قانون کی حکمرانی صرف ایک قدم دور
اسٹیٹس کو کی جان حقیر سے کاغذ کے ایک ٹکڑے میں پوشیدہ ہے ۔ ضرورت فقط اتفاق رائے کی ہے۔
یہ 1966کا واقعہ ہے ۔ جاپانی وزیراعظم برطانیہ کے سرکاری دورے پر تھے ۔
اُس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ہیرالڈولسن کے ساتھ 10 ڈائوننگ اسٹریٹ پر اُن کی ملاقات کا وقت طے ہوچکا تھا ۔ ہیرالڈولسن کو جاپانی وزیراعظم کا اپنی رہائش گاہ پر استقبال کرنا تھا ۔ لیکن ہیرالڈولسن اپنی دیگر سرکاری مصروفیات کے باعث اتنے لیٹ ہوچکے تھے کہ اُن کا وقت پر 10 ڈائوننگ اسٹریٹ پہنچنا محال تھا ۔ لہذا اُنہوں نے لندن کے پولیس چیف سے درخواست کی کہ کچھ دیر کے لیے ٹریفک روک دیا جائے تا کہ وہ بروقت اپنی رہائش گاہ پر پہنچ کر مہمان وزیراعظم کا استقبال کر سکیں لیکن پولیس چیف نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا ۔
اُس کا موقف تھا کہ برطانوی قانون اُسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ ایک شخص کی تاخیر کی سزا لندن کے ہزاروں شہری کیوں بھگتیں ؟یقین جانیے پولیس چیف کی جانب سے ملنے والے اِس کورے جواب کے باوجود ، وزیر اعظم نے پولیس چیف کو ''کھڈّے لائن '' نہیں لگایا اور نہ ہی وہ لگا سکتے تھے ۔ اِسے کہتے ہیں قانون کی حکمرانی ۔ اب اِس حوالے سے یہاں یہ لکھنا میں ، پرلے درجے کی حماقت سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں اگر ایسا ہوا ہوتا تو کیا ہوتا ؟ اور یہاں پرائم منسٹر صاحب جب شہر کی سڑکوں پر تشریف لے آتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ یہ ہمارا موضوع نہیں، کیونکہ اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ عوام نہ صرف سب جانتے ہیں بلکہ عملی طور پر بھگتتے بھی ہیں۔
قانون کی حکمرانی کیا ہو تی ہے؟ شاید اس ملک کی پسماندہ اکثریت اس سے واقف نہ ہوگی اور اس لیے واقف نہیں ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ نے جس کی اکثریت کا تعلق جاگیر دار طبقے سے ہے، عوام کو تعلیمی اور معاشی طور پر پسماندہ رکھ کر ، قانون کی حکمرانی کی طرف متوجہ ہونے ہی نہیں دیا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو جمہوریت نام کے خوبصورت پردے کی اوٹ میں عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکا ڈالنا ان کے لیے کیونکر ممکن ہو سکتا تھا؟ یہ کتنا بڑا لطیفہ ہے کہ فیوڈل ازم اور جمہوریت ایک دوسرے کی مکمل ضد ہیں۔لیکن فیوڈل لارڈز جمہوریت کا نام لے کراِس ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔ جاگیردار کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ جاگیرداری نظام کا مطلب ہی شخصی حکمرانی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔
جاگیردار کی ذات ہی تمام تر طاقت اور اختیارات کا منبع ہوتی ہے۔ اس نظام میں اختلاف رائے گناہِ کبیرہ کا درجہ رکھتا ہے۔جاگیردار رعایا کے لیے تو قوانین وضع کرتا ہے لیکن خود اپنے ہی وضع کردہ ہر قانون سے بالا بھی ہوتا ہے۔ رعایا کے لیے وضع کردہ ان قوانین میں ، ایک جاگیردار وقت اور حالات کیمطابق جب چاہے فوری طور پر ترمیم کرنے کا حق بھی محفوظ رکھتا ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ میں حزب اختلاف اِس کے باوجود موجود ہوتی ہے کیا اس سے بھی بڑا کوئی فراڈ ممکن ہے کہ جمہوریت کے نام پر عوام کے ووٹوں سے منتخب کردہ ہمارے حکمران خود اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نام کی چڑیا کو پر مارنے کی بھی اجازت دینے کے روادار نہیں ہوتے؟ سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔
جس میں فیصلہ سازی کا تمام اختیار کمپنی کے چیئرمین یا ایم ڈی کے پاس ہوتا ہے۔ اور بورڈ آف ڈائریکٹر کا رکن ہونے کی واحد اہلیت یہ ہے کہ ہر ''ڈائریکٹر'' چیئرمین صاحب کا بیٹا، بھانجا یا بھتیجا ہو ۔ یا پھر اِکا دُکا ایسا ڈائریکٹر جو صرف یہ کہنا جانتا ہو کہ ''صاحب درست فرما رہے ہیں ؟'' جس کا مظاہرہ ہر ٹی وی کے ٹاک شوز میں آپ روزانہ دیکھتے ہیں۔ شخصی حکمرانی کی جگہ قانون کی حکمرانی کا تصوّر پیدا کرنے کا مُحرّک یہی تو نکتہ تھا کہ ایک ایسے شخص کو جو بے پناہ طاقت کا مالک ہو اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس نے کسی مخصوص انسانی گروہ پر اپنی حکمرانی قائم کر لی ہو اسے من مانی کرنے سے روکا جائے اور اس کی طاقت کو اس انسانی گروہ کے کمزور افراد کی طاقت بنایا جائے تاکہ کمزورافراد گروہ کے دوسرے لیکن نسبتاً کم طاقتور افراد کے ہاتھوں ہونیوالے اپنے استحصال سے محفوظ رہ سکیں ۔
اس سلسلے میں گروہ کے سب سے طاقتور فرد یعنی سربراہ کو ، گروہ کے کمزور افراد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو روکنے کے لیے اپنی طاقت استعمال کرنے کا پابند بنایا گیا۔ اور یہی طاقتور سربراہ کی طاقت رفتہ رفتہ انسان کے ارتقائی سفر کے ساتھ چل کر آج قانون کی حکمرانی کہلاتی ہے۔ جس کے تحت کسی بھی ریاست کے تمام انسانوں کو یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ آگے چل کر ریاست کے نظامِ حکومت میں بھی مزید بہتری آئی اور ریاست کے ہر فرد کو اپنا سربراہ خود منتخب کرنے کا حق حاصل ہوگیا ، جسے ہم جمہوریت کے نام سے جانتے ہیں۔ صدیوں کے ارتقائی عمل کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچا کہ جمہوریت سے بہتر فی الحال کوئی نظامِ حکومت موجود نہیں ہے۔
کیونکہ اس نظام میں عوام پر فرد کی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ فرد آتے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن نظام اور جمہوری ادارے اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔ یہ قانون کی حکمرانی کا ثمر تھا، جو ایک شہر کے پولیس چیف کو یہ جرات عطا کرتا ہے کہ وہ اپنے سربراہ حکومت کو قانون کی با لادستی کا حوالہ دے کر اس کا غیر قانونی حکم ماننے سے انکار کر دے ۔ اب آپ اپنے جمہوری سسٹم پر ایک نظر ڈالیں اور اپنے دل پرہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ہم ایک جمہوری ریاست کے شہری ہیں یا کسی جاگیردار کے مزارع؟ ہمارا حکمران طبقہ جس میں جاگیردار ، صنعت کار، مذہبی و مسلکی ٹھیکیدار اور جدی پشتی سجادہ نشین سب ہی شامل ہیں۔
ہر الیکشن میں پیسے کے زور پر ، برادری سسٹم اور مسلک کے نام پر عوام کے ووٹ ، چھوٹے چھوٹے گروہوں کے سربراہ یا برادری کے سربراہوں کو لالچ اور مراعات دے کر خرید لیتے ہیں۔اور عوام پر جمہوریت کے نام سے مسلط ہو جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ اس کا پہلا حل تو یہ ہے کہ عوام تعلیم یافتہ ہوں ، کیونکہ تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے اور برے بھلے کی تمیز سکھاتی ہے ۔ موجودہ حکمران طبقہ یہ ہونے نہیں دے گا اور تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کے ڈھائی فیصد سے کبھی اوپر جانے نہیں دے گا ، یوں بھی یہ ایک طویل المدّت راستہ ہے ۔
