ناقدوں کا وہ گروہ
عمارتیں، یونیورسٹیاں بنائیں، حکومت کے مال سے بنائیں اور اپنا نام دیں تو کیا حرج ہے۔ ہم سات سلام کریں گے۔
الیکشن نزدیک آنے کے آثار میں یہ بھی شامل ہے کہ ٹارگیٹڈ تبرّہ بازی میں شدت آجاتی ہے۔
لہٰذا مجھے یہ دیکھ کر قطعاً کوئی حیرت نہیں ہوتی جب اچانک کوئی ایشو سامنے لایا جاتا ہے اور ایک دم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ناقدوں کا کوئی گروہ ایک ہی برانڈ کا واویلا شروع کردیتا ہے۔ داغی جانے والی توپیں الگ الگ ہوتی ہیں، لیکن بارود کسی ایک ہی فیکٹری میں بنتا ہے۔
اس ہفتے جس معاملے کو نشانہ بنایا گیا وہ حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ سے متعلق تھا۔ کہا گیا کہ سیاستدان، عوام کے پیسے سے کوئی کام کرتے ہیں اور اس کی داد ذاتی طور پر خود وصول کرتے ہیں۔ یوں جیسے انھوں نے یہ کارنامہ باپ دادا کی کمائی سے انجام دیا ہو۔
یہ تازہ شور اس وقت اٹھا جب پنجاب حکومت نے ایک بار پھر ہزاروں کی تعداد میں لیپ ٹاپ کمپیوٹر تقسیم کرنا شروع کیے۔ تب انھیں نہ صرف صوبائی حکومت کی پیلی ٹیکسیاں، دانش اسکول، وظیفے اور یوتھ فیسٹیول یاد آگئے بلکہ انھوں نے مرکزی حکومت کے امدادی فنڈز، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پولیو کے قطروں کو بھی نہیں بخشا۔ اعتراض یہ ہوا کہ ان کاموں کی تشہیر میں اپنا یا پارٹی کا نام کیوں استعمال کیا اور رہنماؤں کی تصاویر کیوں لگائی؟
اب یہاں دو صورتیں ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ مخصوص مواقعے کی مناسبت سے حکومتی ادارے تشہیری ضمیمے نکالتے ہیں۔ ان میں مختلف وزارتیں اپنے خوش پوش اور خوب رو وزراء اور رہنماؤں کی تصاویر سے مزیّن اشتہارات بھی دیتی ہیں۔ ایسا شوق عموماً صوبائی وزیروں کو ہوتا ہے جو اپنی وزارت کے خرچے پر اپنا شوقِ رونمائی بھی پورا کرلیتے ہیں اور کچھ حقِ کاسہ لیسی بھی ادا کردیتے ہیں۔ یہ ایک بے کار اور فضول روایت ہے جس پر اعتراض قابلِ قبول ہے۔ لیکن دوسری صورت وہ ہے جس میں کسی حکومتی جماعت کا برسوں پر محیط سیاسی کردار اُبھر کے سامنے آتا ہے۔
اس کا پہلا حصہ تو وہ ہے جس میں اس جماعت نے ایک جدوجہد کی، اکثر صورتوں میں ایک طویل جدوجہد۔ جس میں وقت بھی صرف ہوا، بندے بھی خرچ ہوئے اور ٹنوں کے حساب سے پیسہ بھی برباد ہوا، اور دوسرا حصہ وہ ہے جس میں اس نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ یہ ایک بڑا ہی کٹھن کام ہے۔ ہمارے حالات میں تو اور بھی مشکل۔ یہ وہی راہ ہے جس میں کہیں کہکشاں نہیں ہے۔ پتھروں پر ہی چلنا پڑتا ہے اور پتھر بھی ایسے نوکیلے، بھاری، چالاک، سازشی اور نمک حرام کہ ہر وقت کچل کے رکھ دینے کو تیار۔ بیچ بیچ میں کوئی سونامی بھی سر اُٹھا لیتا ہے۔ ان حالات میں اگر حکومت نے اپنے ووٹرز کے لیے کوئی سہولت پیدا کی یا کوئی عوامی منصوبہ مکمل کیا تو اس کا کریڈٹ لینا ایسا کام کرنے والوں کا حق بنتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام حکومت نے حکومت کے پیسوں سے ہی کرنا ہے اور حکومت کے پیسے عوام سے آتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو ایک بڑی رہنما تھیں۔ ایک المناک حادثے نے انھیں ہم سے جدا کردیا، ان کی جدوجہد اور قربانیوں کے طفیل جو پارٹی برسرِ اقتدار آئی ہے وہ اب اقتدار کے پانچ برس پورے کرنے کو ہے۔ پھر اگر کم آمدنی والوں کے لیے انکم سپورٹ پروگرام کو ان کا نام دے دیا جاتا ہے تو اس پر اعتراض کیسا؟ اسی طرح طلبہ میں لیپ ٹاپ کی تقسیم، نوجوانوں کے لیے پیلی ٹیکسیاں، دانش ساسکول اور کم لاگت کے مکان پیش کرنا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جب ایسا کام کرے گی تو اس کی پرورش بھی کرے گی اور اپنے لیڈروں کو بھی لائے گی۔
