سید سلطان حسن ایک آئیڈیل شخصیت
ان کو بلاشبہ ایک آئیڈیل پبلک ریلیشن مین قرار دیا جا سکتا ہے
ISLAMABAD:
اس وقت جب ہم کسی اور موضوع پر کچھ لکھنے کی تیاری کر رہے تھے تو یہ روح فرسا خبر سننے کو ملی کہ سید سلطان حسن اچانک لاہور میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے کیونکہ ہمیں بھی کے ای ایس سی پبلک ریلیشن ڈپارٹمنٹ میں مرحوم کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا اس لیے سچی بات ہے ہمارا بھی حق بنتا تھا کہ ہم ان کی شخصیت کے بارے میں کچھ باتیں تحریر کر دیں، اگرچہ ہم جو کچھ لکھیں گے وہ باتیں ہمارے کالم کے مستقل عنوان سے مطابق نہیں رکھتیں۔
آج سے کئی دہائیاں پہلے ہم ایک متاثرکن نوجوان کی صورت میں سلطان حسن کو سینئر صحافی اشرف شاد کے ہمراہ کراچی پریس کلب آتے جاتے دیکھا کرتے تھے، جن کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ ایک زمانے میں کراچی کے مشہور اسٹوڈنٹ لیڈر سید سعید حسن کے بھانجے ہیں بلکہ ان ہی کے گھر میں پلے بڑھے ہیں، جہاں انھوں نے سابق صدر آصف زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی کا منظر بہت قریب سے دیکھا تھا کیونکہ اس شادی کی کچھ تقریبات سید سعید حسن کی رہائش گاہ پر ہی ہوئی تھیں۔
پھر سلطان صاحب سے ہمارا واسطہ اس وقت پڑا جب 90ء کی دہائی کے بعد کے حصے میں پاکستان آرمی نے واپڈا اور کے ای ایس سی کو ٹیک اوور کیا اور پھر سید سلطان حسن کو کے ای ایس سی کے چیف پبلک ریلیشنز افسر کے طور پر لایا گیا۔ اس کے بعد2007ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک ہم سلطان صاحب کے ماتحت کے طور پر کام کرتے رہے۔ یہ دور وہ تھا جب پہلے بریگیڈیئر ابو راشد اور پھر بریگیڈیئر طارق سدوزئی کے ای ایس سی کے ایم ڈی تھے اور جب کے ای ایس سی کو پرائیویٹائز کیا گیا تو ایک جرمن انجینئر شمڈت بھی کے ای ایس سی کے سربراہ ہو گئے تھے۔ یہ وہ شخصیات تھیں، جن کی توقعات پر پورا اترنا خاص طور پر ایک پبلک ریلیشن آفیسر کے لیے خاصا مشکل تھا مگر سلطان حسن نے نہ صرف یہ چیلنج قبول کیا بلکہ خود کو غیرمعمولی طور پر اس کا اہل ثابت کیا۔
اس سے پہلے سید سلطان حسن کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن کے پبلک ریلیشنز چیف اور ایک سابق وزیر اعظم کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر بھی رہ چکے تھے اور یہی شاندار پس منظر لیے وہ کے ای ایس سی میں وارد ہوئے تھے۔ اس زمانے میں کے ای ایس سی کے بارے میں اچھی بری بہت ساری خبریں لگا کرتی تھیں اور اخبار نویسوں کے بھی ذاتی اور اجتماعی خاصے مسائل ہوا کرتے تھے۔ اس سارے طوفان کا سامنا کرنا واقعی سلطان صاحب کا ہی دل گردہ تھا، نہ ان کی پیشانی پر ہلکی سی شکن آتی تھی اور نہ کسی ایم ڈی کو اپنے تیور بگاڑنے کی، ان کے سامنے ہمت ہوتی تھی۔ سچی بات ہے کسی مفاد عامہ کے ادارے میں کام کرنا اور اپنی عزت اور مقبولیت کو بچا لینا ایک معجزہ ہی ہوتا ہے اور اگر کسی نے وہ معجزہ کر دکھایا تو وہ سید سلطان حسن تھے۔ اسی لیے آج فیس بک ان کی تصویروں اور ان کے بارے میں تعریفی اور تعزیتی کلمات سے بھری ہوئی ہے۔
