مکی آرتھر پی سی بی حکام کو بھا گیا

گورا کوچ کرکٹرز کی پرانی بیماریوں کا علاج کرسکے گا؟

گورا کوچ کرکٹرز کی پرانی بیماریوں کا علاج کرسکے گا؟۔ فوٹو: گیٹی/فائل

ROTTERDAM:
دو ہفتے قبل گگلی ماسٹر عبدالقادرکے انٹرویو کی غرض سے ان کی رہائشگاہ پر موجود تھا، باتوں باتوں میں عبدالقادر نے جب یہ بات کہی کہ کوچ ملکی ہو یا غیر ملکی محض پیسے کا ضیاع ہے۔

کوچ کے اختیارات بھی کپتان کو سونپ دینے چاہیے، ماضی کے عظیم لیگ سپنر کی یہ بات سن کر میں یک دم چونک گیا، دفتر پہنچ کرروٹین کے مطابق یہ نیوز فائل تو کر دی لیکن اس خبر کی بازگشت ایک ہفتے تک سنائی دیتی رہی،ایک بھارتی اخبار نے انگلش میں ترجمہ کر اسے شائع کیا، بعد ازاں ہماری نیوز ایجنیسوں، مختلف ویب سائیٹس اور قومی اخبارات میں بھی یہ خبرچھپتی رہی،انٹرویو کے دوران عبدالقادر نے کچھ اور بھی ایسی باتیں کیں جو دل کو لگیں۔

غور کیا تو عظیم بیٹسمین جاوید میانداد کی باتیں بھی یاد آنا شروع ہو گئیں جوکہتے آئے ہیں کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں کوچنگ کی ضرورت نہیں ہوتی،اگر اچھے کھلاڑی کوچز پیدا کرتے تو میرے تمام بچے بھی میری طرح عظیم کرکٹر ہوتے،کوچز کے حامیوں سے میرا سوال ہے کہ کیا انہیں کوچز نے سکھایا تھا، اچھے کھلاڑی اپنے کوچ خود ہوتے ہیں، حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ بات سچ بھی ہے کہ کیا50 سے100 ٹیسٹ کھیلنے والوںکو کوچ اب یہ بتائے گا کہ انہوں نے بیٹ کس طرح پکڑنا ہے اور گیند کس طرح پھینکنی ہے، بات قومی ٹیم کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی کوچ رکھنے کی نہیں بلکہ ہم تو بس کوچنگ کے نام پر تجربات کرنا اور اپنوں کو نوازنا جانتے ہیں۔

ہماری ٹیم کا سب سے بڑا مسئلہ کمزوربیٹنگ ہے، کیا غیرملکی بیٹنگ کوچ گرانٹ فلاور کے آنے سے یہ مسئلہ حل ہو گیا، ایشیا کپ اور ورلڈ ٹوئنٹی20 میںشکستوں کا ذمہ دار کپتان شاہد آفریدی اور کوچ وقار یونس کو ہی قرار دیا گیا، کسی نے بھی گرانٹ فلاور سے یہ تک نہ پوچھا کہ بھئی تم بھی تو بیٹنگ کوچ تھے، بیٹسمین پرفارمنس کیوں نہ دے سکے؟ اسی طرح مختصر طرز کے عالمی ایونٹ سے کچھ دن قبل مشتاق احمد کو کوچنگ سے ہٹا دیا گیا، ان کی جگہ اظہر محمود کو بولنگ کوچ بنا دیا گیا، سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سپن کوچ کی جگہ یہ ذمہ داری سپنر کوچ کو ہی کیوں نہ سونپی گئی، اگر فاسٹ بولنگ کوچ ہی ضروری تھا تو کیا وقاریونس کے ہوتے ہوئے کوچنگ پینل میں اظہر محمود کی جگہ بنتی تھی؟

ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہی ہے کہ وقار یونس کے مستعفی ہونے کے ساتھ ہی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے تھے کہ قومی ٹیم کا اگلا کوچ کون ہوگا، ملکی ہو گا یا گرین شرٹس کی باگ ڈور کسی غیر ملکی کے سپرد کر دی جائے گی، چیئرمین پی سی بی شہریار خان نے بھی اس موضوع پر طویل اننگزکھیلی، نئے کوچ کااعلان ایک، دو روزمیں ہو گا، پیر کو ہوگا، منگل یا بدھ کو ہو گا، آئندہ ہفتے ہو گا، وغیرہ وغیرہ کے اس چکر میں پورے 2 ماہ گزر گئے،4 مئی کو لاہور میں شیڈول پی سی بی کی گورننگ باڈی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں صحافیوں کو نئے کوچ کی خبر کا شدت سے انتظار تھا لیکن شہریار خان ایک بار پھر ''ایک،دو روز میں کوچ کا اعلان ہوگا'' کہہ کر بات گول مول کر گئے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے بارے میں مشہور ہے کہ کسی عام اور آسان سی بات کا بھی حل تلاش کرنا ہو تو ارباب اختیار اسے اتنا پیچیدہ اور مشکل بنا دیتے ہیں کہ خدا کی پناہ ، قومی ٹیم کے نئے کوچ کا معاملہ ہی دیکھ لیں،اس کی تعیناتی کو رائی کا پہاڑ بنا دیا گیا، کوچ کمیٹی میں شامل وسیم اکرم اور رمیز راجہ کچھ بیانات دیتے رہے اور چیئرمین پی سی بی کچھ اور طرح کی باتیں کرتے رہے، فیصلے سے قبل ہی محسن خان کا کوچ بننے کا خواب چکنا چور کر دیاگیا، عاقب جاوید کو بھی ابتداء میں امید کی کرن ضرور نظر آئی لیکن بورڈ کے بدلتے تیور دیکھتے ہوئے انہوں نے درخواست ہی جمع نہ کروائی۔

