بات کچھ اور تھی

اگلی صبح وہ یہ فیصلہ کرکے آفس آئے تھے کہ اپنا استعفیٰ تنویر کو چپ چاپ تھماکر خاموشی سے آفس سے چلے جائیں گے۔

اگلی صبح وہ یہ فیصلہ کرکے آفس آئے تھے کہ اپنا استعفیٰ تنویر کو چپ چاپ تھماکر خاموشی سے آفس سے چلے جائیں گے۔ :فوٹو : فائل

نام تو دراصل ان کا ''استفسار مقصود لکھنوی'' تھا مگر کیوں کہ لوگوں کو سمجھنے اور بولنے دونوں میں پریشانی کا سامنا رہتا تھا اس لیے سب انھیں آفس میں (ان کے بچپن میں رکھے گئے پیار کے نام) ''ببن میاں'' کہہ کر پکارتے تھے۔

لڑکپن سے جوانی تک ''کبوتر بازی'' اور ''یاری دوستی'' میں ایسے مصروف رہے کہ پڑھ لکھ کر کچھ بننے سنورنے کا وقت ہی نہ نکال پائے، باپ دادا کی جائیداد پر اتنا ناز تھا کہ شادی اور بیٹی کی پیدائش کے بعد بھی مزاج جوں کے توں رہے۔ دن بیتتے گئے مال و اسباب ختم ہوتا گیا اور پھر وہ ہی ہوا جس کا انھیں بالکل بھی ڈر نہیں تھا۔ عمر کے آخری حصے میں پہنچے تو بٹیا کی شادی اور گھر گرہستی کی ذمے داریوں نے تلاش معاش پر مجبور کر ہی دیا۔ قسمت کی دیوی مہربان تھی کہ جلد ہی نوکری ''الطاف جیلانی'' کے آفس میں مل گئی۔

مگر وہ اس نوکری سے بالکل بھی خوش نہیں تھے۔ وجہ یہ تھی کہ جیلانی صاحب ایک نہایت با اصول، سنجیدہ مزاج اور قاعدے، قرینے والے انسان تھے جب کہ ان کی شخصیت اس کے بالکل متضاد تھی۔ اسی بنا پر آئے دن انھیں جیلانی صاحب کی خفگی اور ناراضگی کا سامنا رہتا تھا۔ بدلے میں ببن میاں کا دل ان کی طرف سے احترام، خلوص اور اپنائیت کے جذبے سے خالی ہوچکا تھا۔ گو کہ وہ کوئی بد تہذیبی یا بدتمیزی تو نہیں کرتے تھے پر اندر ہی اندر کڑھتے ضرور رہتے تھے۔

ایک دن تو حد ہی ہوگئی۔۔۔۔
''ببن میاں، جیلانی صاحب نے چائے کا کہا ہے۔۔۔۔ ذرا خیال سے جائیے گا، بہت غصے میں ہیں!''
تنویر نے آکر اطلاع دی تھی۔

اپنی ہی سوچوں میں گم انھیں یہ احساس بھی نہ رہا کہ چائے میں چینی کے بجائے نمک ڈال کر لے گئے ہیں۔ جیلانی صاحب پہلے ہی گھونٹ پر آگ بگولا ہوگئے تھے۔ ''ببن میاں! یہ اتنی کڑوی چائے کس خوشی میں لیے چلے آرہے ہیں آپ؟''

''جی۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ سر۔۔۔ کام بہت زیادہ تھا ناں، اس لیے ایسا ہوگیا۔'' کچھ اور نہ سوجھا تو جھٹ یہ کہہ دیا۔
''کام! کیا کام کرتے ہیں آپ ذرا پتا تو چلے؟'' سوالات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
''صبح نو بجے ہم آتے ہیں، سب کے لیے چائے بناتے ہیں اور پھر کچھ آفس کا چھوٹا موٹا کام''
''اچھا!۔۔۔ کتنا ٹائم لگ جاتا ہے اس میں؟''
''سر یہی کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹہ''
''اور اس کے بعد؟''

''پھر سب کو دوپہر کا کھانا دیتے ہیں اور پھر شام کی چائے۔'' وہ نہایت انہماک سے اپنی روز مرہ کی کارکردگی پیش کررہے تھے۔
''اور اس میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے آپ کا؟''
''دو، ڈھائی گھنٹے تو لگ جاتے ہوں گے ہوں!!''

