کاش
بھارت کا سابق Tea Boy ہمارے سابق Foundry Man سے بہتر ہے
بھارت کا سابق Tea Boy ہمارے سابق Foundry Man سے بہتر ہے،کیونکہ ہمارا سابق فاؤنڈری مین تو دنیا کے ان لوگوں میں شامل ہے جس کا خاندان دولت ملک سے باہر لے جانے اور چھپانے میں مصروف پایا گیا ہے ۔ ٹی بوائے نے پاکستان کے سب سے بڑے اتحادی سعودی عرب کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان ایک دہشت گرد اسٹیٹ ہے یہ کام انھوں نے حالیہ دوروں میں کیا اور بھارت کے لوگوں کو سعودی عرب میں ملازمتیں دلانے کا معاہدہ بھی کیا اور بھی بہت سے کام بھارت کے لیے کیے۔
ہمارے پاس بھارت کا ''زندہ جاسوس اوراس کا نیٹ ورک'' موجود ہے اور ہم نے شاید تمام سفارت خانوں کو بھی منع کیا ہوا ہے کہ کسی بھی ملک کو پتہ نہ چلے کہ ''بھارت کا دہشت گرد جاسوس'' یہاں موجود ہے بلکہ شاید یہ کوشش ہو کہ کسی طرح اسے بھی ''ریمنڈ'' کی طرح واپس کردیا جائے اگر بڑی رکاوٹ درمیان میں نہ ہوتی تو یہ جاسوس ابھی تک واپس جاچکا ہوتا۔
بھارت نے اپنے بچاؤ میں بہترین بندوبست کیے۔ یہ ریٹائرڈ بحریہ کا ملازم ہے، اس کے عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، یہ تو ایران میں کاروبارکر رہا تھا وہاں سے اغوا کرکے لایا گیا ہے۔
چوہدری نثار کا کام ہے کہ حالات کو ''احسن'' طریقے سے کسی اور احسن کی طرح نہیں طے کرتے رہیں اور شیلڈ فراہم کرتے رہیں حکومت کو وہ ہمیشہ دیگ کے ٹھنڈے ہونے کا انتظار کرتے ہیں گرم چاولوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے اور آرام سے معاملات کو نبٹاتے رہتے ہیں جس پر مولا بخش سومرو بہت چراغ پا رہتے ہیں کہ سست بیٹنگ سے کھیل میں مزا نہیں آتا۔ وہ خود چھکا مارنے کی کوشش میں اکثر آؤٹ ہوتے رہتے ہیں۔
تو پاکستان حکومت نے اب تک اس معاملے کو بین الاقوامی طور پر نہیں اٹھایا ہے، صرف چوہدری نثار نے بیان دے دیا ہے۔ حالانکہ وہ وزیر داخلہ ہیں مگر اس حکومت میں ہر ایک کو آزادی ہے جو چاہے جس کا ''قلمدان'' استعمال کرلے۔ پرویز رشید کو اپنی وزارت کے تحت ریڈیو، ٹیلی وژن کو سدھارنا چاہیے ۔
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی
افسوس کی بات ہے کہ حکومت جس کا نام ہے وہ شاید شخصی اقتدار میں تبدیل ہوگیا ہے ملک کی معیشت سے زیادہ عوام کی حالت خراب ہے۔ بادشاہ کے نو رتن نے Tax Market قائم کر رکھی ہے روزانہ عوام پر کوئی ٹیکس۔
دینے کے نام پر ساڑھے سات فیصد بادل نخواستہ لینے کے نام پر پٹرول کی قیمت میں اضافہ جب کہ دنیا میں آئل کی قیمت اورکم ہوگئی ہے۔ اگر اس دھوکے بازی کا کوئی ایکسپرٹ حساب لگائے تو اتنا تو ہم ایک موٹا سا حساب بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں (اور زیادہ ترگزشتہ تین سال میں) تیل کی قیمتیں دنیا میں شاید پچاس فیصد سے بھی کم ہوئی ہیں اور پاکستان میں سو فیصد بڑھی ہیں۔ماہانہ گورکھ دھندے میں قوم کو الجھا کر بنیوں کا پیسہ سود کا دھندا چل رہا ہے۔سارے کاروبار حکمرانوں کے پاس ہیں۔ بھٹو ازم کو تو بھٹوکے داماد نے پاکستان بدرکردیا اور قائد اعظم کے پاکستان کو مسلم لیگ کے نام نہاد دعویداروں سے خطرہ لاحق ہے۔