حال ہی میں پنجاب میں ایک یوتھ فیسٹیول ہوا۔ اس میں ہزاروں بلکہ لاکھوں نوجوانوں نے حصہ لیا۔ اس میں گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز کے لیے ایک مختصر سی مدت میں درجن بھر عالمی ریکارڈز قائم کردیے گئے۔ یہ ریکارڈز عموماً تفریحی ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں بے حد مقبول ہیں۔ ہمارے ہاں جو عالمی ریکارڈز بنے وہ فقط تفریحی نہیں تھے بلکہ ان میں تو قومی ترانے اور قومی پرچم کے ریکارڈز بھی شامل تھے، لیکن پلانٹڈ معترضین نے ان کا بھی تمسخر اُڑایا اور کہا کہ یہ فضول میں وقت اور پیسے کی بربادی ہے۔ گویا یہ کام کرنے سے تو بہتر تھا کہ کشمیر کو فتح کرلیا جاتا اور لال قلعے پر سبز پرچم لہرا دیا جاتا۔ جن لوگوں کی عقل کی بریکیں فیل ہوگئی ہیں وہ کم ازکم اپنے ہارن تو درست کروا لیا کریں۔
باقی رہی بات ایسے پروگراموں میں ان پارٹی لیڈرز کو نمایاں کرنے کی جو حکومتی عہدے نہیں رکھتے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کی خود اپنی بھی ایک حیثیت ہوتی ہے۔ وہ اگر اقتدار میں ہے تو اس کے عہدیدار بھی ہر بھلے برے کے پوری طرح ذمے دار ہوتے ہیں اور پارٹی کے سربراہ کا تو ایک آئینی مقام بھی ہے۔ اس کے پاس سرکاری عہدہ نہ بھی ہو تو دراصل حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر وہی بیٹھا ہوتا ہے اور اپنی مرضی کے بندوں کے ذریعے مرضی کی حکومت چلاتا ہے۔ لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ اگر پارٹی کا کوئی غیر حکومتی رہنما کسی فلاحی جلسے میں دکھائی دے گیا تو بھڑک اُٹھے اور بھڑک کے پھپھے کٹنیوں کی طرح عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں عرضیاں داغنا شروع کردیں کہ دہائی ہے مائی باپ۔۔۔۔۔!
انھوں نے پری پول دھاندلی شروع کردی ہے اور عوام کے پیسوں سے اپنی پروجیکشن ہورہی ہے۔ گویا شوکت خانم اسپتال عوام کے پیسوں سے نہیں بلکہ کسی کی جدّی پشتی دکان کے خزانے سے بنا تھا جوکہ سرخاب کا یہ پَر ہر دم کلغی میں سجائے رہتے ہیں اور ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے باقی دس کھلاڑی وہاں کھیلنے نہیں بتاشے بیچنے گئے تھے۔ موصوف تو ان کا ذکر کرنا بھی بھول گئے تھے اور آج تک اس کا کریڈٹ اکیلے ہی لوٹے جا رہے ہیں۔
سیدھی سی بات ہے کہ کسی کے حکومتی دور میں کوئی بھلا کام ہوا ہے تو وہ اس کا پورا کریڈٹ بھی لے گا۔ یہ سیاسی عمل کا حصہ ہے۔
یہ عمل یہاں ختم نہیں ہوجاتا کہ نیکی کرکے دریا میں ڈالیں اور چپ ہوکے بیٹھ جائیں۔ اس سے آگے پھر الیکشن ہیں۔ ایک دریا کے پار اُترنے پر ایک اور دریا دکھائی دے رہا ہے۔ ہاں البتہ میں اس بات کے خلاف ہوں کہ کسی پہلے سے بنے بنائے منصوبے کا نام بدل کے ڈنڈی ماری جائے۔ نئے شہر بسائیں، ہوائی اڈے، عمارتیں، یونیورسٹیاں بنائیں، حکومت کے مال سے بنائیں اور اپنا نام دیں تو کیا حرج ہے۔ ہم سات سلام کریں گے اور ناقدوں کے اس گروہ سے بھی نپٹ لیں گے۔
