خود غرضی اور بے حسی۔۔۔۔۔ہماری پہچان
تقسیم کے بعد محلّے ختم ہوئے، محلّے داریاں ختم ہوئیں، بڑوں چھوٹوں کا لحاظ ختم ہوا۔
پاکستان کو اگر دارالآفات کہیں تو غلط نہ ہوگا، وہ کون سی تباہی ہے جو یہاں برپا نہیں ہوئی؟
کون سا عذاب ہے جو اس قوم پر نازل نہیں ہوا، زلزلہ، سیلاب، دہشت گردی، خودکش حملے، مذہب کے نام پر معصوم لوگوں کا قتل عام، اغواء، تاوان، بھتہ خوری اور سب سے بڑھ کر نا اہل، خود غرض اور کرپٹ عناصر کی حکمرانی،کوئی اور ملک ان خصوصیات میں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا، ہم سب جی بھر کے رشوت، سفارش اور میرٹ کے قتل عام کی مذمت کرتے ہیں، حکومت کی نااہلی پہ روتے ہیں، لیکن ایک بہت بڑی خرابی اور بھی ہے، جس پر کبھی کوئی نہیں سوچتا، میں سمجھتی ہوں، وہی ایک خرابی فساد کی جڑ ہے اور وہ ہے خود غرضی اور بے حسی۔ اور ہر طرف اسی خودغرضی اور بے حسی کے جلوے ہیں، ہم صرف اپنے لیے جینا جانتے ہیں،صرف چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گی کیونکہ کالم میں زیادہ کی گنجائش نہیں۔ ورنہ تو اس موضوع کے لیے دفتر درکار ہے۔
لوڈشیڈنگ کا عذاب جب سے اس قوم پر نازل ہوا ہے، لوگوں نے اس کے تدارک کے لیے U.P.S اور جنریٹرز کا استعمال شروع کردیا، چلیے U.P.S تک تو ٹھیک ہے، لیکن چونکہ وہ مہنگا پڑتا ہے، اس لیے 90 % فیصد لوگوں نے گیس سے چلنے والے جنریٹرز استعمال کرنے شروع کردیے ہیں۔ جس کے ہولناک شور میں لوگ کس طرح جیتے ہیں، یہ انھی کا دل جانتا ہے۔ کمرشل جنریٹرز لوگوں نے گھروں میں لگا رکھے ہیں، انھیں گھر سے باہر یا گیلری میں رکھ کر چلادیا جاتا ہے اور اپنے دروازے بند کرلیے جاتے ہیں، لوگوں کا بلڈ پریشر ہائی ہو، ان کے سر میں درد ہو یا وہ مائیگرین کے مریض ہوں، جنریٹرز استعمال کرنے والوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔
اگر کوئی ذمے دار شہری اور پڑوسی انھیں باز رکھنے کی کوشش کرے تو اس سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ گیس سے جنریٹر چلانا جرم ہے۔ اگر کوئی شخص اس کا مرتکب ہوا تو وہ سزا کا مستحق ہوگا اور جرمانے کا بھی۔ لیکن پورے شہر میں گیس جنریٹرز چل رہے ہیں، لیکن کسی صارف کے خلاف ایکشن نہیں لیا جاتا۔ فلیٹوں میں دیوار سے دیوار ملی ہوتی ہے، ایک کی چھت، ایک کا فرش۔ فلیٹوں میں رہنے کے لیے ایک خاص تہذیب کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس تہذیب کے لیے ایک تہذیب یافتہ خاندانی پس منظر کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور جو لوگ اس کے اہل ہیں وہ تو ٹیلی ویژن کی آواز بھی زیادہ بلند نہیں کرتے جب کہ اکثریت کا رویہ خاصا غیر متمدن ہوتا ہے۔