دنیا بھرکے وہ لوگ جنھوں نے پیسے کو خدا بنایا تھا۔ ان کا انجام 9/11 کے بعد دیکھا جاچکا ہے مگر کوئی سبق لینے کو تیار نہیں، عرف عام میں زن بچہ کولہو میں پسوا دیا، ان کا امریکا بہادر نے اور اب اس کا رخ امارات اور سعودیہ کی طرف ہے اور وہ ہنوز دلی دور است کہہ کر عیاشی کی شطرنج کھیل رہے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کو نظر نہیں آرہا۔ اس ملک کی تاریخ سے بھی سبق نہیں سیکھ رہے، بھٹوکہاں ہے؟ کہاں ہے بے نظیر؟ ان سے بڑا وژن تو آپ کا نہیں، ان سے بڑے سیاستدان تو آپ نہیں ہیں، ان کو تو زرداری گھن لگ گیا، تو سیاست گودام میں پڑے پڑے خراب ہوگئی۔ ورنہ آپ کی باری نہ آتی شاید آیندہ بیس سال تک۔
ملک کے نام پر ذاتی فائدے کب تک، ملکی مفاد کا سودا کب تک، دنیا آپ کوتحقیر کی نظر سے دیکھتی ہے۔آپ ماؤزے تنگ نہیں ہیں، نظر تنگ ہیں، راناؤں کے گھیرے میں صوبہ پنجاب۔ پیالہ سرکار کے حوالے سندھ، بلوچستان میں بظاہر نمایندہ حکومت، سرحد کی سرحد تو آپ کے لیے ویسے ہی عمران خان نے ممنوع کررکھی ہے، جھوٹ بولتے ہوئے نہ تھکتے ہیں نہ شرماتے ہیں، کمال کے لوگ ہیں
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
عوام کو ہر ایک دو ماہ کے بعد کسی امدادی اسکیم کاخواب دکھایا جاتا ہے، جو دراصل اپنے لوگوں کو رقم کی تقسیم کا بندوبست ہوتا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم کو اگر چیک کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ دراصل اس سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے۔ انکم سپورٹ ہے یا صرف انکم۔
بدقسمتی سے اس وقت اور اس سے پہلے بھی ملک میں لالی پاپ حکومتیں تھیں اور ہیں اور کسی حکومت نے موجودہ اور سابقہ پاکستان اور عوام کو نعرے ہی دیے اور یہ لوگ سیدھے سچے سادے لوگ نعروں پر زندہ رہے اور نعروں پر زندہ ہیں ۔اس ملک میں اب ڈاکیومنٹری ثبوت بھی دیکھ کر جے آئی ٹی نام کی امداد باہمی تنظیم مجرم کو مظلوم اور ظالم کو مظلوم قرار دے دیتی ہے۔ حملہ آوروں کو بے گناہ اور مرنے والوں کو تخریب کار اور دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔
اس عالم میں سمجھوتہ ایکسپریس، کل بھوشن کی بات کیا کرنا، انھیں تو پٹھان کوٹ ایئربیس کی فکر ہے کہ وہ محفوظ رہے پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر کچھ ہوجائے کچھ غرض نہیں، مجرم اعتراف کرلیں مگر حکومت انھیں عدم پیروی یا کمزور پیروی کے ذریعے آزاد ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے تاکہ وہ آزاد ہوکر پھر حملہ کریں، پھر بے گناہوں کا خون بہے۔
میرے پاس لکھنے والا قلم ہے جو عوام کے دکھ درد کا ساتھی اور ان کے آنسو پونچھنے کے علاوہ صرف فریاد کرسکتا ہے، ضمیر کو آواز دے سکتا ہے اور وہ میں کر رہا ہوں،کرتا رہوں گا۔ کاش میرے پاس وہ قلم ہوتا جو فیصلہ لکھتا ہے، جو ضمیرکے گلشن میں اپنے فیصلوں سے روشنی کرتا ہے تو نہ جانے میں کیا کیا فیصلے لکھتا۔ یہ ایک کاش ہی تو ہے جو ہمارے ملک کے حصے میں آیا ہے اور جس پر ہم سب زندہ ہیں کہ کاش اورکاش یہ کاش کبھی حسرت سے بدل کر یقین کی منزل پالے۔ کاش! ہر جگہ پورے ملک میں سارے سسٹم میں ہر ادارے میں، ایک ہی حسرت و یاس بھرا لفظ گونجتا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی سننے والا ہوتا، کوئی کرنے والا ہوتا، کاش۔
