سرکاری اسکول
اساتذہ کی بھرتی سفارشی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ تو پڑھانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے
ایک ای میل کے ذریعے کسی خاتون نے (جو غالباً خود بھی کسی سرکاری اسکول میں بطور استاد کام کر رہی ہیں) سرکاری اسکولوں کی حالت زار کا ایک نقشہ کھینچا ہے اور مجھ سمیت تمام کالم نگاروں سے اس کے بارے میں کچھ لکھنے کی درخواست کی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر کالم نگار اس موضوع پر براہ راست یا بالواسطہ نہ صرف لکھتے رہتے ہیں بلکہ ان شواہد کو بھی بیان کرتے رہتے ہیں جن کی طرف ان محترم خاتون نے توجہ دلائی ہے کہ ان اسکولوں کی عمارتیں خستہ حالت میں ہیں، کھیل کے میدان تو ایک طرف اکثر و بیشتر ان میں باتھ روم اور پینے کے صاف پانی تک کی سہولت موجود نہیں۔ بہت سوں کا وجود صرف کاغذوں میں ہے جنھیں عرف عام میں گھوسٹ اسکول کہا جاتا ہے۔
اساتذہ کی بھرتی سفارشی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ تو پڑھانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور جو ایسا کر سکتے ہیں انھیں (بالخصوص شہروں سے دور دیہاتی علاقوں میں) کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا کہ ان علاقوں میں بیشتر والدین بچوں کو پڑھانے کے لیے بھیجتے ہی نہیں اور اسکولوں کی عمارت پر زور آور لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہ انھیں اپنے جانوروں کے باڑے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ نصاب تعلیم گمراہ کن ہیں اور کتابوں کی فراہمی (جو بیانات کی حد تک سرکار مفت فراہم کرتی ہے) کا کچھ ٹھیک نہیں۔ ان سب پر مستزاد ''اردو میڈیم'' کا وہ ٹھپہ ہے جس نے سرکاری اسکولوں کو ایک طرح سے دو نمبر اسکول بنا دیا ہے کہ یہاں کے تعلیم یافتہ بچے انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے بچوں کے مقابلے میں نالائق ا ور کمتر سمجھے جاتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ فی الوقت صاحب حیثیت تو ایک طرف کم وسیلہ لوگ بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنا پسند نہیں کرتے اور اپنی حیثیت سے زیادہ فیس دے کر انھیں گھٹیا درجے کے گلی گلی کھلے ہوئے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں۔ جہاں تعلیم کا معیار اور صورتحال حقیقت میں سرکاری اسکولوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔ 10 بچے جو نسبتاً بہتر اور بھاری فیسوں والے چند معروف انگلش میڈیم میں زیر تعلیم ہیں لیکن چونکہ ان کی اکثریت بھی تعلیم کے بجائے تجارت کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس لیے ان سے متعلقہ مسائل بھی اپنی جگہ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔
فی الوقت ہم اپنے آپ کو سرکاری اسکولوں کے مسائل تک محدود رکھتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے ہماری مراد کیا ہے۔ یہ کب کیوں اور کیسے قائم ہوئے اور ان کے مسائل کی نوعیت اور جڑ کیا اور کہاں ہے؟ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ برصغیر میں انگریز کی آمد سے قبل یہاں کوئی باقاعدہ تعلیمی نظام رائج نہیں تھا اور جو بھی تھا اس میں سرکاری شمولیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ بچوں کو ابتدائی تعلیم عموماً مذہبی اداروں کے ساتھ وابستہ مکتبوں اور درس گاہوں میں دی جاتی تھی جس کا دائرہ بہت محدود ہوتا تھا اور صرف وہ مٹھی بھر افراد ہی اس زمانے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تھے جنھیں سرکار دربار سے روزی کمانا ہوتی تھی۔