یہ نہیں کہ یہ لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے، تعلیم اب کوئی معیار نہیں ہے۔ جس کے پاس ذرایع ہیں وہ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرلیتے ہیں، لیکن ان کا خاندانی اور سماجی پس منظر وہی رہتا ہے جو انھیں ورثے میں ملا ہوتا ہے، اسی لیے اپنی ہر غلط حرکت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ میں ایک ایسی خاتون کو جانتی ہوں جن کے برابر والے فلیٹ میں جہازی سائز کا جنریٹر لگا ہے، ان کی ہزارمنت کے باوجود نہ تو وہ جنریٹر کی جگہ بدلتے ہیں نہ ہی گھریلو استعمال کا چھوٹا جنریٹر خریدنے پر آمادہ ہیں۔ بلڈنگ کے تمام لوگ اس جنریٹر سے پریشان ہیں، لیکن وہ لوگ دوسروں کو اذیت دے کر سکون حاصل کرتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو ہے تو پڑھا لکھا لیکن جبلت میں جنگل کا قانون موجود ہے۔ جو پڑوسیوں کو ایذا دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
خودغرضی اور بے حسی کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ ان تمام حرکات پر لوگ دبے لفظوں میں اور ٹولیوں کی صورت میں مذمت بھی کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ جس طرح لوگوں کو ان منفی رویوں پر احتجاج کرنا چاہیے وہ نہیں کرتے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو ہم بھرپور احتجاج کرتے ہیں، لیکن جہاں کرنا چاہیے وہاں خاموش رہتے ہیں، الگ الگ تنقید بھی کریں گے اور لوگوں کو بُرا بھلا بھی کہیں گے، لیکن اگر کوئی ذمے دار اور باہمت شہری جو اپنے حقوق اور فرائض دونوں کو سمجھتا ہے، وہ ان منفی رویوں کی برملا بھرپور مذمت کرتاہے تو اکیلا پڑ جاتا ہے، کوئی اس کا ساتھ نہیں دیتا، یہی بے حسی پھر بڑے طوفان لاتی ہے، ہم کسی کی مصیبت میں ساتھ نہیں دیتے، اور پھر جب ہماری باری آتی ہے اور خود کو تنہا پاتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ جس شخص نے ہمت کرکے پہلا پتھر اُٹھایا تھا کاش! اس کا ساتھ دیا ہوتا، تو آج کوئی ان کی مدد کو بھی اُٹھتا۔
ٹریفک جام بڑے شہروں کا عذاب ہے۔ اسلام آباد میں کئی بار میں نے لوگوں کو سگنل توڑتے دیکھا، ٹریفک پولیس انھیں سلیوٹ بھی کرتی جارہی ہے ۔ دیگر شہروں خصوصاً کراچی اور لاہور میں ٹریفک جام ایک عام بات ہے، لیکن کبھی غور کیجیے تو پتہ چلے گا کہ اس میں نہ حکومت قصور وار ہے نہ ٹریفک پولیس بلکہ یہ عذاب ہمارا خود کا لایا ہوا ہے کہ ہر شخص صرف اپنی ذات تک محدود ہے کہ کسی طرح وہ سب سے پہلے نکل جائے۔ اسی آپا دھاپی میں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں آڑی ترچھی، ٹیڑھی میڑھی، زِگ زیگ بناکر کھڑی کردی جاتی ہیں، رکشوں کا عذاب الگ، وہ تو تمام قوانین سے بالاتر قبائلی کلچر کے پروردہ، انھیں تو کوئی سمجھا بھی نہیں سکتا، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی کئی گھنٹوں کا عذاب ہر شخص کو جھیلنا پڑتا ہے۔ اگر بے حسی اور خودغرضی کو ایک طرف رکھ کر لوگ بالخصوص موٹر سائیکل چلانے والے حضرات اپنی اپنی قطار میں سگنل بند ہونے پر وہیں رُک جائیں، جہاں تھے تو سگنل کی سبز بتی جلتے ہی ٹریفک رواں ہوسکتا ہے، لیکن شہریوں میں یہ شعور سرے سے نہیں ہے۔ سول سوسائٹی سکڑتی جارہی ہے، دیہاتی اور قبائلی کلچر ایک مگرمچھ کی طرح تہذیب وتمدن کو نگلتا جارہا ہے۔
