کلاسیکل گائیک امتیاز علی خاں مرحوم کی فنی خدمات پر فن موسیقی کی معروف شخصیات کا خراج تحسین
امتیازعلی خاں کی اچانک وفات نے فنون لطیفہ خصوصاً کلاسیکی موسیقی سے تعلق رکھنے والے معروف گائیکوں کو افسردہ کردیا۔
شام چوراسی گھرانے کے معروف گلوکار امتیاز علیخاں مرحوم کی طویل فنی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
کلاسیکی موسیقی ہویا غزل گائیکی یا پھر گیت سب میں انھوںنے خوب پرفارم کیا۔ امتیازعلی خاں اور ریاض علی خاں کی جوڑی اس حوالے سے کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی۔ ان کے گائے ہوئے گیت اورغزلیں ہمارے پڑوسی ملک میں کاپی کی گئیں بلکہ ان کے ایک مشہور غزل ''توخیال ہے کسی اور کا'' کو بالی وڈ کے ہدایتکارمہیش بھٹ نے اپنی فلم ''دل ہے کہ مانتا نہیں'' میں گیت کی شکل میں پیش کیا۔ دوسری جانب پاکستان ہی نہیں دنیا کے بیشترممالک میں ان کی عمدہ پرفارمنس سے پاکستان کا نام بھی روشن ہوا۔
امتیازعلی خاں مرحوم کی اچانک وفات نے فنون لطیفہ خصوصاً کلاسیکی موسیقی سے تعلق رکھنے والے معروف گائیکوں کو افسردہ کردیا ہے۔ ''ایکسپریس''سے گفتگو کرتے ہوئے معروف کلاسیکل گائیک استاد بدرالزمان نے کہا کہ امتیازعلی خاں بہت اچھا فنکاراورانسان تھا۔ انھوں نے اپنے والد دلاور حسین شامی کی وفات کے بعد سے صرف دس برس کی عمر میں موسیقی کے شعبے میں قدم رکھا اور پھر بہت ریاضت اورمحنت کے بعد ان کا نام پاکستان کے معروف گلوکاروں میں ہونے لگا۔ امتیاز اور ریاض کلاسیکل گائیک تھے اور انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی جبکہ باقاعدہ تعلیم استاد سلامت علیخاں سے حاصل کی۔
انھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز ریڈیو پاکستان میں بطور میوزیشن کیا تھا لیکن گائیکی سے گہرے لگائو کودیکھتے ہوئے میں نے بطور ڈائریکٹر آرٹس کونسل ان کو خوب سپورٹ کیا۔ میں نے ایک پروگرام 'ہونہار فنکار' کے نام سے شروع کیا جس میں امتیازاور ریاض سمیت بہت سے ہونہار فنکاروںکو اپنا فن متعارف کروانے کا موقع ملا۔ اس کے بعد امتیاز علی کو انڈیا جانے کا موقع ملا جہاں انھوںنے بہترین پرفارم کیا اورپھر پاکستان کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنا خوب نام بنایا۔ ان کی جوڑی بہت مقبول تھی اورواقعی وہ موسیقی کو بہت اچھے انداز سے پیش کرتے تھے۔
امتیازعلیخاں کی وفات سے موسیقی کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اتنے بڑے فنکارکے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی حکومتی سطح پرکسی نے خبر تک نہ لی کہ وہ کس طرح وفات پاگئے؟ یہ لمحہ فکریہ ہے اگراسی طرح ہمارے کلاسیکی موسیقی کے گائیک مرتے رہے تواس ملک سے کلاسیکی موسیقی کا فن ختم ہوجائے گا۔ استاد حسین بخش گلو نے کہا کہ امتیاز علی خاں نے ہمیشہ سچے سروںسے محبت کی اوران کی گائیکی کا انداز بہت نرالہ تھا۔ ویسے تووہ کلاسیکل گائیک تھے لیکن غزل گائیکی میںبھی انھوںنے جس طرح سے معروف غزل گائیکوں کی موجودگی میں اپنی منفرد پہچان بنائی وہ میرے نزدیک بہت بڑی کامیابی تھی۔