''تو اس طرح آپ کے کام کے گھنٹے بنے چار۔۔۔۔۔ باقی کے چار گھنٹے آپ کیا کرتے ہیں؟'' جیلانی صاحب کا غصہ ہنوز برقرار تھا۔

یہ کیسا حساب کتاب تھا۔ ببن میاں بری طرح سٹپٹاگئے تھے۔ ''سر۔۔۔۔ یہ۔۔۔ وہ۔۔۔ یہ'' ان سے کوئی جواب نہ بن پارہا تھا۔

''بس بہت ہوا!۔۔۔ عمر ہوگئی ہے آپ کی ببن میاں۔ بس یہ مہینہ اور، اس کے بعد گھر پر آرام کیجیے گا، آفس آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔جائیے، دوسری چائے بناکے لائیے۔'' جیلانی صاحب کا فیصلہ تھا کہ کسی نے پاؤں تلے سے زمین ہی کھینچ لی تھی۔ ''کیا ہوگا اب؟'' کہاں جائیں گے؟ کون دے گا اس عمر میں دوسری نوکری؟ ہر گزرتا دن ان کے دل کو سہما رہا تھا۔

پہلی، دوسری، تیسری۔۔۔۔۔نئے ماہ کی تاریخیں جلدی جلدی گزر رہی تھیں، لیکن کچھ بھی تو نہیں ہوا تھا۔ نہ تحریری اور نہ ہی زبانی، برطرفی کے کوئی احکامات انھیں موصول نہیں ہوئے تھے۔ ''چلو اچھا ہی ہوا جو بھول گئے۔۔۔ جان چھوٹی۔'' وہ دل ہی دل میں سوچ کر خوش ہوگئے تھے۔

بھول تو شاید ببن میاں گئے تھے کہ جیلانی صاحب کبھی کچھ نہیں بھولتے۔۔۔بات کچھ اور تھی''
٭٭٭٭٭٭

''جیساکہ آپ کے علم میں ہے، میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے روانہ ہورہا ہوں، کل مزدوروں کے عالمی دن کے موقع پر مہمانوں کا ایک وفد ہمارے آفس کا وزٹ کرے گا۔ امید ہے میری غیر موجودگی میں تمام کام بہ احسن و خوبی انجام پائیں گے'' جیلانی صاحب تمام اسٹاف سے مخاطب تھے اور ہاں۔۔۔ ببن میاں۔۔۔۔ آپ کھانے اور چائے وغیرہ کے انتظامات اچھی طرح دیکھ لیجیے گا، کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہے۔''

''جی بہت بہتر'' وہ ہمیشہ کی طرح کسی الجھن کا شکار تھے۔
میٹنگ ختم ہوئی تو سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔


''ارے ببن میاں! اتنے گم صم کیوں بیٹھے ہیں؟'' تنویر کا گزر کچن کے پاس سے ہوا تو انھیں اداس بیٹھا دیکھ کر پوچھ لیا۔
''بس کیا بتائیں تنویر میاں!۔۔۔۔ بڑی مشکل آن پڑی ہے۔''

''سب خیریت تو ہے؟'' کوئی سیریس بات ہے کیا؟'' تنویر متفکر لہجہ لیے کچن میں آگیا تھا، آتے آتے دروازہ بھی بھیڑ دیا تھا۔
''بٹیا کا رشتہ آیا ہے۔'' انھوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے چائے کا کپ اس کی طرف بڑھایا۔ ''لڑکا ہمیں پسند ہے، لوگ بھی معقول ہیں، بس شادی جلدی کرنے کا کہہ رہے ہیں اور
ہمارے پاس کوئی انتظام نہیں۔۔۔۔کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں ایسی مجبور زندگی سے تو مرجانا بہتر ہے۔''
''ایسی ناامیدی کی باتیں کیوں کررہے ہیں آپ۔۔۔۔۔ویسے کتنی رقم درکار ہے؟'' تنویر نے دریافت کیا۔''یہی کوئی دو لاکھ تک چاہیے ہوں گے۔'' ان کے چہرے پر اداسی مزید پھیل گئی تھی۔
''آپ کو تو پتا ہے ببن میاں، میری پوزیشن ایسی نہیں کہ کچھ مدد کرسکوں۔۔۔۔ آپ جیلانی صاحب سے بات کیوں نہیں کرتے؟'' تنویر نے مشورہ دیا تھا۔
''توبہ کرو میاں!۔۔۔ وہ تو ایک ایک روپیہ اتنی چھان پھٹک کے بعد خرچ کرتے ہیں، ہمیں دو لاکھ کیا خاک دیں گے۔'' ان کے چہرے کے تاثرات بگڑ سے گئے تھے۔

''تنویر میاں!۔۔۔ ذرا دیکھیے تو۔۔۔ ہمیں ایسا لگ رہا ہے جیسے دروازے کی اوٹ میں کوئی کھڑا ہے۔''
''ہوں!!۔۔۔ اچھا!!۔۔۔۔'' اس نے جلدی جلدی چائے کے آخری گھونٹ لیے اور جاکے دیکھا۔
''کوئی نہیں ببن میاں! آپ کا وہم ہے۔'' تنویر نے دروازہ پورا کھول دیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭
ہال نما کمرے میں سوٹ، بوٹ پہنے وہ صاحب نہ جانے مائک پر انگریزی میں کیا کہہ رہے تھے ببن میاں کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ موقع ملا تو تنویر کے پاس جاکھڑے ہوئے۔ ''تنویر میاں، یہ کیا کہہ رہے ہیں؟''