یہ اور ایسی بے شمار مثالیں ہیں جو انسان کو ہی نہیں پوری انسانیت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ صرف اور صرف اپنی ذات اور اپنا خاندان اہم ہے۔اس کے آگے کوئی سوچا ہی نہیں، کیونکہ ہم آج تک ایک قوم نہیں بن سکے، ہم تو جنگلی جانوروں سے بھی بدتر ہیں، وہ بھی گروہ میں رہتے ہیں، لیکن شیر، شیر کو خوراک نہیں بناتا، زیبرا کسی دوسرے زیبرے کو ذبح نہیں کرتا، کوّے تک اپنی برادری کے لیے اکٹھے ہوجاتے ہیں، ذرا کسی کوّے کو مار کر دیکھیے، کئی دن تک یہ کالی بلا آپ کو نشانہ بناتی رہے گی، خطرناک سے خطرناک جانور، حتیٰ کہ بچھو بھی کسی دوسرے بچھو کو ڈنک نہیں مارتا، یہ سعادت تو صرف حضرت انسان کے حصے میں آئی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کا مذہب کے نام پر خون بہائے، اپنے دوست کی لاش پر کھڑے ہوکر ترقی کا پروانہ وصول کرے۔
پاکستانی قوم ان تمام معاملات میں سب سے آگے ہے، آزادی مل گئی، لیکن آزادی کا یہ مطلب لیا گیا ہے کہ ہر طرح کی کرپشن کی آزادی، قتل و غارت گری کی آزادی، نفرتوں کی آبیاری کی آزادی، اپنا مسلک مسلّط کرنے کی آزادی، عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی آزادی، تقسیم کے بعد محلّے ختم ہوئے، محلّے داریاں ختم ہوئیں، بڑوں چھوٹوں کا لحاظ ختم ہوا، علمائے دین اور سیاست دانوں نے اپنے اپنے مفاد کی خاطر نفرتوں اور تبروّن کو بڑھاوا دیا، کیونکہ نوزائیدہ پاکستان ایک ایسا لاوارث بچہ تھا جسے اپنے اپنے مفاد کی خاطر ہر جماعت گود لینا چاہتی تھی۔ اس آپا دھاپی میں بچے کے ٹکڑے ہوگئے، کسی کے ہاتھ سر لگا، کسی کے پاؤں، یہی چھینا جھپٹی کا کھیل آج تک جاری ہے، کیونکہ بے حسی اور خود غرضی ایسے متعدی امراض ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔
کون سا عذاب ہے جو اس قوم پر نازل نہیں ہوا، زلزلہ، سیلاب، دہشت گردی، خودکش حملے، مذہب کے نام پر معصوم لوگوں کا قتل عام، اغواء، تاوان، بھتہ خوری اور سب سے بڑھ کر نا اہل، خود غرض اور کرپٹ عناصر کی حکمرانی،کوئی اور ملک ان خصوصیات میں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتا، ہم سب جی بھر کے رشوت، سفارش اور میرٹ کے قتل عام کی مذمت کرتے ہیں، حکومت کی نااہلی پہ روتے ہیں، لیکن ایک بہت بڑی خرابی اور بھی ہے، جس پر کبھی کوئی نہیں سوچتا، میں سمجھتی ہوں، وہی ایک خرابی فساد کی جڑ ہے اور وہ ہے خود غرضی اور بے حسی۔ اور ہر طرف اسی خودغرضی اور بے حسی کے جلوے ہیں، ہم صرف اپنے لیے جینا جانتے ہیں،صرف چند مثالیں پیش کرنا چاہوں گی کیونکہ کالم میں زیادہ کی گنجائش نہیں۔ ورنہ تو اس موضوع کے لیے دفتر درکار ہے۔
لوڈشیڈنگ کا عذاب جب سے اس قوم پر نازل ہوا ہے، لوگوں نے اس کے تدارک کے لیے U.P.S اور جنریٹرز کا استعمال شروع کردیا، چلیے U.P.S تک تو ٹھیک ہے، لیکن چونکہ وہ مہنگا پڑتا ہے، اس لیے 90 % فیصد لوگوں نے گیس سے چلنے والے جنریٹرز استعمال کرنے شروع کردیے ہیں۔ جس کے ہولناک شور میں لوگ کس طرح جیتے ہیں، یہ انھی کا دل جانتا ہے۔ کمرشل جنریٹرز لوگوں نے گھروں میں لگا رکھے ہیں، انھیں گھر سے باہر یا گیلری میں رکھ کر چلادیا جاتا ہے اور اپنے دروازے بند کرلیے جاتے ہیں، لوگوں کا بلڈ پریشر ہائی ہو، ان کے سر میں درد ہو یا وہ مائیگرین کے مریض ہوں، جنریٹرز استعمال کرنے والوں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں۔