صرف حصول علم کی خاطر زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد ان سے بھی کم تھی۔ انسانی تاریخ میں یورپ کی تحریک احیائے علوم سے قبل صرف چین، یونان، برصغیر میں بدھ مت کے پیروکاروں (ٹیکسلا یونیورسٹی) اور اندلس (اسپین) میں آٹھویں سے تیرہویں صدی تک مسلمانوں کے تحقیقی کارناموں کے علاوہ کہیں کوئی باقاعدہ تعلیمی ماحول دکھائی نہیں دیتا۔ بہت کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور تعلیم کا تصور بنیادی ضروریات یعنی چیزوں کی پہچان اور حساب کتاب تک ہی محدود تھا جب کہ مذہبی تعلیم اور فلسفیانہ یا سائنسی مسائل پر غور و فکر کرنے والوں کو اپنے اپنے مخصوص گروہ اور طبقے تھے تقریباً سولہویں صدی تک ساری دنیا میں اسی سے ملتے جلتے نظام رائج تھے۔
پرنٹنگ پریس کی ایجاد، تحریک احیائے علوم اور یورپ کے صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی یہ منظر بدلنا شروع ہو گیا۔ چنانچہ جب انگریز نے برصغیر پر قبضہ کیا تو وہ اپنے ساتھ ایک مربوط تعلیمی نظام اور تصور تعلیم بھی لایا۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع شروع میں اس کا ارادہ اپنی نو آبادیوں میں بھی اسی نظام کو رائج کرنے کا تھا مگر 1857ء کی جنگ آزادی (جسے وہ غدر یعنی بغاوت کا نام دیتا تھا) کے بعد یا اس کے ردعمل میں اس کا ارادہ بدل گیا اور اس نے اپنے غلام علاقوں میں ایسا نظام تعلیم رائج کیا جس کا مقصد انھیں ایک محدود حد تک تعلیم یافتہ بنانا تھا تا کہ وہ اس کے غلام رہ کر زندگی گزارنا سیکھیں اور کولہو کے بیل کی طرح اس کے بنائے ہوئے دائرے سے باہر نہ نکل سکیں۔
اس مقصد کے لیے خاص طرح کے نصاب تعلیم وضع کیے گئے اور ایسی کتابیں بنائی گئیں جن سے صرف کلرک اور غلامانہ ذہنیت کی نسلیں ہی پیدا ہو سکیں۔ لیکن سائنس ٹیکنالوجی اور علوم بوتل سے نکلے ہوئے جن کی طرح ہوتے ہیں جو پھر اپنے مالکوں کے قابو میں بھی نہیں رہتے۔ ہمارے یہاں بھی یہی کچھ ہوا اور دیکھا جائے تو آج کل بڑے انگلش میڈیم اسکولوں کے نصابات اور درسی کتابیں بھی یہی کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے یہ کام غیر کر رہے تھے اب یہ ''اپنوں'' کے ہاتھ میں ہے۔
جہاں تک سرکاری اسکولوں کا تعلق ہے قیام پاکستان کے بعد کسی نے سنجیدگی سے اس بات پر توجہ ہی نہیں دی کہ اب ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایسا نصاب تعلیم وضع کرنا چاہیے جو انھیں زندگی کے حقائق کا صحیح شعور فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کی دوڑ میں ترقی یافتہ دنیا کے ہمقدم ہونے کی ہمت اور صلاحیت بھی فراہم کر سکے۔ آزادی کے بعد پہلے پندرہ برسوں تک ہماری سرکاری اسکولوں میں وہی نظام اور کتابیں رائج رہیں جو انگریز کے زمانے میں تھیں۔ 1962ء میں ٹیکسٹ بک بورڈ بنا تو دیے گئے لیکن ان کے پاس کوئی واضح تعلیمی پالیسی نہیں تھی جب کہ مختلف رفاہی انجمنوں کے زیر اہتمام چلنے والے مقامی اور مشنری اسکولوں میں بھی یہی سلسلہ چلتا رہا۔
بھٹو صاحب نے تمام تعلیمی اداروں کو قومیا کر انھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا تو کر دیا مگر مناسب منصوبہ بندی اور وژن نہ ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں انتشار کی نئی سے نئی صورتیں پیدا ہوتی چلی گئیں جن میں سب سے زیادہ نقصان دہ انگلش میڈیم کے نام پر طرح طرح کے اسکولوں کو ملنے والی کھلی چھٹی تھی جس نے آگے چل کر بیک وقت چار پانچ طرح کے ایسے نظام ہائے تعلیم کو جنم دیا جن کا تعلق تعلیم سے زیادہ کاروبار سے تھا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ سرکاری اسکولوں کو ترقی دینے کے بجائے انھیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