ان کو بلاشبہ ایک آئیڈیل پبلک ریلیشن مین قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ صرف اچھی اور دل موہ لینے والی گفتگو ہی نہیں کرتے بلکہ ان میں اچھی انگریزی لکھنے کی بھی بے پناہ صلاحیت تھی وہ کمال کی رفتار سے پریس ریلیز ڈرافٹ کرتے اور پھر ہمیں اردو میں ترجمے کے لیے دے دیتے۔ کئی برسوں تک یہی کچھ ہوتا رہا۔ ان میں بوسیّت Bossism نام کو بھی نہیں تھی وہ ماتحتوں کے ساتھ بھی بڑے ادب و احترام سے پیش آتے اتنے عرصے میں ہمیں یاد نہیں کہ ان کے رویے کے حوالے سے کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو۔ اخبار نویس برادری سے بھی ان کا سلوک بڑا مثالی تھا۔ کے ای ایس سی کے خراب کارکردگی کے دور میں بھی ان کے ذاتی طور پر جرنلسٹ کمیونٹی سے بہت اچھے تعلقات رہے اور ہمیشہ انھیں اچھے الفاظ سے یاد کیا گیا۔
بدقسمتی سے کے ای ایس سی چھوڑنے کے بعد ہمارا ان سے سوائے فون پر ایک دو بار گفتگو کے کوئی خاص رابطہ نہیں رہا، ہاں ان کے بارے میں خبریں ضرور ملتی رہیں اور اب وہ کافی عرصے سے فیس بک پر اپنی بھاری بھرکم شخصیت کے وجود کا احساس دلا رہے تھے۔ واقعی یہ فیس بک کا ہی کرشمہ ہے کہ آپ اپنے بھولے بسرے دوستوں سے زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ٹکرا جاتے ہیں ان کے پوسٹ کردہ تبصرے سن لیتے ہیں اور اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔
سلطان صاحب نے جب کے ای ایس سی چھوڑی تو وہ ایک بڑے ادارے میں بہتر اسائنمنٹ پر گئے جب وہ پی آئی اے کے جنرل منیجر پبلک ریلیشنز ہو گئے جسے پبلک ریلیشن شعبے کی ایک پرائزڈ پوسٹ سمجھا جاتا ہے ایک پی آر او کی عام طور پر یہ معراج ہوتی ہے کہ وہ جی ایم پی آئی اے بن جائے۔ سلطان صاحب نے یہ کارنامہ بھی کر دکھایا مگر ہمارے لیے یہ دونوں کی ہی خوش نصیبی تھی جہاں سلطان صاحب کو پی آئی اے جیسا ادارہ ملا تھا وہاں پی آئی اے کو بھی اس فیلڈ کا ایک جغادری آدمی ٹکرا گیا تھا اور شاید پی آئی اے میں میرٹ پر ہونے والی یہ معدودے چند پوسٹنگز میں سے ایک رہی ہو گی۔
بہرحال سب کچھ بھڑاس نکالنے کے بعد بھی یہ دکھ اپنی جگہ ہے کہ سید سلطان حسن ایک ایسی عمر میںہمیں چھوڑ گئے جو ابھی ان کے بچھڑنے کی عمر نہیں تھی اور وہ بھی اتنے اچانک کہ نہ بیمار پڑے اور نہ اسپتال گئے ہم جتنا انھیں جانتے ہیں انھوں نے کبھی کسی کو اپنی خدمت اور تیمار داری کا موقع نہیں دیا اور نہ ہی اپنے لیے ایسے لوازمات اور بکھیڑے پالے۔ بس ایک دن اچانک ہاتھ پیر کپڑے جھاڑے اوراٹھ کے چل دیے۔