''موصوف مزدوروں کے حقوق اور ان سے حسن سلوک کے بارے میں آگاہی دے رہے ہیں۔'' تنویر کے لہجے میں بیزاری نمایاں تھی۔
''کیا بھلے انسان ہیں بھئی جو مزدوروں کے بارے میں ایسے جذبات رکھتے ہیں۔۔۔اور ایک وہ ہیں!'' ذہن میں دور کہیں ان کے جیلانی صاحب کی شبیہہ ابھری تھی۔

کانفرنس کے اختتام پر چائے کا دور دورہ شروع ہوا۔ بیٹھے کھڑے چلے پھرتے لوگوں کی موجودگی نے آفس میں خوب رونق لگا رکھی تھی۔ ایسے میں نہ جانے کون ببن میاں سے ٹکرایا تھا کہ ہاتھ میں تھما چائے کا کپ ان ہی سوٹ بوٹ والے صاحب کے کپڑوں پر جاگرا تھا۔

''What Nonsense یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔ جاہل انسان تمہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ چائے کیسے Serve کی جاتی ہے۔'' یہ وہ ہی تھے جو کچھ دیر پہلے حقوق اور حسن سلوک کی باتیں کررہے تھے۔
''میں۔۔۔ معاف کیجیے۔۔۔'' ببن میاں کی آواز حلق ہی میں کہیں اٹک گئی تھی۔
''پتا نہیں ایسے لوگوں کو اس عمر میں نوکری پر رکھ کون لیتا ہے۔'' وہ صاحب برسے جارہے تھے۔ بھری محفل میں بے عزتی کے اس احساس نے ببن میاں کی آنکھوں کو بھگودیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭
''لوگوں کو اس عمر میں نوکری پر رکھ کون لیتا ہے۔'' لفظوں کی چوٹ آج انھیں سونے نہیں دے رہی تھی، کروٹ بدل کر آنکھیں بند کرلیں کہ شاید نیند آجائے۔
''جیلانی صاحب نے اس عمر میں ہمیں نوکری پر کیوں رکھا ہوا ہے؟'' یک دم آنے والے خیال سے آنکھ کھل گئی تھی۔ ''یقیناً ہمارے شجرہ نسب سے مرعوب ہوئے ہوں گے!'' جو اب اپنے ہی تئیں حاصل کرلیا تھا۔
الطاف جیلانی متاثر تو ضرور ہوئے تھے، لیکن ان کے خاندانی حسب و نسب سے نہیں۔ بات کچھ اور تھی۔
٭٭٭٭٭٭
اگلی صبح وہ یہ فیصلہ کرکے آفس آئے تھے کہ اپنا استعفیٰ تنویر کو چپ چاپ تھماکر خاموشی سے آفس سے چلے جائیں گے۔ اس کے پاس پہنچے، استعفیٰ دینا ہی چاہتے تھے کہ اچانک موبائل پر آنے والے میسج نے اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
''تنویر میاں! ذرا دیکھیے تو کیا لکھا ہے۔'' اپنا انتہائی خستہ حال موبائل اس کی طرف بڑھادیا۔

تنویر نے قدرے حیرت سے میسج پڑھا تھا۔ ''ببن میاں! یہ تو بینک کی طرف سے ہے۔۔۔ آپ کے اکاؤنٹ میں دو لاکھ کا ڈپازٹ ہوا ہے۔''
''کیا۔۔۔ دو لاکھ!!!'' ان کی حیرت بھی کچھ کم نہ تھی، ''لیکن کیسے؟ ایسا کون کر سکتا ہے؟''
''بینک فون کرکے وقار سے کیوں نہیں پوچھ لیتے۔'' تنویر نے مشکل آسان کردی تھی۔
''ہیلو۔۔۔ وقار میاں! ہم ببن بات کررہے ہیں۔ ذرا دیکھ کے بتائیے گا ہمارے اکاؤنٹ میں دو لاکھ کن کی طرف سے جمع کرائے گئے ہیں؟''
''ایک منٹ۔۔۔ہولڈ کیجیے۔'' دوسری طرف سے آواز آئی۔''
''جی! ببن میاں ۔۔۔۔ ڈپازٹ الطاف جیلانی کی طرف سے ہوا ہے۔''
''کیا۔۔۔ جیلانی صاحب!!'' ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ''لیکن انھیں کیسے پتا۔۔۔ ارے ہاں!۔۔۔ اس دن دروازے کی اوٹ میں۔۔۔'' بات جوں جوں ان کی سمجھ آرہی تھی احساس ندامت بڑھتا جارہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭
الطاف جیلانی کچھ ہی دیر میں آفس پہنچنے والے تھے۔ سب لوگ استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ ببن میاں کے پاس بھی ان کے لیے ایک ہار تھا، جس سے اٹھنے والی خوشبو احترام، خلوص اور اپنائیت کے جذبے سے سرشار تھی۔
Load Next Story