دوسرا حل یہ کہ ہمیں بجائے سیاست دان کے ایک ایسا لیڈر میسر آجائے جو زبان ، مذہب و مسلک ، نسل اور برادری سسٹم سے اوپر اُٹھ کر پاکستانی قوم میں اسٹیٹس کو کے خلاف ایک وسیع تر اتفاقِ رائے پیدا کر سکے ۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اسٹیٹس کو کے اس خوفناک دیو سے باآسانی نجات حاصل کی جاسکتی ہے جس طرح طلسم اور ہوشربا کی کہانیوں میں کسی آدم خور دیو کی جان ایک معمولی سے طوطے میں ہوا کرتی تھی۔ بالکل اسی طرح اسٹیٹس کو اور موجودہ جاگیردارانہ نظام کی جان بھی ووٹ کی ایک پرچی میں موجود ہے۔ اب عنقریب وہ وقت آنیوالا ہے جب یہ طوطا آپ کے سامنے موجود ہوگا اگر عوام کی اکثریت یہ فیصلہ کر لے کہ اس مرتبہ بجائے اس طوطے کوچُوری کھلا کر مزید صحت مند بنانے کے ، اس کی گردن مروڑ دینی ہے تو یقین کیجیے کہ یہ پورا جاگیردارانہ نظام ایک لمحے میں زمیں بوس ہوجائے گا ۔
اسٹیٹس کو کی جان اسی بظاہر حقیر سے کاغذ کے ایک ٹکڑے میں پوشیدہ ہے ۔ ضرورت فقط اتفاق رائے کی ہے ۔ بالکل ایسے ہی اتفاق رائے کی جو اس وقت پاکستانی قوم میں جمہوری نظام کی بقا کے نام پر وجود میں آ چکا ہے۔ تھرڈ آپشن کے طور پر ایک نئی سیاسی جماعت بھی ابھر کر سامنے آچکی ہے ۔ اب حقیقی جمہوریت کی طرف فیصلہ کن قدم اُٹھانے کی باری اس ملک کے عوام یا ووٹرز کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ عوام اسٹیٹس کو یا فیوڈل ازم کے طوطے کو چُوری کھلا کر مزید مضبوط بناتے ہیں یا پھر اس کی گردن مروڑ کر،اسٹیٹس کو نامی اس خون آشام دیو سے نجات حاصل کر کے ملک میں حقیقی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی بنیاد رکھتے ہیں ۔
اُس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ہیرالڈولسن کے ساتھ 10 ڈائوننگ اسٹریٹ پر اُن کی ملاقات کا وقت طے ہوچکا تھا ۔ ہیرالڈولسن کو جاپانی وزیراعظم کا اپنی رہائش گاہ پر استقبال کرنا تھا ۔ لیکن ہیرالڈولسن اپنی دیگر سرکاری مصروفیات کے باعث اتنے لیٹ ہوچکے تھے کہ اُن کا وقت پر 10 ڈائوننگ اسٹریٹ پہنچنا محال تھا ۔ لہذا اُنہوں نے لندن کے پولیس چیف سے درخواست کی کہ کچھ دیر کے لیے ٹریفک روک دیا جائے تا کہ وہ بروقت اپنی رہائش گاہ پر پہنچ کر مہمان وزیراعظم کا استقبال کر سکیں لیکن پولیس چیف نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا ۔
اُس کا موقف تھا کہ برطانوی قانون اُسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ ایک شخص کی تاخیر کی سزا لندن کے ہزاروں شہری کیوں بھگتیں ؟یقین جانیے پولیس چیف کی جانب سے ملنے والے اِس کورے جواب کے باوجود ، وزیر اعظم نے پولیس چیف کو ''کھڈّے لائن '' نہیں لگایا اور نہ ہی وہ لگا سکتے تھے ۔ اِسے کہتے ہیں قانون کی حکمرانی ۔ اب اِس حوالے سے یہاں یہ لکھنا میں ، پرلے درجے کی حماقت سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں اگر ایسا ہوا ہوتا تو کیا ہوتا ؟ اور یہاں پرائم منسٹر صاحب جب شہر کی سڑکوں پر تشریف لے آتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ یہ ہمارا موضوع نہیں، کیونکہ اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ عوام نہ صرف سب جانتے ہیں بلکہ عملی طور پر بھگتتے بھی ہیں۔