ہمارے پاس بھارت کا ''زندہ جاسوس اوراس کا نیٹ ورک'' موجود ہے اور ہم نے شاید تمام سفارت خانوں کو بھی منع کیا ہوا ہے کہ کسی بھی ملک کو پتہ نہ چلے کہ ''بھارت کا دہشت گرد جاسوس'' یہاں موجود ہے بلکہ شاید یہ کوشش ہو کہ کسی طرح اسے بھی ''ریمنڈ'' کی طرح واپس کردیا جائے اگر بڑی رکاوٹ درمیان میں نہ ہوتی تو یہ جاسوس ابھی تک واپس جاچکا ہوتا۔
بھارت نے اپنے بچاؤ میں بہترین بندوبست کیے۔ یہ ریٹائرڈ بحریہ کا ملازم ہے، اس کے عمل سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، یہ تو ایران میں کاروبارکر رہا تھا وہاں سے اغوا کرکے لایا گیا ہے۔
چوہدری نثار کا کام ہے کہ حالات کو ''احسن'' طریقے سے کسی اور احسن کی طرح نہیں طے کرتے رہیں اور شیلڈ فراہم کرتے رہیں حکومت کو وہ ہمیشہ دیگ کے ٹھنڈے ہونے کا انتظار کرتے ہیں گرم چاولوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے اور آرام سے معاملات کو نبٹاتے رہتے ہیں جس پر مولا بخش سومرو بہت چراغ پا رہتے ہیں کہ سست بیٹنگ سے کھیل میں مزا نہیں آتا۔ وہ خود چھکا مارنے کی کوشش میں اکثر آؤٹ ہوتے رہتے ہیں۔
تو پاکستان حکومت نے اب تک اس معاملے کو بین الاقوامی طور پر نہیں اٹھایا ہے، صرف چوہدری نثار نے بیان دے دیا ہے۔ حالانکہ وہ وزیر داخلہ ہیں مگر اس حکومت میں ہر ایک کو آزادی ہے جو چاہے جس کا ''قلمدان'' استعمال کرلے۔ پرویز رشید کو اپنی وزارت کے تحت ریڈیو، ٹیلی وژن کو سدھارنا چاہیے ۔
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی
اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی
افسوس کی بات ہے کہ حکومت جس کا نام ہے وہ شاید شخصی اقتدار میں تبدیل ہوگیا ہے ملک کی معیشت سے زیادہ عوام کی حالت خراب ہے۔ بادشاہ کے نو رتن نے Tax Market قائم کر رکھی ہے روزانہ عوام پر کوئی ٹیکس۔
دینے کے نام پر ساڑھے سات فیصد بادل نخواستہ لینے کے نام پر پٹرول کی قیمت میں اضافہ جب کہ دنیا میں آئل کی قیمت اورکم ہوگئی ہے۔ اگر اس دھوکے بازی کا کوئی ایکسپرٹ حساب لگائے تو اتنا تو ہم ایک موٹا سا حساب بتا سکتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سال میں (اور زیادہ ترگزشتہ تین سال میں) تیل کی قیمتیں دنیا میں شاید پچاس فیصد سے بھی کم ہوئی ہیں اور پاکستان میں سو فیصد بڑھی ہیں۔ماہانہ گورکھ دھندے میں قوم کو الجھا کر بنیوں کا پیسہ سود کا دھندا چل رہا ہے۔سارے کاروبار حکمرانوں کے پاس ہیں۔ بھٹو ازم کو تو بھٹوکے داماد نے پاکستان بدرکردیا اور قائد اعظم کے پاکستان کو مسلم لیگ کے نام نہاد دعویداروں سے خطرہ لاحق ہے۔