انضمام الحق کے دل میں بھی کوچ بننے کی خواہش مچل رہی تھی لیکن انہیں چیف سلیکٹر بنا کریہ شمع کی گل کر دی گئی۔ پیٹر مورس اور سیٹورٹ لاء کے انکار کے بعد پی سی بی نے قومی ٹیم کے ہیڈ کوچ کا قرعہ اس امیدوار کے نام نکالا جو ماضی میں پاکستان کرکٹ ٹیم پرہی میچ فکسنگ کے الزامات بھی لگا چکا ہے، ایشیز سیریز سے صرف 2 ہفتے قبل آسٹریلوی بورڈ نے نہ صرف انہیں برطرف کیا، اس سے قبل جنوبی افریقی کپتان گریم سمتھ کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے کوچنگ سے مستعفی بھی ہونا پڑا، انہوں نے امپائرز پر جانبدارانہ امپائرنگ کے الزامات بھی لگائے۔


تاریخ شاہد ہے کہ پی سی بی نے جب بھی قومی ٹیم کی کوچنگ کا تاج ملکی کوچ کے سر پر سجایا تو عالمی سطح پر کامیابیاں وکامرانیاں ہمارا مقدر بنیں، گورے کوچز نے ہمیں ناکامیوں، مایوسیوں، رسوائیوں اور طعنوں کے سوا کچھ نہ دیا۔ شائقین ابھی تک کرکٹ کے وہ حسین لمحات نہیں بھولے جب عمران خان کی قیادت اور انتخاب عالم کی کوچنگ میں قومی ٹیم نے آسٹریلیا کی سرزمین پر 1992ء کا ورلڈ کپ جیت کا گوروں کا غرور خاک میں ملایا تھا، ہماری نگاہوں میں ابھی تک وہ مناظر گھوم رہے ہیں جبکہ گرین شرٹس نے یونس خان کی کپتانی اور انتخاب عالم ہی کی کوچنگ میں 2009ء میں انگلینڈ میں ٹوئنٹی20 کا عالمی کپ اپنے نام کیا تھا۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر محسن خان کے بارے میں پراپیگنڈا کیا گیا کہ وہ ڈمی کوچ تھے، تربیتی کیمپوں یا میچز کے دوران کھلاڑیوں کی رہنمائی کرنے یا ان کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے ان کی ٹانگوں میں مسلسل کھڑا ہونے کی سکت نہیں رہتی تھی، چلو مان لیتے ہیں وہ ڈمی کوچ تھے لیکن پھر بھی وہ امپورٹڈ کوچ سے تو کہیں بہتر تھے کیونکہ ان کی کوچنگ میں پاکستانی ٹیم کم از کم جیت تو رہی تھی، کیا محسن خان کا یہ کارنامہ کوئی بھلا سکتا ہے جب ان کی ہی کوچنگ میںمصباح الحق الیون نے متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں اس وقت کی کرکٹ کی سپر پاور انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کلین سویپ کیا تھا۔

مکی آرتھر سے پہلے 4 غیر ملکی کوچز کو قومی ٹیم کی کوچنگ کا موقع ملا، ان میں رچرڈ پائی بس، باب وولمر، جیف لاسن اور موجودہ ڈیو واٹمور شامل ہیں۔ان میں ایک بھی گورا کوچ ایسا نہیں ہے جس نے پاکستان کو عالمی سطح پر کوئی بڑی کامیابی دلائی ہو، اگر غیر ملکی کوچز کے پاس ہی فتوحات کے لیے جادو کی چھڑی ہے تو وہ اس کو گھما کر کینیا، زمبابوے، افغانستان یا متحدہ عرب امارات کو عالمی چیمپئن کیوں نہیں بنوا دیتے۔ رچرڈ پائی بس کو ایک نہیں 2 بار پاکستانی ٹیم کی کوچنگ کرنے کا موقع ملا لیکن وہ ٹیم کو فتوحات کی راہوں پر گامزن کرنے کی بجائے کھلاڑیوںکو شر پسندی، اختلافات اور گروپ بندی کا سبق دے کر چلتے بنے۔