جس کا نتیجہ ان سب خرابیوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس کا ذکر اس کالم کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ میں پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ کسی اچھی عمارت، چمک دمک اور اضافی سہولتوں والے اسکول میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا یقینا ہر اس شہری کا حق ہے جس کے پاس اس کے لیے جائز ذرایع سے کمائے ہوئے وسائل موجود ہیں مگر اس کو یہ حق بہرحال نہیں پہنچتا کہ اس کا بچہ اپنے باپ کی دولت کے باعث (درسی کتابوں کی حد تک) عام اور غریب بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں سے مختلف کتابیں پڑھے۔
اسی طرح سات آٹھ سال کی عمر یعنی کم از کم چوتھی جماعت تک طریقۂ تعلیم اردو اور دیگر پاکستانی زبانیں ہوں اور اس کے بعد انھیں انگریزی صرف ایک زبان کے طور پر آٹھویں جماعت تک پڑھائی جائے تا کہ تمام ملک میں بچوں کی ابتدائی تعلیم ایک جیسی ہو اور کتابوں کا معیار بھی یکساں اور بہتر ہو۔ البتہ اس کے بعد سائنس ٹیکنالوجی، بزنس اور آئی ٹی وغیرہ سے متعلق جدید علوم کی تعلیم کے لیے انگریزی زبان کو حسب موقع و ضرورت ذریعہ تعلیم بنانے میں اس وقت تک کوئی حرج نہیں جب تک ہم انھیں اپنی زبان میں پڑھنے پڑھانے کی صلاحیت پیدا نہیں کر لیتے۔
جہاں تک سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنانے کا تعلق ہے تو یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، نصاب تعلیم کو یکساں کر دیجیے، عمارتوں کی حالت بہتر بنائیے، اساتذہ کا انتخاب میرٹ پر کیجیے اور انھیں دیگر سرکاری ملازموں کی طرح مسلسل ریفریشر کورس کرواتے رہیے، بلدیاتی نظام کے نمائندوں کے ذریعے ان کی دیکھ بھال اور ترقی میں مقامی لوگوں کو شامل کیجیے اور ان میں پڑھائے جانے والے نصابات تعلیم کو جدید تقاضوں اور قومی امنگوں سے ہم آہنگ کر دیجیے۔ جب کہ دوسری طرف محض تجارتی بنیادوں پر قائم کیے جانے والے ہر طرح کے چھوٹے بڑے اداروں کے استحصال پر قابو پانے کے لیے نہ صرف قانون سازی کیجیے بلکہ اس پر عمل بھی کروائیے۔
سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر ہو گا تو آپ تمام سرکاری ملازمین پر یہ پابندی بھی عائد کرا سکتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے علاقے کے سرکاری اسکول میں داخل کروائیں۔ ممکن ہے فی الوقت میری یہ بات کسی دیوانے کا خواب لگے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں ہر بڑی تبدیلی اور انقلاب کسی نہ کسی خواب ہی کے مرہون منت ہوتے ہیں۔
اساتذہ کی بھرتی سفارشی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ چنانچہ ان میں سے کچھ تو پڑھانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے اور جو ایسا کر سکتے ہیں انھیں (بالخصوص شہروں سے دور دیہاتی علاقوں میں) کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا کہ ان علاقوں میں بیشتر والدین بچوں کو پڑھانے کے لیے بھیجتے ہی نہیں اور اسکولوں کی عمارت پر زور آور لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہ انھیں اپنے جانوروں کے باڑے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ نصاب تعلیم گمراہ کن ہیں اور کتابوں کی فراہمی (جو بیانات کی حد تک سرکار مفت فراہم کرتی ہے) کا کچھ ٹھیک نہیں۔ ان سب پر مستزاد ''اردو میڈیم'' کا وہ ٹھپہ ہے جس نے سرکاری اسکولوں کو ایک طرح سے دو نمبر اسکول بنا دیا ہے کہ یہاں کے تعلیم یافتہ بچے انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے بچوں کے مقابلے میں نالائق ا ور کمتر سمجھے جاتے ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ فی الوقت صاحب حیثیت تو ایک طرف کم وسیلہ لوگ بھی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنا پسند نہیں کرتے اور اپنی حیثیت سے زیادہ فیس دے کر انھیں گھٹیا درجے کے گلی گلی کھلے ہوئے نام نہاد انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں۔ جہاں تعلیم کا معیار اور صورتحال حقیقت میں سرکاری اسکولوں سے بھی زیادہ خراب ہے۔ 10 بچے جو نسبتاً بہتر اور بھاری فیسوں والے چند معروف انگلش میڈیم میں زیر تعلیم ہیں لیکن چونکہ ان کی اکثریت بھی تعلیم کے بجائے تجارت کی بنیاد پر قائم ہے۔ اس لیے ان سے متعلقہ مسائل بھی اپنی جگہ پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہیں۔
فی الوقت ہم اپنے آپ کو سرکاری اسکولوں کے مسائل تک محدود رکھتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان سے ہماری مراد کیا ہے۔ یہ کب کیوں اور کیسے قائم ہوئے اور ان کے مسائل کی نوعیت اور جڑ کیا اور کہاں ہے؟ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ برصغیر میں انگریز کی آمد سے قبل یہاں کوئی باقاعدہ تعلیمی نظام رائج نہیں تھا اور جو بھی تھا اس میں سرکاری شمولیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ بچوں کو ابتدائی تعلیم عموماً مذہبی اداروں کے ساتھ وابستہ مکتبوں اور درس گاہوں میں دی جاتی تھی جس کا دائرہ بہت محدود ہوتا تھا اور صرف وہ مٹھی بھر افراد ہی اس زمانے کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تھے جنھیں سرکار دربار سے روزی کمانا ہوتی تھی۔
صرف حصول علم کی خاطر زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد ان سے بھی کم تھی۔ انسانی تاریخ میں یورپ کی تحریک احیائے علوم سے قبل صرف چین، یونان، برصغیر میں بدھ مت کے پیروکاروں (ٹیکسلا یونیورسٹی) اور اندلس (اسپین) میں آٹھویں سے تیرہویں صدی تک مسلمانوں کے تحقیقی کارناموں کے علاوہ کہیں کوئی باقاعدہ تعلیمی ماحول دکھائی نہیں دیتا۔ بہت کم لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور تعلیم کا تصور بنیادی ضروریات یعنی چیزوں کی پہچان اور حساب کتاب تک ہی محدود تھا جب کہ مذہبی تعلیم اور فلسفیانہ یا سائنسی مسائل پر غور و فکر کرنے والوں کو اپنے اپنے مخصوص گروہ اور طبقے تھے تقریباً سولہویں صدی تک ساری دنیا میں اسی سے ملتے جلتے نظام رائج تھے۔
پرنٹنگ پریس کی ایجاد، تحریک احیائے علوم اور یورپ کے صنعتی انقلاب کے ساتھ ہی یہ منظر بدلنا شروع ہو گیا۔ چنانچہ جب انگریز نے برصغیر پر قبضہ کیا تو وہ اپنے ساتھ ایک مربوط تعلیمی نظام اور تصور تعلیم بھی لایا۔ تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع شروع میں اس کا ارادہ اپنی نو آبادیوں میں بھی اسی نظام کو رائج کرنے کا تھا مگر 1857ء کی جنگ آزادی (جسے وہ غدر یعنی بغاوت کا نام دیتا تھا) کے بعد یا اس کے ردعمل میں اس کا ارادہ بدل گیا اور اس نے اپنے غلام علاقوں میں ایسا نظام تعلیم رائج کیا جس کا مقصد انھیں ایک محدود حد تک تعلیم یافتہ بنانا تھا تا کہ وہ اس کے غلام رہ کر زندگی گزارنا سیکھیں اور کولہو کے بیل کی طرح اس کے بنائے ہوئے دائرے سے باہر نہ نکل سکیں۔
اس مقصد کے لیے خاص طرح کے نصاب تعلیم وضع کیے گئے اور ایسی کتابیں بنائی گئیں جن سے صرف کلرک اور غلامانہ ذہنیت کی نسلیں ہی پیدا ہو سکیں۔ لیکن سائنس ٹیکنالوجی اور علوم بوتل سے نکلے ہوئے جن کی طرح ہوتے ہیں جو پھر اپنے مالکوں کے قابو میں بھی نہیں رہتے۔ ہمارے یہاں بھی یہی کچھ ہوا اور دیکھا جائے تو آج کل بڑے انگلش میڈیم اسکولوں کے نصابات اور درسی کتابیں بھی یہی کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے یہ کام غیر کر رہے تھے اب یہ ''اپنوں'' کے ہاتھ میں ہے۔