لہٰذا مجھے یہ دیکھ کر قطعاً کوئی حیرت نہیں ہوتی جب اچانک کوئی ایشو سامنے لایا جاتا ہے اور ایک دم پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ناقدوں کا کوئی گروہ ایک ہی برانڈ کا واویلا شروع کردیتا ہے۔ داغی جانے والی توپیں الگ الگ ہوتی ہیں، لیکن بارود کسی ایک ہی فیکٹری میں بنتا ہے۔
اس ہفتے جس معاملے کو نشانہ بنایا گیا وہ حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ سے متعلق تھا۔ کہا گیا کہ سیاستدان، عوام کے پیسے سے کوئی کام کرتے ہیں اور اس کی داد ذاتی طور پر خود وصول کرتے ہیں۔ یوں جیسے انھوں نے یہ کارنامہ باپ دادا کی کمائی سے انجام دیا ہو۔
یہ تازہ شور اس وقت اٹھا جب پنجاب حکومت نے ایک بار پھر ہزاروں کی تعداد میں لیپ ٹاپ کمپیوٹر تقسیم کرنا شروع کیے۔ تب انھیں نہ صرف صوبائی حکومت کی پیلی ٹیکسیاں، دانش اسکول، وظیفے اور یوتھ فیسٹیول یاد آگئے بلکہ انھوں نے مرکزی حکومت کے امدادی فنڈز، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور پولیو کے قطروں کو بھی نہیں بخشا۔ اعتراض یہ ہوا کہ ان کاموں کی تشہیر میں اپنا یا پارٹی کا نام کیوں استعمال کیا اور رہنماؤں کی تصاویر کیوں لگائی؟
اب یہاں دو صورتیں ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ مخصوص مواقعے کی مناسبت سے حکومتی ادارے تشہیری ضمیمے نکالتے ہیں۔ ان میں مختلف وزارتیں اپنے خوش پوش اور خوب رو وزراء اور رہنماؤں کی تصاویر سے مزیّن اشتہارات بھی دیتی ہیں۔ ایسا شوق عموماً صوبائی وزیروں کو ہوتا ہے جو اپنی وزارت کے خرچے پر اپنا شوقِ رونمائی بھی پورا کرلیتے ہیں اور کچھ حقِ کاسہ لیسی بھی ادا کردیتے ہیں۔ یہ ایک بے کار اور فضول روایت ہے جس پر اعتراض قابلِ قبول ہے۔ لیکن دوسری صورت وہ ہے جس میں کسی حکومتی جماعت کا برسوں پر محیط سیاسی کردار اُبھر کے سامنے آتا ہے۔
اس کا پہلا حصہ تو وہ ہے جس میں اس جماعت نے ایک جدوجہد کی، اکثر صورتوں میں ایک طویل جدوجہد۔ جس میں وقت بھی صرف ہوا، بندے بھی خرچ ہوئے اور ٹنوں کے حساب سے پیسہ بھی برباد ہوا، اور دوسرا حصہ وہ ہے جس میں اس نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد اپنے منشور کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی۔ یہ ایک بڑا ہی کٹھن کام ہے۔ ہمارے حالات میں تو اور بھی مشکل۔ یہ وہی راہ ہے جس میں کہیں کہکشاں نہیں ہے۔ پتھروں پر ہی چلنا پڑتا ہے اور پتھر بھی ایسے نوکیلے، بھاری، چالاک، سازشی اور نمک حرام کہ ہر وقت کچل کے رکھ دینے کو تیار۔ بیچ بیچ میں کوئی سونامی بھی سر اُٹھا لیتا ہے۔ ان حالات میں اگر حکومت نے اپنے ووٹرز کے لیے کوئی سہولت پیدا کی یا کوئی عوامی منصوبہ مکمل کیا تو اس کا کریڈٹ لینا ایسا کام کرنے والوں کا حق بنتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کام حکومت نے حکومت کے پیسوں سے ہی کرنا ہے اور حکومت کے پیسے عوام سے آتے ہیں۔