اگر کوئی ذمے دار شہری اور پڑوسی انھیں باز رکھنے کی کوشش کرے تو اس سے لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ گیس سے جنریٹر چلانا جرم ہے۔ اگر کوئی شخص اس کا مرتکب ہوا تو وہ سزا کا مستحق ہوگا اور جرمانے کا بھی۔ لیکن پورے شہر میں گیس جنریٹرز چل رہے ہیں، لیکن کسی صارف کے خلاف ایکشن نہیں لیا جاتا۔ فلیٹوں میں دیوار سے دیوار ملی ہوتی ہے، ایک کی چھت، ایک کا فرش۔ فلیٹوں میں رہنے کے لیے ایک خاص تہذیب کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس تہذیب کے لیے ایک تہذیب یافتہ خاندانی پس منظر کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور جو لوگ اس کے اہل ہیں وہ تو ٹیلی ویژن کی آواز بھی زیادہ بلند نہیں کرتے جب کہ اکثریت کا رویہ خاصا غیر متمدن ہوتا ہے۔
یہ نہیں کہ یہ لوگ پڑھے لکھے نہیں ہوتے، تعلیم اب کوئی معیار نہیں ہے۔ جس کے پاس ذرایع ہیں وہ اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرلیتے ہیں، لیکن ان کا خاندانی اور سماجی پس منظر وہی رہتا ہے جو انھیں ورثے میں ملا ہوتا ہے، اسی لیے اپنی ہر غلط حرکت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ میں ایک ایسی خاتون کو جانتی ہوں جن کے برابر والے فلیٹ میں جہازی سائز کا جنریٹر لگا ہے، ان کی ہزارمنت کے باوجود نہ تو وہ جنریٹر کی جگہ بدلتے ہیں نہ ہی گھریلو استعمال کا چھوٹا جنریٹر خریدنے پر آمادہ ہیں۔ بلڈنگ کے تمام لوگ اس جنریٹر سے پریشان ہیں، لیکن وہ لوگ دوسروں کو اذیت دے کر سکون حاصل کرتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو ہے تو پڑھا لکھا لیکن جبلت میں جنگل کا قانون موجود ہے۔ جو پڑوسیوں کو ایذا دینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
خودغرضی اور بے حسی کی ایک اور مثال یہ بھی ہے کہ ان تمام حرکات پر لوگ دبے لفظوں میں اور ٹولیوں کی صورت میں مذمت بھی کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ جس طرح لوگوں کو ان منفی رویوں پر احتجاج کرنا چاہیے وہ نہیں کرتے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو ہم بھرپور احتجاج کرتے ہیں، لیکن جہاں کرنا چاہیے وہاں خاموش رہتے ہیں، الگ الگ تنقید بھی کریں گے اور لوگوں کو بُرا بھلا بھی کہیں گے، لیکن اگر کوئی ذمے دار اور باہمت شہری جو اپنے حقوق اور فرائض دونوں کو سمجھتا ہے، وہ ان منفی رویوں کی برملا بھرپور مذمت کرتاہے تو اکیلا پڑ جاتا ہے، کوئی اس کا ساتھ نہیں دیتا، یہی بے حسی پھر بڑے طوفان لاتی ہے، ہم کسی کی مصیبت میں ساتھ نہیں دیتے، اور پھر جب ہماری باری آتی ہے اور خود کو تنہا پاتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ جس شخص نے ہمت کرکے پہلا پتھر اُٹھایا تھا کاش! اس کا ساتھ دیا ہوتا، تو آج کوئی ان کی مدد کو بھی اُٹھتا۔