یہ کیسی موت ہے تم نے کیا دعا نہ سلام
جی میں کچھ آئی تمہارے اور اٹھ کے چل دیے
اس وقت جب ہم کسی اور موضوع پر کچھ لکھنے کی تیاری کر رہے تھے تو یہ روح فرسا خبر سننے کو ملی کہ سید سلطان حسن اچانک لاہور میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے کیونکہ ہمیں بھی کے ای ایس سی پبلک ریلیشن ڈپارٹمنٹ میں مرحوم کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا اس لیے سچی بات ہے ہمارا بھی حق بنتا تھا کہ ہم ان کی شخصیت کے بارے میں کچھ باتیں تحریر کر دیں، اگرچہ ہم جو کچھ لکھیں گے وہ باتیں ہمارے کالم کے مستقل عنوان سے مطابق نہیں رکھتیں۔
آج سے کئی دہائیاں پہلے ہم ایک متاثرکن نوجوان کی صورت میں سلطان حسن کو سینئر صحافی اشرف شاد کے ہمراہ کراچی پریس کلب آتے جاتے دیکھا کرتے تھے، جن کی وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ ایک زمانے میں کراچی کے مشہور اسٹوڈنٹ لیڈر سید سعید حسن کے بھانجے ہیں بلکہ ان ہی کے گھر میں پلے بڑھے ہیں، جہاں انھوں نے سابق صدر آصف زرداری اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی شادی کا منظر بہت قریب سے دیکھا تھا کیونکہ اس شادی کی کچھ تقریبات سید سعید حسن کی رہائش گاہ پر ہی ہوئی تھیں۔
پھر سلطان صاحب سے ہمارا واسطہ اس وقت پڑا جب 90ء کی دہائی کے بعد کے حصے میں پاکستان آرمی نے واپڈا اور کے ای ایس سی کو ٹیک اوور کیا اور پھر سید سلطان حسن کو کے ای ایس سی کے چیف پبلک ریلیشنز افسر کے طور پر لایا گیا۔ اس کے بعد2007ء میں اپنی ریٹائرمنٹ تک ہم سلطان صاحب کے ماتحت کے طور پر کام کرتے رہے۔ یہ دور وہ تھا جب پہلے بریگیڈیئر ابو راشد اور پھر بریگیڈیئر طارق سدوزئی کے ای ایس سی کے ایم ڈی تھے اور جب کے ای ایس سی کو پرائیویٹائز کیا گیا تو ایک جرمن انجینئر شمڈت بھی کے ای ایس سی کے سربراہ ہو گئے تھے۔ یہ وہ شخصیات تھیں، جن کی توقعات پر پورا اترنا خاص طور پر ایک پبلک ریلیشن آفیسر کے لیے خاصا مشکل تھا مگر سلطان حسن نے نہ صرف یہ چیلنج قبول کیا بلکہ خود کو غیرمعمولی طور پر اس کا اہل ثابت کیا۔
اس سے پہلے سید سلطان حسن کاٹن ایکسپورٹ کارپوریشن کے پبلک ریلیشنز چیف اور ایک سابق وزیر اعظم کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر بھی رہ چکے تھے اور یہی شاندار پس منظر لیے وہ کے ای ایس سی میں وارد ہوئے تھے۔ اس زمانے میں کے ای ایس سی کے بارے میں اچھی بری بہت ساری خبریں لگا کرتی تھیں اور اخبار نویسوں کے بھی ذاتی اور اجتماعی خاصے مسائل ہوا کرتے تھے۔ اس سارے طوفان کا سامنا کرنا واقعی سلطان صاحب کا ہی دل گردہ تھا، نہ ان کی پیشانی پر ہلکی سی شکن آتی تھی اور نہ کسی ایم ڈی کو اپنے تیور بگاڑنے کی، ان کے سامنے ہمت ہوتی تھی۔ سچی بات ہے کسی مفاد عامہ کے ادارے میں کام کرنا اور اپنی عزت اور مقبولیت کو بچا لینا ایک معجزہ ہی ہوتا ہے اور اگر کسی نے وہ معجزہ کر دکھایا تو وہ سید سلطان حسن تھے۔ اسی لیے آج فیس بک ان کی تصویروں اور ان کے بارے میں تعریفی اور تعزیتی کلمات سے بھری ہوئی ہے۔
