ تیمور کی بات پر طیش میں آگئی تھی۔
''بالکل! اگر وہ بھی میری طرح بے غیرت ہوتا تو آج تمہاری امّی ہمارے گھر ہوتیں، جیسے میری امّی آج اپنے داماد کے گھر رہ رہی ہیں۔'' وہ ثانیہ کے اس دوغلے پن پر پھٹ پڑا تھا اور ثانیہ کے پاس اُس کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا، ویسے بھی آج تک تیمور نے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی، وہ ششدر کھڑی اُسے دیکھ رہی تھی۔
''اب آپ کہاں جارہے ہیں؟'' اُس نے تیمور کو گھر سے نکلتا دیکھ کر پوچھا۔
''امّی کو لینے جارہا ہوں، پتہ نہیں کتنا تڑپ رہی ہوں گیں ہمارے لئے،'' تیمور نے کار میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
''میں بھی چلوں آپ کے ساتھ؟'' ثانیہ کے لہجے میں ندامت تھی، اُسے شاید عقل آگئی تھی۔
''نہیں! تم پیکنگ کرلو، میں امّی کو لے آتا ہوں، پھر اکھٹے لاہور چلیں گے آنٹی سے ملنے۔'' وہ نرمی سے بولا، گاڑی اسٹارٹ کی اور گھر سے نکل گیا۔
''صاحب جی! یہ اپنی امّی کے لیے خرید لیں، آج مدرز ڈے ہے۔'' ٹریفک سگنل پر کار رکی تو ایک بچے نے پھولوں کا ایک گلدستہ اُس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ''کتنے کا ہے؟'' تیمور نے بٹوے سے پیسے نکالتے ہوئے پوچھا، اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی، دل کا سارا بوجھ جو اُتر گیا تھا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