بے نظیر بھٹو ایک بڑی رہنما تھیں۔ ایک المناک حادثے نے انھیں ہم سے جدا کردیا، ان کی جدوجہد اور قربانیوں کے طفیل جو پارٹی برسرِ اقتدار آئی ہے وہ اب اقتدار کے پانچ برس پورے کرنے کو ہے۔ پھر اگر کم آمدنی والوں کے لیے انکم سپورٹ پروگرام کو ان کا نام دے دیا جاتا ہے تو اس پر اعتراض کیسا؟ اسی طرح طلبہ میں لیپ ٹاپ کی تقسیم، نوجوانوں کے لیے پیلی ٹیکسیاں، دانش ساسکول اور کم لاگت کے مکان پیش کرنا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت جب ایسا کام کرے گی تو اس کی پرورش بھی کرے گی اور اپنے لیڈروں کو بھی لائے گی۔
حال ہی میں پنجاب میں ایک یوتھ فیسٹیول ہوا۔ اس میں ہزاروں بلکہ لاکھوں نوجوانوں نے حصہ لیا۔ اس میں گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز کے لیے ایک مختصر سی مدت میں درجن بھر عالمی ریکارڈز قائم کردیے گئے۔ یہ ریکارڈز عموماً تفریحی ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں بے حد مقبول ہیں۔ ہمارے ہاں جو عالمی ریکارڈز بنے وہ فقط تفریحی نہیں تھے بلکہ ان میں تو قومی ترانے اور قومی پرچم کے ریکارڈز بھی شامل تھے، لیکن پلانٹڈ معترضین نے ان کا بھی تمسخر اُڑایا اور کہا کہ یہ فضول میں وقت اور پیسے کی بربادی ہے۔ گویا یہ کام کرنے سے تو بہتر تھا کہ کشمیر کو فتح کرلیا جاتا اور لال قلعے پر سبز پرچم لہرا دیا جاتا۔ جن لوگوں کی عقل کی بریکیں فیل ہوگئی ہیں وہ کم ازکم اپنے ہارن تو درست کروا لیا کریں۔
باقی رہی بات ایسے پروگراموں میں ان پارٹی لیڈرز کو نمایاں کرنے کی جو حکومتی عہدے نہیں رکھتے تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کی خود اپنی بھی ایک حیثیت ہوتی ہے۔ وہ اگر اقتدار میں ہے تو اس کے عہدیدار بھی ہر بھلے برے کے پوری طرح ذمے دار ہوتے ہیں اور پارٹی کے سربراہ کا تو ایک آئینی مقام بھی ہے۔ اس کے پاس سرکاری عہدہ نہ بھی ہو تو دراصل حکومت کی ڈرائیونگ سیٹ پر وہی بیٹھا ہوتا ہے اور اپنی مرضی کے بندوں کے ذریعے مرضی کی حکومت چلاتا ہے۔ لیکن یہاں صورتحال یہ ہے کہ اگر پارٹی کا کوئی غیر حکومتی رہنما کسی فلاحی جلسے میں دکھائی دے گیا تو بھڑک اُٹھے اور بھڑک کے پھپھے کٹنیوں کی طرح عدالتوں اور الیکشن کمیشن میں عرضیاں داغنا شروع کردیں کہ دہائی ہے مائی باپ۔۔۔۔۔!
انھوں نے پری پول دھاندلی شروع کردی ہے اور عوام کے پیسوں سے اپنی پروجیکشن ہورہی ہے۔ گویا شوکت خانم اسپتال عوام کے پیسوں سے نہیں بلکہ کسی کی جدّی پشتی دکان کے خزانے سے بنا تھا جوکہ سرخاب کا یہ پَر ہر دم کلغی میں سجائے رہتے ہیں اور ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے باقی دس کھلاڑی وہاں کھیلنے نہیں بتاشے بیچنے گئے تھے۔ موصوف تو ان کا ذکر کرنا بھی بھول گئے تھے اور آج تک اس کا کریڈٹ اکیلے ہی لوٹے جا رہے ہیں۔
سیدھی سی بات ہے کہ کسی کے حکومتی دور میں کوئی بھلا کام ہوا ہے تو وہ اس کا پورا کریڈٹ بھی لے گا۔ یہ سیاسی عمل کا حصہ ہے۔
یہ عمل یہاں ختم نہیں ہوجاتا کہ نیکی کرکے دریا میں ڈالیں اور چپ ہوکے بیٹھ جائیں۔ اس سے آگے پھر الیکشن ہیں۔ ایک دریا کے پار اُترنے پر ایک اور دریا دکھائی دے رہا ہے۔ ہاں البتہ میں اس بات کے خلاف ہوں کہ کسی پہلے سے بنے بنائے منصوبے کا نام بدل کے ڈنڈی ماری جائے۔ نئے شہر بسائیں، ہوائی اڈے، عمارتیں، یونیورسٹیاں بنائیں، حکومت کے مال سے بنائیں اور اپنا نام دیں تو کیا حرج ہے۔ ہم سات سلام کریں گے اور ناقدوں کے اس گروہ سے بھی نپٹ لیں گے۔