ان کو بلاشبہ ایک آئیڈیل پبلک ریلیشن مین قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ صرف اچھی اور دل موہ لینے والی گفتگو ہی نہیں کرتے بلکہ ان میں اچھی انگریزی لکھنے کی بھی بے پناہ صلاحیت تھی وہ کمال کی رفتار سے پریس ریلیز ڈرافٹ کرتے اور پھر ہمیں اردو میں ترجمے کے لیے دے دیتے۔ کئی برسوں تک یہی کچھ ہوتا رہا۔ ان میں بوسیّت Bossism نام کو بھی نہیں تھی وہ ماتحتوں کے ساتھ بھی بڑے ادب و احترام سے پیش آتے اتنے عرصے میں ہمیں یاد نہیں کہ ان کے رویے کے حوالے سے کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو۔ اخبار نویس برادری سے بھی ان کا سلوک بڑا مثالی تھا۔ کے ای ایس سی کے خراب کارکردگی کے دور میں بھی ان کے ذاتی طور پر جرنلسٹ کمیونٹی سے بہت اچھے تعلقات رہے اور ہمیشہ انھیں اچھے الفاظ سے یاد کیا گیا۔
بدقسمتی سے کے ای ایس سی چھوڑنے کے بعد ہمارا ان سے سوائے فون پر ایک دو بار گفتگو کے کوئی خاص رابطہ نہیں رہا، ہاں ان کے بارے میں خبریں ضرور ملتی رہیں اور اب وہ کافی عرصے سے فیس بک پر اپنی بھاری بھرکم شخصیت کے وجود کا احساس دلا رہے تھے۔ واقعی یہ فیس بک کا ہی کرشمہ ہے کہ آپ اپنے بھولے بسرے دوستوں سے زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ٹکرا جاتے ہیں ان کے پوسٹ کردہ تبصرے سن لیتے ہیں اور اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی کر دیتے ہیں۔
سلطان صاحب نے جب کے ای ایس سی چھوڑی تو وہ ایک بڑے ادارے میں بہتر اسائنمنٹ پر گئے جب وہ پی آئی اے کے جنرل منیجر پبلک ریلیشنز ہو گئے جسے پبلک ریلیشن شعبے کی ایک پرائزڈ پوسٹ سمجھا جاتا ہے ایک پی آر او کی عام طور پر یہ معراج ہوتی ہے کہ وہ جی ایم پی آئی اے بن جائے۔ سلطان صاحب نے یہ کارنامہ بھی کر دکھایا مگر ہمارے لیے یہ دونوں کی ہی خوش نصیبی تھی جہاں سلطان صاحب کو پی آئی اے جیسا ادارہ ملا تھا وہاں پی آئی اے کو بھی اس فیلڈ کا ایک جغادری آدمی ٹکرا گیا تھا اور شاید پی آئی اے میں میرٹ پر ہونے والی یہ معدودے چند پوسٹنگز میں سے ایک رہی ہو گی۔
بہرحال سب کچھ بھڑاس نکالنے کے بعد بھی یہ دکھ اپنی جگہ ہے کہ سید سلطان حسن ایک ایسی عمر میںہمیں چھوڑ گئے جو ابھی ان کے بچھڑنے کی عمر نہیں تھی اور وہ بھی اتنے اچانک کہ نہ بیمار پڑے اور نہ اسپتال گئے ہم جتنا انھیں جانتے ہیں انھوں نے کبھی کسی کو اپنی خدمت اور تیمار داری کا موقع نہیں دیا اور نہ ہی اپنے لیے ایسے لوازمات اور بکھیڑے پالے۔ بس ایک دن اچانک ہاتھ پیر کپڑے جھاڑے اوراٹھ کے چل دیے۔
یہ کیسی موت ہے تم نے کیا دعا نہ سلام
جی میں کچھ آئی تمہارے اور اٹھ کے چل دیے