موبائل فون پرپابندی سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کل سماعت ہوگی
معطلی کاحکم آئین کی دفعات4,18,23اور24کی خلاف ورزی ہے، موبائل کمپنی و شہری.
موبائل فون سروس معطل کیے جانے کے عمل کوشہریوں کے ساتھ ساتھ موبائل فون کمپنی نے بھی سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیاہے،چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے پیرکوخصوصی طورپراس درخواست کی سماعت کے لیے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں دو رکنی بینچ تشکیل دیدیا ہے۔
ٹیلی نار پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ نے اعجازاحمد ایڈووکیٹ کے توسط سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اورچیئرمین پی ٹی اے کوفریق بناتے ہوئے موقف اختیارکیاہے کہ وزارت داخلہ قومی سلامتی کی آڑمیں موبائل فون کی سہولت پرپابندی عائدکردیتی ہے، درخواست گزارکی جانب سے موقف اختیارکیاگیا ہے کہ انھیں وزارت داخلہ کی جانب سے پابندی کاجونوٹیفکیشن موصول ہواہے وہ پاکستان ٹیلی کام ( ری آرگنائزیشن ) ایکٹ مجریہ 1996کے آرٹیکل 54(2)کے تحت جاری کیاگیاہے جس کے تحت موبائل فون سروس مخصوص مدت کے لیے بندکرنے کی ہدایت کی جاتی ہے حالانکہ ایکٹ کی اس شق کا قومی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں، ایمرجنسی کاتعلق پاکستان ٹیلی کام ایکٹ کی دفعہ 54(3)سے ہے،ایمرجنسی کی صورت میں موبائل فون سروس معطل کی جاسکتی ہے جس کا حکم صدرمملکت جاری کرسکتے ہیں۔
درخواست میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ رواں برس عیدالفطر ، عیدالاضحیٰ،یوم عشق رسولؐؐاور 16نومبرسمیت مختلف مواقع ایمرجنسی کے نفاذکے بغیرموبائل فون سروس معطل کردی گئی حالانکہ ان ایام میں ایمرجنسی کی کوئی صورتحال نہیں تھی، معطلی سے درخواست گزارکوبھاری مالی نقصان اٹھاناپڑا، موبائل فون سروس کی معطلی کے باعث ٹریکنگ سروس،موبائل بینکنگ اورسیکیورٹی الارم سسٹم بھی متاثرہوتاہے،عوام کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے،کسی ہنگامی صورت حال میں شہریوں کوشدیدمشکلات کاسامناکرناپڑتاہے،موبائل فون سروس کی معطلی کاحکم آئین کی دفعات4,18,23اور24 کی بھی خلاف ورزی ہے، درخواست میںاستدعا کی گئی ہے کہ موبائل فون سروس کی بندش کوغیرقانونی قراردیاجائے اورمدعاعلیہان کوہدایت کی جائے کہ بندش کے عوض درخواست گزار کومعاوضہ اداکیاجائے اوراگرآئندہ بھی پابندی عائدکی جائے توآئندہ بھی اس کا زرتلافی اداکرنے کا پابند بنایا جائے۔