باب وولمر آئے تو انہوں نے ٹیم کے بیٹنگ آرڈر کے ساتھ اس قدر چھیڑ خوانی کی کہ ایک عشرہ گزر جانے کے بعد بھی ہم مستند اوپننگ جوڑی تلاش نہیں کر سکے ہیں، یہ وولمر کی مہربانیوں کا ہی نتیجہ تھا کہ گرین شرٹس ورلڈ کپ2007 کے پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہو گئے اورجب باب وولمر جمیکا کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے توابتداء میں اس کا ذمہ داربھی پاکستانی کھلاڑیوں کو قرار دیا گیا اور کپتان سمیت پلیئرز سے ملزمان کی طرح پوچھ گچھ کی جاتی رہی، جیف لاسن بھی گرین شرٹس کو بڑی کامیابی نہ دلا سکے، چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ نے انہیں بیکار کوچ قرار دے کر عہدے سے فارغ کر دیا۔ ڈیو واٹمور نے بھی قومی ٹیم کی کامیابیوں کو بریک لگائے رکھی۔

ڈیو واٹمور ہو،جولین فاؤنٹین، جیف لاسن ہو یا باب وولمر، یا دنیا کا بڑے سے بڑا کوچ، یہ کوچز مل کر بھی پاکستانی ٹیم کا قبلہ درست نہیں کر سکتے، ہمارے اورگوروں کے کلچر، رہن سہن، سوچ اور زبان میں زمین آسمان کا فرق ہے اور سب سے بڑا اور اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ کھلاڑیوں میں حب الوطنی کا جذبہ اجاگر ہی نہیں کر سکتا جو ملکی کوچ پیدا کر سکتا ہے۔

جیت کا جذبہ لاکھوں روپے ماہانہ معاوضہ لینے والے غیر ملکیوں میں نہیں بلکہ انسان کے اندر موجود ہوتا ہے۔فضل محمود، حنیف محمد، ماجد خان، عمران خان، وسیم اکرم، وقار یونس، شعیب اختر، جاوید میانداد، سرفراز نواز اور عبدالقادر سمیت دوسرے ان گنت کھلاڑی کبھی بھی گریٹ کرکٹرز نہ بن پاتے، اگر ان میں آگے بڑھنے اور اپنے کھیل سے دنیا بھر میں سبز ہلالی پرچم لہرانے کا جذبہ پیدا نہ ہوتا، گوروں کی بجائے اپنوں پر ہی انحصار کر کے اوج ثریا کی بلندیوں کو چھوا جا سکتا ہے لیکن پی سی بی نے ایک بار پھرمکی آرتھر کی صورت میں غیر ملکی کوچ کو ترجیح دی ہے۔

گوروں کا اصول ہے کہ اگر اس نے کمزور، ناتوا اور غلام قوموں پر حکمرانی کرنی ہے تو انہیں کسی بھی صورت سکھ، چین اور آرام سے نہ بیٹھنے دو،کسی نہ کسی مسئلے میں الجھائے رکھو، نیا گوراکوچ مکی آرتھر بھی پی سی بی کے''بڑوں'' کی نظروں میں جگہ بنانے کے لیے نت نئے تجربات کرے گا، ٹیم کی بیٹنگ آرڈر کے ساتھ چھیڑ خانی کرے گا، فٹنس کو بہتر بنانے کے لیے باقاعدگی کے ساتھ جم کرنے، مرغن غذاؤں سے پرہیز کرنے سمیت متعدد پروگرام ترتیب دے گا، بیٹ ہاتھ میں تھامے کھلاڑیوں کو ڈائیو لگا کر کیچز پکڑنے کی پریکٹس کروائے گا۔

ڈریسنگ روم میں بیٹھ کر نہ سمجھ آنے والے آسٹریلوی لہجے میں کھلاڑیوں کو اپنے ماضی کے کارنامے سنائے گا اور جب پاکستان ٹیم کی عالمی مقابلوں میں شکستوں کا سفر طویل ہوتا جائے گا تو یہ کہہ کر چلتا بنے گا کہ میں نے تو بڑی کوشش کی، کھلاڑیوں کو پروگرام بھی بناکر دیئے، اب پلیئرز ہی اس پر عمل نہ کریں تو میں کیاکر سکتا ہوں، ایسی صورت حال میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے ارباب اختیارایک بار پھر نئے کوچ کی تلاش شروع کریں گے، نئی کوچ کمیٹیاں بنیں گی اور نئے کوچ کا اعلان ایک، دو روز تک، آئندہ ہفتے تک کے بیانات دے کر شائقین کھیل کے جذبات سے کھیلنے کی پریکٹس کی جائے گی۔
Load Next Story