قانون کی حکمرانی کیا ہو تی ہے؟ شاید اس ملک کی پسماندہ اکثریت اس سے واقف نہ ہوگی اور اس لیے واقف نہیں ہے کہ ہماری حکمران اشرافیہ نے جس کی اکثریت کا تعلق جاگیر دار طبقے سے ہے، عوام کو تعلیمی اور معاشی طور پر پسماندہ رکھ کر ، قانون کی حکمرانی کی طرف متوجہ ہونے ہی نہیں دیا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو جمہوریت نام کے خوبصورت پردے کی اوٹ میں عوام کے حق رائے دہی پر ڈاکا ڈالنا ان کے لیے کیونکر ممکن ہو سکتا تھا؟ یہ کتنا بڑا لطیفہ ہے کہ فیوڈل ازم اور جمہوریت ایک دوسرے کی مکمل ضد ہیں۔لیکن فیوڈل لارڈز جمہوریت کا نام لے کراِس ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں ۔ جاگیردار کے منہ سے نکلنے والا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا ہے۔ جاگیرداری نظام کا مطلب ہی شخصی حکمرانی ہے جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔
جاگیردار کی ذات ہی تمام تر طاقت اور اختیارات کا منبع ہوتی ہے۔ اس نظام میں اختلاف رائے گناہِ کبیرہ کا درجہ رکھتا ہے۔جاگیردار رعایا کے لیے تو قوانین وضع کرتا ہے لیکن خود اپنے ہی وضع کردہ ہر قانون سے بالا بھی ہوتا ہے۔ رعایا کے لیے وضع کردہ ان قوانین میں ، ایک جاگیردار وقت اور حالات کیمطابق جب چاہے فوری طور پر ترمیم کرنے کا حق بھی محفوظ رکھتا ہے۔ اور لطف کی بات یہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ میں حزب اختلاف اِس کے باوجود موجود ہوتی ہے کیا اس سے بھی بڑا کوئی فراڈ ممکن ہے کہ جمہوریت کے نام پر عوام کے ووٹوں سے منتخب کردہ ہمارے حکمران خود اپنی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نام کی چڑیا کو پر مارنے کی بھی اجازت دینے کے روادار نہیں ہوتے؟ سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔
جس میں فیصلہ سازی کا تمام اختیار کمپنی کے چیئرمین یا ایم ڈی کے پاس ہوتا ہے۔ اور بورڈ آف ڈائریکٹر کا رکن ہونے کی واحد اہلیت یہ ہے کہ ہر ''ڈائریکٹر'' چیئرمین صاحب کا بیٹا، بھانجا یا بھتیجا ہو ۔ یا پھر اِکا دُکا ایسا ڈائریکٹر جو صرف یہ کہنا جانتا ہو کہ ''صاحب درست فرما رہے ہیں ؟'' جس کا مظاہرہ ہر ٹی وی کے ٹاک شوز میں آپ روزانہ دیکھتے ہیں۔ شخصی حکمرانی کی جگہ قانون کی حکمرانی کا تصوّر پیدا کرنے کا مُحرّک یہی تو نکتہ تھا کہ ایک ایسے شخص کو جو بے پناہ طاقت کا مالک ہو اور اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس نے کسی مخصوص انسانی گروہ پر اپنی حکمرانی قائم کر لی ہو اسے من مانی کرنے سے روکا جائے اور اس کی طاقت کو اس انسانی گروہ کے کمزور افراد کی طاقت بنایا جائے تاکہ کمزورافراد گروہ کے دوسرے لیکن نسبتاً کم طاقتور افراد کے ہاتھوں ہونیوالے اپنے استحصال سے محفوظ رہ سکیں ۔
اس سلسلے میں گروہ کے سب سے طاقتور فرد یعنی سربراہ کو ، گروہ کے کمزور افراد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو روکنے کے لیے اپنی طاقت استعمال کرنے کا پابند بنایا گیا۔ اور یہی طاقتور سربراہ کی طاقت رفتہ رفتہ انسان کے ارتقائی سفر کے ساتھ چل کر آج قانون کی حکمرانی کہلاتی ہے۔ جس کے تحت کسی بھی ریاست کے تمام انسانوں کو یکساں حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ آگے چل کر ریاست کے نظامِ حکومت میں بھی مزید بہتری آئی اور ریاست کے ہر فرد کو اپنا سربراہ خود منتخب کرنے کا حق حاصل ہوگیا ، جسے ہم جمہوریت کے نام سے جانتے ہیں۔ صدیوں کے ارتقائی عمل کے بعد انسان اس نتیجے پر پہنچا کہ جمہوریت سے بہتر فی الحال کوئی نظامِ حکومت موجود نہیں ہے۔