جہاں تک سرکاری اسکولوں کا تعلق ہے قیام پاکستان کے بعد کسی نے سنجیدگی سے اس بات پر توجہ ہی نہیں دی کہ اب ہمیں اپنے بچوں کے لیے ایسا نصاب تعلیم وضع کرنا چاہیے جو انھیں زندگی کے حقائق کا صحیح شعور فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی کی دوڑ میں ترقی یافتہ دنیا کے ہمقدم ہونے کی ہمت اور صلاحیت بھی فراہم کر سکے۔ آزادی کے بعد پہلے پندرہ برسوں تک ہماری سرکاری اسکولوں میں وہی نظام اور کتابیں رائج رہیں جو انگریز کے زمانے میں تھیں۔ 1962ء میں ٹیکسٹ بک بورڈ بنا تو دیے گئے لیکن ان کے پاس کوئی واضح تعلیمی پالیسی نہیں تھی جب کہ مختلف رفاہی انجمنوں کے زیر اہتمام چلنے والے مقامی اور مشنری اسکولوں میں بھی یہی سلسلہ چلتا رہا۔
بھٹو صاحب نے تمام تعلیمی اداروں کو قومیا کر انھیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا تو کر دیا مگر مناسب منصوبہ بندی اور وژن نہ ہونے کی وجہ سے اس شعبے میں انتشار کی نئی سے نئی صورتیں پیدا ہوتی چلی گئیں جن میں سب سے زیادہ نقصان دہ انگلش میڈیم کے نام پر طرح طرح کے اسکولوں کو ملنے والی کھلی چھٹی تھی جس نے آگے چل کر بیک وقت چار پانچ طرح کے ایسے نظام ہائے تعلیم کو جنم دیا جن کا تعلق تعلیم سے زیادہ کاروبار سے تھا اور اس کے ساتھ ہی ساتھ سرکاری اسکولوں کو ترقی دینے کے بجائے انھیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔
جس کا نتیجہ ان سب خرابیوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہے جس کا ذکر اس کالم کے آغاز میں کیا گیا ہے۔ میں پہلے بھی کئی بار عرض کر چکا ہوں کہ کسی اچھی عمارت، چمک دمک اور اضافی سہولتوں والے اسکول میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا یقینا ہر اس شہری کا حق ہے جس کے پاس اس کے لیے جائز ذرایع سے کمائے ہوئے وسائل موجود ہیں مگر اس کو یہ حق بہرحال نہیں پہنچتا کہ اس کا بچہ اپنے باپ کی دولت کے باعث (درسی کتابوں کی حد تک) عام اور غریب بچوں کو پڑھائی جانے والی کتابوں سے مختلف کتابیں پڑھے۔
اسی طرح سات آٹھ سال کی عمر یعنی کم از کم چوتھی جماعت تک طریقۂ تعلیم اردو اور دیگر پاکستانی زبانیں ہوں اور اس کے بعد انھیں انگریزی صرف ایک زبان کے طور پر آٹھویں جماعت تک پڑھائی جائے تا کہ تمام ملک میں بچوں کی ابتدائی تعلیم ایک جیسی ہو اور کتابوں کا معیار بھی یکساں اور بہتر ہو۔ البتہ اس کے بعد سائنس ٹیکنالوجی، بزنس اور آئی ٹی وغیرہ سے متعلق جدید علوم کی تعلیم کے لیے انگریزی زبان کو حسب موقع و ضرورت ذریعہ تعلیم بنانے میں اس وقت تک کوئی حرج نہیں جب تک ہم انھیں اپنی زبان میں پڑھنے پڑھانے کی صلاحیت پیدا نہیں کر لیتے۔
جہاں تک سرکاری اسکولوں کی حالت بہتر بنانے کا تعلق ہے تو یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں، نصاب تعلیم کو یکساں کر دیجیے، عمارتوں کی حالت بہتر بنائیے، اساتذہ کا انتخاب میرٹ پر کیجیے اور انھیں دیگر سرکاری ملازموں کی طرح مسلسل ریفریشر کورس کرواتے رہیے، بلدیاتی نظام کے نمائندوں کے ذریعے ان کی دیکھ بھال اور ترقی میں مقامی لوگوں کو شامل کیجیے اور ان میں پڑھائے جانے والے نصابات تعلیم کو جدید تقاضوں اور قومی امنگوں سے ہم آہنگ کر دیجیے۔ جب کہ دوسری طرف محض تجارتی بنیادوں پر قائم کیے جانے والے ہر طرح کے چھوٹے بڑے اداروں کے استحصال پر قابو پانے کے لیے نہ صرف قانون سازی کیجیے بلکہ اس پر عمل بھی کروائیے۔
سرکاری اسکولوں کا معیار بہتر ہو گا تو آپ تمام سرکاری ملازمین پر یہ پابندی بھی عائد کرا سکتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے علاقے کے سرکاری اسکول میں داخل کروائیں۔ ممکن ہے فی الوقت میری یہ بات کسی دیوانے کا خواب لگے مگر یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں ہر بڑی تبدیلی اور انقلاب کسی نہ کسی خواب ہی کے مرہون منت ہوتے ہیں۔