دنیا بھرکے وہ لوگ جنھوں نے پیسے کو خدا بنایا تھا۔ ان کا انجام 9/11 کے بعد دیکھا جاچکا ہے مگر کوئی سبق لینے کو تیار نہیں، عرف عام میں زن بچہ کولہو میں پسوا دیا، ان کا امریکا بہادر نے اور اب اس کا رخ امارات اور سعودیہ کی طرف ہے اور وہ ہنوز دلی دور است کہہ کر عیاشی کی شطرنج کھیل رہے ہیں۔
ہمارے حکمرانوں کو نظر نہیں آرہا۔ اس ملک کی تاریخ سے بھی سبق نہیں سیکھ رہے، بھٹوکہاں ہے؟ کہاں ہے بے نظیر؟ ان سے بڑا وژن تو آپ کا نہیں، ان سے بڑے سیاستدان تو آپ نہیں ہیں، ان کو تو زرداری گھن لگ گیا، تو سیاست گودام میں پڑے پڑے خراب ہوگئی۔ ورنہ آپ کی باری نہ آتی شاید آیندہ بیس سال تک۔
ملک کے نام پر ذاتی فائدے کب تک، ملکی مفاد کا سودا کب تک، دنیا آپ کوتحقیر کی نظر سے دیکھتی ہے۔آپ ماؤزے تنگ نہیں ہیں، نظر تنگ ہیں، راناؤں کے گھیرے میں صوبہ پنجاب۔ پیالہ سرکار کے حوالے سندھ، بلوچستان میں بظاہر نمایندہ حکومت، سرحد کی سرحد تو آپ کے لیے ویسے ہی عمران خان نے ممنوع کررکھی ہے، جھوٹ بولتے ہوئے نہ تھکتے ہیں نہ شرماتے ہیں، کمال کے لوگ ہیں
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
عوام کو ہر ایک دو ماہ کے بعد کسی امدادی اسکیم کاخواب دکھایا جاتا ہے، جو دراصل اپنے لوگوں کو رقم کی تقسیم کا بندوبست ہوتا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ اسکیم کو اگر چیک کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ دراصل اس سے کس کو فائدہ ہو رہا ہے۔ انکم سپورٹ ہے یا صرف انکم۔
بدقسمتی سے اس وقت اور اس سے پہلے بھی ملک میں لالی پاپ حکومتیں تھیں اور ہیں اور کسی حکومت نے موجودہ اور سابقہ پاکستان اور عوام کو نعرے ہی دیے اور یہ لوگ سیدھے سچے سادے لوگ نعروں پر زندہ رہے اور نعروں پر زندہ ہیں ۔اس ملک میں اب ڈاکیومنٹری ثبوت بھی دیکھ کر جے آئی ٹی نام کی امداد باہمی تنظیم مجرم کو مظلوم اور ظالم کو مظلوم قرار دے دیتی ہے۔ حملہ آوروں کو بے گناہ اور مرنے والوں کو تخریب کار اور دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔
اس عالم میں سمجھوتہ ایکسپریس، کل بھوشن کی بات کیا کرنا، انھیں تو پٹھان کوٹ ایئربیس کی فکر ہے کہ وہ محفوظ رہے پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر کچھ ہوجائے کچھ غرض نہیں، مجرم اعتراف کرلیں مگر حکومت انھیں عدم پیروی یا کمزور پیروی کے ذریعے آزاد ہونے کا موقع فراہم کرتی ہے تاکہ وہ آزاد ہوکر پھر حملہ کریں، پھر بے گناہوں کا خون بہے۔
میرے پاس لکھنے والا قلم ہے جو عوام کے دکھ درد کا ساتھی اور ان کے آنسو پونچھنے کے علاوہ صرف فریاد کرسکتا ہے، ضمیر کو آواز دے سکتا ہے اور وہ میں کر رہا ہوں،کرتا رہوں گا۔ کاش میرے پاس وہ قلم ہوتا جو فیصلہ لکھتا ہے، جو ضمیرکے گلشن میں اپنے فیصلوں سے روشنی کرتا ہے تو نہ جانے میں کیا کیا فیصلے لکھتا۔ یہ ایک کاش ہی تو ہے جو ہمارے ملک کے حصے میں آیا ہے اور جس پر ہم سب زندہ ہیں کہ کاش اورکاش یہ کاش کبھی حسرت سے بدل کر یقین کی منزل پالے۔ کاش! ہر جگہ پورے ملک میں سارے سسٹم میں ہر ادارے میں، ایک ہی حسرت و یاس بھرا لفظ گونجتا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی سننے والا ہوتا، کوئی کرنے والا ہوتا، کاش۔