کیونکہ اس نظام میں عوام پر فرد کی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ فرد آتے جاتے رہتے ہیں۔ لیکن نظام اور جمہوری ادارے اپنی جگہ موجود رہتے ہیں۔ یہ قانون کی حکمرانی کا ثمر تھا، جو ایک شہر کے پولیس چیف کو یہ جرات عطا کرتا ہے کہ وہ اپنے سربراہ حکومت کو قانون کی با لادستی کا حوالہ دے کر اس کا غیر قانونی حکم ماننے سے انکار کر دے ۔ اب آپ اپنے جمہوری سسٹم پر ایک نظر ڈالیں اور اپنے دل پرہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ہم ایک جمہوری ریاست کے شہری ہیں یا کسی جاگیردار کے مزارع؟ ہمارا حکمران طبقہ جس میں جاگیردار ، صنعت کار، مذہبی و مسلکی ٹھیکیدار اور جدی پشتی سجادہ نشین سب ہی شامل ہیں۔
ہر الیکشن میں پیسے کے زور پر ، برادری سسٹم اور مسلک کے نام پر عوام کے ووٹ ، چھوٹے چھوٹے گروہوں کے سربراہ یا برادری کے سربراہوں کو لالچ اور مراعات دے کر خرید لیتے ہیں۔اور عوام پر جمہوریت کے نام سے مسلط ہو جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟ اس کا پہلا حل تو یہ ہے کہ عوام تعلیم یافتہ ہوں ، کیونکہ تعلیم انسان میں شعور پیدا کرتی ہے اور برے بھلے کی تمیز سکھاتی ہے ۔ موجودہ حکمران طبقہ یہ ہونے نہیں دے گا اور تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کے ڈھائی فیصد سے کبھی اوپر جانے نہیں دے گا ، یوں بھی یہ ایک طویل المدّت راستہ ہے ۔
دوسرا حل یہ کہ ہمیں بجائے سیاست دان کے ایک ایسا لیڈر میسر آجائے جو زبان ، مذہب و مسلک ، نسل اور برادری سسٹم سے اوپر اُٹھ کر پاکستانی قوم میں اسٹیٹس کو کے خلاف ایک وسیع تر اتفاقِ رائے پیدا کر سکے ۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اسٹیٹس کو کے اس خوفناک دیو سے باآسانی نجات حاصل کی جاسکتی ہے جس طرح طلسم اور ہوشربا کی کہانیوں میں کسی آدم خور دیو کی جان ایک معمولی سے طوطے میں ہوا کرتی تھی۔ بالکل اسی طرح اسٹیٹس کو اور موجودہ جاگیردارانہ نظام کی جان بھی ووٹ کی ایک پرچی میں موجود ہے۔ اب عنقریب وہ وقت آنیوالا ہے جب یہ طوطا آپ کے سامنے موجود ہوگا اگر عوام کی اکثریت یہ فیصلہ کر لے کہ اس مرتبہ بجائے اس طوطے کوچُوری کھلا کر مزید صحت مند بنانے کے ، اس کی گردن مروڑ دینی ہے تو یقین کیجیے کہ یہ پورا جاگیردارانہ نظام ایک لمحے میں زمیں بوس ہوجائے گا ۔
اسٹیٹس کو کی جان اسی بظاہر حقیر سے کاغذ کے ایک ٹکڑے میں پوشیدہ ہے ۔ ضرورت فقط اتفاق رائے کی ہے ۔ بالکل ایسے ہی اتفاق رائے کی جو اس وقت پاکستانی قوم میں جمہوری نظام کی بقا کے نام پر وجود میں آ چکا ہے۔ تھرڈ آپشن کے طور پر ایک نئی سیاسی جماعت بھی ابھر کر سامنے آچکی ہے ۔ اب حقیقی جمہوریت کی طرف فیصلہ کن قدم اُٹھانے کی باری اس ملک کے عوام یا ووٹرز کی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ عوام اسٹیٹس کو یا فیوڈل ازم کے طوطے کو چُوری کھلا کر مزید مضبوط بناتے ہیں یا پھر اس کی گردن مروڑ کر،اسٹیٹس کو نامی اس خون آشام دیو سے نجات حاصل کر کے ملک میں حقیقی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی بنیاد رکھتے ہیں ۔