دوسری درخواست گائناکولوجسٹ ڈاکٹرنشاط نے دائر کی ہے ، انھوں نے موقف اختیارکیا ہے کہ موبائل فون سروس پر پابندی کے باعث مریضوں کے لیے ایمبولینس کی سہولت حاصل نہیںکی جاسکتی جو کہ مریضوںکا بنیادی حق ہے، انھوں نے مزید موقف اختیارکیاکہ پی ٹی اے وزارت داخلہ کے ماتحت ادارہ نہیں اسے وزارت داخلہ کی ہدایت کے بجائے خود اپنے طور پر بندش کا فیصلہ کرنا چاہیے ، درخواست گزار کا موقف ہے کہ وزیرداخلہ رحمن ملک اپنے اختیارات کا ناجائزاستعمال کررہے ہیں اور ملک میں خوف وہراس پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ان کے اقدامات کوغیرقانونی اوراختیارات سے تجاوز قراردیا جائے۔
ٹیلی نار پاکستان پرائیویٹ لمیٹڈ نے اعجازاحمد ایڈووکیٹ کے توسط سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اورچیئرمین پی ٹی اے کوفریق بناتے ہوئے موقف اختیارکیاہے کہ وزارت داخلہ قومی سلامتی کی آڑمیں موبائل فون کی سہولت پرپابندی عائدکردیتی ہے، درخواست گزارکی جانب سے موقف اختیارکیاگیا ہے کہ انھیں وزارت داخلہ کی جانب سے پابندی کاجونوٹیفکیشن موصول ہواہے وہ پاکستان ٹیلی کام ( ری آرگنائزیشن ) ایکٹ مجریہ 1996کے آرٹیکل 54(2)کے تحت جاری کیاگیاہے جس کے تحت موبائل فون سروس مخصوص مدت کے لیے بندکرنے کی ہدایت کی جاتی ہے حالانکہ ایکٹ کی اس شق کا قومی سلامتی سے کوئی تعلق نہیں، ایمرجنسی کاتعلق پاکستان ٹیلی کام ایکٹ کی دفعہ 54(3)سے ہے،ایمرجنسی کی صورت میں موبائل فون سروس معطل کی جاسکتی ہے جس کا حکم صدرمملکت جاری کرسکتے ہیں۔
درخواست میں موقف اختیارکیاگیاہے کہ رواں برس عیدالفطر ، عیدالاضحیٰ،یوم عشق رسولؐؐاور 16نومبرسمیت مختلف مواقع ایمرجنسی کے نفاذکے بغیرموبائل فون سروس معطل کردی گئی حالانکہ ان ایام میں ایمرجنسی کی کوئی صورتحال نہیں تھی، معطلی سے درخواست گزارکوبھاری مالی نقصان اٹھاناپڑا، موبائل فون سروس کی معطلی کے باعث ٹریکنگ سروس،موبائل بینکنگ اورسیکیورٹی الارم سسٹم بھی متاثرہوتاہے،عوام کا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے،کسی ہنگامی صورت حال میں شہریوں کوشدیدمشکلات کاسامناکرناپڑتاہے،موبائل فون سروس کی معطلی کاحکم آئین کی دفعات4,18,23اور24 کی بھی خلاف ورزی ہے، درخواست میںاستدعا کی گئی ہے کہ موبائل فون سروس کی بندش کوغیرقانونی قراردیاجائے اورمدعاعلیہان کوہدایت کی جائے کہ بندش کے عوض درخواست گزار کومعاوضہ اداکیاجائے اوراگرآئندہ بھی پابندی عائدکی جائے توآئندہ بھی اس کا زرتلافی اداکرنے کا پابند بنایا جائے۔
دوسری درخواست گائناکولوجسٹ ڈاکٹرنشاط نے دائر کی ہے ، انھوں نے موقف اختیارکیا ہے کہ موبائل فون سروس پر پابندی کے باعث مریضوں کے لیے ایمبولینس کی سہولت حاصل نہیںکی جاسکتی جو کہ مریضوںکا بنیادی حق ہے، انھوں نے مزید موقف اختیارکیاکہ پی ٹی اے وزارت داخلہ کے ماتحت ادارہ نہیں اسے وزارت داخلہ کی ہدایت کے بجائے خود اپنے طور پر بندش کا فیصلہ کرنا چاہیے ، درخواست گزار کا موقف ہے کہ وزیرداخلہ رحمن ملک اپنے اختیارات کا ناجائزاستعمال کررہے ہیں اور ملک میں خوف وہراس پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، ان کے اقدامات کوغیرقانونی اوراختیارات سے تجاوز قراردیا جائے۔