انھوںنے اپنے عمدہ فن سے اپنے خاندان اوربزرگوں کا نام روشن کیا۔ وہ بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوگئے مگران کا فن ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔ استاد شفقت سلامت علیخاں نے کہا کہ فن موسیقی میں اگرگائیک جوڑیوں کا تذکرہ کیاجائے توامتیازاورریاض علی خاں کے بنابات نہیں بنتی۔ جس طرح سے استاد سلامت علیخاں، استاد نزاکت علی خاں کی جوڑی تھی، اسی طرح استاد امانت علیخاں، استاد فتح علی خاں، کی جوڑی بھی بے حدمقبول تھی۔ ان کے بعد اوربھی لوگوںنے جوڑیوں کی شکل میں گائیکی پیش کی لیکن جوعزت اورمقام امتیاز علیخان اورریاض علی کو ملا وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا۔ امتیازعلی خاں جیسا فنکار اگر بھارت میں ہوتا تواس کی پوجا کی جاتی۔ مگر ہمارے ہاں جس طرح سے بے حسی کی مظاہرہ کیا گیا اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔
مصنف اورہدایتکارپرویزکلیم نے کہا کہ امتیازعلی خاں نے کلاسیکی موسیقی میں ہی نہیں بلکہ غزل گائیکی میں بھی اپنا نام بنایا۔ امتیاز علی خاں اورریاض علی خاں کی جوڑی نے ریڈیو سے فنی سفرشروع کیا اورپھر ٹی وی اورفلم میںبھی ان کے گیت اورغزلیں بہت مقبول ہوئیں۔ کس وقت سے انوکھے فنکار سرحدیں پار کرتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کرنے کیلئے دیار غیر پہنچے پتہ ہی نہ چلا۔ انھوںنے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کیں اوراپنی سچی موسیقی کی بدولت خوب شہرت حاصل کی۔ امتیاز علیخاں سے میر ی دوستی تھی اور ہم ریڈیو کے زمانے میں ایک ساتھ کام کیا کرتے تھے ۔ وہ جتنا بڑا فنکار تھا اس سے کہیں بڑا انسان بھی تھا۔
اس کے ساتھ گزارے لمحات کبھی نہیں بھلا سکتا۔ البتہ اس کی وفات کا بے حد افسوس ہے۔ بہت ہی منفرد انداز گائیکی کرنے والا ایک عظیم فنکار آج ہم میں موجود نہیں ہے اوراس کی وفات سے پیدا ہونے والاخلا ء بھی کوئی دوسرا پر نہیں کرسکتا۔ میری تواللہ پاک سے بس یہی دعا ہے کہ امتیاز علی خاں کوجنت الفردوس میں جگہ عطا کرے اوران کی فیملی کوصبر جمیل عطا کرے۔ جہاں تک بات ہماری اوران کے چاہنے والوںکی ہے توہم اس کوکبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ ان کے گائے گیت، غزلیں اوران کے ساتھ گزارے لمحات ہمیشہ ان کی خوبصورت یاد بن کرہمارے ساتھ رہیں گے۔
کلاسیکی موسیقی ہویا غزل گائیکی یا پھر گیت سب میں انھوںنے خوب پرفارم کیا۔ امتیازعلی خاں اور ریاض علی خاں کی جوڑی اس حوالے سے کسی تعارف کی محتاج نہیں تھی۔ ان کے گائے ہوئے گیت اورغزلیں ہمارے پڑوسی ملک میں کاپی کی گئیں بلکہ ان کے ایک مشہور غزل ''توخیال ہے کسی اور کا'' کو بالی وڈ کے ہدایتکارمہیش بھٹ نے اپنی فلم ''دل ہے کہ مانتا نہیں'' میں گیت کی شکل میں پیش کیا۔ دوسری جانب پاکستان ہی نہیں دنیا کے بیشترممالک میں ان کی عمدہ پرفارمنس سے پاکستان کا نام بھی روشن ہوا۔
امتیازعلی خاں مرحوم کی اچانک وفات نے فنون لطیفہ خصوصاً کلاسیکی موسیقی سے تعلق رکھنے والے معروف گائیکوں کو افسردہ کردیا ہے۔ ''ایکسپریس''سے گفتگو کرتے ہوئے معروف کلاسیکل گائیک استاد بدرالزمان نے کہا کہ امتیازعلی خاں بہت اچھا فنکاراورانسان تھا۔ انھوں نے اپنے والد دلاور حسین شامی کی وفات کے بعد سے صرف دس برس کی عمر میں موسیقی کے شعبے میں قدم رکھا اور پھر بہت ریاضت اورمحنت کے بعد ان کا نام پاکستان کے معروف گلوکاروں میں ہونے لگا۔ امتیاز اور ریاض کلاسیکل گائیک تھے اور انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی جبکہ باقاعدہ تعلیم استاد سلامت علیخاں سے حاصل کی۔
انھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز ریڈیو پاکستان میں بطور میوزیشن کیا تھا لیکن گائیکی سے گہرے لگائو کودیکھتے ہوئے میں نے بطور ڈائریکٹر آرٹس کونسل ان کو خوب سپورٹ کیا۔ میں نے ایک پروگرام 'ہونہار فنکار' کے نام سے شروع کیا جس میں امتیازاور ریاض سمیت بہت سے ہونہار فنکاروںکو اپنا فن متعارف کروانے کا موقع ملا۔ اس کے بعد امتیاز علی کو انڈیا جانے کا موقع ملا جہاں انھوںنے بہترین پرفارم کیا اورپھر پاکستان کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں اپنا خوب نام بنایا۔ ان کی جوڑی بہت مقبول تھی اورواقعی وہ موسیقی کو بہت اچھے انداز سے پیش کرتے تھے۔
امتیازعلیخاں کی وفات سے موسیقی کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اتنے بڑے فنکارکے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی حکومتی سطح پرکسی نے خبر تک نہ لی کہ وہ کس طرح وفات پاگئے؟ یہ لمحہ فکریہ ہے اگراسی طرح ہمارے کلاسیکی موسیقی کے گائیک مرتے رہے تواس ملک سے کلاسیکی موسیقی کا فن ختم ہوجائے گا۔ استاد حسین بخش گلو نے کہا کہ امتیاز علی خاں نے ہمیشہ سچے سروںسے محبت کی اوران کی گائیکی کا انداز بہت نرالہ تھا۔ ویسے تووہ کلاسیکل گائیک تھے لیکن غزل گائیکی میںبھی انھوںنے جس طرح سے معروف غزل گائیکوں کی موجودگی میں اپنی منفرد پہچان بنائی وہ میرے نزدیک بہت بڑی کامیابی تھی۔
انھوںنے اپنے عمدہ فن سے اپنے خاندان اوربزرگوں کا نام روشن کیا۔ وہ بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوگئے مگران کا فن ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔ استاد شفقت سلامت علیخاں نے کہا کہ فن موسیقی میں اگرگائیک جوڑیوں کا تذکرہ کیاجائے توامتیازاورریاض علی خاں کے بنابات نہیں بنتی۔ جس طرح سے استاد سلامت علیخاں، استاد نزاکت علی خاں کی جوڑی تھی، اسی طرح استاد امانت علیخاں، استاد فتح علی خاں، کی جوڑی بھی بے حدمقبول تھی۔ ان کے بعد اوربھی لوگوںنے جوڑیوں کی شکل میں گائیکی پیش کی لیکن جوعزت اورمقام امتیاز علیخان اورریاض علی کو ملا وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا۔ امتیازعلی خاں جیسا فنکار اگر بھارت میں ہوتا تواس کی پوجا کی جاتی۔ مگر ہمارے ہاں جس طرح سے بے حسی کی مظاہرہ کیا گیا اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔
مصنف اورہدایتکارپرویزکلیم نے کہا کہ امتیازعلی خاں نے کلاسیکی موسیقی میں ہی نہیں بلکہ غزل گائیکی میں بھی اپنا نام بنایا۔ امتیاز علی خاں اورریاض علی خاں کی جوڑی نے ریڈیو سے فنی سفرشروع کیا اورپھر ٹی وی اورفلم میںبھی ان کے گیت اورغزلیں بہت مقبول ہوئیں۔ کس وقت سے انوکھے فنکار سرحدیں پار کرتے ہوئے پاکستان کا نام روشن کرنے کیلئے دیار غیر پہنچے پتہ ہی نہ چلا۔ انھوںنے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کیں اوراپنی سچی موسیقی کی بدولت خوب شہرت حاصل کی۔ امتیاز علیخاں سے میر ی دوستی تھی اور ہم ریڈیو کے زمانے میں ایک ساتھ کام کیا کرتے تھے ۔ وہ جتنا بڑا فنکار تھا اس سے کہیں بڑا انسان بھی تھا۔
اس کے ساتھ گزارے لمحات کبھی نہیں بھلا سکتا۔ البتہ اس کی وفات کا بے حد افسوس ہے۔ بہت ہی منفرد انداز گائیکی کرنے والا ایک عظیم فنکار آج ہم میں موجود نہیں ہے اوراس کی وفات سے پیدا ہونے والاخلا ء بھی کوئی دوسرا پر نہیں کرسکتا۔ میری تواللہ پاک سے بس یہی دعا ہے کہ امتیاز علی خاں کوجنت الفردوس میں جگہ عطا کرے اوران کی فیملی کوصبر جمیل عطا کرے۔ جہاں تک بات ہماری اوران کے چاہنے والوںکی ہے توہم اس کوکبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ ان کے گائے گیت، غزلیں اوران کے ساتھ گزارے لمحات ہمیشہ ان کی خوبصورت یاد بن کرہمارے ساتھ رہیں گے۔