ٹریفک جام بڑے شہروں کا عذاب ہے۔ اسلام آباد میں کئی بار میں نے لوگوں کو سگنل توڑتے دیکھا، ٹریفک پولیس انھیں سلیوٹ بھی کرتی جارہی ہے ۔ دیگر شہروں خصوصاً کراچی اور لاہور میں ٹریفک جام ایک عام بات ہے، لیکن کبھی غور کیجیے تو پتہ چلے گا کہ اس میں نہ حکومت قصور وار ہے نہ ٹریفک پولیس بلکہ یہ عذاب ہمارا خود کا لایا ہوا ہے کہ ہر شخص صرف اپنی ذات تک محدود ہے کہ کسی طرح وہ سب سے پہلے نکل جائے۔ اسی آپا دھاپی میں گاڑیاں اور موٹرسائیکلیں آڑی ترچھی، ٹیڑھی میڑھی، زِگ زیگ بناکر کھڑی کردی جاتی ہیں، رکشوں کا عذاب الگ، وہ تو تمام قوانین سے بالاتر قبائلی کلچر کے پروردہ، انھیں تو کوئی سمجھا بھی نہیں سکتا، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی کئی گھنٹوں کا عذاب ہر شخص کو جھیلنا پڑتا ہے۔ اگر بے حسی اور خودغرضی کو ایک طرف رکھ کر لوگ بالخصوص موٹر سائیکل چلانے والے حضرات اپنی اپنی قطار میں سگنل بند ہونے پر وہیں رُک جائیں، جہاں تھے تو سگنل کی سبز بتی جلتے ہی ٹریفک رواں ہوسکتا ہے، لیکن شہریوں میں یہ شعور سرے سے نہیں ہے۔ سول سوسائٹی سکڑتی جارہی ہے، دیہاتی اور قبائلی کلچر ایک مگرمچھ کی طرح تہذیب وتمدن کو نگلتا جارہا ہے۔
یہ اور ایسی بے شمار مثالیں ہیں جو انسان کو ہی نہیں پوری انسانیت کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ صرف اور صرف اپنی ذات اور اپنا خاندان اہم ہے۔اس کے آگے کوئی سوچا ہی نہیں، کیونکہ ہم آج تک ایک قوم نہیں بن سکے، ہم تو جنگلی جانوروں سے بھی بدتر ہیں، وہ بھی گروہ میں رہتے ہیں، لیکن شیر، شیر کو خوراک نہیں بناتا، زیبرا کسی دوسرے زیبرے کو ذبح نہیں کرتا، کوّے تک اپنی برادری کے لیے اکٹھے ہوجاتے ہیں، ذرا کسی کوّے کو مار کر دیکھیے، کئی دن تک یہ کالی بلا آپ کو نشانہ بناتی رہے گی، خطرناک سے خطرناک جانور، حتیٰ کہ بچھو بھی کسی دوسرے بچھو کو ڈنک نہیں مارتا، یہ سعادت تو صرف حضرت انسان کے حصے میں آئی ہے کہ وہ اپنے لوگوں کا مذہب کے نام پر خون بہائے، اپنے دوست کی لاش پر کھڑے ہوکر ترقی کا پروانہ وصول کرے۔
پاکستانی قوم ان تمام معاملات میں سب سے آگے ہے، آزادی مل گئی، لیکن آزادی کا یہ مطلب لیا گیا ہے کہ ہر طرح کی کرپشن کی آزادی، قتل و غارت گری کی آزادی، نفرتوں کی آبیاری کی آزادی، اپنا مسلک مسلّط کرنے کی آزادی، عورتوں پر تیزاب پھینکنے کی آزادی، تقسیم کے بعد محلّے ختم ہوئے، محلّے داریاں ختم ہوئیں، بڑوں چھوٹوں کا لحاظ ختم ہوا، علمائے دین اور سیاست دانوں نے اپنے اپنے مفاد کی خاطر نفرتوں اور تبروّن کو بڑھاوا دیا، کیونکہ نوزائیدہ پاکستان ایک ایسا لاوارث بچہ تھا جسے اپنے اپنے مفاد کی خاطر ہر جماعت گود لینا چاہتی تھی۔ اس آپا دھاپی میں بچے کے ٹکڑے ہوگئے، کسی کے ہاتھ سر لگا، کسی کے پاؤں، یہی چھینا جھپٹی کا کھیل آج تک جاری ہے، کیونکہ بے حسی اور خود غرضی ایسے متعدی امراض ہیں جن کا کوئی علاج نہیں۔